ہم اتنے اگڑم بگڑم کیوں ہیں؟


ہمارے تصورات اس قدر الجھے ہوئے اور پیچیدہ ہیں کہ ہم کسی بھی چیز کو اس کے درست مقام سے پہ نہیں رکھ سکتے۔ ہمیں دوستی اور محبت میں فرق کرنا نہیں آتا۔ ہم محبت کو قید مانتے ہیں، رشتوں کا تقابل کیرئیر سے کرنے لگتے ہیں، ایک فرد کی حیثیت میں اہمیت کو رشتوں کے کردار پہ تولنے لگتے ہیں۔

ہم فرض کیے بیٹھے ہوتے ہیں کہ ایک بیٹے یا بیٹی کا فرض یہ ہے کہ وہ خاندان کے سارے ریت روایات نبھائے، اپنی ہر خواہش اور خوشی کی قربانی دے کے والدین کی خواہشات میں ڈھل کے اپنی زندگی برباد کر لے لیکن فرمانبردار کہلائے۔ ہمیں اولاد اپنا اثاثہ لگتی ہے جس پہ انوسٹمنٹ ہوئی ہے اور ہمارا حق ہے کہ ہم اس سے پوری زندگی سود وصول کریں۔ یہ نہیں سمجھتے کہ وہ ایک جیتا جاگتا انسان ہے آرڈر پہ بنوایا گیا روبوٹ نہیں جسے کیرئیر کا انتخاب کرنا ہو، دوست چننے ہوں یا رشتہ بنانا ہو تو وہ والدین کے طے کردہ اصولوں کے مطابق نہیں کرے گا۔ بلکہ اس کی ذمہ داری ایک اچھے بیٹے یا بیٹی کی حیثیت میں والدین کا خیال رکھنا ہے نہ کہ ان کی ہر بات کو ماننا ہے۔

موازنہ کرنا ہو تو عجیب قسم کا کریں گے۔ محبت اور زندگی کا موازنہ کرنے بیٹھ جائیں گے پھر سوچ لیں گے کہ محبت قید کا دوسرا نام ہے تو آزادی چاہیے تو اسے دفع کرنا لازم ہے۔ احساس ملکیت کو محبت کا نام دیں گے اور سوچ لیں گے کہ بس محبوب وہی جو ہر رنگ میں ڈھل جائے۔ ایسے میں محبوب کم مولڈ کی زیادہ ضرورت ہے۔ کبھی سمجھنے کی کوشش نہیں کریں گے کہ سب سے پہلے آپ نے قبول کرنا ہوتا ہے، قبولیت سب سے اہم ہے جو جیسا ہے جہاں ہے اسے قبول کریں یہ کیوں سوچتے ہیں کہ اسے بدلنا ہے اپنے رنگ میں ڈھالنا ہے ایسے کسی رنگ میں تو نہیں ڈھلتا بس جھوٹ بولنا سیکھ جاتا ہے۔ میاں بیوی کے رشتے میں جھوٹ اسی دباؤ کا نتیجہ ہوتا ہے کہ صاحب یا میم کو یقین ہوتا ہے بندہ یا بندی فتح کر لی اور اپنے رنگ میں رنگ لیا ہے۔ اب بھلے کوئی جو کرے جھوٹ کا چور دروازہ کھل جاتا ہے ہر وقت کی منافقت کا آسرا ہمیشہ رہتا ہے۔ کون لوگ ہیں یار آپ۔

بچے سے پوچھیں گے کسے زیادہ پیار ہے ماما سے یا پاپا سے وہ بے چارہ شرماتا لجاتا منہ کھول کے کسی ایک کا نام لیتے ہچکچائے گا۔ اسے اتنے بچپن سے سکھا دیں گے کہ سچ نہیں بولنا اپنے احساس کا برملا اظہار نہی‍ں کرنا۔ کنگ لیئر کی طرح کا پاگل پن دکھانا ہے جو اپنی بیٹی سے اپنی اور اس کے شوہر کی محبت کا موازنہ مانگتا ہے۔ محبت کی سلطنت پہ قابض ہونے کے خمار میں پاگل ہو بیٹھتا ہے لیکن اپنی سوچ سے ایک انچ پیچھے نہیں ہٹتا۔

اور تو اور ہم ظلم اور جرم کا موازنہ بھی ایسی ڈھٹائی اور تیقن سے کرتے ہیں کہ کمال کر بیٹھتے ہیں۔ باقاعدہ سنجیدہ بحث و مباحثے ہوتے ہیں کہ بھئی کیا ہوا ایک جرم یہاں ہوا تو یورپ میں بھی ہوتا ہے۔ فلاں کمیونٹی کے ساتھ بھی ہوا تب تو نہیں بولے، اس گروپ نے بھی تو کیا تب منہ کیوں بند رکھا گویا کیونکہ یہ یہاں وہاں ہو رہا ہے تو جسٹیفائی کیا جاسکتا ہے۔

مذاق اڑانے پہ آئیں گے تو ایسے بھدے قسم کے تقابل کریں گے کہ توبہ۔ باڈی شیمنگ کر کے ہنسیں گے تو کبھی ڈارک ہیومر کے نام پہ حساس موضوعات کو مزاح کا رنگ دینے کی بھونڈی کوشش کریں گے۔ مزاح ویسے بھی ادب میں بہت نفیس مقام رکھتا ہے طنز و مزاح کرنا ہر ایک کے بس کا روگ نہیں لیکن ہمارے ہاں ہر بندہ جوکر بننے کے چکر میں ہے پھر وہ الیکٹرانک میڈیا ہو سوشل میڈیا ہو یا حقیقی زندگی خود کو بہت کول دکھانے کے لیے مسخرہ بننا ضروری ہے۔

ہر بات کو الجھا کے خوش ہوں گے۔ سیاست میں مذہب کا تڑکا لگائیں گے۔ سائنس کو ملا سے لڑا دیں گے۔ ہمارا موضوع ہو نہ ہو اس پہ اظہار خیال کرنا اپنا فرض سمجھیں گے اور آزادی اظہار رائے کے نام پہ دوسرے کی دھجیاں اڑا دیں گے۔ جوابی کارروائی آئے تو پرسنل سپیس کا شور مچا دیں گے۔ خود ہر بات، ملاقات، چھوٹے سے چھوٹی ایکٹیوٹی شیئر کریں گے ساری دنیا کو بتائیں گے اب زندگی میں یہ چل رہا ہے وہ ہو رہا ہے کوئی شامت کا مارا رائے دے دے تو اس کے خلاف محاذ کھول لیں گے۔ بھئی کس نے کہا ہے کہ آپ دنیا کو دعوت دیں کہ وہ آپ کی ہر چھوٹی بڑی بات جانے آپ کے دکھ سکھ سنے اور پھر اس پہ بولے بھی نہیں۔ اگر کوئی واقعی اپنی اور دوسروں کی سپیس کو سمجھتے ہوئے اپنے اور دوسروں کے لیے آسانی پیدا کرے تو اس پہ فوراً برہم ہوں گے کہ یہ بات کیوں نہیں بتائی وہ بات کیوں نہیں بتائی۔

روایت اور آزادی کی جنگ لڑیں گے لیکن جہاں موقع ملے دوسروں کی زندگی، رہن سہن، پہننے اوڑھنے پہ تنقید کر کے خود کو مہان سمجھ لیں گے۔ ان سب باتوں میں ٹرانزیشن اپنی جگہ، روایت بغاوت اپنی جگہ لیکن جو بات اہم ہے وہ ہمارا خود کو خود ہی کنفیوز کرنے اور چیزوں کو درست نہ سمجھنے کا انہیں کلئیرلی قبول نہ کرنے کا رویہ ہے جو نہ حقیقت کو دیکھنے دیتا ہے نہ سمجھنے دیتا ہے ہم اپنے خول میں بیٹھ کے فیصلے لیتے ہی‍ں اور فرض کر لیتے ہیں کہ وہی حرف آخر ہیں اسی کنفیوژن میں زندہ رہتے ہیں اور دوسروں کو بھی مبتلا رکھتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).