ہاتھرس ریپ کیس: ایک جان لیوا حملہ اور تنہائی میں ادا کی گئیں آخری رسومات


ہاتھرس ریپ کیس
گذشتہ ماہ ستمبر کے آخری دن انڈیا ایک پریشان کُن خبر سے بیدار ہوا۔ خبر یہ تھی کہ حکام نے ایک 19 سالہ دلت لڑکی، جس کی ایک دن قبل مبینہ طور پر گینگ ریپ کے بعد موت واقع ہو گئی تھی، کی آخری رسومات جبری طور پر ادا کر دی ہیں۔

اس خبر نے عالمی سطح پر غم و غصہ کو جنم دیا اور انڈیا کے حکام پر یہ الزامات عائد کیے گئے کہ انھوں نے اس دلت لڑکی، جسے مبینہ طور پر اونچی ذات کے چار افراد نے مبینہ طور پر ریپ کا نشانہ بنایا اور وہ دو ہفتوں تک زندگی کی جنگ لڑتی رہی، کو موت کے بعد بھی اُسی بے حسی اور کمتری کا نشانہ بنایا جس کا وہ تمام عمر سامنا کرتی رہی ہے۔

انڈیا کی ریاست اُتر پردیش کے ہاتھرس ضلع کی پولیس کا کہنا ہے کہ اس لڑکی کے اہلخانہ نے لڑکی کی آخری رسومات ادا کرنے پر رضامندی ظاہر کی تھی۔

واضح رہے کہ 19 سالہ لڑکی کو اسی ضلع ہاتھرس میں مبینہ گینگ ریپ کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

لیکن لڑکی کے اہلخانہ اور مقامی صحافیوں نے بی بی سی کو دیے گئے انٹرویوز میں پولیس کے دعوے کو رد کیا ہیں۔ اہلخانہ اور صحافی رات کے ڈھائی بجے اس گاؤں میں موجود تھے جہاں چتا کو آگ دی گئی۔

میں نے حقیقت جاننے کے لیے کہ 29 ستمبر کی رات ہو اصل میں کیا ہوا تھا اترپردیش کے ضلع ہاتھرس کے گاؤں بھلگاری کا دورہ کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

ہاتھرس کیس: وہ چھ سوال جن کے جواب ملنے اہم ہیں

ہاتھرس ’گینگ ریپ‘: متاثرہ خاندان سے ملاقات کے لیے جاتے ہوئے راہل اور پرینکا گاندھی حراست میں

انڈیا: ریپ معاشرے کی بےحسی کا عکاس

وہاں پہنچ کر جو حقیقت مجھ پر عیاں ہوئی وہ ریاست کی طاقت اور اس کے چند پسماندہ ترین شہریوں کے مابین طاقت کے عدم توازن، حکام کی پروٹوکول کو نظرانداز کرنے اور غمزدہ خاندان کے دکھ کی پرواہ نہ کرنے کے ایک سانحہ کی شکل اختیار کرنے والی کہانی تھی۔

لڑکی کی میت کہاں ہے؟

ہاتھرس ریپ کیس

مبینہ گینگ ریپ کے بعد ہلاک ہونے والی لڑکی کے چھوٹے بھائی کا کہنا ہے کہ ’میری بہن کی موت منگل 29 ستمبر کو صبح لگ بھگ سات بجے دہلی کے صفدر جنگ ہسپتال میں ہوئی تھی۔ تقریباً نو بجے کے قریب انھوں نے ہمیں کہا کہ چند کاغذات پر دستخط کر دیں تاکہ لاش کا پوسٹ مارٹم کیا جا سکے۔‘

ان کے گھر میں فرش پر بیٹھے ہوئے اس لڑکی کے بھائی کا مزید کہنا تھا کہ ’یہ وہ وقت تھا جب آخری مرتبہ ہم نے اس کی لاش دیکھی تھی۔‘

ان کے گھر کا صحن درجنوں صحافیوں اور ہر سیاسی جماعت سے تعلق رکھنے والے رہنماؤں سے بھرا ہوا تھا جو اس سانحہ پر ان سے تعزیت کرنے آ رہے تھے۔

لڑکی کو علی گڑھ سے دہلی کے صفدر جنگ ہسپتال منتقل کرتے ہوئے اس کے والد اور چھوٹے بھائی کے علاوہ دو مرد رشتہ دار بھی ان کے ساتھ تھے۔ اس سے قبل وہ 14 ستمبر سے میبنہ ریپ کا نشانہ بننے کے بعد سے علی گڑھ کے ہسپتال میں زیر علاج تھی۔

اس لڑکی کے موت کے چند گھنٹوں بعد جب وہ ہپستال کے فارنزک شعبے میں یہ پوچھنے کے لیے گئے کہ انھیں لڑکی کی میت کب تک مل سکتی ہیں تو ہپستال انتظامیہ اور پولیس کی جانب سے متضاد جوابات دیے گئے۔

’ایک نے کہا کہ میت پہلے ہی لے جائی جا چکی ہے، دوسرے نے کہا کہ وہ (دہلی اور اترپردیش کے سرحدی شہر) نوایڈہ پہنچ چکی ہے، جبکہ تیسرے نے کہا کہ وہ ہاتھرس میں ہے۔’

’میں نے ان سے پوچھا کہ وہ ہماری اجازت کے بنا کیسے میت لے جا سکتے ہیں؟‘

جلد ہی اُن کے دیگر رشتہ دار بھی پہنچ گئے اور انھوں نے ہسپتال کے باہر مظاہرہ و احتجاج کرتے ہوئے میت ان کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا۔ ان کے اس احتجاج میں انڈیا میں دلتوں کے حقوق کے لیے آواز اٹھانی والی بھیم پارٹی کے کارکن بھی شامل ہو گئے۔

جبکہ گاؤں میں موجود اہلخانہ نے پہلے ہی لڑکی کے موت پر ماتم کنی شروع کر دی تھی۔

لڑکی کی بھابی کا کہنا ہے کہ ’انھوں نے صبح فون کر کے بتایا تھا کہ وہ ہلاک ہو گئی ہے۔ وہ سب فون پر رو رہے تھے، سب نے یہاں بھی رونا شروع کر دیا تھا۔‘

’ہم نے ان سے پوچھا کے آپ میت گھر کب لا رہے ہیں۔‘

گاؤں واپسی کا سفر

متاثرہ لڑکی کے بھائی کا کہنا ہے کہ تقریباً رات ساڑھے نو بجے پولیس نے زبردستی اسے والد سمیت کالی جیپ میں ڈالا اور انھیں گاؤں واپس چھوڑنے نکل پڑے۔

ہاتھرس ریپ کیس

’گاؤں واپسی پر ایک جگہ ہماری کار رُکی اور پولیس کے اعلیٰ افسر اور انتظامیہ کے افسران ہم سے بات کرنے آئے، ان میں ہاتھرس کی ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ پراوین کمار بھی تھیں جنھوں نے ہمیں بتایا کہ ہمیں سیدھا شمشان گھاٹ لے جایا جا رہا ہے۔‘

متاثرہ لڑکی کے بھائی کا کہنا ہے کہ انھیں کوئی علم نہیں تھا کہ لڑکی کی میت کہاں ہے اور ایمبولینس اسے کس وقت ہسپتال سے لے کر نکلی تھی۔

ہاتھرس کے پولیس چیف وکرانت ویر نے بی بی سی ہندی کے نامہ نگار دلنواز پاشا کو گذشتہ ہفتے بتایا تھا کہ لڑکی کا پوسٹ مارٹم رات ایک بجے مکمل ہوا تھا۔

’لیکن چند وجوہات کی بنا پر اس کی میت فوری طور پر واپس نہیں لائی جا سکی تھی، جب تک میت گاؤں پہنچی کافی رات ہو چکی تھی اور اس کے بھائی اور والد میت کے ساتھ آئے تھے۔‘

گذشتہ جمعہ کو ریاستی حکومت نے وکرانت کو ’نگرانی میں کوتاہی برتنے پر معطل‘ کر دیا ہے۔ چار دیگر پولیس اہلکاروں کو بھی ان کے عہدوں سے ہٹایا گیا ہے، جبکہ ضلع مجسٹریٹ پراوین کو ہٹائے جانے کا مطالبہ بھی سامنے آ رہا ہے۔

آخری رسومات کی تیاری

ہاتھرس ریپ کیس

جب اہلخانہ میت کو حوالے کرنے کا انتظار کر رہے تھے، پولیس اور مقامی انتظامیہ کے اہلکاروں نے رات گئے اس لڑکی کی آخری رسومات ادا کرنے کی تیاری مکمل کر لی تھی۔

متاثرہ لڑکی کی بھابھی کا کہنا ہے کہ ’وہ جنریٹر، لکڑیاں اور تیل لے آئے تھے اور لائٹس لگا دی گئیں تھی۔‘

اس گاؤں میں موجود صحافیوں کے مطابق متاثرہ لڑکی کے گھر کو جانے والی سڑک اور وہ کھیت جہاں اس لڑکی کی آخری رسومات ادا کی جانی تھیں اس کو جانے والی کچی سڑک پر رکاوٹیں لگا دی گئیں تھیں۔

لڑکی کی میت کو آدھی رات کے قریب ایک سفید ایمبولینس میں لایا گیا تھا۔

متاثرہ لڑکی کی خالہ کا کہنا ہے کہ ’ایمبولینس میں ڈرائیور کے ساتھ مرد اور خاتون پولیس اہلکار موجود تھے جبکہ اس کے اہلخانہ کا کوئی فرد اس کے ساتھ نہیں آیا تھا۔‘

انھوں نے اپنے چہرے سے آنسو پونچھتے ہوئے مجھے بتایا کہ ’وہ تقریباً ایک گھنٹے تک وہاں کھڑی رہیں اور ہمیں اسے آخری مرتبہ دیکھنے کے لیے کہا گیا۔‘

متاثرہ لڑکی کے بھائی اور والد کو لانے والی کالی جیپ تقریباً رات ایک بجے گاؤں پہنچی تھی اور انھیں سیدھا شمشان گھاٹ لے جایا گیا تھا۔

میت لینے کی کوششیں

متاثرہ لڑکی کے بھائی کا کہنا ہے کہ ’ہندو مذہب میں رات کو آخری رسومات ادا نہیں کی جاتیں، میں نے انھیں بتایا کہ ہم اس کی آخری رسومات مذہبی طریقہ کار کے خلاف اور رشتہ داروں کی عدم موجودگی میں نہیں کر سکتے، جب ہم گھر پہنچے تو ہمیں پتہ چلا کہ اس کی میت کو لانے والی ایمبولینس پہلے ہی گاؤں پہنچ چکی ہے۔‘

ہاتھرس ریپ کیس

حکام نے گھر تک ان کا پیچھا کیا اور انھیں لڑکی کی چتا کو آگ دینے پر مجبور کیا۔

متاثرہ لڑکی کے بھائی کا کہنا ہے کہ ’گھر کی عورتوں نے اُن کے پیر پکڑے، منت سماجت کی کہ وہ میت ہمارے حوالے کر دیں تاکہ ہم اس کی آخری رسومات ہندو مذہب کے مطابق کر سکیں لیکن انھوں نے ہماری ایک نہ سنی۔‘

انڈیا کے مختلف نیوز ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا پر چلنے والی چند ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ہلاک ہونے والی لڑکی کے اہلخانہ نے اس کی میت حوالے کرنے کے لیے متعدد بار کوشش کی تھی۔

ایک ویڈیو میں متاثرہ لڑکی کی والدہ کو کار کے بونٹ پر سر مارتے ہوئے ماتم کرتے دیکھا جا سکتا ہے، جبکہ ایک اور ویڈیو میں وہ ایمولینس کا راستہ روکے سڑک پر بیٹھی سینہ کوبی کر رہی ہے۔

انھیں متعدد بار حکام سے لڑکی کی میت حوالے کرنے اور گھر لے جانے کی فریاد کرتے سُنا جا سکتا ہے تاکہ وہ اس کی آخری رسومات اپنے رواج کے مطابق ادا کر سکیں۔

متاثرہ لڑکی کی بھابھی نے روتے ہوئے بتایا کہ ’ہم اس کے بازؤں پر ہلدی اور ابٹن لگانا چاہتے تھے، اسے نئے کپڑے پہنانا چاہتے تھے، اس کی چتا پر پھول رکھنا چاہتے تھے، اس نے یہ سب دیکھنا تو نہیں تھا لیکن اس طرح ہم اسے اچھی طرح آخری مرتبہ رخصت کرنا چاہتے تھے۔‘

اس کی خالہ نے اپنی کہنیوں پر لگی چوٹ کے نشان مجھے دکھائے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’انھوں نے ہمیں ایک طرف دھکا دیا اور میت کو لے کر چلے گئے، ہم میں سے بہت سے لوگ نیچے گر گئے تھے، میں بھی کھیت میں گری تھی۔‘

لڑکی کی چتا کو آگ دی گئی

حتیٰ کہ لڑکی کے اہلخانہ نے آخری رسومات ادا کرنے سے انکار کیا تھا، مگر 19 سالہ لڑکی کی میت کو پھر بھی اس رات آگ کے شعلوں کی نذر کر دیا گیا۔

لڑکی کے بھائی کا کہنا تھا کہ ’ہم نہیں چاہتے تھے کہ وہ زبردستی ہم سے اس کی چتا کو آگ دلائیں اس لیے ہم نے اپنے آپ کو اندر بند کر لیا تھا، ہمیں کچھ علم نہیں تھا کہ گھر کے باہر کیا ہو رہا ہے۔‘

مقامی صحافی جنھوں نے فاصلے سے آخری رسومات کی ادائیگی کا مشاہدہ کیا تھا کا کہنا ہے کہ چتا کو تقریباً رات ڈھائی بجے آگ دی گئی تھی۔

پولیس نے گاؤں والوں اور صحافیوں کو دور رکھنے کے لیے انسانی ہاتھوں کی زنجیر بنائی تھی۔

لڑکی کی والدہ کا کہنا ہے کہ ’پولیس نے اس کی آخری رسومات کیوں ادا کیں؟ کیا وہ ایک لاوارث لاش تھی؟ میں نے اسے نو ماہ تک اپنی کوکھ میں پالا تھا، کیا مجھے آخری بار اس کا چہرہ دیکھنے کا حق نہیں تھا؟ کیا مجھے اس کی موت کا سوگ کرنے کا حق نہیں تھا۔ کیا مجھے تکلیف نہیں تھی؟‘

جلدی بازی میں ادا کی گئی آخری رسومات پر انڈیا اور دنیا بھر میں غم و غصہ کا اظہار کیا گیا ہے۔

انڈیا کی حزب اختلاف کی جماعتوں نے اسے ’انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی‘ قرار دیتے ہوئے ’غیر قانونی‘ اور ’غیر اخلاقی‘ کہا ہے۔

ہاتھرس ریپ کیس

انڈیا اور امریکہ کے متعدد شہروں میں انڈین شہریوں کی جانب سے مظاہرے کیے گئے ہیں جبکہ اقوام متحدہ نے بھی ’انڈیا میں خواتین اور لڑکیوں کے خلاف مسلسل بڑھتے ہوئے جنسی تشدد کے واقعات پر تشویش اور افسوس‘ کا اظہار کیا ہے۔

منگل کو اتر پردیش کی حکومت نے ملک کی سپریم کورٹ کو بتایا ہے کہ انھوں نے لڑکی کی آخری رسومات رات میں ’غیر معمولی حالات‘ کی وجہ سے ادا کیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ملک میں ذات پات اور مذہبی بنا پر ہنگامے کروا کر وزیر اعلیٰ یوگی ناتھ کی حکومت کو گرانے کی ’عالمی سازش‘ کی جا رہی ہے۔

واضح رہے کہ یوگی ناتھ انڈیا کے سب سے متنازع دائیں جماعت کے سیاسی رہنما ہے۔

انھوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ لڑکی کی آخری رسومات ادا کرتے وقت اس کے اہلخانہ بھی وہاں موجود تھے اور انھوں نے ’مزید تشدد سے بچتے ہوئے شرکت کرنے پر رضامندی‘ ظاہر کی تھی۔

اس سے قبل ہاتھرس کے دو پولیس اہلکاروں نے ایک ویڈیو شیئر کی تھی جس میں تین افراد کو جلتی چتا میں لکڑیاں پھینکتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔

لیکن لڑکی کے اہلخانہ نے بی بی سی کو بتایا کہ اس ویڈیو میں نظر آنے والے ان کے دور کے رشتہ دار اور محلے والے ہیں اور حکام انھیں اہلخانہ کے قریبی افراد قرار دے رہی ہے۔

راکھ کا ڈھیر

تین روز بعد ریپ مخالف کارکن یوگیتا بھیانا نے اہلخانہ سے ملاقات کی اور 19 سالہ متاثرہ لڑکی کے بھائی کو آخری رسومات ادا کرنے والی جگہ کا دورہ کرنے اور باقیات اکٹھا کرنے پر آمادہ کیا۔

ہاتھرس ریپ کیس

اس کے بھائی نے ایک نیوز چینل سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میں اس کو اس لیے اکٹھا کر رہا ہوں کیونکہ یہ اصل میں میری بہن کی باقیات ہیں، میں انھیں آوارہ کتوں کے حوالے نہیں کر سکتا۔ اسے زندگی میں بہت تشدد اور کرب سے گزرنا پڑا، میں یقینی بنانا چاہتا ہوں کہ مرنے کے بعد اسے اس سب سے گزرنا نہ پڑے۔‘

بھلگاری گاؤں میں اندھیری رات میں جلائی جانے والی چتا کے ایک ہفتے بعد میں نے کھیت کے اس چھوٹے سے حصے کا دورہ کیا جہاں اس متاثرہ لڑکی کی آخری رسومات ادا کی گئیں تھی۔

اس کم سن نٹ کھٹ لڑکی کی شرمیلی مسکراہٹ اور لمبے گھنے بالوں کی جگہ صرف اب راکھ کا یہ ڈھیر ہی تھا، اور اس کے اہلخانہ کی انصاف کی امید۔

اس لڑکی کی بھابھی کا کہنا تھا ’میں ان تمام ملزمان کو پھانسی پر لٹکتا دیکھنا چاہتی ہوں، مجھے اس دن کا انتظار ہے، وہ ہر وقت میرے ساتھ رہتی تھی، میں اس کا چہرہ اپنے ذہن سے نہیں بھلا پا رہی۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp