مذہبی طبقے کا المیہ


 

’میں اپنی دیگر سہیلیوں کے ہمراہ قریبی مسجد سے منسلک مدرسہ میں قرآن پاک پڑھنے جایاکرتی تھی، میں نے وہاں سے قاعدہ اور پھر قرآن پڑھنا شروع کردیا تقریباً 18 پاروں تک پڑھا، لیکن ایک دن ہمارے استاذ جی کو پتہ چلا کہ میں عیسائی مذہب سے تعلق رکھتی ہو اور یوں انہوں نے مجھے مزید پڑھنے روک دیا۔ اگر وہ مجھے اجازت دے دیتے تو میں قرآن پاک کو مکمل پڑھ کر شاید اسلام کے قریب آتی لیکن ان کا یہ رویہ اسلام سے دور لے گیا‘ یہ قصہ سول سوسائٹی اور عیسائی برادی کی مشہور رہنما نائلہ جے دیال کا ہے جو انہوں نے ستمبر 2012 میں کراچی میں پیمرا کے زیر اہتمام فحاشی کی تعریف کے لیے منعقدہ اجلاس میں مرحوم قاضی حسین احمد ؒ کی موجودگی میں سنایا تھا۔

اس واقعہ نے مجھے حیرت میں ڈالا تھا کہ ایک بچی اگر دیگر بچیوں کے ساتھ قرآن پڑھنے جاتی ہے لیکن جب مذہب کا پتہ چلتا ہے تو اسے مزید پڑھنے اور مسجد و مدرسہ آنے سے منع کیا جاتا ہے۔ یہ ایک رویہ ہے جو ہمارے معاشرے وسماج میں اتنی سرایت کرچکا ہے جس کا مذہبی طبقہ سے لے کر عام شہری تک شکارہوچکا ہے۔ اگر ہم اللہ، محمدؐ اور قرآن کو صرف اپنے تک محدود کرنے کا سوچیں گے تو یقیناً یہ اخلاقی اور دینی اعتبارسے خیانت ہوگی۔ جب خود اللہ تعالیٰ رسول اللہ ؐ کو پوری انسانیت و عالم کے لئے رحمت قرار دیتے ہیں تو ہم کیونکر ان کی ذات اور ساتھ لائے ہوئی تعلیمات اور انسانیت کے لیے ہدایت بھری کتاب کو اپنے تک محدود کرتے ہیں؟ ورنہ وما ارسلنک الا رحمۃ للعمین کے علاوہ کوئی اور خطاب دے سکتا تھا۔

برصغیر میں فقہی اختلافات (جو دراصل علمی اختلاف ہے ) نے بعد میں ’رویوں کے اختلاف‘ کی صورت اختیار کر لی اور اسی صورت وجہ سے عوام الناس میں دین کے بارے میں بھی ایسا عجیب تصور پیدا ہو گیا۔ کئی فقہی اختلافات میں معاشرے کے عام افراد کی طرف سے اس قدر سختی پائی جاتی ہے جوکہ بسا اوقات خود علماء کے ہاں بھی نہیں ہوتی۔ فی الواقع یہ نہ تو دین اسلام کا کوئی لازم حصہ یا تعلیم ہے اور نہ دین کی کوئی خدمت۔ اسی اختلاف نے ہمارے معاشرے کو بھی کئی حصوں میں تقسیم کردیا بلکہ رویوں کی اس فضا میں اگر ’حکمت‘ ساتھ نہ ہو تو یقین کیجئے گا کہ رواداری، تحمل وبرداشت اور عزت واحترام نام کی کوئی چیز نظر نہیں آئی گی۔

مجھے اس موضوع پر لکھنے کی جسارت اس وجہ سے ہوئی کہ اس وقت پاکستان کے مذہبی طبقے کے درمیان اس ’علمی و فقہی اختلاف‘ نے باقاعدہ طور پر ’اصول و ذاتیات‘ کے اختلاف کی شکل اختیار کر لی ہے۔ مذہب کے بارے میں ایک ایسا تصور دیا جانے لگا کہ معاشرے کا پڑھا لکھا طبقہ یقیناً ا س سے پریشان دکھائی دیتا ہے۔ رویوں کے تصادم کی وجہ سے مذہب پر براہ راست اور کھل کر تنقید شروع کردی۔ مذہب کو ریاست سے متصادم قراردینے کے لیے سرتوڑ کوششیں شروع ہوگئیں۔

کچھ ایسی باتیں اور نعرے لگنے شروع ہوگئے جو کسی زمانے میں مغرب میں کلیسا کے خلاف اٹھے تھے۔ جب مغرب میں عملی طورپر کلیسا کی حکمرانی تھی، عیسائی پادریوں اور مذہبی رہنماؤں کا ہر قول حرف آخر سمجھا جاتا تھا۔ ایسے حالات میں جب عیسائیوں کے آپس میں مذہبی اختلافات بڑھنے شروع ہوگئے توان اختلافات کی صورت میں کیتھولک سے پروٹسٹنٹ ایک نئے نظرئے نے جنم لیا۔ اس نئے مذہب نے تو علی الاعلان کلیسا کے خلاف محاذ آرائی شروع کردی۔

پروٹسٹنٹ کا اپنا ایک خاص نظریہ تھا جو کلیسا کے نظریے سے یکسر متصادم تھا جبکہ مخالف سمت میں کیتھولک کا سلوک بھی اچھا نہ تھا۔ تنگ نظر عیسائی پادریوں اور اہلِ مذہب کے امتیازی سلوک اور شدید اختلافات نے اہل مغرب کو نفسِ مذہب ہی سے بے زار کردیا اور یوں کلیسا و مذہب سے آزادی کی تحریکیں شروع ہوگئیں جو کہ معاشرے سے مذہب کے احترام میں کمی اور بعد میں کلیسا کو سیاست، معاشرہ اور اقتدار سے یک لخت الگ ہو کر گوشہ گمنامی میں دھکیلنے پر منتج ہوئی، جسے دنیا سیکولر اور لبرل مغرب کا نام دیتی ہے۔

یہی کچھ جدید ترکی کے نام پر اہلِ ترکی کے ساتھ بھی ہوا تھا۔ جب وہاں اہلِ مذہب باہم دست و گریبان ہوئے اور معاشرے میں ایک دوسرے سے اختلافات نے لوگوں کو مذہب کے بارے میں عجیب کیفیت سے دوچار کیا تو ایک طرف سقوط خلافت سے مسلمان منتشر اور چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں منقسم ہوئیں اور دوسری طرف عثمانی خلافت کے آخری زمانے میں اہل مذہب کے اندرونی اختلافات نفرتوں میں بدل گئے۔ جس کا ’کمال اتاترک‘ نے بھر فائدہ اٹھاتے ہوئے اسلام اور اسلامی شعائر کے ساتھ جو سلوک کیا وہ واضح ہے۔ اگر ہم ان دومثالوں کا بغور مطالعہ کریں تو ان دد وجوہات کے پیچھے ’ردعمل‘ بنیادی عنصر رہا ہے اور پھر ترکی میں آج کل دائیں بازو سے تعلق رکھنے والوں کا حکومت میں آنا بھی سیکولرازم کے ’ردعمل‘ میں ہی ہو رہا ہے۔

اگر پاکستان میں اہل مسجد ومدرسہ نے اپنی رویوں میں تبدیلی نہ لائی اور فقہی اختلافات کو عام معاشرے کے لیے مزید اختلاف اور افتراق وانتشار کا سبب بننے سے روکنے کی کوشش نہ کی گئی تو اسی طرح ہمارے ہاں بھی عام مسلمان ’تنگ آمد بجنگ آمد‘ کا عملی مصداق بن سکتا ہے۔ ایسی صورتحال میں ردعمل کی صورت میں معاشرہ اور افراد سیکولرازم کو تو قبول کر سکتے ہیں لیکن مذہبی سوچ کو مزید قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہو سکتے۔

دوسری طرف اہل مذہب سیکولر ریاست کے دعویداروں کے لیے آسانیاں پیدا کرنے اور عوام الناس کو ان کے ساتھ مل جانے کا موقع بھی فراہم کررہے ہیں۔ اس روش کی وجہ سے ریاست کو سیکولر قرار دینے کے لیے بھی مذہب کا سہارا لیا جانے لگا ہے۔ آزادیء مذہب، رواداری کے نام پرغیر مذہبی ریاست کی باتیں شروع ہوگئیں جو ’لا الہ الا اللہ‘ کے نعرے کی صورت میں معرض وجود میں آنے والی ریاست میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ اس پر مستزاد گزشتہ چند سالوں سے طالبان کے ہاتھوں اسلام کے نام کا غلط استعمال ا ور بے گناہ و معصوموں کا خون بہانے سے لوگوں کی رائے مذہب کے بارے میں کافی حد تک تبدیل ہوئی ہے۔

جس سفاکیت سے عام لوگوں کو مارنے کا طریقہ واردات انہوں نے اختیار کیا ہوا ہے اس نے نفسیاتی طورپر پوری قوم کو ہی نہیں بلکہ دین دار طبقے تک کو اتنا زچ کردیا ہے کہ وہ بھی مذہب اور بالخصوص شریعت کے بارے میں خوف و ڈر کا شکار ہوجاتا ہے۔ اگر یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو امکان ہے کہ یہاں بھی یہی رویہ لوگوں کو نفس ِمذہب سے بے زار کرنے کا سبب بنے گا۔

اہل مذہب کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان اختلافات کو فقہی و علمی اختلاف کی حد تک رکھتے ہوئے عوام الناس تک منتقل ہونے سے مزید روک لیں۔ تحمل و برداشت اور رواداری کے ساتھ عام لوگوں اور بالخصوص مسلمان تعلیم یافتہ طبقہ سے بات کرنے کا سلیقہ جاننے کی کوشش کریں۔ یہ کسی المیہ سے کم نہیں ہے کہ ہمارے ہاں مذہبی طبقہ اور بالخصوص علماء جدید معاشرے اور نئے زمانے میں عام تعلیم یافتہ طبقہ اور بالخصوص نئی نسل کی ہمدردیوں سے محروم رہے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ یہ کیوں کر ہوا؟ کیونکہ وہ اپنی بات کا ابلاغ اس زبان میں دینے سے قاصر رہے جو ہمارے معاشرے میں عام ہے جسے ابلاغ کا فقدان یعنی کمیونیکیشن گیپ کہا جاتا ہے۔ علماء تو علم حاصل کرتے ہیں اور یقینا ً ان میں سے کئی علماء عصری علوم پر بھی کافی دسترس رکھتے ہوں گے لیکن تربیت کی کمی کی وجہ سے وہ اسے استعمال کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوتے ہیں۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ کوئی فرد ڈرائیونگ لائنس کے لیے تھیوری تو زبانی یاد کرلے لیکن پریکٹیکل گاڑی چلانے کا تجربہ نہ رکھتا ہو اور وہ لوگوں کو گاڑی سکھانے کا سکول شروع کردے تو یقیناً اس کے نقصانات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

عملی تربیت کے فقدان کی وجہ سے بسا اوقات ہمارے علماء کرام اور مذہبی طبقہ کا رویہ اس قدر سخت اور غیرلچکدار ہو جاتا ہے کہ اگر کسی نوجوان کے ذہن میں مذہب یا مذہبی تعلیمات کے حوالے سے کوئی اشکال یا ابہام اور غلط فہمی پائی جاتی ہو تو علماء اسے مذہب بیزاری اور الحاد قراردیتے ہیں، فوری طورپر فتویٰ یا حتمی رائے اپنائی جاتی ہے۔ اس کا نقصان یہ ہوتا کہ ایسے سوالوں کے جواب کے متلاشی نوجوانو ں کی بڑی اکثریت خوف اور ڈر کی کیفیت میں بنیادی مذہبی عقیدے سے مکمل محروم یا دور ہوتی چلی جاتی ہے۔

علماء کے لئے اس وقت عام مسلمانوں کو سمجھنا اور سمجھانا قدرے آسان اور اتنا ضروری نہیں جتنا معاشرے کے تشکیک اورتعقل پسندی کے شکار مسلمانوں کو سمجھانا اور قریب لانا اہم ہے۔ اس وقت جدید نظریات کا مطالعہ اور ان کوسمجھنا ایسا ضروری اور لازمی ہے جس طرح ماضی میں علماء نے فلسفہ یونان کو ضروری سمجھا تھا۔ انہوں نے اس سے متاثر ہوئے بغیر اس کوسمجھا اور عربی زبان میں ترجمہ کرکے مقابلہ کیا تھا۔ بات ہورہی تھی جدید نظریات کی تو ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ دنیا میں جدید نظریات و سائنسی ایجادات اور مذہبی فکر کے درمیان خلا ضرور ہے لیکن اس خلا کو ختم کرنے کے لیے اس کی تطبیق موجودہ دور کے علماء کے لیے ایک چیلنج ہے۔

اٹھارویں صدی سے لے کر اب تک ظہور پذیر جدید نظریات کے بارے میں مذہبی طبقے کی معلومات سطحی ہیں۔ جدید سائنسی علوم سے دینی طبقہ تقریبا ناواقف ہے انہوں نے اپنے اسلاف کا و ہ سبق بھلادیا ہے جب انہوں نے فلسفہ یونان کا مقابلہ ان کے فلسفے کو سمجھنے اور پڑھنے کے بعد کیا تھا۔ ان عوامل کی وجہ سے ہمارا نوجوان طبقہ دین اور مذہبی فکر سے ایک فاصلہ پررہتا ہے اور ان کے درمیان ایک خلیج ہے جو کہ بڑھتی ہی جارہی ہے۔ اس کا فیصلہ منبر ومحراب سے تعلق رکھنے والوں نے کرنا ہے کہ آیا وہ پورے معاشرے کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں یا پھر ایک مخصوص دائرہ میں محدود رہنے کو پسند کرتے ہیں۔
Feb 3, 2016


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments