آج کے مسخ خدوخال اور ماضی کے مکروہ خطوط


دل سے ملال کا موسم جاتا ہی نہیں! سو اپنے آپ سے ہی سوال کرنے کو جی چاہتا ہے۔ کیا کوئی عورت ایسی ہو گی جو سڑک پر اپنی راہ چلتے چلتے کسی نہ کسی مرد کی بن بلائی توجہ بلکہ مداخلت مجرمانہ سے واقف نہ ہو؟ اور ایسی خاتون کہاں سے تلاش کریں جو بس سے اترتے چڑھتے، ریل میں سوار ہوتے، بازار میں جاتے، پارک میں ٹہلتے سانپ سی رینگتی انگلیوں کا لمس نہ جانتی ہو؟

اور وہ عورت تو یقیناً کمیاب ہے جسے اپنے جسم پہ ٹٹولتی نظروں کا سامنا نہ کرنا پڑا ہو۔ مرد چاہے قبر میں پاؤں لٹکائے بیٹھا ہو، اس کی سرد ہوتی آنکھوں میں بھی عورت کی ذات بحیثیت ملکیت ہی کی کہانی رقم ہوتی ہے۔

عورت کی تذلیل کی اس داستان میں مقامات آہ و فغاں تو بے شمار ہیں لیکن صاحب اپنا ہی کلیجہ پاش ہوا جاتا ہے۔ دوسری طرف تو نہ ہرزہ سرائی میں کمی آئی ہے نہ ہی جنبش دست رکی ہے۔ نہ نظر میں حیا کی رمق جھلکی ہے اور نہ ہی خیال میں طہارت کا پہلو شامل ہو سکا۔

کہنے والے کہے چلے جا رہے ہیں اور ان کے خیال میں عورت جس آزادی اور خود مختاری کے لئے ہاتھ پاؤں مار رہی ہے، وہ یہ ہے کہ

“جب عورت کمرے میں بوائے فرینڈ کے ساتھ ہو تو باہر رکھوالی باپ کرے”

دل میں ٹیس سی تو اٹھی ہے کہ ہمارے ملک کے نام نہاد مصنف کے خیالات کی پرواز کس قدر عامیانہ، رکیک اور اخلاق سے گری ہوئی ہے۔ اپنے قلم کی حرمت کا خیال نہ رکھتے ہوئے وہ نہ صرف عورت کے وجود کی دھجیاں بکھیرتا ہے۔ بلکہ اپنی تقریر میں باپ بیٹی کے مقدس رشتے کو ایک ہتھیار کی طرح استعمال کرتا ہے جسے چابک کی طرح برسا کے شرمندگی، توہین اور تذلیل کے جذبات پیدا کیے جا سکیں اور معاشرہ ایک دفعہ پھرعورت کے وجود اور اس کی انفرادی حیثیت پہ سوال اٹھا سکے۔

خیر خلیل الرحمن قمر کا شمار تو ان مصنفوں میں سے ہے جو قرطاس تحریر اور ٹوائلٹ پیپر میں فرق نہیں جانتے، معاشرے کا سدھار یا اخلاقی ذمہ داریوں کا بوجھ ان کے ناتواں کندھے اٹھانے سے عاری ہیں۔ سو وہ کچھ بھی لکھ دیں، کچھ بھی کہہ دیں، سب جانتے ہیں کہ یہ سب کچھ برساتی مینڈکوں کے راگ کے مترادف ہے۔ موسموں اور ہوا کا رخ دیکھ کے فن پارے وجود میں نہیں آیا کرتے، ایسی تخلیقات اپنی موت آپ مر جایا کرتی ہیں۔

خلیل الرحمن قمر کو تو خیر ہم کسی قابل نہیں گردانتے لیکن دل پہ ایک گھاؤ سا لگ جاتا ہے۔ ان ادیبوں کی تصنیفات پڑھ کے جنہیں ہمارے معاشرے میں مستند مانا گیا، شہرت کی دیوی مہربان ہوئی اور ادب کی دنیا میں جید ادیب کہلائے۔ لیکن کس طرح کہیں کہ عورت ان کی نظر میں بھی اسی گھٹیا مقام پہ رہی، جہاں اسے مرد کو شرم دلانے اور نام نہاد غیرت کو ناپنے کے پیمانے کے طور پر ایک ہتھیار یا آلے کی طرح استعمال کیا گیا۔ جہاں اس کے وجود کی حرمت محض اسی قابل سمجھی گئی کہ اس کی عزت کی قسم ہی مرد کے پندار قائم رہنے اور معاشرے میں سر اٹھا کے چلنے کی ضمانت ہے۔ مرد اپنی ذات کو بے وقعت ٹھہرنے اور دلی رنج وتکلیف پہنچنے کی مثال بلا ہچکچاہٹ گھر کی عورت کے جسم سے جوڑتا ہے۔ گویا عورت کا وجود کرچی کرچی ہو جانے کی صورت میں اس کی تکلیف اور اس کی ذات کو پہنچنے والے ایذا سے زیادہ مرد کی عزت، غیرت، انا اور غرور کو ٹھیس پہنچے کا احتمال ہے۔

تمہید کچھ لمبی ہو گئی مگر اس لئے ضروری تھی کہ معلوم ہو کہ آج کے مصنفوں کی بے تہہ راگ داری میں کچھ از قسم اکابر، خوشا کہ دفن در مقابر اساتذہ کا بھی حصہ ہے۔ ایک خط دیکھ لیجیے جسے پڑھ کے ہم انگشت بدنداں ہیں۔

دیال سنگھ کالج

لاہور

اکتوبر 1951

حضور امی جان!

قدسیہ کی وہ کہانیاں جو ایک عرصے سے میرے پاس تھیں، اچانک طلب کر لی گئیں۔ ایک رات اثر صاحب تشریف لائے اور کہا کہ کاکی (قدسیہ) نے لکھا ہے کہ وہ افسانے اشفاق سے لے کر اسے پہنچا دیئے جائیں۔ میں نے بلا چون وچرا وہ فائل اثر صاحب کے سپرد کر دی اور انہوں نے اسے مقام مقصود تک پہنچا دیا۔

ان کے استفسار پر کاکی (قدسیہ) نے بتایا کہ اشفاق کو ہر گھڑی میری اور میرے گھر والوں کی تذلیل مقصود ہوتی ہے اور وہ جان بوجھ کر ان کی بے عزتی کرتا ہے۔ میں آپ کو اس وقت سے امی کہتا رہا ہوں، جب میں نے آپ کو دیکھا بھی نہیں تھا۔ اگر میں نے شعوری یا غیر شعوری طور پر ارادی یا غیر ارادی طور پر آپ کی ہتک کی ہو یا آپ لوگوں کو ہیٹا سمجھا ہو تو میری دعا ہے کہ میری ایک بیٹی ہو اور میری آنکھوں کے سامنے سر بازار اس کی اوڑھنی اتر جائے۔ چوراہے پر اس کی عصمت دری ہو اور میں اپنی آنکھوں سے دیکھوں۔ میری زندگی میں بھرے مجمعے میں اس کا نیلام ہو۔ آسمانوں سے لعنتوں کا نزول ہو اور زمین سے مجھ پر تھتکار ہو اور خدا کرے کہ آپ بھی یہ سب کچھ دیکھنے کے لئے زندہ رہیں۔

واسلام

نیازمند

اشفاق

‎(راہ رواں: بانو قدسیہ: صفحہ نمبر 119)

خط آپ نے پڑھ لیا؟ اپنی سچائی کا یقین دلانے کے لئے اس بیٹی کی عصمت دری کا تفصیلی نقشہ کھینچا گیا ہے جو خوش قسمتی سے کبھی پیدا نہ ہوئی۔ کہیے کیا کہتے ہیں آپ؟

کچھ قارئین کا کہنا ہے کہ سوئے عدم سدھارنے والے ادیبوں کے متعلق کچھ کہنا اور لکھنا آداب کے منافی ہے۔ ہم بصد احترام پوچھنا چاہتے ہیں، کیا دنیائے ادب سے شیکسپئر، ورڈزورتھ، غالب اور میر کے ترکے کی بساط ایک معینہ مدت کے بعد لپیٹ دی گئی؟

ہماری ناقص رائے میں ادیب کا سرمایہ خیال کبھی بھی متروک نہیں ہوا کرتا۔ اس کے ساتھ ساتھ اگر ایسا ہو کہ تخلیق کردہ ادب مقبولیت کے اعلیٰ ترین درجے پر بھی فائز ہو اور آنے والی نسلوں کی ذہنی تربیت کا ذمہ دار بھی سمجھا جائے تو سوال کے وجود کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔ سوال تو دانشور کے خیال کی جہت اور وسعت کے امکان بڑھا دیتا ہے، بد تہذیبی کا مظہر نہیں ہوا کرتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).