شہریوں کے حقوق اور تخفظ کی ذمہ داری


بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق موٹروے پر حالیہ جنسی زیادتی کے وحشت ناک واقعہ کے بعد پاکستان میں خواتین میں اپنے تحفظ کے لیے اسلحہ اور دیگر حفاظتی ہتھیار خریدنے کا رجحان بڑھ گیا ہے۔ اسی ضمن میں جب پولیس کی ایس پی عائشہ بٹ سے پوچھا گیا، تو انہوں نے کہا کہ ہمیں خواتین اور بچوں کو مارشل آرٹ اور کراٹے سکھانے چاہیے تا کہ وہ اپنی حفاظت خود کر سکیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ انسان کو صحت مند رہنے کے لیے جسمانی ورزش کی ضرورت ہوتی ہے، اور اس کے لئے وہ مختلف قسم کی کھیلوں میں بھی حصہ لے سکتا ہے اور کراٹے بھی سیکھ سکتا ہے۔ مگر اس بات میں کس قدر صداقت ہے کہ مارشل آرٹس سیکھنے کے بعد وہ خود اپنی حفاظت کر پائے گا اور کوئی اس کو نقصان نہیں پہنچا پائے گا، یہ معلوم نہیں۔

محترمہ ایس پی صاحبہ کے بیان کے بعد میں سوچ رہا ہوں کہ جو افراد اور بچے صحت مند، تن درست ہیں اور ان کے پاس وسائل بھی ہیں تو شاید وہ کراٹے سیکھ کر اپنی حفاظت خود کر لیں۔ مگر جو لوگ بیمار، کمزور، مجبور اور معذور ہیں اور جنہوں نے کراٹے نہیں سیکھے وہ اپنا تحفظ کس طرح کریں؟

وہ خواتین اور لڑکیاں جو کراٹے سیکھنے لئے باہر نہیں جا سکتیں اور جن کے پاس اسلحہ خریدنے کے لئے بھی پیسے نہیں ہیں۔ ان کا تحفظ کس طرح ممکن ہے اور اس کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے؟

اگر جرائم پیشہ افراد بھی محترمہ کی اس سبق آموز نصیحت پر عمل کرتے ہوئے مارشل آرٹ میں مہارت حاصل کر لیں تو پھر ان کا مقابلہ کس طرح سے کیا جائے؟

محترمہ نے شہریوں کے تحفظ کی ذمہ داری مارشل آرٹ سینٹر اور خود شہریوں پر ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ حالاں کہ ایک مہذب معاشرے میں بغیر کسی تخصیص کے شہریوں کے تحفظ کی ذمہ داری حکومت اور متعلق اداروں پر عائد ہوتی ہے۔

بنیادی طور پر ہتھیار یا اسلحہ رکھنا بجائے خود عدم تحفظ کی علامت ہے۔ جب انسان کے دل و دماغ میں عدم تحفظ کا احساس ہوتا ہے، تو وہ اپنی حفاظت کے لیے اسلحہ وغیرہ کا سہارا لیتا ہے۔

شہریوں میں جب عدم تحفظ بڑھ جاتا ہے تو وہ مزید اسلحہ خریدنا شروع کر دیتے ہیں اور جب ان کو انصاف نہیں ملتا تو وہ بدلہ لینے پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔

اقوام عالم میں جہاں مساوات کی بنا پر شہریوں کے حقوق کی فراہمی کو یقینی بنانے کی بات کی جاتی ہے۔ وہاں ہم ابھی تک جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے قانون پر عمل پیرا ہیں اور اسی لئے ہمارے ملک میں طاقتور کمزور کا استحصال کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ اگر آج کے دور میں بھی ہماری سوچ پاکستان میں جنگل کا قانون نافذ کرنے کی ہو تو پھر ہمارا خدا ہی حافظ ہے۔

تحفظ اور احساس تحفظ کا شمار انسان کی بنیادی ضروریات میں ہوتا ہے۔ تحفظ کے بغیر انسان کی ذہنی نشو و نما ہونا اور اس کی صلاحیتوں کا پنپنا نا ممکن سی بات ہے۔ ایک انسان کی ذہنی آسودگی کے لئے نہایت ضروری ہے کہ اس کو تحفظ فراہم کیا جائے۔

جس ملک کا نظام موثر طریقے سے نہیں چلتا، وہاں لوگ اپنی اپنی حیثیت اور اوقات کے مطابق اپنا اپنا نظام بنا لیتے ہیں جہاں وہ اپنی مرضی اور مفادات کے تحفظ کے لئے سرگرم عمل رہتے ہیں۔

ایک مہذب معاشرے میں تشدد کبھی بھی کسی مسئلہ کا حل نہیں ہوتا۔ ناروے میں 22 جولائی 2011ء کو اینڈرس بیرنگ بریوک (Anders Behring Breivik) نامی ایک شخص نے 77 بے گناہ افراد کو قتل کر دیا۔ جس میں زیادہ تعداد نوجوانوں کی تھی۔ اس واقعے کے بعد میں سوچ رہا تھا کہ اب پورے ناروے میں سڑکوں پر ٹائر جلائے جائیں گے۔ املاک اور دفاتر کو نذر آتش کیا جائے گا۔ جن والدین کے لخت جگر قتل ہوئے ہیں، ان کے سینوں میں بدلے کی آگ بھڑک اٹھے گی اور وہ خود قاتل کو کیفر کردار تک پہنچا دیں گے۔ مگر میری سوچ کے مطابق ایسا کچھ بھی نہ ہوا۔

اس واقعہ کے دوسرے دن لوگ حکومت کی اپیل پر اظہار یکجہتی کے لیے اوسلو کے وسط میں ہاتھوں میں گلاب کے پھول لئے کھڑے تھے۔ یہ اس بات کی گواہی تھی کہ وہ ایک قوم ہیں اور انہیں اس بات کا بھرپور یقین ہے کہ ان کی منتخب کردہ حکومت ان کے حقوق اور تحفظ کی ضامن ہے۔ جو مجرم کو خواہ وہ کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو، قانون کے مطابق قرار واقعی سزا دلوائے گی۔

یہ ایک مثال اس ملک کی ہے جہاں تمام ادارے اور اشخاص قانون کے مطابق اپنے فرائض اور اختیارات کا استعمال پوری ایمانداری سے کرتے ہیں۔ اگر کہیں پر کوئی کوتاہی ہو جائے تو اس کے لئے معذرت خواہ بھی ہوتے ہیں اور اس کو بہتر بھی کرتے ہیں اور بعد ازاں اپنی کوتاہی کی وجہ سے اپنے عہدے سے دست بردار بھی ہو جاتے ہیں۔ نا کہ اپنی کوتاہیوں اور غلطیوں کی ذمہ داری دوسروں پر ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔

اگر ہم واقعی ہی پاکستان میں امن و امان اور تحفظ کی فضا پیدا کرنا چاہتے ہیں، تو ہمیں متشدد رویوں کی حوصلہ شکنی کرنی ہو گی اور ارباب اقتدار و اختیار کو اپنی ذمہ داریوں اور فرائض سے روگردانی کرنے کی بجائے ان کی بجا آوری کرنا ہو گی اور شہریوں کے حقوق اور تحفظ کو بلا امتیاز یقینی بنانا ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).