جنرل عثمانی بھی تو ایک جرنیل تھا


جرنیل ایسے بھی ہوتے ہیں۔

جنرل مظفر حسین عثمانی جیسے، درویش صفت صوفی منش اور بے ریا، کہ جب وقت آخر بلاوا آیا تو دوچار سال پرانی نہیں 35 سال پرانی مزدا پر خود ڈرائیو کر رہے تھے بلاوے کا احساس ہوا تو گاڑی بمشکل ٹریفک کے بہاؤ سے نکال کر سڑک کنارے لا سکے اور جان، جان آفرین کے سپرد کردی، جنرل عثمانی، فوج کے ڈپٹی چیف آف دی آرمی سٹاف تھے چار ستارہ، مکمل جرنیل لیکن ایسے دیانت دار کہ 35 برس پرانی مزدا کار خود چلاتے اسے روزانہ مرمت کراتے رہے، اپنے مالک کی رضا پر راضی پہ رضا رہتے چونکہ حال مست صوفی تھے اس لیے ہمارے ذرائع ابلاغ نے بھی زیادہ توجہ دینا ضروری نہیں سمجھا، یہ دوسرا کالم بھی ’ہم سب‘ میں ہی شائع ہو رہا ہے ویسے بھی جنرل ایم ایچ عثمانی ساری زندگی ذرائع ابلاغ سے پرے پرے دور دور رہے۔

12 اکتوبر 1999 کی شام جنرل عثمانی کورکمانڈر کراچی تھے جب فوجی سربراہ جنرل پرویز مشرف کا طیارہ ہوا میں معلق تھا کراچی ائرپورٹ کے رن وے بند کیے جا چکے تھے اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف فوجی سربراہ جنرل مشرف کو برطرف کر کے جنرل ضیا الدین بٹ کو نیا آرمی چیف مقرر کر چکے تھے کراچی کنٹرول ٹاور جہاز کے پائلٹ کو طیارہ نواب شاہ، یا احمد آباد بھارت اتارنے کی ہدایات دے رہا تھا کسی بھی غیر متوقع صورتحال سے نمٹنے کے لیے وی آئی پی لاونج میں اس وقت سندھ پولیس کے سربراہ رانا مقبول اپنے ایک کار خاص پنجاب پولیس کے انسپکٹر مرحوم نوید پہلوان کے ہمراہ جنرل پرویز مشرف کو گرفتار کرنے کی مکمل تیاری کے ساتھ موجود تھے کہتے ہیں کہ جنرل پرویز کو لینے کے لیے آنے والی فوجی گاڑی پر چار ستارے لگائے اور اتارے جا رہے تھے کہ کورکمانڈر جنرل عثمانی اپنے کچھ معاونین فوجی افسروں کے ہمراہ کراچی ائرپورٹ پہنچتے ہیں اور نقشہ بدل جاتا ہے

اس شام کے واقعات کرنل اشفاق حسین نے اپنی کتاب میں تفصیل سے بیان کیے ہیں

پانچ بجے شام 5 کور کے چیف آف سٹاف بریگیڈئیر طارق سہیل پاکستان کے دوسرے شہریوں کی طرح اپنے گھر میں بیٹھے ٹی وی دیکھ رہے تھے جب اچانک سپیشل بلیٹن کا اعلان ہوا۔ کچھ دیر بعد خبر آئی کہ جنرل پرویز مشرف کو برطرف کر دیا گیا اور لیفٹیننٹ جنرل ضیاء الدین کو جنرل کے عہدے پر ترقی دے کر نیا چیف آف آرمی سٹاف مقرر کیا گیا ہے۔ انہوں نے کورکمانڈر لیفٹیننٹ جنرل مظفر عثمانی کو فون کیا اور جو کچھ ٹیلی ویژن پر دیکھا تھا، انہیں بتایا۔ جنرل عثمانی، جنرل مشرف کو لینے ائرپورٹ جانے والے تھے۔

بعض اوقات جغرافیائی محل وقوع انتہائی اہمیت اختیار کر جاتے ہیں۔ جنرل پرویز مشرف نے کراچی ہوائی اڈے پر اترنا تھا اس لئے ترپ کے سارے پتے کراچی کور کے کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل مظفر عثمانی کے ہاتھ میں آ گئے تھے۔ تاریخ ایک موڑ پر پہنچ رہی تھی اور عین درمیان میں 5 کور کے کمانڈر جنرل مظفر عثمانی کھڑے تھے۔

ان پر منحصر تھا کہ وہ تاریخ کا دھارا کس طرف موڑتے ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں اس سے پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا کہ حکومت کی تبدیلی میں 5 کور نے کوئی کردار ادا کیا ہو۔ یہ راولپنڈی میں واقع 10 کور کا ”استحقاق“ ہی رہا تھا۔ یہ پہلا اتفاق تھا کہ 5 کور کو کلیدی کردار مل رہا تھا اور سارے کے سارے اہم پتے لیفٹیننٹ جنرل مظفر عثمانی کے ہاتھ میں تھے۔ ان کے اقدام نے آنے والے دنوں پر گہرے اثرات مرتب کرنے تھے اور جو کچھ ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے

راولپنڈی میں چیف آف جنرل سٹاف لیفٹیننٹ جنرل عزیز اور 10 کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل محمود گالف کھیل رہے تھے جب انہیں نئی صورت حال کی خبر دی گئی۔ دونوں گالف کورس چھوڑ کر جنرل محمود کی رہائش گاہ پہنچے۔ جنرل عزیز نے جنرل عثمانی کو فون کر کے پوچھا کہ کیا کیا جائے۔ جنرل عثمانی نے جنرل عزیز سے پوچھا کہ جنرل مشرف نے کوئی ہدایات دی تھیں کہ نہیں۔ اثبات میں جواب پاکر جنرل عثمانی نے انہیں کہا ”پھر ان کی ہدایات پر عمل کرو“ ۔

اس کے ساتھ ہی پانسہ پلٹ گیا اور کھیل نواز شریف کے ہاتھ سے نکل گیا۔

کچھ دیر بعد جنرل محمود نے بھی جنرل عثمانی کو فون کیا اور نئی صورت حال پر تبادلہ خیال کیا۔ یہ بات حیران کن ہے کہ دونوں جرنیلوں نے جنرل عثمانی سے کیوں بات کی اور کوئی عملی قدم اٹھانے سے پہلے ان کی رضامندی ضروری کیوں سمجھی۔ وہ سب سے سینئر جنرل بھی نہیں تھے۔ اس وقت سینئر ترین جنرل، لیفٹیننٹ جنرل سعید الظفر تھے جو کوہاٹ میں 9 کور کمانڈر تھے اور اس دن اتفاق سے راولپنڈی ہی میں موجود تھے۔ تھوڑی دیر کے بعد انہیں جنرل ضیاء الدین کا ٹیلیفون آیا۔

انہوں نے بتایا کہ انہیں ترقی دے کر جنرل بنا دیا گیا ہے اور نیا چیف آف آرمی سٹاف مقرر کیا گیا ہے۔ انہوں نے جنرل عثمانی کو ہدایت کی کہ وہ ائر پورٹ پر جنرل مشرف کا استقبال کریں اور انہیں پورے پروٹوکول کے ساتھ آرمی ہاؤس میں لائیں (جہاں عام طور پر چیف آف آرمی سٹاف، کراچی کے قیام کے دوران ٹھہرتے ہیں ) ۔ انہوں نے بمشکل فون رکھا ہی تھا کہ پرائم منسٹر ہاؤس سے ایک اور فون آیا۔ اس مرتبہ وزیراعظم کے ملٹری سیکرٹری بریگیڈئیر جاوید فون پر تھے۔ انہوں نے جنرل عثمانی کو بتایا کہ جنرل مشرف کو کسی قسم کا پروٹوکول دینے کی ضرورت نہیں اور یہ کہ انہیں آرمی ہاؤس میں محبوس کر دیا جائے۔ جنرل عثمانی کو ہر صورت میں ائرپورٹ تو پہنچنا ہی تھا۔ وہ وردی پہن چکے تھے، ائرپورٹ روانہ ہو گئے۔

جب وہ راستے میں تھے تو انہیں جنرل محمود کا دوبارہ ٹیلیفون آیا۔ جنرل عثمانی نے پوچھا کہ انہوں نے اب تک کیا اقدامات کیے ہیں بتایا گیا، کچھ بھی نہیں، وہ (جنرل پرویز مشرف کے اترنے اور ان کے مقدر کے فیصلے کے انتظار میں تھے۔ اس یقین دہانی کے بعد کہ جنرل عثمانی ان کے ساتھ ہیں، انہوں نے راولپنڈی میں کارروائی کا آغاز کیا۔ جنرل عثمانی نے ملیر گیریژن کے جنرل افسر کمانڈنگ، میجر جنرل افتخار کو فون کیا اور انہیں ہدایت کی کہ وہ فوری طور پر ائرپورٹ پہنچیں، اپنے فوجی دستوں کو حرکت میں لائیں، ائر ٹریفک کنٹرول کا چارج سنبھال لیں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ جنرل پرویز مشرف بحفاظت اتر آئیں۔

ائرپورٹ پہنچنے پر جنرل مظفر عثمانی نے دیکھا کہ انسپکٹر جنرل پولیس، رانا مقبول اور ڈپٹی انسپکٹر جنرل اکبر آرائیں پہلے سے وہاں موجود ہیں۔ جنرل عثمانی نے سنا کہ آئی جی اپنے نائب کو ہدایت دے رہے ہیں کہ وہ ائرپورٹ کا کنٹرول سنبھال لیں۔ ڈی آئی جی کو اس میں تامل تھا۔ جنرل عثمانی کو دیکھ کر انہوں نے سمجھا کہ فوجی دستے بھی ائرپورٹ کے ارد گرد موجود ہیں اور اگر پولیس نے کنٹرول سنبھالنے کی کوشش کی تو پولیس اور فوج میں جھڑپ نہ ہو جائے۔

حقیقت یہ ہے کہ اس وقت فوجی دستے ائرپورٹ پر موجود نہیں تھے۔ جنرل عثمانی نے آئی جی کی بات سن کر دوبارہ میجر جنرل افتخار سے رابطہ کیا اور انہیں جلد از جلد ائرپورٹ پہنچنے کی ہدایت کی۔ اس کے فوراً بعد وہ ائرپورٹ پہنچ گئے اور انہوں نے خود ائر ٹریفک کنٹرول ٹاور کا انتظام سنبھال لیا۔ ائر ٹریفک کنٹرولر، یوسف عباس نے بتایا کہ پستول نکالا، ائر کنٹرولر کی کنپٹی پر رکھا اور اسے ہدایت کی کہ وہ پائلٹ سے ان کی بات کروائیں۔

دریں اثنا جنرل افتخار کے سٹاف افسر نے جنرل عثمانی کے پاس جاکر انہیں اطلاع دی کہ طیارے کو نواب شاہ بھیجنے کی ہدایات دی گئی ہیں۔ جنرل عثمانی ایک دن پہلے ہی حیدرآباد اور نواب شاہ کے یونٹوں کا معائنہ کر کے آئے تھے اور انہیں ٹھیک ٹھیک معلوم تھا کہ کون سا یونٹ کہاں مقیم ہے۔ انہوں نے رینجرز کے ایک یونٹ کے ونگ کمانڈر اور ایک انفنٹری بٹالین کے کمانڈنگ افسر سے رابطہ کیا اور انہیں ہدایت کی کہ وہ فوری طور پر نواب شاہ پہنچیں، ائرپورٹ کا کنٹرول سنبھالیں اور جنرل مشرف کے بحفاظت اترنے کا انتظام کریں۔ وہ فوری طور پر ائرپورٹ روانہ ہو گئے۔ فاصلہ زیادہ تھا، وہ کتنی ہی تیز رفتاری سے چلتے، ان کا بروقت ائرپورٹ پہنچنا محال تھا۔ سول پولیس پہلے ہی ائرپورٹ کا گھیرا ڈال چکی تھی اور انہیں حکم تھا کہ جنرل پرویز مشرف کو ائرپورٹ اترتے ہی گرفتار کر لیں۔

کراچی ائرپورٹ پر میجر جنرل افتخار ائر ٹریفک کنٹرول ٹاور میں کھڑے تھے اور فلائٹ کنٹرول کے ذمہ دار افسر کو ہدایت دے چکے تھے کہ وہ پائلٹ سے ان کی بات کرائے۔ جب پائلٹ ثروت حسین سے ان کی بات ہوئی تو پتہ چلا کہ کنٹرول ٹاور سے انہیں دوبئی جانے کی ہدایت کی گئی تھی۔ انہوں نے کہا تھا کہ ان کے جہاز میں اتنا ایندھن موجود نہیں ہے کہ وہ دوبئی جاسکیں اور، وہ جہاز کے مسافروں کی جانوں کا خطرہ مول نہیں لے سکتے تھے۔ بالآخر انہیں نواب شاہ جانے کو کہا گیا تھا اور وہ نواب شاہ جا رہے تھے۔

جنرل افتخار نے پائلٹ کو بتایا کہ وہ واپس آئیں اور کراچی ائرپورٹ پر اتریں۔ پائلٹ نے جنرل مشرف کو اطلاع دی۔ جنرل مشرف خود کاک پٹ میں آئے اور ائر ٹریفک کنٹرولر سے کہا کہ وہ جنرل افتخار سے ان کی بات کرائیں۔ انہوں نے جنرل افتخار کی آواز پہچان لی لیکن مزید احتیاط کے طور پر ان سے اپنے کتوں کے نام پوچھے، ”ڈاٹ اینڈ بڈی سر“ ۔ جنرل افتخار نے جواب دیا۔ جنرل مشرف مطمئن ہو گئے۔ انہوں نے پوچھا کہ جنرل مظفر عثمانی کہاں ہیں۔

جنرل افتخار نے بتایا کہ وہ بھی ائرپورٹ پر موجود ہیں۔ تمام حالات مکمل کنٹرول میں ہیں اور وہ اطمینان کے ساتھ کراچی اتر سکتے ہیں۔ جنرل مشرف نے پائلٹ سے کراچی اترنے کو کہا۔ جب جہاز کراچی ائرپورٹ پر اترا تو اس میں بمشکل چھ سات منٹ کا ایندھن باقی تھا۔

اس کمرشل فلائٹ میں پچاس بچے بھی تھے جن کا تعلق درجن بھر ممالک کے زیراہتمام چلنے والے سکولوں سے تھا۔ کئی کا تعلق پاکستان کے طبقہ اشرافیہ سے تھا۔ وزیراعظم عمران خان کا بھانجا اور ممتاز اینکر اور تجزیہ نگار حفیظ اللہ نیازی کا بیٹا بھی شامل تھا۔ اس کالم نگار نے جنرل مشرف کے ان بچوں اور دیگر مسافروں کے ساتھ گروپ فوٹو حاصل کر کے عالمی میڈیا میں شائع کرائے تھے ان بچوں اور ان کے ہمراہ اساتذہ کا تعلق امریکہ، کینیڈا، برطانیہ، جرمنی، فرانس، سوئٹزرلینڈ، سپین، جنوبی افریقہ، جاپان، کوریا اور پاکستان سے تھا۔

23 طلبہ اور ان کے تین اساتذہ کا تعلق امریکن سکول لاہور سے تھا۔ 20 طلبہ اور ان کے ہمراہ چار اساتذہ انٹرنیشنل سکول کراچی سے متعلق تھے۔ طلبہ کے یہ گروپ جنوبی ایشیا کے سکولوں کی ایسوسی ایشن کے زیراہتمام پیراکی کے مقابلوں میں شرکت کے لیے گئے تھے اور کئی سونے کے تمغے اور ٹرافی جیت کر آئے تھے۔ وہ جنرل مشرف سے گھل مل گئے اور ان سے آٹوگراف لیتے رہے۔

جہاز رن وے پر رکا، انجن بند ہوئے، سیڑھیاں لگائی گئیں، دروازے کھولے گئے۔ سب سے پہلے جنرل مشرف جہاز سے نمودار ہوئے، انہوں نے نیچے دیکھا تو جنرل مظفر حسین عثمانی دو تین مسلح افسروں کے ساتھ کھڑے تھے۔ وہ نیچے اترے۔ جنرل عثمانی نے انہیں سیلوٹ کیا اور آگے بڑھ کر ہاتھ ملایا، جنرل مشرف گومگو کی حالت میں تھے۔ انہوں نے جنرل عثمانی کو بتایا کہ ان کی اہلیہ بھی ہمراہ ہیں۔ کیا وہ بھی طیارے سے باہر آ سکتی ہیں؟ جنرل عثمانی نے اثبات میں جواب دیا اور اپنے سٹاف افسر میجر ظفر کو ہدایت کی کہ وہ ان کی اہلیہ کو لے کر آئیں۔

جنرل عثمانی جنرل مشرف کو لے کر وی آئی پی لاونج میں آ گئے۔ جنرل مشرف پہلے واش روم میں گئے۔ واپس آئے اور نشست سنبھال لی تو جنرل عثمانی نے مذاقاً کہا ”مجھے ہدایت ملی ہے کہ آپ کو گرفتار کر لیا جائے“ ۔ جنرل مشرف پریشان ہو گئے۔ جنرل عثمانی مسکرائے اور بولے کہ وہ بے فکر رہیں کہ حالات قابو میں ہیں۔ دونوں باہر آئے۔ جنرل مشرف اپنی گاڑی میں بیٹھے۔ جنرل عثمانی نے ان کے ساتھ والی سیٹ سنبھالی۔ وہ جب 5 کور ہیڈکوارٹر کی طرف روانہ ہوئے تو گاڑی پر چیف آف آرمی سٹاف کا جھنڈا لہرا رہا تھا۔ راستے میں جنرل عثمانی نے چیف آف جنرل سٹاف جنرل عزیز اور کمانڈر 10 کور سے رابطہ کیا اور انہیں بتایا کہ جنرل مشرف بخیریت اتر گئے ہیں۔

10 کورکمانڈر جنرل محمود اور وائس چیف آرمی سٹاف لیفٹیننٹ جنرل احمد جان اور کرزئی نے جنرل ضیاء الدین کو حراست میں لیتے ہوئے کہا ”جنرل پرویز مشرف ابھی بھی چیف آف آرمی سٹاف ہیں“ جنرل ضیاء الدین کو ویسٹرج راولپنڈی میں تھری بریگیڈ میں لے جایا گیا جہاں وہ 660 دنوں تک قید تنہائی میں رہے اور اس دوران ان کا بیرونی دنیا سے کوئی رابطہ نہ رہا۔ پانچ مہینوں تک انہیں کوئی اخبار دیا گیا نہ رسالہ۔ ریڈیو نہ ٹیلی ویژن، پانچ ماہ کے بعد ان کی اہلیہ اور بیٹے کو ان سے ملنے کی اجازت دی گئی۔

یہ تھے جنرل ایم ایچ عثمانی جنہوں نے جنرل مشرف کی ناروا طریقے سے کی جانے والی برطرفی کا ڈرامہ ناکام بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا کیا کھویا کیا پایا وہ اب سب کے سامنے ہے رخصت ہوئے تو 35 سال پرانی مزدا پر سوار تھے کوئی ڈرائیور یا معاون بھی ساتھ نہیں تھا ان کا تقابل سی پیک اتھارٹی کے سربراہ جنرل عاصم سلیم باجوہ کے خاندان کی اربوں کی عالمی سطح پر پھیلی جائیدادوں سے کیا جا رہا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).