حب الوطنی کی اسناد اور  شبلی فراز:  … نور دیدہ اش روشن کند چشم زلیخا را


سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے دریافت کیا ہے کہ انہیں بتایا جائے کہ ’حب الوطنی‘ کے سرٹیفکیٹ کہاں سے ملتے ہیں۔ وہ اگرچہ ملک کے وزیر اعظم رہ چکے ہیں تاہم وہ بھی یہ سرٹیفکیٹ لینا چاہیں گے۔ انہوں نے یہ بات گزشتہ چند روز کے دوران نواز شریف کو ملک دشمن اور بھارتی ایجنڈے پر گامزن قرار دینے کے تناظر میں شاید استہزائیہ انداز میں پوچھی ہے۔ لیکن اگر سنجیدگی سے اس معاملہ پر غور کیا جائے تو معلوم ہوسکتا ہے کہ غداری کا الزام عائد کرنے والے عناصر وہی مفاد پرست ہیں جنہوں نے وطن سے محبت کو کاروبار بنایا ہے۔ وہ اقتدار میں رہنے کے لئے کسی بھی حد تک جانے کے لئے تیار رہتے ہیں۔

حیرت ہے کہ 73 برس گزرنے کے بعد بھی ملک کے وزیر اعظم کو بتانا پڑتا ہے کہ کون بھارت کا ایجنٹ ہے اور ملک کا وزیر اطلاعات یہ اعلان کرتا ہے کہ ’ذاتی مفاد کے لئے ملک کے اداروں (فوج اور عدلیہ) کو داؤ پر لگانے والوں کو عوام قبول نہیں کریں گے‘۔ شبلی فراز یہ دعویٰ اسی سانس میں کررہے تھے جس میں وہ اس الزام کو مسترد کررہے تھے کہ لاہور کے ایک تھانے میں نواز شریف اور چالیس کے لگ بھگ مسلم لیگی لیڈروں کے خلاف درج ہونے والا ملک دشمنی کا مقدمہ حکومت  کی ایما پر قائم ہؤاہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ عام شہری کا کام ہے ۔ اس عام شہری کے بارے میں گزشتہ روز شبلی فراز کا گمان تھا کہ وہ اپوزیشن جماعتوں میں سے کسی پارٹی کا رکن بھی ہوسکتا ہے۔ اس دوران البتہ یہ بات سامنے آچکی ہے کہ یہ ’ہیرا ‘حکمران تحریک انصاف ہی کے دامن میں جگمگاتا ہے اور خیر سے خود مجرمانہ ریکارڈ کا حامل شخص ہے۔

شبلی فراز یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ اپوزیشن فوج اور عدلیہ کو بدنام کررہی ہے اور قوم اسے قبول نہیں کرے گی۔ اگر وہ لفظ قوم کی صراحت بھی کردیتے تو عام لوگوں کو یہ سمجھنے میں آسانی ہوجاتی کہ شبلی فراز اور ان کے رہنما عمران خان کے خیال میں ’قوم‘ میں صرف وہ لوگ شامل ہیں جو حب الوطنی اور قومی مفاد کی اسی مخصوص تفہیم پر آنکھیں بند کرکے ایمان لے آئیں جو عمران خان اس وقت ملک کے بچے بچے کو ازبر کروانا چاہتے ہیں۔ یہ تفہیم فریب اور جھوٹ کے خمیر سے رقم ہے اور کسی راست گو اور جمہوریت پسند کے لئے اس میں فٹ ہونا ممکن نہیں ۔ اس لئے شاہد خاقان عباسی خاطر جمع رکھیں کہ انہیں کسی بھی دفتر سے اس وقت تک حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ نہیں مل سکتا جب تک وہ اپنے ضمیر کی آواز کے مطابق مؤقف اختیار کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ جس دن انہوں نے ضمیر کی بجائے طمع، ہوس اور اقتدار کی خواہش کو اپنا مقصد بنا لیا، اس روز انہیں حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ لینے کے لئے دفتر کا پتہ پوچھنے کی ضرورت نہیں پڑے گی ، دفتر خود انہیں تلاش کرتا ان کے گھر تک پہنچ جائے گا۔ آخر شیخ رشید، فواد چوہدری اور دیگر بھی تو انہی راستوں سے گزر کر قوم و ملک کے محسن و مسیحا قرار پارہے ہیں۔

یوں تو یہ جملہ معترضہ ہے ۔ اس کا نہ موضوع سے تعلق ہے اور نہ ہی شبلی فراز کو اس بات پر ’شرمندہ‘ کیا جاسکتا ہے کہ وہ اسی احمد فراز کے صاحبزادے ہیں جو اپنی مشہور نظم ’محاصرہ‘ لکھنے پر ملک بدر ہوئے تھے اور سال ہا سال تک نامساعد حالات میں برطانیہ رہنے پر مجبور کئے گئے تھے۔ پوچھا جاسکتا ہے کہ ہمارے وزیر اطلاعات کے والد گرامی کس فوج اور کس صیاد کے بارے میں حرف حق لکھنے کی پاداش میں قوم و ملک کے دشمن قرار پائے تھے۔ کیا یہ وہی ’بغاوت اور ملک دشمنی ‘ نہیں تھی جس کا سراغ لگانے کے لئے تحریک انصاف کے زعما کو غیر معروف ’شہریوں‘ کے ذریعے مقدمات قائم کروانے اور عدالتوں میں اپیلیں دائر کرنے کی ضرورت محسوس ہورہی ہے؟ اگر کل احمد فراز کا احتجاج جائز تھا تو آج بھی موجودہ حکومتی نظام کے خلاف آواز بلند کرنے والا ہر مرد و زن حق پر ہے۔ شبلی فراز اس حق گوئی کا راستہ روکنے کے مشن پر گامزن ہیں۔ وہ خود عاقل و بالغ ہیں۔ وہ بھی اپنے والد کی طرح اپنے فیصلے کرنے کے مجاز ہیں۔ لیکن انہیں یہ ضرور سوچنا چاہئے کہ تاریخ کے پنے پر شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنے والے جن لوگوں کا نام سنہرے حروف سے لکھا جائے گا ان میں احمد فراز کا نام تو نمایاں ہوگا لیکن شبلی فراز اور ان کے ہمنوا اندھیروں کے پردوں میں گم ہوچکے ہوں گے۔

یہ الزام اتنا ہی لغو ہے کہ پاکستان میں کوئی بھی شخص اداروں کے خلاف ہے یا فوج و عدلیہ کو تباہ کرنا چاہتا ہے کیوں کہ یہ ادارے ان کے مفادات کے راستے میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں، جتنا  یہ حرکت ناقابل معافی ہے کہ جرم ثابت ہونے سے پہلے ہی کسی شخص کو مجرم قرار دیا جائے۔ اور اس کا بار بار اعلان کرنے میں کسی قسم کا حجاب محسوس نہ کیا جائے۔ عمران خان اور تحریک انصاف کا کرپشن کے خلاف بیانیہ سیاسی نعرہ ہے جس کا حقیقی بدعنوانی سے دور کا بھی واسطہ نہیں ۔ نیب کو سیاسی مقاصد کے لئے حکومت کا آلہ کار بنا کر ملک میں احتساب اور قانون کا بھیانک مذاق اڑایا گیا ہے لیکن وہی حکومت بڑی ڈھٹائی سے ایمانداری اور حب الوطنی کی اجارہ دار ہونے کا اعلان بھی کرتی ہے۔

پاکستان میں کرپشن ایک سماجی مسئلہ ہے۔ اسے سیاسی عارضہ قرار دے کر چند سیاسی مخالفین کو ٹارگٹ کرنے کا کام کیا جارہا ہے۔ جن عوامل اور عناصر کی وجہ سے ملک میں کرپشن اوپر سے نیچے تک سرایت کرچکی ہے ، انہی کی چھتر چھایا میں موجودہ حکومت کرپشن ختم کرکے نیا پاکستان تعمیر کرنے کا مضحکہ خیز اعلان کرتی ہے۔ اگر بدعنوانی ختم کرنا سیاسی ایجنڈے کا پہلا نکتہ قرار پائے تو اس کا آغاز سرکاری دفتروں، کچہریوں اور تھانوں و پٹوار خانوں کی اصلاح سے کیا جائے۔ جب کرپشن سیاسی نعرہ ہو تو حکمرانوں کو ہر اس شخص کی نیت میں کھوٹ دکھائی دے گا جو ان کے اقتدار و اختیار کو چیلنج کرتا ہو۔ عمران خان کو نواز شریف سے ان کی مبینہ بدعنوانی کی وجہ سے بیرنہیں ہے، بلکہ انہیں یہ خوف ہے کہ اگر نواز شریف ملک میں شفاف جمہوریت لانے کے مقصد میں کامیاب ہوگئے تو عمران خان کے لئے اس میں جگہ بنانا مشکل ہوگا۔ انہیں 1996 سے 2012 تک پر محیط سیاسی ’جد و جہد‘ بخوبی یاد ہوگی۔ اور وہ یہ بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ 2012 کے بعد مقبولیت کے کون سے’ جھرلو‘ نے ان کے لئے وزارت عظمی کا راستہ ہموار کیا تھا۔

 کوئی پاکستانی فوج کے خلاف ہے اور نہ ہوسکتا ہے۔ اب یہ بے بنیاد مباحث ختم ہونے چاہئیں کہ جب بھی جمہوریت اور انسانی حقوق کی بات کی جائے تو فوج کی عزت یا وجود کو خطرہ لاحق ہوجاتا ہے۔ نواز شریف نے تو سول حکمرانی پر عسکری دسترس کا دست و باز بنے رہنے کے کئی برس بعد ’ووٹ کو عزت دو‘ کا نعرہ بلند کیا ہے لیکن ان سے پہلے ملک کے ہزاروں جمہوریت پسندوں نے ہمیشہ ایک ہی بات کی ہے کہ ملک کو آئین کے مطابق چلایا جائے۔ آئین پر عمل کا ڈھکوسلہ کرتے ہوئے ایسا انتظام مسلط نہ کیا جائے جس میں نہ عوام کے حقوق محفوظ ہوں، نہ جمہوری عمل قابل اعتبار رہے، نہ میڈیا کو خود مختاری و آزادی حاصل ہو اور نہ ہی مختلف خطوں کے لوگوں کو اپنی بات کہنے کا موقع نصیب ہو۔ جو بھی اختلاف رائے کا حوصلہ کرے غداری کا سرٹیفکیٹ اس کا مقدر بنے۔ شبلی فراز کو جاننا چاہئے کہ حکومتیں اپنا اقتدار بچانے کے لئے جب تک حب الوطنی کی اجارہ دار بنی رہیں گی، اس وقت تک ایسی حب الوطنی سے بغاوت کرنے والی آوازیں بھی سامنے آتی رہیں گی۔ آج نواز شریف یا مریم نواز کی زبان سے یہ مطالبہ سامنے آیا ہے۔ انہیں منظر نامہ سے ہٹا بھی دیا گیا تو بھی آزادی اور جمہوریت کے لئے جد و جہد کا راستہ روکا نہیں جاسکے گا۔ پاکستان کی سات دہائیاں اس سچ کی گواہ ہیں۔

آئینی اختیار سے تجاوز کرنے والے جرنیلوں اور انصاف کی مسند پر بیٹھ کر انصاف کا گلا گھونٹنے والے ججوں کے خلاف بات کرنا فوج یا عدلیہ پر حملہ نہیں ہے بلکہ اس طرح ان دو قومی اداروں کو غیرآئینی مزاج سے پاک کرنے کی خواہش کا اظہار کیا جاتاہے۔ افراد سے ادارے ضرور بنتے ہیں لیکن بعض مفاد پرست افراد اگر مقدس اداروں کا حصہ بن جائیں تو وہ ان کے لئے بوجھ اور تہمت بن جاتے ہیں۔ کیا پاکستان کی فوجی قیادت آئین پاکستان پر عمل کا اعلان کرتے ہوئے ایوب خان، یحیٰ خان، ضیا الحق اور پرویز مشرف کی آئین شکنی کا دفاع کرنے کرسکتی ہے؟ جب تک اس شرمناک روایت کو مسترد کرنے کا حوصلہ نہیں کیا جاتا، فوج اور عوام کے درمیان اعتماد کا وہ رشتہ بحال نہیں ہوگا جو پاک فوج کو حقیقی معنوں میں قومی ادارہ بناتا ہے۔

اسی طرح پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ کو انصاف کا علمبردار اور آئین کا محافظ کیسے مانا جاسکتا ہے جبکہ و ہ ذوالفقار علی بھٹو قتل کیس  پر نظر ثانی کی اپیل سننے کا حوصلہ نہیں کرتی؟ پاکستان کی پارلیمنٹ نے متفقہ طور پر بھٹو کی پھانسی کو عدالتی قتل قرار دیا ہے۔ سپریم کورٹ فیصلہ دے ۔ یا تو پارلیمنٹ کی قرار داد کو غیرقانونی خواہش قرار دے یا اس بنچ کے فیصلہ کو مسترد کرے جس نے ضیا الحق کی آمریت کو دوام دینے کے لئے ملک کے ہونہار مقبول لیڈر کو تختہ دار پر چڑھانے کا فیصلہ کیا تھا۔ پاکستان کی اعلیٰ عدالتوں نے توہین عدالت کے نام پر مقدمے چلا کر اپنی عزت بچانے کی بہت کوشش کرلی لیکن اگر وہ واقعی واجب الاحترام قرار پانا چاہتی ہیں تو ماضی کی غلط کاریوں کو مسترد کرنا ضروری ہوگا۔

آج ہی سپریم کورٹ کے ایک بنچ نے ڈینئیل پرل کیس میں قید لوگوں کو بدستور زیر حراست رکھنے کی درخواست مسترد کی ہے۔ اس سماعت کے دوران ایک فاضل جج نے ریمارکس دیے ہیں کہ عدالت ابھی تک مختاراں مائی کیس میں ملزموں کی ضمانتیں قبول نہ کرنے پر پچھتا رہی ہے۔ حالانکہ ملک کی اعلیٰ عدالت کو اس بات پر شرمندہ ہونا چاہئے کہ یہ نظام عدل، جنسی درندگی کا شکار ہونے والی ایک خاتون کو انصاف نہ دلوا سکا اور اس کے سارے مجرم رہا کردیے گئے۔ یا پھر اسلام آباد ہائی کورٹ کے فاضل جج اشتہارں کے ذریعے نواز شریف کی گرفتاری کا اعلان کروانے کا حکم دے کر انصاف کا بول بالا کررہے ہیں لیکن ایک معزول شدہ بدکردار جج کے فیصلہ کو مسترد کرنے کا حوصلہ نہیں کرتے۔

دہشت گردوں کے لئے رحم اور جمہوری نظام کا مطالبہ کرنے والوں کے لئے سخت گیری کا مزاج ، نہ عدالتوں کے وقار میں اضافہ کرے گا اور نہ ہی اس سے انصاف کا بول بالا ہوگا۔ بالکل اسی طرح جس طرح عمران خان اور شبلی فراز کے کہنے سے کوئی پاکستانی غدار قرار نہیں پائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali