گلگت بلتستان انتخابات: بابا جان و دیگر اسیران کی رہائی کے لیے دھرنا، کیا دباؤ بڑھانے کے لیے یہ وقت چُنا گیا؟


گلگت بلتستان کی وادی ہنزہ میں سینکڑوں مظاہرین کی جانب سے دیا جانے والا دھرنا آج تیسرے روز میں داخل ہو گیا ہے اور مظاہرین کا کہنا ہے کہ وہ اس وقت تک اپنا احتجاج ختم نہیں کریں گے جب تک سنہ 2011 میں ’فسادات اور عوامی املاک کو نقصان پہنچانے‘ کے الزامات میں قید عوامی ورکرز پارٹی کے رہنما بابا جان اور ان کے 14 دیگر ساتھیوں کو رہا نہیں کر دیا جاتا۔

بابا جان اور دیگر سیاسی کارکنوں کو سنہ 2011 میں عطا آباد جھیل کے متاثرین کی جانب سے کیے گئے اجتجاج کے دوران ہنگامہ آرائی کرنے کے الزامات کے تحت گرفتار کیا گیا تھا اور بعدازاں عدالت نے گرفتار ہونے والے افراد کو 40 سال سے نوے سال قید بامشقت کی سزائیں سنائی تھیں۔

وادی ہنزہ میں ہونے والے دھرنے کی ابتدا پیر کے روز ہوئی تھی۔ اگرچہ بابا جان و دیگر کارکنوں کی رہائی کے حوالے سے گلگت بلتستان میں احتجاج اور مظاہرے ماضی میں بھی ہوتے رہے ہیں تاہم اس موقع پر یہ احتجاج اس لیے بھی اہمیت اختیار کر گیا ہے کہ خطے میں 15 نومبر کو عام انتخابات کا انعقاد ہونے جا رہا ہے جبکہ پاکستانی حکام کی جانب سے اس خطے کو صوبے کی حیثیت دینے کی تجویز کے حوالے سے خبریں بھی زیر گردش ہیں۔

انڈیا نے گلگت بلتستان کو پاکستان کی جانب سے ایک صوبے کی حیثیت دینے پر شدید اعتراض کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’جموں و کشمیر، لداخ اور گلگت بلتستان کے علاقے سنہ 1947 میں طے پانے والے معاہدے کے تحت انڈیا کے لازمی حصے ہیں‘ اور یہ کہ پاکستان گلگت بلتستان پر غیرقانونی انداز میں قابض ہے۔

ہنزہ کے صحافی اجلال حسین کے مطابق ہنزہ میں جاری دھرنا سردی کے باوجود 24 گھنٹے جاری رہتا ہے جبکہ اس میں گرفتار کارکنوں کے اہلخانہ سمیت علاقہ مکین اور بچے بھی بڑی تعداد میں شریک ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

عطا آباد جھیل سے پانی کا اخراج شروع

‘گلگت بلتستان عملی طور پر صوبہ ہے قانونی طور پر نہیں’

کیا گلگت بلتستان کی آئینی و قانونی حیثیت بدلنے جا رہی ہے؟

اس حوالے سے بنائی گئی ’اسیران رہائی کمیٹی‘ کے جنرل سیکریٹری ناصر جان نے صحافی محمد زبیر سے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم یہ دھرنا اس وقت تک ختم نہیں کریں گے جب تک تمام قیدیوں کو رہا نہیں کر دیا جاتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ وقت کے ساتھ ساتھ اس دھرنے کا دائرہ کار گلگت بلتستان کے دیگر شہروں تک بڑھایا جائے گا۔

بابا جان اور ان کے دیگر 18 ساتھیوں کو عدالت نے ’فرقہ وارانہ فسادات‘ کا مرتکب بھی قرار دیا تھا۔ ان مقدمات میں مجموعی طور پر 18 افراد کو نامزد کیا گیا تھا۔ جس میں سے دو کے مقدمات ابھی بھی دہشت گردی کی عدالت میں زیر سماعت ہیں جبکہ ایک مجرم عامر خان کو شدید بیمار ہونے کی وجہ سے دو سال قبل ضمانت دی گئی تھی اور آج (بدھ) وہ وفات پا گئے ہیں۔

سزا کے خلاف گلگت بلتستان کی اعلیٰ عدالت اپیلٹ کورٹ میں نظر ثانی کی درخواست سنہ 2016 سے زیر سماعت ہے۔

عطا آباد جھیل

عطا آباد جھیل کے وجود میں آنے سے لگ بھگ ایک ہزار گھرانے بے گھر ہوئے تھے

سیاسی کارکنوں پر قائم مقدموں کا پسِ منظر

سنہ 2010 میں عطا آباد کے مقام لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے متعدد گاؤں اور دیہات زیرِ آب آ گئے تھے۔ ان مقامی آبادیوں کی جگہ پر بعد میں عطا آباد جھیل وجود میں آ گئی تھی۔ سرکاری حکام کے مطابق عطا آباد جھیل کے وجود میں آنے سے لگ بھگ ایک ہزار گھرانے بے گھر ہوئے تھے۔

گلگت بلتستان کی حکومت نے ان بے گھر متاثرین کے لیے امدادی پیکج کا اعلان کیا تھا مگر ان میں سے کچھ متاثرین کا دعویٰ تھا کہ انھیں حکومت کی جانب سے اعلان کردہ امدادی پیکج موصول نہیں ہوا۔

حکومت کی جانب سے مطالبے پر توجہ نہ دینے کے باعث متاثرین نے اس وقت کے گلگت بلتستان کے وزیر اعلیٰ سید مہدی شاہ کی آمد پر شاہراہ قراقرم کو بلاک کیا تھا۔

اس وقت ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی رپورٹس کے مطابق سنہ 2011 میں ہونے والے اس عوامی احتجاج کے دوران مظاہرین اور پولیس کے درمیاں تصادم ہوا۔ پولیس کے مطابق مظاہرین کی اپنی فائرنگ سے احتجاج میں شریک ایک باپ اور بیٹا ہلاک ہوئے تاہم مظاہرین کا دعویٰ تھا کہ پولیس نے مظاہرین پر فائرنگ کی جس سے ہلاکتیں ہوئیں۔

سرکاری رپورٹس کے مطابق باپ بیٹا کی ہلاکت کے بعد وادی ہنزہ میں بڑے پیمانے پر ہنگامے پھوٹ پڑے تھے اور اس دوران عوامی املاک کو نذرِ آتش کیا گیا۔ ان مظاہروں کا اہتمام عوامی ورکر پارٹی کی اپیل پر کیا گیا جبکہ اس ’پرتشدد‘ احتجاج کی قیادت بابا جان اور ان کے 14 ساتھیوں نے کی تھی۔

مظاہروں کے بعد ہنزہ پولیس نے بابا جان اور اُن کے ساتھیوں کو گرفتار کر کے دہشت گردی سمیت دیگر سنگین جرائم کی دفعات کے تحت مقدمات درج کیے۔

ابتدائی طور پر یہ مقدمات دہشت گردی کی عدالت میں چلے۔ سنہ 2014 میں ملزمان میں سے پانچ افراد کو عدم ثبوت کی بنیاد پر بری جبکہ بابا جان سمیت دیگر کارکنوں کو 40 سال سے لے کر 60 سال قید بامشقت کی سزائیں سنائی گئی تھیں۔

سنہ 2015 میں بابا جان نے جیل سے گلگت بلتستان کے عام انتخابات میں حصہ لیا تھا۔ وہ 5200 ووٹ حاصل کر کے دوسری پوزیشن پر رہے تھے جبکہ جیتنے والے امیدوار نے چھ ہزار سے زائد ووٹ لیے تھے۔

عدالت سے ملنے والی سزا کے خلاف گلگت بلتستان کی چیف کورٹ میں اپیل دائر کی گئی تھی۔ سنہ 2015 کے آخر میں بابا جان سمیت تمام افراد کو بری کر دیا گیا تاہم حکومت نے چیف کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیلٹ کورٹ میں اپیل دائر کر دی۔

سنہ 2016 میں بابا جان اور ان کے ساتھی رہا ہوئے اور ہنزہ سے بعض وجوہات کی بنا پر نشست خالی ہوئی تو بابا جان نے ایک بار پر ضمنی انتخابات میں حصہ لینے کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کروائے جو کہ الیکشن کمیشن نے قبول کر لیے۔

تاہم اپیلیٹ کورٹ نے الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کے خلاف سوموٹو ایکشن لینے کے علاوہ حکومت کی جانب سے دائر کردہ اپیلوں کی سماعت کرتے ہوئے حکومت کی اپیلوں کو قبول کیا اور تمام کے تمام پندرہ افراد کو مجرم قرار دے دیا۔

اپیلٹ کورٹ کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی اپیل سنہ 2016 سے زیر سماعت ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اپیلٹ کورٹ کا فورم مکمل نہیں ہے۔

بابا جان کی والدہ نے اقوام متحدہ سے بھی اپنے بیٹے اور اس کے ساتھیوں کی رہائی کے لیے اپیل کر رکھی ہے۔

زمین فروخت کرکے قید بھائی کا علاج کروا رہا ہوں

بابا جان کے علاوہ سلیمان کریم بھی ان افراد میں شامل ہیں جو قید بامشقت کاٹ رہے ہیں۔ عدالت نے انھیں جرم ثابت ہونے پر 40 سال قید کی سزا سنائی تھی۔

اُن کے بھائی شیر علی نے بتایا کہ ’میرے بھائی نفسیاتی امراض کا شکار ہو چکے ہیں۔‘

انھوں نے بتایا کہ ابتدا میں اسیر بھائی کا علاج اپنے خرچے پر گلگت بلتستان میں کروایا لیکن کوئی افاقہ نہیں ہوا تو گلگت میں ڈاکٹروں کی ہدایات پر ان کو حکام نے پمز ہسپتال منتقل کیا، جہاں پر کافی دن زیر علاج رہے۔

شیر علی کے مطابق قیدی ہونے کے باوجود انھوں نے اپنے بھائی کا علاج اپنے خرچ پر کروایا ہے جس کے لیے اپنا واحد مکان بھی فروخت کر دیا۔ ’ہماری بوڑھی ماں بیٹے کی راہ تکتے تکتے آنکھوں کی بینائی کھو بیٹھی ہیں۔‘

ان کی زوجہ ناہید اختر کا کہنا تھا کہ مجھے تو سمجھ نہیں آتا کہ میرے خاوند کو رہا کر دیا گیا تھا پھر دوبارہ کیوں گرفتار کیا گیا۔ ’اتنی سزا کس بات کی ہے۔ کیا انھوں نے کوئی قتل کیا ہے؟‘

ناہید اختر کا کہنا تھا کہ میرے خاوند کا ایک بھائی، اپنے بھائی کی قید کے دوران گردے اور دل کے امراض میں مبتلا ہو کر ہلاک ہو چکا ہے۔ ’میرے سسر بوڑھے ہیں، وہ نہ بات کر سکتے ہیں، نہ دیکھ سکتے ہیں۔ بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے اب میں محنت مزدوری کرتی ہوں۔‘

’میرے بچے بار بار پوچھتے ہیں کہ ہمارے پاپا کدھر ہیں۔ ان کو اس سوال کا جواب دینے کے لیے میر ے پاس کچھ نہیں ہوتا ہے۔‘

دباؤ بڑھانے کے لیے الیکشن کا وقت ہی چُنا گیا؟

گلگت بلتستان کے صحافی اور تجزیہ نگار امتیاز علی تاج کا کہنا تھا کہ گرفتار افراد کی رہائی کے لیے یہ احتجاج پہلی مرتبہ نہیں ہو رہا ہے اور ایسا ہی ایک احتجاج گذشتہ انتخابات کے موقع پر بھی ہوا تھا۔

‘گذشتہ انتخابات کے دوران بھی گرفتار افراد کے اہلخانہ سے تقریبا تمام سیاسی ومذہبی جماعتوں نے وعدہ کیا تھا کہ وہ اس معاملے کو اٹھائیں گے مگر عملی طور پر ایسا کچھ نہیں ہوا ہے۔’

امتیاز علی تاج کے مطابق ممکنہ طور پر اب دوبارہ انتخابات کے موقع یہ احتجاج دباؤ بڑھانے اور توجہ حاصل کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔

دوسری جانب ایک مرتبہ پھر اس احتجاج میں تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کے قائدین شریک ہو رہے ہیں اور دھرنے میں موجود لوگوں سے مکمل طور پر ساتھ دینے کے وعدے کیے جا رہے ہیں اور اس احتجاج کو منظم انداز میں پورے گلگت بلتستان میں پھیلانے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہیں اور تمام مذہبی اور سیاسی جماعتیں متاثرین کا ساتھ دینے کا اعلان کر رہی ہیں۔

صحافی عبدالرحمان بخاری کا کہنا تھا کہ دھرنا شروع ہونے کے بعد اب تمام سیاسی جماعتیں اور انتخابات لڑنے والے امیدوار ان لوگوں کی ہمدری حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ جس کے لیے وہ دھرنا میں بھی شریک ہو رہے ہیں۔

بابا جان نے ایک مرتبہ پھر ان انتخابات میں حصے لینے کے لیے اپنے کاغذات نامزدگی جمع کروانے کا فیصلہ کیا ہے۔

اسیران رہائی کمیٹی کے جنرل سیکریٹری ناصر جان کا کہنا تھا کہ ان کی انتظامیہ اور اداروں سے بات چیت ہمیشہ جاری رہی ہے۔ ’ہمارے ساتھ وعدہ کیا گیا تھا کہ اس سال جون میں ہمارے اسیران کے بارے میں اہم فیصلے ہوں گے، مگر ایسا نہ ہوا۔ جس کے بعد ہم لوگوں نے 17 ستمبر کی ڈیڈ لائن دی تھی۔ اس موقع پر بھی کہا گیا کہ احتجاج نہ کریں فیصلہ ہونے والا ہے۔‘

ڈسڑکٹ سپرینٹنڈنٹ پولیس حمزہ ہمایوں کا کہنا ہے کہ مظاہرین پُرامن احتجاج کر رہے ہیں اور انتظامیہ اُن کے ساتھ رابطے میں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مظاہرین کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں بات چیت ہو رہی ہے، ان کے مطالبات کو سن رہے ہیں شاید ان کا احتجاج کچھ دن اور جاری رہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp