حکومت بند گلی میں۔ ۔ ۔


ایک عام شہری کی حیثیت سے حکومت سے اس کی کارکردگی کی بنیاد پر سخت خائف اور ناراض ہوں۔ زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جس کے متعلق یہ کہا جائے کہ یہاں پر حکومتی کارکردگی ماضی کے حکومتوں کے مقابلے میں بہتر ہے۔ سوائے ایک مقام پر جہاں حکومتی وزیر، مشیر اور قصیدہ خواں نیشنل میڈیا پر فخریہ یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ حکومت اور فوج ایک پیج پر ہیں۔ اب یہ سمجھ نہیں آتی کہ یہ وزیر اپنی نالائقی اور نا اہلی میں فوج کو کیوں شامل کر رہے ہیں۔ اور کوئی ان کو روکنے والا کیوں نہیں ہے۔ زمینی حقائق سے دور اور محض بیان بازی کی حد تک موجودہ طرز حکمرانی اس قابل نہیں ہے کہ کوئی بھی اس میں شراکت کا سوچے یا پھر دعویٰ کرسکے۔

پہلے بھی عرض کی تھی اور ایک بار پھر عرض ہے کہ کرپشن کے الزامات کے ساتھ عدالتوں میں پیش ہوتی ہوئی بکھری ہوئی اپوزیشن کو ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونے کا موقع بھی حکومت کی مرہون منت ہے۔ پہلی بار ایسا ہوا کہ حکومت نے اپنے اقدامات کی بدولت گیارہ سیاسی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونے کا موقع دیا جس کے نتیجے میں پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ وجود میں آئی اور حکومت کے لیے بری خبر یہ کہ مولانا فضل الرحمن کو متفقہ طور پر اس اتحاد کا صدر بنا دیا گیا۔ ایک زبردست اسٹریٹ پاور کی حامل منظم سیاسی جماعت کے سخت اور غیر لچکدار موقف رکھنے والے سربراہ کو گیارہ سیاسی جماعتوں کے اتحاد کا سربراہ بنا کر گویا حکومت کو پیغام دیا گیا کہ اس بار رعایت نہیں ہوگی۔

اور اس بار عملی طور پر اتحاد میں شامل بڑی سیاسی جماعتوں نے اپنے احتجاجی جلسوں اور ریلیوں کے شیڈول کا اعلان کرتے ہوئے اپنے ورکرز سے رابطہ مہم شروع کردی ہے۔ اور توقع کی جا رہی ہے کہ حکومتی کارکردگی سے تنگ آئے ہوئے عوام کی ایک بڑی تعداد ان جلسوں میں شرکت کرے گی۔ غربت میں اضافہ، مہنگائی اور بے روزگاری، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں آئے روز اضافہ سے تنگ عوام کو اب آٹے اور چینی کا حصول بھی ارزاں نرخوں پر ممکن نظر نہیں آ رہا۔ ایسے میں تبدیلی کے دعویداروں کو سوچنا ہوگا کہ آخر عوام کس بنیاد پر اپوزیشن کا موقف رد کرے گی اور کیوں کرے گی۔ حکومت نے اگر اپوزیشن کی احتجاجی سیاست کو ناکام کرنا ہے تو اس کو عوام کو ڈیلیور کرنا ہوگا۔ کارکردگی دکھانی ہوگی۔ نئے پاکستان کی نعرے کو عملی طور پر ثابت کرنا ہوگا۔

مگر عوام کو ریلیف دینے سے گریزاں حکومتی وزیر سارا دن میڈیا پر اپوزیشن کی کردار کشی کرتے نظر آتے ہیں۔ پتہ نہیں کون ان کو گائیڈ لائن دے رہا ہے اور کیوں دے رہا ہے۔ کوئی ان کو سمجھائے کہ اس اپوزیشن کی کردار کشی کر کے ہی تو 2018 کے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے والوں کے لیے یہ وقت دوبارہ سے الزام تراشیوں کے دہرانے کا نہیں بلکہ ان الزامات کے برعکس اقدامات کرنے کا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ تبدیلی سرکار نے عوام سے جس احتساب کے نام پر مینڈیٹ لیا تھا اس کے تحت پسند و ناپسند سے قطع نظر بلاتفریق احتساب کا عمل ہوتا۔

مگر شاید ایسا نا ہوسکا اور اپوزیشن عوام میں یہ تاثر دینے میں کامیاب رہی کہ نیب حکومتی ایما پر اپوزیشن کی کردار کشی اور ان کو کنٹرول کرنے کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔ جے یو آئی کے مرکزی رہنما حافظ حسین احمد نے کہا کہ نیب کے معاملے پر پانی سر کے اوپر سے گزر چکا ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ نیب کا احتساب کیا جائے۔

اپوزیشن کا نیب کے خلاف متفقہ بیانیہ نیب پر ضرور اثر انداز ہوگا۔ کوئی مانے یا نا مانے مگر اپوزیشن کے الزامات کے تحت نیب کی کارکردگی متاثر ہوگی اور نیب نے اگر اپوزیشن کو مطمئن کرنے کے لیے اور عوام کو تاثر دینے کے لیے کسی بھی حکومتی وزیر کے خلاف انکوائری کھول دی یا پھر پہلے سے بند فائلوں کی مٹی جھاڑ دی تو شاید حکومتی اہم شخصیات بھی اپوزیشن کے ساتھ احتجاج کرتی نظر آئیں۔ اس صورتحال میں عوام یہ جان لیں کہ اس بار بھی احتساب کا عمل سیاسی پسند ناپسند کی بھینٹ چڑھ چکا ہے اور احتساب کے نام پر اب کچھ بھی برامد نہیں ہونے والا بلکہ اب تو ہر گزرتے دن کے ساتھ حکومت کی مشکلات میں اضافہ ہوتا جائے گا۔ اور اپوزیشن کی احتجاجی حکمت عملی حکومت کو دفاعی پوزیشن اختیار کرنے پر مجبور کردے گی۔ ہو سکتا ہے کہ اس دوران اپوزیشن کے کچھ رہنماؤں کی گرفتاریاں بھی ہوں مگر حکومت کے خلاف اپوزیشن کا جو اتحاد بننا تھا وہ بن چکا اور فعال بھی ہو چکا۔

اس ساری صورتحال میں حکومتی سطح پر سنجیدہ اور مثبت اقدامات کی ضرورت ہے۔ قرضوں کی ادائیگیوں میں پھنسی اور معاشی طور پر دباؤ کا شکار حکومت کو چاہیے کہ ان نامساعد حالات میں عوام کو ریلیف دینے سے متعلق اقدامات کرے۔ بجلی گیس کے بلوں کے علاوہ اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں میں اضافہ کو کنٹرول کرے۔ امن وامان کی صورتحال کو بہتر کرنے کے لیے اقدامات کرے۔ حکومت اپنے وزرا کو بے سروپا بیانات دینے سے روکے۔ اکتوبر کے ٹھنڈے موسم میں بڑھتے ہوئے سیاسی درجہ حرارت کو کنٹرول کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔

رہی بات اپوزیشن کی تو یاد رہے کہ اپوزیشن فی الحال تو سارے پتے ٹھیک کھیل رہی ہے۔ ہر حکومتی اقدام پر بہتر پتہ ڈال کر بازی اپنے حق میں کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ پوری بازی کا علم تو کسی کو معلوم نہیں ہے مگر یہ طے ہے کہ اگر اپوزیشن نے ٹرمپ کارڈ کے طور پر اجتماعی استعفوں کا فیصلہ کر لیا اور اس پر عمل کرتے ہوئے یہ کارڈ کھیل دیا تو تاش کھیلنے والے جانتے ہیں کہ ہاتھ میں پکڑا ہوا رنگ کا اکا ڈالنے پر کیا نتیجہ نکلتا ہے۔

اور اس بار رنگ کا یہ اکا اپوزیشن کے ہاتھ میں ہے۔ اگر اس مات سے بچنا ہے تو حکومت کو اپوزیشن کے بات کر کے ان کے مطالبات کو ماننا پڑے گا اور اس صورت میں بھی حکومت کے پاس سوائے بند گلی میں جانے کے سوا کوئی راستہ نہیں ہوگا۔ اگر ملکی حالات کا بغور جائزہ لیا جائے تو محسوس یہی ہوتا ہے کہ حکومت بند گلی میں پہنچ چکی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).