نواز شریف پر غداری کا مقدمہ


پاکستان مسلم لیگ کے قائد اور سابق وزیر اعظم نے چند حاضر سروس اور ریٹائرڈ افراد کے خلاف اپنی حالیہ تقاریر میں الزامات عائد کیے ہیں ان سے ملک میں ایک اضطرابی کیفیت پیدا ہو گئی ہے۔ ان کی تقاریر کے چند حصوں کو بنیاد بنا کر ان پر اور وزیراعظم آزاد کشمیر سمیت مسلم لیگ نون کے دیگر عہدیداروں کے خلاف غداری کا مقدمہ درج کر دیا گیا ہے، جس کا اظہار چند روز قبل وفاقی وزیر ہوابازی غلام سروری اپنے ایک اخباری بیان میں کرچکے تھے۔

مگر بقول وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چودھری کہ مقدمے کے اندراج پر وزیر اعظم عمران خان نے ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔ بغاوت کے اس مقدمے پر مسلم لیگ نون نے شدید رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حکومتی وزراء تصویر کو دوسرا رخ دے کر خود اداروں کو متنازعہ بنا رہے ہیں مسلم لیگ کی جنگ کسی کے خلاف نہیں ہے۔ مگر حکومتی ترجمان نواز شریف اور ان کی صاحبزادی کو غدار اور بھارتی ایجنٹ ثابت کرنے کی مہم میں سرگرم ہیں۔

قومی سیاسی تاریخ کا جائزہ لیں تو غداری کے الزامات لگانے کا سلسلہ نیا نہیں۔ ملک کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان نے حسین شہید سہروردی کو غدار قرار دیا، پہلے طالع آزما فیلڈ مارشل ایوب خان نے بانی پاکستان کی ہمشیرہ کو غدار قرار دیا تھا۔ خان عبدالغفار خان اور نیشنل عوامی پارٹی کے رہنماؤں پر غداری کے مقدمات قائم ہوئے تھے۔ نواز شریف بے نظیر بھٹو کو سیکورٹی رسک قرار دیتے تھے اور بلاول بھٹو عوامی جلسوں میں نواز شریف کو مودی کا یار کہہ کر مخاطب کیا کرتے تھے۔

وزیر اعظم عمران خان نے بھی ایک نجی چینل پر اپنے حالیہ انٹرویو میں نواز شریف کی سرگرمیوں کے پیچھے بھارت کا ہاتھ قرار دیا ہے۔ اسی طرح جب نواز شریف کے وزارت عظمیٰ کے تیسرے دور میں تحریک انصاف نے دھرنا دیا اور احتجاجی جلسے کیے تھے تو اس وقت مسلم لیگ نون بھی تحریک انصاف کی سرگرمیوں کو ملک دشمن اور سی پیک مخالف عناصر کا آلۂ کار قرار دیتی تھی۔

جہاں تک حکومتی مخالف اتحاد کا تعلق ہے، اس کا بنیادی نکتہ حکومت مخالفت ہے۔ اتحاد کی سربراہی بھی بادل نخواستہ مولانا فضل الرحمٰن کو سونپی گئی ہے کہ اس وقت واحد ان کی ہی جماعت ہے جو عوامی قوت کا مظاہرہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے، جس کا عملی مظاہرہ ختم نبوت کے حالیہ جلسوں میں دیکھا گیا ہے۔ پی ڈی ایم کے حوالے سے ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ آیا یہ اتحاد سیاسی ہے یا انتخابی؟ اگر یہ اتحاد صرف سیاسی ہے تو اگلے انتخابات میں یہ ہی جماعتیں ہوں گی جو اقتدار کے حصول میں ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ کر رہی ہوں گی اور اگر اتحاد انتخابی ہے تو وہی جوتیوں میں دال بٹنے کا منظر دیکھنے کو ملے گا جو اس سے پہلے ہم دیکھتے چلے آرہے ہیں، کیونکہ ہم نے تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا نہ ہی عصری تقاضوں کو سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ حزب اختلاف کو غربت، مہنگائی اور بے روزگاری کے دلدل میں دن بہ دن دھنستی عوام کی بے چینی اور پریشانی کا ادراک کرنا چاہیے اور مخالفت برائے مخالفت کی بجائے آئندہ کے لیے ٹھوس اور جامع لائحہ عمل پیش کرنا چاہیے۔

مہنگائی اور کم تنخواہوں پر بے چینی اور اضطراب کا حال یہ ہے کہ دو روز قبل گورنمنٹ ایمپلائز الائنس نے اسلام آباد میں اپنے مطالبات کی منظوری کے لیے ایک بڑا اجتماع کیا، جس میں کوئٹہ سے لے کر پشاور تک ہزاروں افراد شریک ہوئے اور مطالبات منظور نہ ہونے کی صورت میں پارلیمنٹ کے سامنے دھرنا دینے کا اعلان کیا۔ ارباب اقتدار و اختیار کے لیے یہ ایک سوچنے کا مقام ہے کہ ایک طویل عرصے بعد سیاسی مطالبات کی بجائے عوامی مسائل پر مزدوروں کا ایک بہت بڑا اجتماع منعقد ہوا ہے۔

جس کا بنیادی سبب یہ بنا کہ ہر حکومت ہر سال سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں خصوصاً اور غیر سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں عموماً اضافے کا اعلان کرتی ہے، مگر قومی تاریخ میں شاید پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ حالیہ بجٹ میں تنخواہوں میں اضافہ نہیں ہوا ہے۔ جب کہ مہنگائی میں اضافے کی شرح بے لگام ہے جس پر حکومت کا کنٹرول عملاً صفر ہے۔ دوسرا مطالبہ ملازمین کی ترقیوں کا ہے جس کا موجودہ طریقہ کار شفاف نہیں ہے اور تیسرا مطالبہ تنخواہوں اور ترقیوں کے ساتھ الاؤنسز میں بھی اضافے کا ہے۔

ایک عرصہ سے یہ افواہیں بھی گردش کر رہی ہیں کہ ریٹائرمنٹ کے لئے عمر کی حد 55 سال تک کردی جائے گی اور ممکن ہے کہ ریٹائرمنٹ کے بعد ملازمین کو بعض سہولیات سے بھی محروم کر دیا جائے۔ لیکن موجودہ حکومت نے حسب روایت ابہام کا رویہ اختیار کیا ہوا ہے اور بجائے مہنگائی کی شرح میں اضافے کے تناسب سے تنخواہوں میں اضافہ کرنے کے، مزدور رہنماؤں سے سنجیدہ مذاکرات کرنے کی بھی کوشش نہیں کی ہے۔ جب کہ مرکزی سیکریٹریٹ، پولیس اور دیگر کئی اداروں کی تنخواہیں خاموشی سے بڑھا دی گئیں ہیں۔

کالم کی آخری سطور تحریر کرنے تک حکومت اور گورنمنٹ ایمپلائز الائنس کے درمیان مذاکرات کامیاب ہو گئے اور سرکاری ملازمین نے احتجاج ختم کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ لیکن جیسا کہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے کہ یہ کوئی اقتدار اور حکومت کے حصول کے لیے اجتماع نہیں ہے اور نہ ہی سیاسی مطالبات کا کھیل ہے۔ یہ سیدھا سیدھا دو اور دو چار کی بات ہے کہ ملازمین کی تنخواہوں میں مہنگائی میں اضافے کی شرح کے تناسب اضافہ کیا جانا چاہیے، ترقیوں کا شفاف نظام متعارف کروانا چاہیے اور ریٹائرمنٹ پر واضح اور منصفانہ پالیسی آنی چاہیے۔ ابھی تو اس احتجاج میں نجی اداروں کا مزدور شامل نہیں ہوا ہے اور پاکستان ورکرز کنفیڈریشن نے اس احتجاج میں اپنا حصہ نہیں ڈالا ہے۔

اگر حکومت کی جانب سے اگر مسائل کے حل کے لیے سنجیدہ کوشش نہ کی گئی تو ملک بھر کے ساڑھے چھ کروڑ مزدور سڑکوں پر آ گئے تو تخت گرانے اور تاج اچھالے جانے کے مناظر جلد دیکھنے کو ملیں گے۔ حکومت کے پاس شوگر، تعمیرات اور دیگر شعبوں میں سبسڈی دینے کے لیے تو بہت پیسہ ہے لیکن پیداواری عمل میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والے مزدور کی اجرت کے لیے کہا جاتا ہے کہ خزانہ متحمل نہیں ہو سکتا۔ سیاسی جماعتیں ہوں یا ارباب اقتدار و اختیار، اس عوامی مسائل کو سمجھنے کے معاملے میں بینائی اور سماعت کی صلاحیتوں سے محروم ہیں۔ قتیل ؔ شفائی نے تو عشق کے بارے میں کہا تھا کہ :

مجھ کو دے دو ایسی آنکھیں، جن میں بینائی نہ ہو
مگر مصرع ہمارے حکمرانوں پر صادق آتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).