افغانستان کو دو طرفہ تعلقات اور عوامی روابط مستحکم بنانے کا موقع


افغانستان کے قومی مصالحت کی اعلیٰ کونسل کے سربراہ کی حیثیت سے پہلی بار ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے وزیراعظم عمران کی دعوت پر پاکستان کا تین روزہ دورہ کیا۔ نورخان ائربیس پر وزیراعظم عمران خان کے مشیر برائے تجارت عبدالرزاق داؤد، افغانستان کے لیے پاکستان کے خصوصی نمائندہ محمد صادق، افغانستان میں پاکستان کے سفیر منصور احمد خان اور وذرات خارجہ کی افغانستان ڈویژن کے ڈائریکٹر جنرل آصف میمن نے عبداللہ عبداللہ اور ان کے وفد کا استقبال کیا۔

عبداللہ عبداللہ افغانستان کے پہلے چیف ایگزیکٹیو، سابق افغان وزیر خارجہ، 2014 اور 2019 میں صدارتی امیدوار تھے، 2014 میں اشرف غنی پر دھاندلی کے الزامات عاید کیے اور نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا، جس کے بعد امریکا کی جانب سے سیاسی فارمولے کے تحت ایک نیا عہدہ چیف ایگزیکٹیو کا تخلیق کیا گیا۔ 2019 کے افغان صدارتی انتخابات میں ایک بار دھاندلی کے الزامات کے بعد نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کیا اور ایک ہی دن اشرف غنی و عبداللہ عبداللہ نے علیحدہ علیحدہ تقریب میں صدارت کا حلف اٹھایا، تاہم امریکی مداخلت پر عبداللہ عبداللہ صدارت سے دست بردار ہوئے اور انہیں سیاسی معاہدے کے تحت افغانستان کا اہم ترین عہدہ اور ان کے اتحادیوں کو حکومتی عہدے ملے۔

خیال رہے کہ 1996 میں کابل میں برہان الدین ربانی کی حکومت میں وزارت دفاع کے ترجمان جبکہ افغان طالبان کے ہاتھوں ان کی حکومت کی معزولی کے بعد وزیر خارجہ کے طور پر کام کرتے رہے۔ اس وقت قومی مصالحت کی اعلیٰ کونسل کے سربراہ حیثیت سے بین الافغان مذاکرات کو کامیاب بنانے کے لئے اہم کردار ادا کر رہے ہیں، انہوں نے اشرف غنی پر سیاسی دباؤ بھی ڈالا تھا کہ دوحہ معاہدے پر عمل کیا جائے اور افغان طالبان کے اسیروں کو رہا کیا جائے۔ لویہ جرگہ میں ہائی رسک اسیروں کی رہائی کے لئے عبداللہ عبداللہ نے کلیدی کردار ادا کیا اور دوحہ میں بین الافغان مذاکرات کی پہلی افتتاحی تقریب ممکن ہوپائی۔

ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کا دورہ پاکستان نہایت اہمیت کا حامل قرار دیا گیا کیونکہ دوحہ میں افغان طالبان کے ساتھ بین الافغان مذاکرات کے حوالے سے افغانستان کے اعلیٰ اختیارتی ٹیم کا رابطہ گروپ، ابتدائی ایجنڈے کے نکات طے کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے اپنے سہ روزہ دورے میں صدر، وزیراعظم، وزیرخارجہ، چیئرمین سینیٹ اور اسپیکر قومی اسمبلی سمیت پاکستانی اعلیٰ حکام و وفودسے ملاقاتیں کیں اور افغان مفاہمتی عمل کے حوالے سے حکومتی فور م تھنک ٹینک انسٹی ٹیوٹ آف اسٹرٹیجک اسٹڈیزمیں بھی شرکت کی۔

افغان مفاہمتی کونسل کے سربراہ کے دورے سے دونوں ممالک میں پیدا کی جانے والی غلط فہمیوں کو دور کرنے میں مدد ملنے کا واضح امکان ظاہر کیا گیا ہے۔ ڈاکٹرعبداللہ نے دفتر خارجہ سے وابستہ تھنک ٹینک انسٹی ٹیوٹ آف اسٹرٹیجک اسٹڈیز اسلام آباد کی تقریب اظہار کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان اب بدل رہا ہے، 1990 یا 2001 والا نہیں رہا۔ منعقدہ سیمینار سے چیئرمین افغان مفاہمتی کونسل ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے خطاب مزید کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان برادرانہ تعلقات ہیں، ابھرتے ہوئے نئے مستقبل کے موقع پر پاکستان کا دورہ کر رہا ہوں، افغانستان او (افغان) طالبان کے درمیان مذاکرات اہم موقع ہے، امن کا قیام دونوں ممالک کے لئے اہم ہے۔

پاکستان نے اپنے اصولی موقف کو ایک بار دوہراتے ہوئے افغانستان میں تشدد کی کمی اور بین الافغان مذاکرات کو کامیاب کرنے کے لئے بین الافغان مذاکرات کو سنہرا موقع قرار دیا۔ پاکستان کی اعلیٰ سول وعسکری قیادت افغانستان میں پائدار امن کی خواہش مند ہے کیونکہ غیر مستحکم مملکت کی وجہ سے وطن عزیز میں انتہا پسندی و دہشت گردی سے ناقابل تلافی نقصان ہزاروں پاکستانیوں کی شہادت کی صورت میں ہوا تو دوسری جانب بے امنی کی وجہ سے معیشت کو نقصان پہنچا تو دیگر مد میں اربوں روپوں کا مالی نقصان بھی حکومت کو برداشت کرنا پڑا۔

پاکستان کے لئے سب سے زیادہ اہمیت کا حامل دوحہ میں ہونے والے بین الافغان مذاکرات ہیں، افغانستان کے مستقبل کا فیصلہ خود افغان عوام کے ہاتھ میں ہے، امن کے اس موقع سے فائدہ اٹھانے کے لئے تمام فریقین کو فراخ دلی اور افغان روایات کے مطابق عمل کرنا ہوگا۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستان، افغانستان پر اپنی ملکیت نہیں جتانا چاہتا بلکہ ہمسایہ ملک کے ساتھ دوستی کا خواہاں ہے۔ انہوں نے مفاہمت کے لیے سرگرم افغان قیادت کو یقین دلایا کہ پاکستان مذاکرات کے نتیجے میں طے پانے والے سمجھوتے کی حمایت کرے گا۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ آج عالمی برادری افغان مسئلے کے سیاسی حل کی حمایت کر رہی ہے اور افغان قیادت کو اس نادر موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے افغانستان میں مستقل اور دیرپا امن کی کاوشوں کو منطقی انجام تک پہنچانا چاہیے۔

افغان طالبان اور مفاہمتی عمل گروپ کے رابطہ گروپ کے درمیان ابتدائی ایجنڈا بڑی باریکی سے طے کیا جا رہا ہے۔ ابتدائی طور پر کابل انتظامیہ چاہتی ہے کہ مذاکرات شروع ہوں تو افغان طالبان جنگ بندی کا بھی اعلان کریں، کیونکہ دیکھنے میں یہی آیا ہے کہ جب سے دوحہ میں مذاکراتی عمل شروع ہوا ہے فریقین کے درمیان جھڑپوں میں شدت آتی جا رہی ہے۔ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں ہے، لیکن افغان طالبان کا کہنا ہے کہ وہ نظام اسلام کا مطالبہ کسی جماعت کی حیثیت سے نہیں بلکہ افغان عوام کی روایات و خواہش کی بنا پر کر رہے ہیں، ان کا مزید یہ بھی کہنا ہے کہ اسلامی نظام کے نفاذ کے مطالبے کو فروعی مسئلہ نہ سمجھا جائے۔ فریقین اس حوالے سے کسی جامع مذاکرات پر پہنچنے کے لئے مسلسل رابطے میں ہیں اور اسی حوالے سے افغان مصالحتی کونسل کے سربراہ کی پاکستان آمد اہم پیش رفت قرار دی جا رہی ہے۔

ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کا تعلق شمالی اتحاد سے ہے، عموماً انہیں پاکستان مخالف افغان شخصیت کے طور پر لیا جاتا رہا ہے، تاہم پاکستان کی جانب سے افغانستان کے لئے خصوصی معاون محمد صادق کی تعیناتی کے بعد توقع تھی کہ شمالی اتحاد کے سربراہ کے ساتھ بہتر تعلقات کا آغاز جلد ممکن ہوگا۔ اگست 2016 میں چیف ایگزیکٹو کی حیثیت سے پاکستان دورے کی دعوت دی گئی، لیکن ایک کابل بم دھماکے کے بعد انہوں نے اپنا دورہ ملتوی کر دیا تھا۔

عمومی طور پر شمالی اتحاد و ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کا جھکاؤ اور رجحان بھارت کی جانب ہی رہا ہے، 2011 میں بھارت کے ایک اسٹرٹیجک معاہدے میں بھارت نے باور کرایا تھا کہ افغان طالبان کو بزور طاقت کچل دیا جائے گا، لیکن بھارت کی کمک کے باوجود کابل انتظامیہ افغان طالبان کو زیر کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔ عالمی مبصرین کی رائے میں یہ دورہ شمالی اتحاد اور پاکستانی ریاست کے درمیان تلخیاں دور کرنے میں اہم سنگ میل ثابت ہو سکتا ہے۔

افغانستان اس وقت حقیقی معنوں میں ایک ایسے دو ر سے گزر رہا ہے، جب کہ امریکا 20 برس کی بے معنی جنگ میں شکست کے بعد اپنے باقی ماندہ فوجی واپس بلا رہا ہے اور افغانستان سے مکمل انخلا کے لئے دوحہ میں افغان طالبان سے معاہدہ کرچکا ہے۔ صدر ٹرمپ انتخابات میں افغان امن کے حوالے سے کریڈٹ لیناچاہتے ہیں کہ ان کے انتخابی منشور کے مطابق عمل ہورہا ہے۔ گو کہ امریکا کو واضح شکست ہوئی ہے اور افغانستان میں کھربوں ڈالر کے نقصان کے بعد وہ مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکا جس کے لئے امریکی اسٹیبلشمنٹ نے منصوبہ بندی کی تھی۔

بھارت کو خطے میں کلیدی کردار ادا کرانے کے لئے امریکی حکام نے بھارت کے ساتھ کئی ایسے معاہدے کیے جو پاکستانی مفاد کے لئے غیر جانبدارنہ نہ تھے، تاہم وقت کے ساتھ ساتھ صدر ٹرمپ نے جنوبی ایشیا کے لئے اپنی پالیسی میں پہلے پاکستان کے لئے سخت رویہ رکھا تھا، اسے تبدیل کیا اور امریکا سمیت غیر ملکی فوجیوں کی واپسی کے لئے محفوظ راستے کے طور پاکستان سے مدد کے طالب ہوئے، ریاست نے خطے و دنیا کے عظیم مفاد کے لئے سہولت کار بن کر اپنے محدود وسائل و اثر رسوخ کو استعمال کیا اور افغانستان کی جانب سے سیکورٹی فورسز پر حملوں، کابل انتظامیہ کی جانب سے الزامات کے باوجود فریقین کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لئے موثر کردار ادا کیا، جس کا اعتراف امریکا ہی نہیں بلکہ عالمی برداری نے بھی کیا، جس کے نتیجے میں دوحہ مفاہمتی معاہدہ طے پایا۔

افغانستان اور پاکستان کے درمیان سفارتی و عسکری سطح پر وفود کے تبادلے میں خطے میں امن و باہمی اعتماد سازی کے لئے مختلف اقدامات اٹھانے پر توجہ دی جاتی ہے، پاکستان پہل کرتے ہوئے کابل انتظامیہ کے ہر جائز مطالبے پر اخلاقی طور پر عمل درآمد کرتا چلآ رہا ہے، افغان مہاجرین کا مسئلہ ہو یا پھر دونوں ممالک کے درمیان سرحد پر تجارتی آمد روفت، ریاست نے امن کے خاطر مثبت اقدامات اٹھانے میں کوئی کسر نہیں رکھی۔ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کے دورہ افغانستان سے قبل ہی وزیراعظم نے دونوں ممالک کے درمیان تجارت کے فروغ کے لئے بارڈر پر مارکیٹ بنانے کا اعلان کیا، جب کہ افغان مصالحتی کونسل کے سربراہ کی پاکستان موجودگی میں ہی پاک، افغان سرحد پر پیدل نقل و حرکت کے لئے نرمی کرنے کا اعلان کیا۔

تفصیلات کے مطابق پاکستان اورافغانستان کے درمیان سرحدی کراسنگز ہفتے کے چار دن کھولنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس ضمن میں ذرائع نے بتایا کہ پاک افغان سرحدی راستوں سے پیدل کراسنگ کرنے والوں کو یہ سہولت دی گئی۔ فیصلے کے تحت منگل، بدھ، جمعرات اور ہفتہ کو پیدل سرحد کراس کرنے کی اجازت ہوگی۔ اس ضمن میں کیے جانے والے فیصلے کے تحت یہ سہولت خیبرپختونخوا میں افغان کراسنگ پوائنٹس پر دستیاب ہو گی۔ پاکستان کے اس اقدام سے دونوں ممالک کی سرحدی علاقوں میں رہنے والوں کے لئے آسانیاں پیدا ہوں گی اور علاقائی تجارت کو بھی فائدہ ملنے کی امید ہے۔

اعلیٰ سطح کے افغان وفد کی پاکستان آمد دونوں ممالک کے درمیان اعتماد سازی کی بحالی میں پل کا کردار ادا کر سکتا ہے، پاکستان نے ایک بار ثابت کیا کہ ان کا جھکاؤ یک طرفہ طور پر کسی خاص فریق کے لیے نہیں ہے، افغان وفد کے دورے سے بھارت کی جانب سے پھیلائی جانے والی بدگمانیوں و غلط فہمیوں کا ازالہ بھی ممکن ہوگا اور مثبت تعلقات کا اثر بین الافغان مذاکرات پر پڑے گا، جس سے افغان دھڑوں کے درمیان تشدد کے خاتمے و جنگ بندی کے لئے باہمی آہنگی و اعتماد سازی کی بحالی بھی ممکن ہو سکے گی۔ توقع ہے کہ بین الافغان مذاکرات سے افغانستان میں افغان عوام کی منشا کے مطابق نظام و انصرام کے قیام سے امن کا گم شدہ دور واپس آسکے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).