شاہین باغ پر فیصلہ: جیت کس کی ہوئی؟


انڈیا کی عدالت عظمیٰ نے کہا ہے کہ عوامی مقامات کو غیر معینہ مدت تک احتجاج کے لیے استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ بدھ کے روز دارالحکومت دہلی کے شاہین باغ میں مہینوں تک جاری رہنے والے مظاہروں کے خلاف دائر درخواست کی سماعت کے دوران دیا ہے۔

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ کوئی بھی شخص احتجاج کے مقصد سے کسی بھی عوامی مقام یا راستے کو نہیں روک سکتا۔

عدالت نے یہ بھی واضح کیا کہ عوامی مقامات پر اس طرح کا دھرنا یا مظاہرہ غیر معینہ مدت کے لیے قابل قبول نہیں ہے اور ایسے معاملات میں متعلقہ حکام کو اس سے نمٹنا چاہیے۔

https://twitter.com/PTI_News/status/1313715147425284096

سپریم کورٹ نے کہا: ‘شاہین باغ خالی کروانا دہلی پولیس کی ذمہ داری تھی۔ احتجاجی مظاہروں کے لیے کسی بھی عوامی جگہ کو غیر معینہ مدت تک استعمال نہیں کیا جاسکتا، چاہے وہ شاہین باغ ہو یا کوئی اور جگہ۔ مظاہرے معینہ مقامات پر ہی ہونے چاہییں’

یہ بھی پڑھیے

دہلی: شاہین باغ میں احتجاجی مظاہرے کے دوران فائرنگ

’میں انڈین شہریت ثابت کرتے ہوئے مرنا نہیں چاہتی‘

شاہین باغ کی ’دادی بلقیس‘ مودی کے ساتھ دنیا کے 100 بااثر افراد میں شامل

عدالت نے کہا کہ حکام کو عوامی مقامات کو خالی رکھنے کو یقینی بنانا چاہیے۔ دریں آثنا سوشل میڈیا پر شاہین باغ ایک بار پھر ٹرینڈ کرنے لگا ہے اور جو اس مظاہرے کے مخالفین تھے وہ اسے جیت کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔

مظاہرین

پرشانت پٹیل امراؤ نامی صارف اور وکیل نے لکھا: شاہین باغ گینگ کو بڑا صدمہ۔ سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ عوامی مقامات اور سڑکوں پر غیر معینہ مدت کے لیے احتجاج نہیں کیا جا سکتا۔ پولیس پر سڑک کو خالی کرانے کی ذمہ داری ہے۔'

https://twitter.com/ippatel/status/1313711348140843008

دوسری جانب محمد آصف خان نامی ایک صارف نے لکھا: سب بڑا جھوٹ جو ہم سے کہا گیا وہ ‘آئین سب سے اوپر ہے’۔ ہمیں آپ کے نظام پر اعتماد نہیں کیونکہ اس نے ہمیں کبھی انصاف نہیں دیا ہے۔ شاہین باغ احتجاج زندہ باد!’

https://twitter.com/imMAK02/status/1313741398844170242

ایک صارف نے لکھا کہ جب مظاہرہ جاری تھا تو سپریم کورٹ نے ثالث بھیجے تھے اور جب مظاہرہ ختم ہو گیا تو کہتی ہے کہ وہ درست نہیں تھا۔

https://twitter.com/utkarsh_aanand/status/1313717786498138113

معروف صحافی منہاز مرچنٹ نے لکھا ہے کہ اس فیصلے میں ان لوگوں کے لیے نتائج ہیں جنھوں نے مظاہرے کی حمایت کی تھی۔

فیصلہ سنانے والی سپریم کورٹ کے اس تین رکنی بینچ کی سربراہی جسٹس سنجے کشن کول نے کی۔ دوسرے دو ججز میں جسٹس انیرودھ بوس اور جسٹس کرشن مراری شامل تھے۔

شاہین باغ میں ہونے والے مظاہرے کے خلاف سپریم کورٹ میں متعدد عرضیاں داخل کی گئی تھیں۔ شاہین باغ میں کئی مہینوں تک شہریت کے متنازع ترمیی قانون کے خلاف مظاہرین نے احتجاج کیا تھا۔ اس دوران مظاہرین تقریباً 100 دنوں تک دہلی اور نوئیڈا کو جوڑنے والی ایک مرکزی سڑک پر بیٹھے رہے۔

بنچ نے اس معاملے میں 21 ستمبر کو اپنا فیصلہ محفوظ رکھتے ہوئے کہا تھا کہ احتجاج کرنے کے حق اور لوگوں کی نقل و حرکت کے لیے ٹریفک کے حق کے درمیان توازن ہونا چاہیے۔

بینچ نے کہا تھا کہ احتجاج پرامن طریقے سے کیا جاسکتا ہے لیکن احتجاج کا حق مطلق نہیں ہے۔ یہ ایک حق ہے۔

درخواست گزار امت ساہنی اور ششانک دیو سودھی نے احتجاجی مظاہرے کے خلاف درخواست دائر کرتے ہوئے دلیل دی تھی کہ احتجاج کی وجہ سے لوگوں کو نقل و حرکت میں پریشانی ہو رہی ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا تھا کہ مظاہرین کو ہٹایا جائے۔

مظاہرین

سینیئر صحافی سوچترا موہنتی کے مطابق امت ساہنی نے کہا تھا کہ 'آئندہ اپنی مرضی اور ضرورت کے مطابق احتحاج نہیں ہونی چاہیے۔ وسیع عوامی مفاد میں ایک فیصلہ کیا جانا چاہیے۔ میں سپریم کورٹ سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اس معاملے میں ایک تفصیلی حکم دے۔'

سالیسیٹر جنرل تشار مہتا نے ابتدا میں بتایا تھا کہ سپریم کورٹ نے اس معاملے پر غور کرنے سے انکار کردیا تھا۔

سپریم کورٹ نے اس سے قبل سنجے ہیگڑے، سادھانا رام چندرن اور سابق بیوروکریٹ وجاہت حبیب اللہ کو مظاہرین سے بات کرنے اور انھیں کہیں اور جانے پر راضی کرنے کے لیے ثالث مقرر کیا تھا۔

احتجاج پر سب سے زیادہ خواتین بیٹھی تھیں۔ وہ اس بات پر بضد تھیں کہ جب تک حکومت سی اے اے قانون واپس نہیں لیتی اس وقت تک وہ مظاہرہ کرتی رہیں گی۔

فروری میں ثالثوں کی ٹیم نے مہر بند لفافوں میں اپنی رپورٹیں پیش کی تھیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp