07 اکتوبر 1958 ء کے پہلے مارشل لاء کے اسباب کا مختصر جائزہ


ممتاز ماہر عمرانیات ایرک فروم کا کہنا ہے کہ آزادی کا حصول اور اس کے حصول کے بعد اس کو قائم رکھنا ایک دشوار طلب عمل اور کشمکش ہے بعض لوگ، بعض گروہ یا قومیں اس سے گھبرا کر اپنی آزادی اپنی رضا سے ایک شخص یا جماعت کے حوالے کر دیتے ہیں۔ اس طرح انھیں فیصلہ کرنے کی زحمت سے نجات مل جاتی ہے اور وہ حکم ماننے میں ایک گو نہ سکون محسوس کرتے ہیں۔ سات اکتوبر 1958 ء کو جب سکندر مرزا نے پاکستان میں علانیہ مارشل لاء نافذ کرکے کمانڈر انچیف جنرل ایوب خاں کو چیف مارشل لا ء ایڈمنسٹریٹر نامزد کر دیا تو قوم نے بغیر کسی مزاحمت کے سر تسلیم خم کرنے میں سکون محسوس کیا اور بقول ایوب خان ملک میں مارشل لاءاتنی آسانی سے جاری ہو گیا جیسے کوئی بجلی کا بٹن دبا دے۔

لیڈر خود غرض، علماءمصلحت بیں، عوام خوفزدہ اور راضی بر ضائے حاکم، دانشور خوشامدی اور ادارے کھوکھلے ہو جائیں تو مارشل لاؤں کے لیے راستہ ہموار ہوتا چلا جاتا ہے پھر کوئی طالع آزما ملک کو غضبناک نگاہوں سے دیکھنے لگتا ہے۔ مارشل لاء خود بخود نہیں آتا اسے لایا اور بلایا جاتا ہے اور جب آ جاتا ہے تو قیامت اس کے ہمرکاب آتی ہے۔

بیسویں صدی کے وسط میں بہت سے ممالک نے طویل اور صبر آزما جد و جہد کے بعد آزادی حاصل کی مگر کچھ ریاستوں کی جھولی میں یہ آزادی پکے ہوئے پھل کی طرح آ گری۔ جس کی وجہ سے ان ریاستوں میں سیاسی خلاء پیدا ہوا۔ جس کی شدت میں اضافہ اقتصادی بحرانوں نے کیا۔ ممتاز ماہر دانشور Edward Luctwack کہتا ہے کہ

” There was one thing that the new states lacked which they could neither make for themselves, nor obtain from abroad, and this was a genuine political community.“

بلاشبہ حقیقی پولیٹیکل کیمونٹی کے نہ ہونے سے نو آزاد ریاستوں نے کمزور ادارہ سازی کے ماحول میں سیاسی عمل شروع کیا جس کے نتیجے میں ان ریاستوں میں سیاسی راہنماؤں کو سٹیٹس Quo بدلنے کے لیے طاقت پر انحصار کرنا پڑا۔

عائشہ جلال نے 1958 ءکے مارشل لاء کی وجوہات کا ذکر یوں کیا ہے کہ یہ اندرونی، علاقائی اور بین الاقوامی اسباب کا باہمی عمل تھا کہ چالیس اور پچاس کی دہائی میں خصوصی طور پر امریکہ سے تعلقات استوار کیے گئے جن کی وجہ سے سیاسی جماعتوں اور سیاست دانوں کی حیثیت متاثر ہوئی۔ پاکستان کی ریاست ارتقائی حالت میں تھی لہٰذا توازن سول بیورو کریسی اور فوج کے حق میں ہو گیا۔ ۔ ۔ غیر جمہوری اداروں کی بالا دستی، اعلیٰ سول بیورو کریسی اور فوج کی متفقہ حکمت عملی کا نتیجہ تھی، جس کے پیش نظر سیاست دانوں کے اختلافات سے فائدہ اٹھایا گیا۔

اور ان قوتوں نے سوچی سمجھی سکیم کے تحت لندن اور واشنگٹن میں بین الاقوامی نظام کے مراکز سے اپنے ذاتی تعلقات کو استعمال کرکے پاکستان میں سیاسی نظام کو کمزور کیا آخری تجزیے کے طور پر عائشہ جلال کہتی ہیں کہ پاکستان میں پارلیمانی نظام حکومت کی ناکامی کی ذمہ داری سول بیوروکریٹس، فوجی افسروں، چیف جسٹس اور سیکولر و مذہبی سیاستدانوں سب پر عائد ہوتی ہے۔ عائشہ جلال کا تجزیہ بہت حد تک درست اور جامع ہے۔ اس کا خیال ہے کہ پاکستان کے جمہوری ملک نہ بن پانے اور مارشل لاءکے لیے فضا ہموار کرنے کے کام کا آغاز تو خود بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے بطور گورنر جنرل اختیارات کا منبع و مرکز بن کر دیا تھا۔

قائد اعظم محمد علی جناح کی قد آور شخصیت کی وجہ سے ان کی ذاتی اتھارٹی تقدس کی حد تک بلند و بالا تھی نیز یہ کہ انھیں بطو ر گورنر جنرل گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935 اور انڈین انڈی پینڈنس ایکٹ 1947 کے تحت وسیع اختیارات بھی حاصل تھے۔ اس ایکٹ کے سیکشن 9 کے تحت ان کے بعد کے گورنر جنرلوں کو بھی وسیع اختیارات حاصل رہے اسی کے تحت وہ محض ایک فرمان سے آئین میں ترمیم کر سکتے تھے۔ تا ہم اس ایکٹ کے سیکشن 9 کے تحت گورنرجنرل کو تفویض کیے جانے والے ان لا محدود اختیارات کی حتمی حد ساڑھے سات ماہ تک تھی یعنی 31 مارچ 1948 ءکے بعد اس کی تنسیخ ہو جانا تھی مگر اس مدت کے خاتمے سے پہلے ہی اس میں ایک سال کی توسیع کر دی گئی اور پھر جناح کے بعد ان اختیارات کے استعمال نے ملک میں سیاسی تماشا لگا دیا محمد علی جناح کا بطور گورنر جنرل کابینہ کا چناؤ اور کابینہ کی صدارت بھی کوئی احسن جمہوری روایت ثابت نہ ہوا۔

دوسرا یہ کہ ان کی طبیعت نا ساز رہتی تھی، چنانچہ ان کے انتظامی امور کا انحصار بیوروکریسی پر رہا۔ ان کا گورنر جنرل کا منصب اور آئین ساز اسمبلی کی صدارت بیک وقت سنبھالنا ایک تندو تیز بحث ہے تا ہم منتخب حکومتوں کو برطرف کرنے کی روایت کا آغاز بھی ان ہی کی ہدایت پر سرحد اور سندھ کے گورنر وں نے ڈاکٹر خانصاحب اور محمد ایوب کھوڑو کی وزارتیں 22 اگست 1947 ء اور 26 اپریل 1948 ء کو برطرف کرکے کیا۔ خالد بن سعید پاکستان میں جمہوری نظام کی ناکامی کی جڑیں محمد علی جناح کی گورنر جنرل شپ میں دیکھتا ہے۔

پاکستان کے ابتدائی عشرے میں جمہوری نظام کی ناکامی کی ایک اوربڑی وجہ مسلم لیگ کا انحطاط بھی ہے۔ ڈاکٹر صفدر محمود کا کہنا ہے کہ جمہوری نظام کی ناکامی کے اسباب میں لیگ کی بدعنوانی، بحیثیت سیاسی ادارہ کمزوریاں اور جاگیرداروں کے مفادات سرفہرست ہیں دراصل مسلم لیگ ایک سیا سی جماعت سے زیادہ ایک سیاسی تحریک تھی اور اس کی قیادت کو آزادی اتفاق سے مل گئی۔ مسلم لیگ کا پاکستان کا حصول آزادی ہند کی جدو جہد کی ضمنی پیداوار تھا۔

مسلم لیگ نے توہمیشہ عوامی مزاحمت کی تحریکوں سے خود کو علیحٰدہ رکھا۔ مسلم لیگ کی توانائی کا بڑا حصہ کانگرس کے دعوؤں کو جھٹلانے پر صرف ہوتا رہا۔ قیام پاکستان کے بعد مسلم لیگ وہ کردار ادا نہ کر سکی جو بھارتی سیاست میں کانگریس نے کیا۔ لارنس زائرنگ نے پاکستان میں پہلے مارشل لاء کو مسلم لیگ کے زوال سے در آنے والی ادارتی کمزوریوں سے منسلک کیاہے۔ مسلم لیگ اپنی عوامی حمایت کو مستحکم پارٹی ڈھانچہ کی اصطلاحات میں ادارہ بندی میں تبدیل کرنے کے قابل بھی نہ تھی یعنی وہ پاکستان کے اقتصادی اور سیاسی مسائل کے حل کے لیے عوامی تائید کا حامل منشور تیار کرنے اور ایسی تربیت دینے کا انتظام نہیں کر سکی جس سے حکومتی اقتدار کے ڈھانچہ میں نمائندہ سیاسی حکومتوں کی قومیت کا تحفظ ہو سکتا۔

مزید یہ کہ مسلم لیگ پر پست ذہنی سطح کے جاگیرداروں اور زمینداروں کے غلبہ نے اسے اس قابل نہیں رہنے دیا تھا کہ وہ نئے ملک میں ایسا سیاسی ڈھانچہ تشکیل دے جس میں عوامی امنگوں کو تسلیم کیا جا سکتا۔ لیکن جمہوری ناکامی کا واحد سبب مسلم لیگ کا انحطاط ہی نہیں تھا کیونکہ جدوجہد آزادی کے فیصلہ کن مرحلہ میں عارضی طور پر قومی دھارے میں شامل ہونے کے بعد مرکز گریز قوتیں ایک بار پھر اپنے راستے پر چل نکلی تھیں۔ مرکز میں اختیارات کے ارتکاز کے لیے جب آہنی ہاتھ استعمال کیا گیا تو مرکز گریز قوتوں کو دوبارہ ابھرنے کا موقع ملا اس حوالے سے محقق یونس صمد نے اپنی کتاب A Nation in Turmoil میں تفصیلی بحث کی ہے۔

پاکستان کے پہلے عشرے میں جمہوری سیاست کی ناکامی محض بدعنوانی، انتشار اور سیاسی بدنظمی کا نتیجہ نہیں تھی۔ آئی اے رحمان کا خیال ہے کہ اس کے اسباب بیوروکریسی کی روایات اور سیاسی کلچر کی پیچیدگیوں میں پائے جاتے ہیں جو پاکستان کو نو آبادیاتی دور کی میراث میں ملے تھے۔ بالخصوص فوج اور بیوروکریسی کا گٹھ جوڑ۔

تقسیم ہند سے قبل بیوروکریسی اور فوج نوآبادیاتی طاقت کا موثر ترین ذریعہ تھے۔ ان کا اہم ترین فریضہ مختلف مقامی طبقات کو محکوم بنانا اور اپنے نو آبادیاتی آقاؤں کے آلہ کار کے طور پر قوم پرست جدوجہد کو کچلنا ہوتا تھا۔ آزادی کی جدوجہد کے دنوں میں وہ قوم پرست راہنماؤں کی مخالف سمت میں ہوتے تھے مگر آزادی کے بعد وہی سیاسی راہنما جنہیں دبانا اور جن کی سرگرمیوں کو حکومتی حدود میں پابند رکھنا ان کا فرض ہوتا تھا وہ اب اقتدار کے ایوانوں تک پہنچ چکے تھے اور انھیں بظاہر فوج اور بیوروکریسی پر اختیار حاصل ہوگیا تھا۔

لہذا ان کے درمیان لحاظ اور افہام و تفہیم پر مبنی ایک نئے تعلق کو قائم کرنا عصری ضرورت بن چکا تھا۔ ا س ضرورت کو پورا کرنا اس لیے بھی ضروری تھا کہ پاکستان اور ہندوستان کو بہت طاقتور بیوروکریسی اور فوج ورثے میں ملی تھی جن کے مقابلے میں سیاسی جماعتوں کی حالت ابتر تھی۔ حمزہ علوی نے ایک فکر انگیز مضمون میں لکھا ہے کہ نو آبادیاتی تعمیر کی وجہ سے فوج ا اور نوکر شاہی کے ادارے ضرورت سے زیادہ ترقی کر گئے تھے۔

بہ نسبت زمیندار اور بوروژوائی حکمران طبقہ کے۔ چنانچہ فوج اور نوکر شاہی کا بالا دست طبقہ ریاست کے اندر دوسروں کی نسبت خود مختارانہ حیثیت کا مالک بن گیا۔ بیوروکریسی نے سب سے زیادہ فائدہ محمد علی جناح کی قد آور شخصیت کا اٹھایا اور وزیراعظم سمیت سیاسی قیادت کو بالائے طاق رکھ کرگورنر جنرل محمد علی جناح سے رابطہ رکھا۔ جناح نے بھی غلام محمد وغیرہ کو وزارتوں میں عملی طور پر لاکر اپنی تعلقداری کی نوعیت کا اظہار کر دیا تھا۔

جناح کی ذات انتظامی اختیارات کا مرکز تھی مگر چونکہ وہ علیل تھے لہذا ان کے اختیارات کا انتظامی حوالے سے استعمال بیوروکریسی ہی کرتی تھی۔ قائد اعظم کے عہد میں ہی بیوروکریسی نے اقتدار اپنے شکنجے میں لے لیا اور پھر جناح کی وفات کے بعد یہ اور مضبوط ہوئی۔ سیکرٹری جنرل کے عہدے نے چوہدری محمد علی کے قد کاٹھ میں اضافہ کیا۔ لیاقت علی خاں کے قتل کے بعد بیوروکریسی سیاسی قیادت سے آزاد حیثیت اختیار کرتے ہوئے مرکز تک چھا چکی تھی۔

بعد ازاں بیورو کریٹ غلام محمد گورنر جنرل کے اعلیٰ عہدے پر فائز ہوئے تو بیورو کریسی اور مضبوط ہوئی۔ یہاں یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ بیوروکریسی نے اقتدار پر قبضہ کے لیے کون سا طریقہ اختیار کیا۔ بظاہر کوئی انقلابی اقدام تو سامنے نہیں آیابلکہ یہ سب نوازئیدہ ریاست کو ممکنہ مشکلات سے نجات دلانے کے لیے بنیادی تبدیلیوں کے باعث ہوا۔ بیوروکریسی نے یہ اختیا ر ایسا انہونا عہدہ تخلیق کر کے حاصل کیا جو گورنر جنرل کی معاونت کے لیے تخلیق کیا گیا۔

سیکرٹری جنرل کا عہدہ جناح کے حکم پر تخلیق ہوا۔ کابینہ کی قرار داد کے ذریعے سیکرٹری جنرل کو تمام سیکرٹریوں اور فائلوں تک رسائی دے دی گئی پھر پلاننگ کمیٹی تشکیل دے دی گئی جو چوہدری محمد علی کی قیادت میں ایک متوازی کابینہ بن گئی۔ جب غلام محمد گورنر جنرل بنا تب اس نے سیکرٹری جنرل اور پلاننگ کمیٹی تحلیل کر دی کیونکہ بیوروکریسی اب خود ملک کے اعلیٰ ترین عہدے پر قابض ہو چکی تھی۔ اس بیوروکریٹ گورنر جنرل نے 4 اکتوبر 1954 ء کو اسمبلی تحلیل کر کے نظم و نسق خود سنبھال لیا۔ حمزہ علوی کے خیال میں یہ پہلا موقع تھا کہ سیاسی قوتوں کو جبری طور پر اقتدار سے الگ کیا گیا، یوں اسے پہلا انقلاب یعنی کو ڈیٹا (Coup deta) کہنا چاہیے۔

بیوروکریسی یہ کام اکیلے نہیں کر رہی تھی اس نے فوج کے ساتھ تعلقات استوارکر لیے تھے۔ جنرل ایوب خاں کو جو اہمیت کی منزلیں بہت تیزی سے طے کر رہے تھے فوج کے کمانڈر انچیف کے ساتھ وزارت دفاع کا قلمدان بھی سونپ دیا گیا۔ اسی طرح ان کے دوست ا سکندر مرزا جو سیکرٹری دفاع تھے انھیں وزیر داخلہ بنا دیا گیا، اس کابینہ کو ”قابل ترین افرادکی وزارت“ کہا گیا۔ یہ کابینہ فوج اور بیوروکریسی کی نمائندہ تھی، نہ کہ عوام کی۔

1947 ءمیں تقسیم سے فوج کمزور ہوئی تھی نیزکمانڈر انچیف بھی برطانوی تھے لیکن 1951 ء میں ایوب خاں کے دوست ا سکندر مرزانے وزیر اعظم سے ایوب خان کوکمانڈر انچیف مقرر کروا لیا۔ ایوب نہ تو سب سے سینئر تھے اور نہ ہی سب سے بہترین۔ ایوب کی نامزدگی کے دنوں میں دوسینئر جرنیل اچانک ایک فضائی حادثے میں مارے گئے اس سے ایوب خاں صرف چار سالوں میں لیفیٹنٹ کرنل سے جنرل بن گئے۔ جنرل شیر علی کا کہنا ہے کہ اگر اس وقت لیفیٹینٹ جنرل افتخار کمانڈر انچیف بنتے تو آج پاکستان کی تاریخ مختلف ہوتی۔

ایوب خاں کے کمانڈر انچیف بننے سے ان کو ملنے والی ایکسٹینشن تک فوج اور بیوروکریسی کا گٹھ جوڑ نمایاں رہا اور یہی پہلے مارشل لاء کی اہم وجہ بھی بنا۔ ایوب خاں کے کمانڈر بننے کے بعد راولپنڈی سازش کیس سامنے آیا۔ ایک جنرل نے اپنی سوانح عمری میں لکھا ہے کہ ایوب خاں نے اس سازش کا پتہ اپنی پسند کے لوگوں کو آگے لا نے کے لیے کیا۔ اس سے وہ ایسے لوگوں کو آگے لانے میں کامیاب ہوا، جو اس کے وفا دار تھے۔ راولپنڈی سازش کیس نے ایوب کو موقع فراہم کیا کہ وہ بیورو کریٹک زعماء، سکندر مرزا اور غلام محمد کے ساتھ قریبی تعلقات پیدا کریں۔

یہ تعلق نہ صرف دوستی میں تبدیل ہوا بلکہ پاکستانی سیاست کی سمت کے تعین میں بھی کردار ادا کرتا رہا۔ ستمبر 1953 ء کے اواخر میں، بری فوج کے کمانڈر انچیف ایوب خاں امریکی سول اور فوجی حکام سے ملاقات کے لیے امریکہ پہنچے۔ ان کے اس دورے سے پہلے امریکی بحری انٹیلی جنس کے ڈائریکٹر نے 23 ستمبر 1953 کو امریکہ کے جوائنٹ چیف آف سٹاف کے چیئر مین ایڈمرل ڈبلیو راڈ فورڈ کو ایوب خان کا ایک ”خاکہ“ روانہ کیا جس میں لکھا کہ ”6 فٹ 2 انچ سے زیادہ طویل القامت اور 210 پاؤنڈز کے وزن کے توانأ جنرل ایوب خاں پاکستان ملٹری سروسز کے سب سے با اثر افسر ہیں۔

فوج پر ان کی گرفت بہت مضبوط ہے اور وہ زیادہ اور کم ہر دو قسم کی اہمیت کے فیصلے خود ہی کرتے ہیں کیونکہ وہاں سٹاف افسروں کو بہت کم اختیارات تفویض کیے جاتے ہیں۔ اگرچہ انہیں افسر کیڈر کا احترام حاصل ہے لیکن وہ اپنے ماتحتوں کے ساتھ درشتی اور سختی سے پیش آنے کا میلان رکھتے ہیں۔ ان کی شہرت یہ ہے کہ وہ خوب جانتے ہیں کہ کس شے کی جستجو کرنی چاہیے اور یہ کہ وہ نتائج پر زور دیتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ انہیں اپنے اور اپنی افواج پر بڑا اعتماد ہے۔ ان کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ بہت زیادہ امریکہ نواز ہیں۔ جاہ و جلال کی بہت زیادہ ہوس اور سیاست کو اپنے فوجی کیریئر سے مخلوط کرنے کے میلان کو ان کی کمزوری سمجھا جاتا ہے۔

فوج اور بیوروکریسی کے اس گٹھ جوڑ کو امریکی اشیر باد بھی حاصل رہی۔ دراصل آزادی کے بعد کے دور میں قومی بورژوا کی عدم موجودگی میں غیر ملکی تجارتی اور سرمایہ دار طبقے سامراجی دورجیسا کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ اس خطے میں امریکہ کی موجودگی اور مفادات نے بھی پاکستان میں آمرانہ قوتوں کو مضبوط کرنے میں اہم کردار اکیا۔ پاکستان نے شروع میں ہی امریکہ سے تعلقات کی کوششیں کیں تاہم ابتدائی سالوں میں امریکہ نے آنکھیں نہ ملائیں۔

مارچ 1951 ءمیں ایرانی تیل کی صنعت کی ڈاکٹر مصدق کے ہاتھوں نیشنلائزیشن نے امریکہ کے تیور بدلے۔ 1952 ء کے بعد پاکستان امریکہ کی سرپرستی میں آ گیا۔ امریکہ کا معاشی مفاد فوجی سازو سامان کی فروخت سے وابستہ رہا۔ چنانچہ امریکی تعلقات کی وجہ سے پاکستان کا انحصار فوج پر بڑھا۔ امریکہ کی فوجی امداد نے پاکستان کو سیاسی حوالے سے بھی مضبوط کیا اورپاکستان کی دفاعی معاہدوں میں شرکت ممکن ہوئی۔ مؤرخین کا اتفاق ہے کہ پاکستان میں ملٹری بیوروکریسی کو تقویت ملنے کی بڑی وجہ سرد جنگ کا ماحول تھا۔

امریکی سمجھتے تھے کہ ملٹری بیوروکریسی پاکستان میں ایک مضبوط مرکزی نظام قائم کر سکتی ہے۔ 3 اکتوبر 1953 ء کو پاکستانی فوج کے کمانڈر انچیف نے امریکہ کا غیر رسمی دورہ کیا جو کابینہ کی رسمی منظوری کے بغیر تھا اس دورے میں امریکی زعماؤں اور پاکستانی فوج کے تعلقات کا آغاز ہوا۔ امریکہ Containment Policy کے زیر اثر دفاعی حصار قائم کرنا ضروری سمجھتا تھا۔ اس کے لیے ترکی اور پاکستان کو دفاعی لائن کے طور پر استعمال کرنا اس کا مقصد تھا۔

اس مقصدکے لیے یہاں موجود مضبوط فوجی و نوکر شاہی گٹھ جوڑ کو مضبوط کر کے اس نے Oligarachy قائم کرنا بہتر سمجھا تاکہ ساز باز میں آسانی رہے۔ امریکی مفاد کے لیے پاکستان میں جمہوری قوتوں اور اداروں کو کمزور بنایا گیا۔ پاکستان اور ترکی میں فوج اس کے لیے یہ سب کرنے کو تیار تھی۔ فوج اور امریکہ کے تعلقات اس نوعیت کے ہو گئے تھے کہ انہی دنوں بریگیڈیرغلام جیلانی کو امریکہ میں ملٹری اتاشی لگایا گیا تو امریکہ بھیجتے وقت کمانڈر انچیف جنرل ایوب نے انھیں بلا کر ہدایات دیں کہ تمھاری بنیادی ذمہ داری پینٹا گون کے ساتھ ملٹری ایڈ کے تعلقات استوار کرنا ہے تم ان امریکیوں سے براہ راست ڈیل کرنا اور پاکستانی سفیر کو اعتماد میں نہ لینا۔ شیریں طاہر خیلی کے مطابق جنرل ایوب خاں نے ”مناسب قیمت پر امریکہ سے ایسی ڈیل کی کوشش کی جس کے مطابق پاکستان مغر ب کے اتحادی کا کردار ادا کر سکے۔ امریکی تعاون حاصل کرنے کے لیے ایوب خاں اس حد تک چلے گئے کہ انہوں نے ایک امریکی اہلکار کو یہ تک کہہ دیا کہ

”Our Army can be your Army if you want“

اس بات کا حوالہDenis Kuksنے بھی دیا ہے۔ مغربی پاکستان میں امریکی اشیر باد سے قائم ہونے والے نظام کی acceptance موجود تھی کیونکہ یہاں کی مذہبی، جاگیردارانہ اور کمزور سیاسی قوتیں شراکت اقتدار کے مزے لوٹنے کے لیے ہر قیمت چکانے کو تیار تھیں لیکن مشرقی پاکستان میں اس منصوبے کو مشکلات کا سامنا تھا۔ چنانچہ جب یہی مشکلات آئینی بحران کے ساتھ ظاہر ہوئیں تو مشرقی و مغربی کا بحران شدت اختیار کر گیا جو بعد ازاں 1971 ء میں منطقی انجام کو پہنچا۔ اس پس منظر میں 1958 ءکا مارشل لا ء امریکہ، مغربی پاکستان کے کمزور سیاستدانوں، بیورو کریسی اور فوج کے مفادات کا ترجمان تھا جبکہ پاکستان کے عوام اور مشرقی پاکستان اس کے Victim تھے۔

پاکستان میں پہلے عشرے کی جمہوریت کی ناکامی کا بڑا سبب ریاستی ساخت بھی تھی۔ اس ریاست کا قیام وارتقاءاور سماج جمہوریت کے پھلنے پھولنے کے لیے زیادہ زرخیز نہ تھا۔ ساتھ ہی ساتھ اس کی سیاسی قیادت باہر سے تھی۔ یو پی /سی پی کی قیادت بھی مقامی لوگوں، ان کے کلچر، روایات اور ضرورت سے آشنا نہ تھی چنانچہ وہ سیاسی و سماجی مسائل پر قابو پانے کی بجائے غلطی پر غلطی کرتی چلی گئی۔ جب قائد اعظم اور لیاقت علی خاں کے بعد حالات Son of the soil کو سنبھالنا پڑے تو ان کی نا تجربہ کاری آڑے آئی۔

یہی وہ مسائل تھے جس کے باعث ابتدائی عشرے کا پاکستان خالد بن سعید کے الفاظ میں ہابس کی ریاست کا منظر پیش کر رہا تھا۔ خالد بن سعید لکھتا ہے کہ ”پاکستان 1951 ءسے 1958 ءتک کے درمیانی عرصے کے دوران ہابس کی ریاست کے جیسا تھا جو کہ فطرت کی ہو بہو عکاسی کرتی نظر آتی ہے جہاں پرہر سیاسی یا صوبائی گروہ دوسرے گروہوں سے دست و گریباں ہوتا ہے۔ اس عرصے میں یہاں تسلسل کے ساتھ اقتدار کے لیے رسہ کشی جا ری رہی۔ پاکستان کو اس ازار ضرر رساں سے نجات چاہیے تھی اور مارشل لا ء ہی اس ملک کو تباہی کے دہانے سے واپس لا سکتا تھا جس کے نفاذ سے امن و امان اور عوامی بھلائی کو تلوار کی نوک پر ممکن بنایا گیا۔“

مذکورہ بالا حالات نے نہ صرف 1958 ء کے مارشل لاء کے منصوبے کی تکمیل کو ممکن بنایا بلکہ آنے والے مارشل لاؤں کو بھی بنیاد فراہم کی۔ پاکستان میں ہمیشہ کے لیے حاکمیت غیر جمہوری کا کردار معرض وجود میں آ گیا۔ یہ وجوہات نہ صرف پہلے مارشل لاءکا سبب بنیں بلکہ آج بھی کسی نہ کسی طرح ریاست میں نمایاں نظر آتی ہیں ان اسباب کی موجودگی میں مؤرخین کے لیے تحقیق کا موضوع یہ نہیں کہ پاکستان میں مارشل لاءکب کب لگا بلکہ ان کے سامنے چیلنج یہ ہے کہ جب جب مارشل لاءنہیں لگا تو اس کی وجوہات کیا تھیں۔

رئیس امروہی مرحوم نے پاکستان میں پہلے مارشل لاء کا قطعہ تاریخ کچھ یوں کہا تھا کہ
دیار پاک میں ہے کار فرما بحمد اللہ پاکستان کی فوج
نظر آتا ہے ملت کا ستارہ بالآخر مائل صد عظمت و اوج
وہاں ہیں امن ساحل کے نظارے جہاں سیل بلا ہے موج در موج
گرفت پنجۂ افواج کا سال
نہیں جز ’پنجۂ‘ فوج ظفر موج
(1378)

اکتوبر 1958 کے مارشل لاء کے نفاذ کے بعد سرکاری ریڈیو و اخبارات مسلسل فوج کی مدح سرائی میں جتے ہوئے تھے اور قوم کو تصویر کا من پسند رخ دکھانے میں مصروف عمل تھے لیکن برہنہ آمریت کے اس دور میں ایک نحیف و نزار آواز جو قانون کی حکمرانی اور آزادی اظہار کے حق میں بلند ہوئی وہ مغربی پاکستان کے ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ایم آر کیانی کی تھی۔ ان کی ایک تقریر جو 11 دسمبر 1958 ء کو کراچی بار ایسوسی ایشن سے تھی اس میں انہوں نے کہا کہ مارشل لاء کا نفاذ سب سے بڑی آفت ہے جو کسی قوم پر نازل ہوتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بد نصیبی تنہا نہیں آتی اس کے ساتھ فوجی دستے بھی ہوتے ہیں لیکن اس بار تو پوری فوج اس کے ساتھ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).