شام میں روس اور امریکہ کا اثرورسوخ: کیا ’امریکہ سے مایوسی‘ شامی کردوں کو روس کے قریب لے گئی ہے؟


ماسکو
شام میں روسی فوجیوں کی موجودگی کے بارے میں کردوں کی برداشت نے ایک نیا رخ اختیار کر لیا ہے اور روس اور شامی کردوں کے درمیان خالصتاً دفاعی تعاون کا ارتقا ہو رہا ہے۔

ماسکو کے رویے میں کردوں کے حوالے سے جو تبدیلی آ رہی ہے گو اسے کسی طور پر بھی پالیسی میں تبدیلی قرار نہیں دیا جا سکتا لیکن اس کو حکمت عملی میں رد و بدل ضرور کہا جا سکتا ہے۔

حکمت عملی میں رد و بدل

صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے دسمبر 2018 میں اچانک شمالی شام سے امریکی فوجیوں کے انخلا کے بارے میں ٹویٹ کے بعد کرد نئے اتحاد کی تلاش میں ماسکو کی طرف جھکنے لگے۔

اسی مہینے میں کردوں کی سربراہی میں قائم سیرین ڈیموکریٹک کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی کے صدر الہام احمد ماسکو گئے تاکہ روسی حکام کو قائل کیا جا سکے کہ وہ سیرین ڈیموکریٹک کونسل اور شام حکومت کے درمیان مصالحت کا کردار ادا کر سکیں۔

عرب دنیا کے اخبار الشرق الوسط نے جنوری سنہ 2019 میں لکھا کہ جولائی سنہ 2018 میں مذاکرات شروع ہو گئے تھے لیکن ایک ماہ بعد پھر تعطل کا شکار ہو گئے تھے۔

یہ بھی پڑھیے

’شام سے نکلنے والے امریکی فوجی عراق جائیں گے‘

طیب اردوغان: ’ہم کرد جنگجوؤں کے سر کچل دیں گے‘

ترکی، شام میں فوجی کارروائی معطل کرنے پر رضامند

آزاد کُرد ریاست کا خواب اب تک ادھورا کیوں؟

کردوں کی طرف سے نئی حکمت عملی امریکہ کے متزلزل موقف کی وجہ سے پیدا ہونے والے عدم تحفظ کا نتیجہ تھی اور صدر ٹرمپ کے شام سے امریکی فوج کے اچانک انخلا کے اعلان سے کردوں میں یہ احساس پیدا ہو گیا تھا کہ انھیں امریکہ نے فراموش کر دیا ہے۔

کردوں کو جس چیز کا خوف تھا وہ اکتوبر سنہ 2019 میں حقیقت بن گیا جب صدر ٹرمپ نے شام کے شمالی حصوں سے امریکی فوجیوں کو واپس بلانے کا اعلان کر دیا۔ اس کے بعد شمالی شام کے کئی قصبوں، بے شمار دیہات اور کردوں کے زیر قبضہ وسیع علاقوں پر ترکی نے قبضہ کر لیا۔

اس کے بعد سے کردوں کی سربراہی میں قائم ایس ڈی ایف روسی فوجیوں کی موجودگی سے صبر اور تحمل سے نپٹ رہی ہے کیونکہ روس کے فوجی شام اور ترکی کی سرحدوں پر گشت کرتے ہیں۔

سنہ 2019 کے آخر میں ماسکو نے ایک خصوصی سفیر کو کردوں کی سیاسی قیادت اور عرب اور عیسائیوں کی سرکردہ شخصیات سے ملنے کے لیے شام روانہ کیا تاکہ شام کی حکومت کے ساتھ مذاکرات میں مدد کی جا سکے۔

ایس ڈی سی کے رہنماؤں نے سعودی عرب کی مالی معاونت سے چلائے جانے والے اخبار الشرق الوسط اخبار کو اس سال فروری میں ایک خصوصی انٹرویو میں بتایا کہ روس کی طرف سے دمشق پر وسیع تر سمجھوتے کے لیے دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔

لیکن اس معاملے پر شک و شبہات کا اظہار بھی کیا جا رہا تھا اور اس کی وجہ روس کے کرد انتظامیہ کے مخالفین شامی حکومت، ترکی اور ایران سے قریبی روابط بتائے جاتے ہیں۔

کردوں کی ویب سائٹ روحانی نے مئی کی 23 تاریخ کو کہا کہ ایس ڈی ایف کے کمانڈر مظلوم عابد جنھیں مظلوم کوبانی کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے ان کے بقول روس کی طرف سے مذاکرات کے لیے خلوص دل سے کوششوں کے باوجود دمشق کی حکومت اس بارے میں سنجیدہ نہیں تھی۔

کردوں کی ایک اور ویب سائٹ نے مئی کی 12 تاریخ کو کردوں کی شمالی اور مشرقی شام میں کثیرالنسلی خود مختار انتظامیہ کے نائب سربراہ بدران چیاکرد کے حوالے سے کہا کہ کردوں سے مذاکرات کے بجائے دمشق کی حکومت کی کوشش ہے کہ وہ فوجی قوت کے بل پر شام میں سنہ 2011 سے پہلے کی صورت حال بحال کرے۔

چیاکرد نے مزید کہا کہ ترکی اور ایران دمشق اور ماسکو پر مذاکرات کی حوصلہ شکنی کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں۔

چیاکرد کے حوالے سے یہ بھی کہا گیا کہ ترکی اور روس کے درمیان جب کشیدگی میں اضافہ ہوا تو روس کا مذاکرات کے بارے میں رویہ کافی گرمجوش ہو گیا لیکن جب اس کشیدگی میں کمی واقعی ہونے لگی تو یہ گرمجوشی بھی ٹھنڈی پڑنے لگتی ہے۔

تعلقات کا ارتقا

تازہ ترین پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ اگست کی 31 تاریخ کو کردوں کے زیر قبضہ شامی علاقوں سے تعلق رکھنے والے ایک اعلیٰ سطح کے وفد نے ماسکو میں قادری جمیل کی عرب شامی جماعت سے ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔

جمیل کے روس کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں اور وہ ایک عرصے سے سیاسی منظر نامے کا حصہ ہیں جس کو شامی حکومت بھی برداشت کرتی ہے۔ وہ شام کی حکومت کا ماضی میں بھی حصہ رہے ہیں۔

ماسکو میں ہونے والا معاہدہ شمالی اور مشرقی شام میں نیم خودمختار کرد حصوں کی اجازت دیتا ہے لیکن خارجہ، دفاعی اور مالیاتی معاملات مرکز یعنی دمشق کے ہی ہاتھ میں رہیں گے۔

فریقین نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرار داد 2254 پر عملدرآمد کروانے کے لیے بھی کوششیں جاری رکھنے پر اتفاق کیا۔

روس مسلسل اس قرار داد کی حمایت کر رہا ہے، شمال مشرقی شام میں کرد حکام بھی ان قرار دادوں کو مثبت انداز میں دیکھتے ہیں۔

اس قرارداد میں شام کے مستقبل کے بارے میں نقشہ راہ کا تعین کیا گیا ہے۔ اس میں کردوں کو نظر انداز نہیں کیا گیا جیسا کہ ان قراردادوں میں جہادی عناصر کو واضح طور پر کیا گیا ہے، جن میں نام نہاد دولت اسلامیہ اور اب کالعدم النصرہ فرنٹ شامل ہیں۔

ماسکو میں یاداشت پر دستخط کے فوراً بعد ان وفود کی ملاقات روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاروف سے کرائی گئی جس سے ماسکو کی طرف سے اس معاہدے کی حمایت کا واضح اشارہ ملا۔

الہام احمد جو اس وفد میں شامل تھے انہوں نے کہا کہ سرگئی لاروف سے ملاقات کے دوران گفتگو کا موضوع شام میں دو بڑی جماعتوں کے درمیان طے ہونے والی یاداشت پر عملدرآمد کا طریقہ کار ہی رہا۔

لاروف نے فریقین کو بتایا کہ روس اس یاداشت کی اس لیے حمایت کر رہا ہے کہ اس میں شامل کئی نکات روس کی شام میں پالیسی سے ہم آہنگ ہیں۔

بعد ازاں دمشق میں ستمبر کی سات تاریخ کو ایک پریس کانفرنس میں انہوں نے کردوں کے وفد کے دورے کی تصدیق کی لیکن ساتھ ہی انہوں نے شام کی خود مختاری اور سلامتی کے حوالے سے روس کے موقف کا اعادہ کیا جو کہ اس معاہدے کے مندرجات سے بھی مطابقت رکھتا ہے۔

روسی ذرائع ابلاغ میں کوریج

روسی ذرائع ابلاغ نے شامی کردوں کے دورے پر زیادہ توجہ نہیں دی اور میڈیا کی مانیٹرنگ کرنے والے ایک ادارے کے مطابق اس وفد کی ماسکو میں موجودگی کا ذکر روس کے سرکاری میڈیا پر بھی نظر نہیں آیا۔

کردوں کو جنگ سے تباہ حال ملک شام میں متاثرین کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

روس کے میڈیا نے کرد حکام کی طرف سے اس درخواست کی اطلاع دی ہے کہ دولت اسلامیہ سے وابستہ روسی بچوں کو واپس بھیج دیا جائے۔

روسی ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی دیگر رپورٹوں میں کردوں کے امریکی فوجیوں سے تعاون کا ذکر کیا گیا جن میں کردوں کی بجائے واشنگٹن کو حرف تنقید بنایا گیا۔

سرگئی لاروف نے ستمبر کی 18 تاریخ کو روسی نیوز ایجنسی سپٹنک سے اپنے انٹریو میں کہا کہ فرات کے مشرقی کنارے پر صورت حال کافی تشویش ناک ہے۔

لاروف نے کہا کہ علاقے میں غیر قانونی طور پر تعینات امریکی فوج واضح طور پر کردوں میں علیحدگی کے رجحان کو ہوا دے رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ انہیں افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ وہ حکومت کے خلاف کردوں کو اکسا رہے ہیں اور کردوں میں حکومت سے مذاکرات کرنے کی حوصلہ شکنی کر رہے ہیں۔

تبدیلی کے امکانات

شامی کردوں کے سیاسی رہنما عمر شیخموس نے ستمبر کی 15 تاریخ کو کہا تھا کہ فی الوقت شام کی حکومت اور حزب اختلاف کے گروہ کردوں کے حقوق تسلیم کرنے لیے تیار نہیں ہیں لیکن اگر کرد متحد ہو جائیں اور انھیں روس، امریکہ اور یورپی یونین کی حمایت حاصل ہو جائے تو پھر ان کے پاس کوئی چارہ نہیں رہے گا۔

ستمبر میں امریکی سفیر جیمز جیفری کے شمالی شام کے دورے کے بعد لندن سے شائع ہونے والے اخبار القدس العربیہ نے قادری جمیل کے بیان کی یوں تشریح کی تھی کہ روس اور امریکہ شمال مشرقی شام کے بارے میں کسی تصفیے پر پہنچ جائیں گے۔

شام کا سرکاری میڈیا اس معاہدے کے بارے میں بالکل خاموش رہا۔

تاہم دمشق میں سرگئی لاروف کی غیر معمولی طور پر تناؤ کا شکار پریس کانفرنس میں شام کے وزیر خارجہ ولید ملایم نے کہا کہ شام کی حکومت کسی ایسے معاہدے کی حمایت نہیں کرے گی جو اس کے آئین کے منافی ہو۔

پریس کانفرنس میں کشیدہ ماحول کے باعث یہ قیاس آرائیاں شروع ہو گئی تھیں کہ دو قریبی اتحادی ملکوں روس اور شام میں شام کے شمالی حصوں کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔

روس کے انقرہ اور شامی کردوں کے ساتھ متوازی تعلقات جاری رکھنے کے دوران دمشق نواز ذرائع ابلاغ کی طرف سے مسلسل یہ کہا جا رہا کہ امریکہ اور ترکی کی فوجوں کو نکالا جائے۔

حکومت کا اعلانیہ یہ کہتا ہے کہ اس کے فوجی ان تمام علاقوں پر اپنا قبضہ بحال کر لیں جو اس کے ہاتھ سے نکل گئے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32296 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp