”جاں بحق“ یا ”شہید“، قصہ پولیس کے مظلوم شہدا کا


”شہید“ لفظ یوں تو پاکستان میں ایک مذاق ہی بنا دیا گیا تھا، کسی کو حکیم اللہ شہید لگتا تھا تو کسی کو امریکہ سے لڑنے والا ”کتا“ بھی شہید لگا اور کسی نے دہشت گردی کے خلاف لڑنے والی فورسز کے جوانوں کو ”مردار“ تک کہنے کی جرات کی، گویا ہم فکری و سماجی انحطاط کا شکار ہو چکے تھے۔ جب قوم فکری انحطاط کا شکار ہو تو ”میڈیا“ ایک ایسا ٹول ہوتا ہے جو آنے والی نسل کی رہنمائی کا باعث بن سکتا ہے۔ یہی وجہ تھی میڈیا نے قوم کا رویہ دہشت گردی کے خلاف اس طرح کیا کہ ان کے ہمدرد اب بات بھی نہیں کر سکتے۔

لیکن اس فکری انحطاط کے زمانے میں بھی پولیس کے جوانوں کو تمام میڈیا چینلز ”جاں بحق“ یا ہلاک ہی لکھتے رہے۔ جب اعزاز سید صاحب جیسے معروف تجزیہ نگار سے پولیس کالج سہالہ میں یہ سوال کیا گیا کہ جناب عالی ایک ہی دہشت گردی کے حملے میں شہید ہونے والے آرمی کے جوان تو میڈیا کی نظر میں ”شہید“ ٹھہرے اور پولیس کے جوان ”جاں بحق“ کیا یہ غیر ذمہ دارانہ رویہ نہیں؟ تو جواب گول ہوجاتا ہے۔

آج بروز بدھ علی الصبح مظفرگڑھ کے تھانہ رنگپور کی حدود میں راہزنی کے ملزمان کی گرفتاری کے لیے ریڈ کیا گیا جس کے دوران ملزمان کی فائرنگ سے ”ملازم حسین اے ایس آئی“ شہید ہو گئے اور ”ہاشما ڈاکو“ مقابلے میں ہلاک ہو گیا۔ ہاشم ڈکیت پر تین اضلاع جھنگ، خانیوال اور مظفرگڑھ میں چوری، راہزنی، اقدام قتل اور ڈکیتی کے 21 سے زائد مقدمات تھے۔ اس واقعے سے متعلق جیو نیوز مظفرگڑھ کے نمائندہ عدنان مجتبی صاحب ( جو ایک پروفیشنل صحافی ہیں ) نے ٹیکر بنا کر وٹس اپ گروپس میں ڈالے اور ”جیو نیوز“ کو بھیجے جن میں پولیس افسر کو ”شہید“ لکھا گیا لیکن جیسے ہی وہ ٹیکر ”جیو نیوز“ پر نشر ہوئے تو شہید ہونے والے افسر کے لیے ”جاں بحق“ کا لفظ لکھا ہوا تھا۔

آخر کیا وجہ ہے ”جیو“ نیوز پولیس شہدا کے ساتھ ”جاں بحق“ کا لاحقہ ہی استعمال کرتا ہے وہ کون سی رکاوٹ ہے جو جیو نیوز کی راہ میں حائل ہے۔ جبکہ 92 نیوز پر اور دیگر چینلز پر ”شہید“ ہی لکھا گیا جس سے یہ بات تو عیاں ہوتی ہے کہ کوئی رکاوٹ نہیں ہے ورنہ دیگر چینل بھی گریز کرتے تو پھر ”جیو“ کیوں یہ کر رہا ہے؟

پولیس کے شہدا دراصل ”مظلوم شہدا“ ہیں۔ جن کی شہادت کی قدر نہ تو عوام کو ہوتی ہے اور نہ ہی میڈیا عوام کو ان کی قربانی کی اہمیت بتلاتا ہے۔ آج ملازم حسین شہید نے ایک نامور ڈکیت سے مقابلہ کیا جو کئی لوگوں کا نقصان کرچکا تھا اور مستقبل میں مزید بھی کر سکتا تھا پھر بھی وہ ”جاں بحق“ ہی ٹھہرا۔ کیا ان کی جان اپنے گھر کی رکھوالی کرتے ہوئے گئی ہے؟ یا پھر گلی محلوں میں ہمارے جیسے سو کالڈ ایماندار اور پارسا لوگوں کے جان و مال چھیننے والے دہشت گرد سے مقابلہ کرتے ہوئے؟

تو پھر میڈیا اس منافقت کا شکار کیوں ہے؟ جب ”ملازم حسین شہید“ کا بیٹا اپنے باپ کے نام کے آگے ”جاں بحق“ کا لفظ دیکھے گا تو اس پر کیا بیتے گی کہ ”جیو“ جیسے مستند چینل نے ”شہید“ لکھنا گوارا نہ کیا۔ جب ایک عام شہری میڈیا پر یہ خبر پڑھے گا تو اس کے لاشعور میں یہی بات رہے گی کہ پولیس والا ”جاں بحق“ ہوتا ہے ”شہید“ نہیں۔

پولیس شہدا کی یہ مظلومیت آخر کب ختم ہوگی، کیا ”پیمرا“ جو بسکٹ کی ایڈ پر ایکشن لے سکتا ہے وہ اس پر کبھی ایکشن لے گا؟
اگر حامد میر صاحب سیاستدانوں پر ”غداری“ کے مقدمہ پر آواز اٹھا سکتے ہیں تو ان کے اپنے چینل پر جب سینکڑوں ”شہدا“ کو ”جاں بحق“ لکھا جاتا ہے تو وہ اس پر کیوں خاموش رہتے ہیں؟
ان مظلوم شہدا کے لیے آواز کون اٹھائے گا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).