انصار عباسی تیری تیز نگاہی کے میں واری صدقے


‎ باز میلوں دور فضا میں اڑتے ہوئے اپنے شکار کو زمین پر اتنی با آسانی ڈھونڈ لیتا ہے، کہ اس کی تیز نگاہی بطور اصطلاح ایگل آئی کے طور پر استعمال ہونے لگی۔ لیکن اب انسانوں میں بھی ایک ایسی نگاہ کا ظہور ہوا ہے کہ جس کی غیر معمولی صلاحیتوں کا موازنہ بلاشبہ ایگل آئی سے کیا جا سکتا ہے، یہ آئی بھی میلوں دور سے عورت میں فحاشی ڈھونڈ لیتی ہے۔ اس کو کہتے ہیں ”انصار آئی“ ۔ ”انصار آئی“ فحاشی کا سراغ ایسے لگاتی ہے جیسے موت زندگی کا ۔ یہ ایک ایسی نظر ہے جس میں ایکسرے مشین فٹ ہے کہ اس کے سامنے سے عورت گزر جائے تو اس کو ایک منٹ میں اسکین کر کے بتا دیتی ہے کہ اس میں کہاں کہاں فحاشی ہے۔ کہاں کہاں عورت کے جسم کے پیچ و خم آتش شوق کو بڑھکا رہے ہیں، اور نظریہ پاکستان کی غرض و غایت کے لئے خطرہ ہیں۔

‎میں تو کہوں گا کہ اس نظر کو پاکستان کی قومی آئی قرار دیا جائے کیونکہ جس تیزی سے یہ ”نظر“ مقبول ہو رہی ہے اس کا موازنہ صرف سپہ سالار کے عہدے سے کیا جا سکتا ہے یا تو یہ عہدہ پاکستان میں اتنی تیزی سے مقبول ہوتا ہے یا اب یہ انصار آئی۔

‎ چونکہ یہ ایک ایکسرے مشین سے ملتی جلتی آئی ہے اس لیے اس سے اور بھی بہت سے کام لئے جا سکتے ہیں اس کو کسی بھی شہر کے خارجی راستوں کی نگرانی پر بھی تعینات کیا جا سکتا ہے تا کہ دور سے ہی کسی خودکش کو دیکھ کر حکام کو مطلع کر سکے لیکن چونکہ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے اس لئے سب سے بڑا مسئلہ فحاشی ہے، دہشت گردوں پر تو کسی نہ کسی طریقے سے قابو پا لیا جائے گا لیکن اگر ایک دفعہ فحاشی پھیل گئی تو یہ اس ملک کی اساس پر حملہ ہوگا، کیونکہ اگر فحاشی کسی قوم کی رگوں میں سرایت کر جائے تو وہ قوم ایک مردہ قوم بن جاتی ہے، اس کی داستان بھی نہیں رہتی داستانوں میں، وہ مٹ جاتی ہے، فنا ہو جاتی ہے۔ واللہ یہ میں اپنی طرف سے نہیں کہہ رہا اس سے ملتا جلتا قول میں نے کسی عظیم مسلمان جرنیل غالباً صلاح الدین ایوبی کا کہیں پڑھا تھا ”کہ جس قوم میں فحاشی پھیل جاتی ہے وہ مٹ جاتی ہے“

‎ویسے تو اگرمیں فلاسفر بننے کی کوشش کروں تو میرے خیال میں تو بھوک بھی فحاشی ہے، ظلم بھی فحاشی ہے، نا انصافی بھی فحاشی ہے۔ لیکن پاکستان چونکہ انتہائی پارسا، عالم اسلام کا ایک لیڈر ملک ہے، اور ہاں اس کے ساتھ اسلامی بھی تو لگتا ہے اس لیے یہاں صرف عورت ہی فحاشی ہے، کیونکہ اچھے پکے اور سچے مسلمانوں کے نزدیک فحاشی عورت کے سر سے شروع ہوتی اور اس کے پاؤں پر ختم ہوتی ہے۔ سر اور پاؤں کے درمیان اگر کوئی جلد دکھ جائے تو پارساؤں کا ایمان اور نظریہ پاکستان دونوں خطرے میں پڑ جاتے ہے۔ اور ان کا دھرم بھی بھرشٹ ہو جاتا ہے۔

‎بات انصار آئی سے شروع ہو کر پتا نہیں کہاں پہنچ گئی۔ میری تو سائنس اور ٹیکنالوجی کے وفاقی وزیر جناب فواد چوہدری سے گزارش ہے کہ اس آئی پر لیباریٹری میں تحقیق کروائیں بالکل ویسے ہی جیسے سائنسدان آئین سٹائین کے دماغ پر تحقیق کرتے رہتے ہیں اور پتا لگانے کی کوشش کریں کہ اس آئی میں ایسی کیا خاص بات ہے کہ ایک منٹ میں عورت کو اسکین کر کے بتا دیتی ہے کہ کہاں کہاں فحاشی ہے، کون سے جسمانی خد وخال آگ لگا رہے ہیں۔ اس کے جسم کی کون سی حرکت کتنا تلاطم پیدا کرتی ہے۔ اور یہ بھی کہ عورت ورزش کرے یا رقص دونوں پاکستان کی نظریاتی اساس کے لیے کتنا بڑا خطرہ ہیں۔

‎اگر یہ راز مل جائے کہ ایسی قیامت کی آنکھ کیسے پیدا کی جا سکتی ہے تو اس ”آنکھ“ کی کاپیاں تیار کر کے برآمد کی جا سکیں۔ یقین کریں ملک کے وارے نیارے ہو جائیں گے یہ گارنٹی ہے کہ انڈوں، کٹوں، مرغیوں، بھنگ اور چرس سے زیادہ ڈالر کمائیں گے۔ پچاس سے تو زیادہ اسلامی ملک ہیں اور ان میں کچھ شدید اسلامی ملک بھی شامل ہیں اگر ان شدید اسلامی ممالک سے ایک آرڈر بھی مل گیا تو ملک میں ڈالروں کی ریل پیل ہو جائے گی۔ غربت ختم۔

لیکن چوہدری فواد صاحب اتنے نا عاقبت اندیش ہیں کہ انہوں نے انصار عباسی صاحب کو چوبیس گھنٹے فحاشی کی تلاش کی بجائے کوئی پروڈکٹو کام کرنے کا مشورہ دے دیا ہے۔ اسی کوتاہ نظری کی وجہ سے تو ہمارا ملک ترقی نہیں کرتا۔

‎ویژن کا مظاہرہ کریں ان آنکھوں کو محفوظ کر کے ان پر تحقیق کا آغاز کریں کیونکہ ایسی آنکھیں روز روز پیدا نہیں ہوتیں۔ وہ اپنے اقبال فرما گئے ہیں نا۔ اوہو بھول گیا۔ جب بچے تھے تو ہر تقریر میں یہ شعر ہوتا تھا، ہاں یاد آیا

‎ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
‎بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں ”دیدہ ور“ پیدا۔
‎انصار عباسی ہمیں آپ پر ناز ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).