آرمینیا، آذربائیجان کشیدگی: بمباری، جنگ اور خوف، ناگورنو قرہباخ تنازع کا آنکھوں دیکھا حال
آذربائیجان اور آرمینیا ایک دوسرے پر شیلنگ اور گولہ باری کے الزامات عائد کر رہے ہیں اور اطلاعات کے مطابق ان حملوں میں شہریوں کی ہلاکتیں بھی ہوئی ہیں۔ اس دوران بی بی سی کے دو نامہ نگاروں کو اس متنازع خطے تک رسائی حاصل ہوئی ہے جہاں کے مناظر انھوں نے قلم بند کیے ہیں۔
آرمینیا اور آذربائیجان ایک دوسرے پر الزامات بھی لگا رہے ہیں اور حملے بھی کر رہے ہیں۔
آرمینیا کے حکام کا کہنا ہے کہ ناگورنو قرہباخ کے دارالحکومت سٹیپاناکرٹ کو بمباری کا نشانہ بنایا گیا ہے جبکہ آذربائیجان کا کہنا ہے کہ ملک کے دوسرے سب سے بڑے شہر گینجہ کو بہت نقصان پہنچا ہے۔
بی بی سی روس کی ٹیم نے اس خطے کے کئی قصبوں کا دورہ کیا اور مقامی لوگوں سے بات چیت کی اور جنگ کے مناظر دیکھے ہیں، اس کی تفصیل انھی کی زبانی سنیے۔
ہم نے لاچن کے قصبے سے اپنا سفر شروع کیا جو ناگورنو قرہباخ کے درمیان سرحد پر موجود ہے اور جہاں ایک جانب آرمینیا ہے اور ایک جانب آذربائیجان۔
ہمیں مسلسل سائرن کی آواز سنائی دی رہی ہے جس سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ شاید شیلنگ ہونے والی ہو۔ آذربائیجان کی فوج اس قصبے میں موجود ایک پُل پر تین روز سے حملے کر رہی ہے تاکہ وہ آرمینیا اور قرہباخ کے درمیان زمینی راستہ مسدود کر دے۔
یہ بھی پڑھیے
کیا ترک صدر اردوغان آذربائیجان کے لیے کسی بھی حد تک جائیں گے؟
’لڑو یا قید کاٹو‘، شامی باشندوں کو لڑنے کے لیے آذربائیجان کس نے بھجوایا؟
کھنڈر نما عمارتیں اور بندوق بردار دادیاں، ناگورنو قرہباخ کی تازہ ترین صورتحال
دو سڑکیں آرمینیا کو قرہباخ سے ملاتی ہیں۔ ایک شمالی سڑک، جو کہ سیوان جھیل کے ساتھ جاتی ہے لیکن وہ آذربائیجان کے زیر انتظام علاقوں کے نزدیک ہے۔ تنازع شروع ہوتے ہی یہ سڑک آمد و رفت کے لیے بند کر دی گئی تھی۔
دوسرا راستہ ’لاچن راہداری‘ ہے جو کہ ناگورنو قرہباخ کے دارالحکومت سٹیپاناکرٹ سے آرمینیا کے دارالحکومت یرے وان جانے کے لیے مرکزی راستہ ہے۔
ہم اتوار کی صبح کو سٹیپاناکرٹ جانے والے راستے کی طرف نکل گئے لیکن شام تک اس پُل پر سفر کرنا خطرناک ہو گیا تھا۔
مزدور ساتھ بہنے والے دریا میں بڑے پتھر ڈال رہے تھے تاکہ اس عارضی راستے سے گاڑیاں گزر سکیں۔
شیلنگ
ہم لاچن شہر کے مرکزی حصے سے گزر رہے تھے جب وہاں شیلنگ شروع ہو گئی اور فضائی حملے کی وراننگ دینے والے سائرن کی آواز سے لگ رہا تھا کہ ہمارے کانوں کے پردے پھٹ جائیں گے۔
لوگوں کو بتایا جا رہا تھا کہ وہ جلد از جلد محفوظ مقامات پر چلے جائیں۔
بی بی سی کے عملے کے لیے سب سے قریب ترین مقام ایک سپر مارکیٹ میں قائم تہہ خانہ تھا۔ اس سپر مارکیٹ کی مالکن کا نام نیلی تھا جنھوں نے امریکی ریاست کیلیفورنیا میں 17 سال گزارنے کے بعد اپنے خاندان کے ساتھ واپس آنے کا فیصلہ کیا تھا۔
اس تہہ خانے میں دو کمرے تھے جن میں ٹماٹر، چاول، برانڈی اور دیگر سامان تھا اور وہ دونوں کمرے آہستہ آہستہ لوگوں سے بھرتا جا رہے تھے۔ اس کمرے میں مقامی لوگ بھی تھے، اور وہ بھی جو ہماری طرح لاچن سے گزرتے ہوئے جا رہے تھے اور وہاں پھنس گئے تھے۔
نیلی نے اس کمرے میں موجود تمام افراد کو کافی اور کھانے کی پیشکش کی اور وہیں اس کی تیاری شروع کر دی۔
فنکار اور جنگجو
ایک دبلے پتلے ادھیڑ عمر شخص کو ہم نے دیکھا جو واسکٹ اور سویٹر پہنے ہوا تھا لیکن ایسا لگا کہ وہ شاید مقامی نہیں ہے۔ ہم سمجھے کہ شاید ہماری طرح یہ بھی ایک صحافی ہے۔
لیکن پتا یہ چلا کہ یہ صاحب گراچک آرمیناکیان ہیں اور یہ ایک مصور ہیں۔ جب قرہباخ کی پہلی جنگ ہوئی تھی تو وہ اس وقت ایک طالبعلم تھے۔ پھر سنہ 2016 میں ہونے والی جنگ کے دوران وہ ماسکو میں رہائش پذیر تھے۔
اب وہ یریوان میں رہائش پذیر ہیں اور کہتے ہیں کہ انھوں نے اپنے دوستوں اور گھر والوں سے اس بارے میں کوئی مشورہ نہیں کیا اور بس جنگ میں شرکت کرنے آ گئے۔
’وہ مجھ سے کہتے تھے کہ یہ میرا مسئلہ نہیں ہے۔ تم کو وہاں کیوں جانا ہے؟ گھر پر رہو۔ میں نے ان سب کو بس یہ کہا کہ مجھے قرہباخ جانا ہے اور آج صبح میں نکل پڑا۔‘
ہم سے رہا نہیں گیا تو ہم نے گرچک سے پوچھا کہ وہ ناگورنو قرہباخ میں کیا کریں گے کیونکہ انھوں نے آج سے پہلے تو کبھی کسی جنگ میں حصہ نہیں لیا تھا۔ کیا وہ رضاکارانہ طور پر سپاہی بن جائیں گے؟
اس پر انھوں نے ہمیں بتایا ’میں فوج میں گولہ باری اور توپ خانے چلانے والوں کی مدد کر سکتا ہوں۔ ہم مصوروں میں فاصلے جانچنے کی اچھی صلاحیت ہوتی ہے۔‘
گراچک کو کسی قسم کی فوجی تربیت تو نہیں حاصل لیکن انھیں امید ہے کہ تربیت بھی دی جائے گی اور وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ ایسے مواقعوں پر ساتھ دینا ضروری ہوتا ہے، چاہے وہ جسمانی طور پر ہو یا اخلاقی طور پر۔
ناگورنو قرہباخ میں جنگ میں شرکت کرنے والوں کی آمد
گراچک کا اچانک جنگ میں شرکت کرنے کا فیصلہ شاید لوگوں کو انوکھا لگے لیکن ہم نے یہ خود دیکھا کہ بڑی تعداد میں آرمینین افراد دنیا بھر سے ناگورنو قرہباخ پہنچ رہے ہیں جس کے لیے وہ ماسکو سے سفر کر رہے ہیں۔
ان افراد کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ پہلے یریوان اور ماسکو کے درمیان سفر کے لیے صرف چھوٹے جہاز استعمال ہوتے تھے لیکن اب بڑے بڑے بوئنگ 777 طیارے سفر کر رہے ہیں۔
لیکن کورونا وائرس کی وجہ سے جہاں یہ جہاز پہلے سیاح لے کر جاتے تھے، اب یہ درجنوں ادھیڑ عمر افراد کو ان پروازوں پر بٹھا کر ناگورنو قرہباخ لا رہے ہیں۔
ان میں سے کئی ایسے ہیں جنھوں نے آج سے 20، 30 سال پہلے بھی کیا تھا اور چند ایسے تھے جنھوں نے چار سال پہلے ہونے والی جنگ میں بھی حصہ لیا تھا۔
فوج صحافیوں کی موجودگی سے محتاط
مقامی اہلکار گیورگ ناٹسکان نے بتایا کہ صرف لاچن ہی قرہباخ کے مستقبل کے لیے انتہائی اہم شہر نہیں ہے۔ ’تمام شہر اور ہر قصبہ ہمارے لیے اہم ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ابھی تک لاچن پر بڑے پیمانے پر بمباری نہیں ہوئی ہے۔
ہماری گفتگو میں بار بار تعطل آ رہا تھا کیونکہ وہاں پر فوجی یونیفارم پہنے افراد آ جا رہے تھے۔
اس جنگ کے آغاز میں تو فوج چاہتی تھی کہ صحافی وہاں پر خود آئیں لیکن اب وہ ان کی موجودگی سے محتاط ہو گئے ہیں۔
وہ نہیں چاہتے کہ ہم اس جگہ سے براہ راست براڈ کاسٹ کریں کیونکہ انھیں شک ہے کہ اس سے ہمارے محل وقوع کا پتا چل جائے گا۔ ہمیں صرف سادہ پس منظر کے ساتھ فلم کرنے کی اجازت تھی۔
پناہ گزین اور رضا کار
تہہ خانے میں لوگوں کی تعداد بڑھتی جا رہی تھی اور ہم سب انتظار کر رہے تھے کہ شیلنگ کب ختم ہو گی۔
وہاں پر ہر قسم کے لوگ موجود تھے۔ وہ صحافی جو سٹیپاناکرٹ سے جا رہے تھے، آذربائیجان کے سرحد کے پاس موجود گاؤں سے بھاگنے والے پناہ گزین، اور وہ رضا کار جو جنگ میں شرکت کی غرض سے وہاں موجود تھے۔
چند عورتیں جو اپنا گھر بار چھوڑنے پر رو رہی تھیں، اور دوسرے افراد جو بظاہر پرسکون تھے اور حالات کے بارے میں گفتگو کر رہے تھے۔
تہہ خانے کے دروازے پر دو مرد سگریٹ پی رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم سب کو تہہ خانے میں چھپنے کا بولا گیا ہے لیکن حقیقت میں بمباری سٹیپاناکرٹ سے بہت دور ہو رہی ہے۔
لیکن جیسے ہی انھوں نے اپنی بات ختم کی، ہمارے بہت نزدیک ایک بم پھٹا اور وہ دونوں مرد فوراً تہہ خانے میں داخل ہو کر باقی افراد کی طرح چھپ گئے۔
تم یہاں سے چلے کیوں نہیں جاتے؟
سٹیپاناکرٹ سے کوئی دس سے پندرہ منٹ کے سفر پر قدیم شہر شوشا موجود ہے۔ سٹیپاناکرٹ ایک وادی میں ہے جبکہ شوشا پہاڑ کی جانب ہے۔ وہاں پر بمباری کم ہوتی ہے لیکن جب ہوتی ہے تو وہاں پر پناہ حاصل کرنے کے لیے تہہ خانے ملنا بہت مشکل ہوتا ہے۔
اتوار کو شوشا کے ایک ثقافتی مرکز میں چند پناہ گزین چھپے ہوئے تھے جب اس پر ایک شیل گرا۔ ناگورنو قرہباخ میں خود کو حکومت قرار دینے والے حکام نے کہا کہ سٹیپاناکرٹ اور شوشا میں کم از کم چار افراد کی اس روز موت ہوئی ہے۔
آپ شوشا سے سٹیپاناکرٹ بڑے آرام سے دیکھ سکتے ہیں۔ ہم نے یہاں پر دو گھنٹے فلم بنائی اور جب ہم وہاں موجود تھے تو وہاں پر کوئی شیلنگ نہیں ہو رہی تھی۔
لیکن ہمیں معلوم تھا کہ ہر صبح اور ہر رات سٹیپاناکرٹ پر بمباری ہوتی ہے اور جو صحافی وہاں موجود تھے انھوں نے بتایا کہ حالات بگڑتے ہی جا رہے ہیں۔
شوشا میں ہم نے جن لوگوں سے ملاقات کی وہ زیادہ تر بڑی عمر کے تھے اور ان گاؤں سے آئے تھے جو آذربائیجان کے نزدیک تھے۔
رایا گیورکیئین ایک روسی معلمہ ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ انھیں مقامی حکام کی جانب سے فون آیا کہ فوراً وہاں سے چلی جائیں۔
’حکام چاہتے تھے کہ کم سے کم شہریوں کی ہلاکت ہو۔ ان کی بات سنتے ہی 50 کے قریب لوگ وہاں سے چلے گئے۔‘
اس سے پہلے سنہ 1988 میں بھی انھیں آذربائیجان چھوڑنا پڑا تھا، اور پھر اس کے بعد سنہ 1992 اور سنہ 2016 میں بھی انھیں عارضی طور پر ناگورنو قرہباخ چھوڑنا پڑا تھا۔ یہ چوتھا موقع ہے جب انھیں اپنا گھر بار چھوڑنا پڑا ہے۔
ان کے دو بچے جنگ لڑ رہے ہیں اور انھیں نہیں علم کہ آیا وہ زندہ ہیں یا نہیں اور نہ ہی ان کا اُن سے کوئی رابطہ ہے۔
ان پناہ گزینوں میں شامل ایک اور خاتون عائدہ میلکانیان کو بھی اپنے پیاروں کی فکر تھی۔ ان کے 18 سالہ بیٹے کو فوج میں بھرتی کر لیا گیا تھا اور ان کے ایک بھائی نے بھی رضاکارانہ طور پر فوج میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔
عائدہ کہتی ہیں کہ ان کے بھائی نے چند روز قبل ان سے رابطہ کیا تھا۔ انھوں نے بتایا کہ ان پر مسلسل حملے ہو رہے پیں اور وہ کوشش کر رہے ہیں کہ کسی طرح پیدل چل کر سٹیپاناکرٹ تک پہنچ جائیں کیونکہ وہاں جانے کے لیے کوئی اور طریقہ نہیں ہے۔
‘اس نے کہا کہ وہ زخمی نہیں ہے لیکن اس کے آواز سے لگ رہا تھا کہ کچھ گڑبڑ ضرور ہے۔ یہ بہت ہی بری صورتحال ہے اور دنیا خاموش ہے۔ یہ 21ویں صدی ہے، اور پر امن شہریوں پر بمباری ہو رہی ہے، یہ انسانیت کے منافی ہے۔’
‘ہم بس خود پر ہی بھروسہ کر سکتے ہیں’
ناگورنو قرہباخ کی بطور آزاد ریاست حیثیت کو دنیا کا کوئی بھی ملک تسلیم نہیں کرتا، حتی کہ آرمینیا بھی نہیں۔ اس غیر تسلیم شدہ ریاست کا ایک نمائندہ یریوان میں موجود ہے لیکن کوئی سفارت خانہ نہیں ہے۔
سرگئی گزاریان اس ریاست کے نمائندے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ جنگ کے میدان میں شرکت کرنے والوں میں آرمینین افراد اور آزیری افراد کا تناسب 13 کے مقابلے میں ایک ہے اور اس میں آذربائیجان کو برتری حاصل ہے۔
لیکن ان کا مزید کہنا تھا کہ ایک ہفتے کی جنگ کے بعد بھی آذربائیجان کو اتنی سبقت حاصل نہیں ہوئی جتنی وہ چاہتے تھے۔
جب ہم نے پوچھا کہ کیا سٹیپاناکرٹ کو روسی مدد کی توقع ہے، تو ان کے چہرے پر ہلکی سے مسکراہٹ آئی۔
‘ہم زیادہ انتظار نہیں کر سکتے۔ کس لیے کریں، اور کتنی دیر کریں؟ ہم صرف خود پر بھروسہ کر سکتے ہیں۔ اگر جنگ ہونی ہی ہے، تو پھر آپ شروعات کریں۔ آذربائیجان اس جنگ کے لیے کئی مہینوں سے تیاری کر رہا تھا۔ آرمینیا کے لیے جنگ شروع کرنے کی کوئی وجہ نہیں تھی۔’
اب اس جنگ کو شروع ہوئے ایک ہفتے سے زیادہ ہو چکا ہے۔ 30 سالوں میں یہ پہلا موقع ہے کہ ترکی نے آذربائیجان کا اس طرح کھل کر ساتھ دیا ہے۔
دوسرے ممالک اور عالمی تنظیمیں یہ مطالبہ کر رہی ہیں کہ یہ جنگ روکی جائے اور پر امن مذاکرات شروع کیے جائیں۔
لیکن اس بار ترکی اور آذربائیجان دونوں کا یہ کہنا ہے کہ اب مذاکرات صرف اس صورت میں شروع ہوں گے جب ‘آرمینیا ناگورنو قرہباخ سے اپنا قبضہ ختم کرے گا’ اور ان دونوں ممالک کے مطابق آرمینیا اور اس غیر تسلیم شدہ ریاست کے فوجی وہاں سے چلے جائیں گے کیونکہ یہ خطہ بین الاقوامی قانون کے تحت آذربائیجان کا ہے۔
- مولی دی میگپائی: وہ پرندہ جس کی دوستی کتے سے کرائی گئی اور اب وہ جنگل جانے پر راضی نہیں - 28/03/2024
- ماسکو حملے میں ملوث ایک تاجک ملزم: ’سکیورٹی افسران نے انھیں اتنا مارا کہ وہ لینن کی موت کی ذمہ داری لینے کو تیار ہو سکتا ہے‘ - 28/03/2024
- ٹوبہ ٹیک سنگھ میں لڑکی کے قتل کی ویڈیو وائرل: ’جو کچھ ہوا گھر میں ہی ہوا، کوئی بھی فرد شک کے دائرے سے باہر نہیں‘ - 28/03/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).