ریئلیٹی چیک: انڈیا، چین سرحدی تنازعے کے متعلق سوشل میڈیا پر شیئر کیے جانے والے دعوؤں کی حقیقت کیا ہے؟


سرحد
انڈیا اور چین کے درمیان رواں برس جون میں ہونے والی جھڑپ، جس میں کم از کم 20 انڈین فوجی ہلاک ہوئے، کے بعد سے سرحد پر کشیدگی بدستور جاری ہے۔

دونوں ممالک اس کشیدگی کو کم کرنے کے لیے مذاکرات کر رہے ہیں تاہم ایسے میں اس تنازعے کے بارے میں سوشل میڈیا پر گمراہ کن مواد شیئر کیا جا رہا ہے۔

بی بی سی نے ان گمراہ کن دعوؤں میں سے چند ایک کی حقیقت جاننے کی کوشش کی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

سرحدی تنازع: چین کے کوہِ کیلاش پر ’انڈین قبضے‘ کی حقیقت کیا ہے؟

انڈیا، چین سرحدی تنازع سے متعلق اہم سوالات کے جواب

انڈین فوج میں مسلم رجمنٹ کی حقیقت کیا ہے؟

انڈیا چین تنازع

پہلا دعویٰ: چین کی جانب سے سرحد پر بھیجے جانے والے فوجی رو رہے تھے

حقیقت: یہ ایک گمراہ کن ویڈیو ہے جسے بنا سیاق و سباق جاری کیا گیا

ٹوئٹر پر صارفین کی جانب سے شیئر کی جانے والی اس ویڈیو کو رواں برس تائیوان کے چند میڈیا کے اداروں نے چلایا تھا جس کے بعد یہ انڈیا کے سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی۔ سوشل میڈیا صارفین اس میں چینی فوجیوں کے رونے کا مذاق اڑا رہے ہیں اور اس ویڈیو کے متعلق دعوی کیا گیا کہ ان فوجیوں کو انڈیا اور چین کی سرحد پر تعیناتی کے لیے بھیجا جا رہا ہے۔

اس ویڈیو کو نہ صرف سوشل میڈیا پر تین لاکھ سے زائد مرتبہ دیکھا گیا بلکہ انڈیا کے زی نیوز ٹی وی چینل جیسے چند بڑے میڈیا اداروں نے بھی چلایا ہے۔

اس ویڈیو میں فوجی جوان ایک منی بس میں سفر کر رہے اور چینی زبان میں گھر کو یاد کرتے ہوئے ایک مِلّی نغمے گا رہے ہیں۔ ان فوجیوں کی لال اور پیلے رنگ کی پٹییوں پر یہ عبارت درج ہے: ‘عزت کے ساتھ فوج میں بھرتی ہو۔’

تاہم اس حوالے سے ہمیں کوئی شواہد نہیں ملے کہ ان فوجیوں کو انڈیا کی سرحد پر بھیجا جا رہا ہے۔

چین کے میڈیا اداروں کا کہنا ہے کہ چین کے ضلع زنگہو کے شہر فویانگ سے تعلق رکھنے والے جوان فوج میں نئے بھرتی ہوئے ہیں اور وہ اپنے اہلخانہ سے رخصت ہوتے ہوئے کچھ جذباتی ہوگئے۔

چین کے ایک مقامی خبر رساں ادارے نے چین کی میسجنگ ایپ وی چیٹ پر 15 ستمبر کو لگائی گئی ایک پوسٹ میں کہا تھا کہ یہ فوجی جوان اپنے بیرکس کی جانب جا رہے ہیں اور ان میں سے پانچ نے تبت کے علاقے میں ڈیوٹی انجام دینے کی لیے خود کو رضاکارانہ طور پر پیش کیا ہے۔

لیکن اس پوسٹ میں بھی ان کی انڈیا کے ساتھ حالیہ کشیدگی کے پیش نظر سرحد پر تعیناتی کا کوئی ذکر نہیں ہے۔

جبکہ 22 ستمبر کو چینی زبان کے سرکاری اخبار گلوبل ٹائمز نے اس خبر کو شائع کرتے ہوئے تائیوان کے میڈیا پر’ جھوٹ بولنے’ کا الزام عائد کیا۔

گلوبل ٹائمز کا کہنا تھا کہ تائیوان کے میڈیا نے گمراہ کن طور پر اس ویڈیو کو انڈیا اور چین کے سرحدی تنازع کے ساتھ جوڑا ہے جبکہ یہ ویڈیو ان نئے بھرتی ہونے والے فوجی جوانوں کے ہے جو ‘فرط جذبات میں روتے ہوئے اپنے والدین سے رخصت’ لے رہے ہیں۔

دوسرا دعویٰ: ایک ویڈیو میں انڈین فوجی چینی لاؤڈ سپیکرز پر بجنے والی موسیقی پر ناچ رہے ہیں۔

حقیقت: سرحد پر لاؤڈ سپیکر کے استعمال سے قبل کی پرانی ویڈیو

انڈیا چین تنازع

انڈیا اور چینی میڈیا میں 16 ستمبر کو یہ خبریں سامنے آئیں تھیں کہ چین کی فوج انڈیا کی سرحد کے ساتھ لاؤڈ سپیکر لگا کر ان پر پنجابی گانے چلا رہی ہے تاکہ انڈین فوجیوں کی 'توجہ ہٹائی' جا سکے۔

میڈیا پر آنے والی خبروں میں کہا گیا تھا کہ چینی فوج کی جانب سے یہ سپیکر اس علاقے میں لگائے گئے ہیں جو 24 گھنٹے انڈین فوجیوں کی جانب سے زیر نگرانی ہے۔

دونوں ممالک کے میڈیا نے اس خبر کو فوجی ذرائع کے ساتھ چلایا تھا تاہم اس خبر کے بارے میں کوئی تصویر یا ویڈیو جاری نہیں کی گئی تھی۔اور انڈین فوج کی جانب سے ایسا ہونے کی تصدیق بھی نہیں کی گئی تھی۔

اس کے باوجود انڈیا کے سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے ایسی ویڈیوز شیئر کی جا رہی ہیں جن میں انڈین فوجی جوان پنجابی گانوں پر رقص کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ لیکن ہماری تحقیق کے مطابق یہ تمام ویڈیوز انڈیا چین کی سرحد پر لاؤڈ سپیکر نصب کرنے کی خبروں سے پہلے کی ہیں۔

ستمبر میں شیئر کی جانے والی ایک وائرل ویڈیو میں پانچ انڈین فوجی ایک پنجابی گانے پر ناچتے دکھائی دیتے ہیں، اس ویڈیو کو 88 ہزار سے زیادہ مرتبہ دیکھا گیا ہے اور اس کو شئیر کرنے والے صارف نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ لداخ میں انڈیا چین کی سرحد کی ویڈیو ہے۔

جبکہ اس تصویر پر تحقیق کرنے سے یہ پتہ چلتا ہے کہ یہ ویڈیو رواں برس جولائی کی ہے۔ البتہ اس ویڈیو کے مقام کا پتہ چلانا ذرا مشکل ہے اور اس عرصے کے دوران خبروں سے یہ علم ہوتا ہے کہ یہ انڈیا اور پاکستان کی سرحد کی ہے نہ کہ انڈیا چین سرحد کی جیسا کہ اس کے بارے میں دعویٰ کیا گیا ہے۔

تیسرا دعویٰ: چین نے ایک بہت بڑے سپیکر پر اونچی آواز میں موسیقی چلا کر انڈین فوجیوں کو زخمی کر دیا ہے

حقیقت: اس بات کے کوئی شواہد نہیں ہے کہ اس مشین کو سرحد پر موسیقی چلانے کے لیے استعمال کیا گیا ہے

انڈیا چین تنازع

یہ دعویٰ بھی دوسرے دعوے کی ایک کڑی ہے جس میں چین کے ٹوئٹر صارفین ایک بڑی مشین کی ویڈیو شیئر کر رہے ہیں جس کے بارے میں ان کا دعویٰ ہے کہ اس مشین سے بہت اونچی آواز میں موسیقی چلا کر انڈین فوج کے مورچوں میں فوجیوں کو بیمار اور زخمی کیا جا رہا ہے۔

اس ویڈیو کو دو لاکھ مرتبہ سے زیادہ دیکھا گیا ہے اور حتیٰ کہ اس ویڈیو کو اسی دعوے کے ساتھ انڈین نیوز چینلز نے بھی نشر کیا ہے۔

یہ وائرل ویڈیو دراصل مارچ 2016 میں ایک یوٹیوب ویڈیو سے لیا گیا کلپ ہے جو کہ چین کی جانب سے ایک موبائل وارننگ سائرن مشین ہے جو کہ ایک ایسی کمپنی نے تیار کی تھی جو ہنگامی حالات کے آلات بناتی ہے۔

اس کمپنی کی ویب سائٹ پر موجود اس مشین کی تفصیل کے مطابق، اس میں شہری آبادی کے لیے قدرتی آفات یا دیگر ہنگامی صورتحال جیسے حالات کے لیے استعمال کیا جانے والا ایک بڑا ، 4..6 ٹن گھومنے والا سائرن دکھایا گیا ہے۔

یہ موسیقی چلانے کے لیے لاؤڈ سپیکر نہیں ہے اور یہ بھی واضح نہیں ہے کہ یہ سائرن چینی فوجی کی جانب سے سرحد پر کشیدگی کے دوران استعمال بھی کیا گیا ہے۔

اس کے علاوہ انڈیا چین سرحد پر انڈین فوجیوں کے سماعت سے محروم ہونے کی بھی کوئی مصدقہ اطلاعات نہیں ہیں۔

چوتھا دعویٰ: انڈین فوجیوں کی ایک بس حادثے کی ویڈیو کو سرحدی کشیدگی کے ساتھ جوڑا جا رہا ہے

حقیقت: یہ حادثہ سرحدی علاقے میں نہیں پیش آیا

انڈیا چین تنازع

چین کے ایک ٹوئٹر صارف نے 21 ستمبر کو ایک ویڈیو پوسٹ کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا کہ انڈیا چین سے سرحدی تنازع پر کیا مذاکرات کرے گا 'اسے تو اپنے فوجیوں کو اپنی جان لینے سے روکنے سے بچانا ہے۔'

اس ویڈیو میں ایک فوجی بس دریا میں گری ہوئی دیکھی جا سکتی ہے اور اس کے ارد گرد فوجی کھڑے ہیں اور اس ویڈیو پر لکھی تحریر میں کہا گیا ہے کہ ‘لداخ میں انڈین فوجیوں کی خود کشی کرنے کی کوشش۔’

اس ویڈیو کو تقریباً پانچ ہزار افراد نے دیکھا ہے۔

یہ ویڈیو اصلی ہے لیکن یہ انڈیا اور چین کے سرحدی علاقے کی نہیں ہے۔ یہ ویڈیو انڈیا کی وسطی ریاست چھتیس گڑھ کے علاقے کی ہے جہاں فوجیوں سے بھری ہوئی ایک بس ستمبر میں بجاپور ضلع میں ایک دریا میں گر گئی تھی۔

انڈین میڈیا نے اس وقت اس واقعہ کی خبر دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس حادثے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا ہے۔

بی بی سی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32499 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp