ماں بہن کو پڑتی گالی آپ کی حیا اور مار پیٹ آپ کی اقدار ہیں


دنیا کی ایسی ہر جگہ، ملک، شہر، معاشرہ، گاؤں، بستی، گوشے، پاتال میں، جہاں جنسی تشدد کو عام سی چیز یا سرے سے اس کے ہونے کو جھٹلایا جاتا ہے، وہاں عموماً اکثریت میں کم عمر بچیوں، بچوں اور لڑکیوں کو اس بات کا ادراک نہیں ہو پاتا کہ ان کے ساتھ کیا ہوا ہے یا جو ان کے ساتھ ہو رہا ہے، وہ غلط ہے بھی یا نہیں۔ ایسے معاشروں میں ایک ہمارا معاشرہ بھی ہے۔ متاثرین کو تب جا کر ادراک ہوتا ہے، جب ایسے واقعات کو بیتے ہوئے دو، تین یا چار عشرے گزر چکے ہوں اور اکثریت تو لاعلم ہی قبور میں اتار دی جاتی ہے۔

متاثرہ خواتین، اپنے ہی مجرموں کو اپنے ہی گھروں میں دہائیوں تک چائے پانی، کھانا اور گرم گرم روٹیاں بنا کر دیتی رہی ہوتی ہیں۔ ادراک ہو بھی جائے، تب بھی چپ سادھنے اور اندر ہی اندر گھٹنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ ایسے تو خواتین کو اپنے ساتھ زیادتی اور ظلم کرنے والوں کے ساتھ رہنے کی تربیت اور تجربہ اچھا رہتا ہے، چاہے وہ میکہ ہو یا سسرال۔

اب ریپ کرنے والوں اور اس کی معاشرتی سطح پر سہولت کاری میں کردار نبھانے والوں کو پاکستان کی اپنی نوعیت کی منفرد ویب سیریز ”چڑیل“ میں جنسی تشدد کی منظر کشی دکھانے کی بنیاد پر بند کر دیا گیا ہے۔ غالباً ریپ یا جنسی تشدد کو آج تک تشدد نہیں فحاشی کے زمرے میں رکھ کر پیمائش کی جاتی رہی ہے، جو اس کی وجہ بنا۔ اسی لئے تو ذرا ریپ یا زیادتی کی خبر کیا چلے، گھر کے بڑے چینل بدلتے دیر نہیں کرتے۔ جبھی تو ہمارے یہاں ریپ جیسے بھیانک عمل کو بھی آج تک سیدھا زنا کہہ دیا جاتا ہے۔

جیسا کہ پہلے بتایا گیا ہے کہ پاکستان سمیت دنیا کے ہم جیسے ہر معاشرے میں متاثرین کو علم نہیں ہوتا کہ جنسی زیادتی یا تشدد کیا ہے، جس سے بد کار لوگ فائدہ اٹھاتے رہتے ہیں۔ اب جنسی تشدد کی منظر کشی پر ایک ویب سیریز پر پابندی لگانا، جب کہ وہ کسی نشریاتی ادارے پر نشر ہو رہی ہو، نہ سینما میں، پابندی کا جواز نہیں بنتا۔ وہ الگ مدعا ہے کہ لوگ چاہتے نہیں کہ کسی طرح سے متاثرین کو اس بات کا علم ہو جائے کہ جو ان کے ساتھ ہوا، وہ بھی اصل میں کسی تشدد کی قسم تھی۔ کہیں کوئی مظلوم عورت ایسا منظر دیکھ کر جوش کھا کر اپنے مجرم یا ظالم کے خلاف اٹھ نہ کھڑی ہو، کہیں کسی ریپ کار کا نام نہ لے لیا جائے۔

جنسی عمل کی فلم بندیوں سے بھرا انٹرنیٹ اور جنسی حسرت و وفور سے لبریز اذہان نہیں پابند کیے جائیں گے مگر ذرا کہیں اس ملک کی عورت کو عقل اور دانستگی مہیا کرنے کی نوبت کیا آئے، جنسی مجرم اور ان کی پشت پناہی کرنے والوں کی اناؤں کو گہرے صدمے اور شدید نوعیت کے دھچکے لگ جاتے ہیں۔

گزشتہ برس اٹھائیس جولائی کو نشر ہونے والے ایک گیت ”دھڑک بھڑک“ میں مرد اداکار رقص کرتے ہوئے اپنی چھاتیوں اور پستانوں کو خوب لہکتے ہوئے رقص کرتے ہیں، نہ تو کسی نے مرد اداکار پر بد کرداری یا اخلاقی گراوٹ کا سوال بلند کیا، کوئی فتویٰ آیا اور نا ہی کوئی پابندی لگی۔ ایک مرد کے جھولتے پستان صرف طنز و مزاح کی حد تک ہی خبروں میں رہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ایک اداکارہ دو لمحات کے لئے مسجد میں فلم بندی کا کرایہ دے کر جھول لے تو توہین مذہب کے زمرے میں آتا ہے۔ جب کہ اس کی انگشت تھامے گیت کا گلوکار بہت حد تک غیرت، عظمت اور اقدار کی بحث سے ماورا ٹھہرتا ہے۔

جھومتی گاتی، رنگ برنگے ملبوسات اوڑھے، مسکراتی، ہنستی عورت کیسے کسی کو بھلی لگ سکتی ہے، اور اس کا لباس، اس کا مفہوم، اس کی نیت فقط اس دیس کے منفرد اور خوبصورت ثقافت کو اجاگر کرنے کے سوا کچھ نہ تھا۔ ایک لہکتے چھاتیوں والے مرد کا رقص، رقص ٹھہرا اور دیس کے رنگوں کے بیچ جھومنا بے حیائی، فحاشی، بے چینی ور ہیجانی کیفیات اجاگر کرنا تھا۔ مگر نہیں آپ درست ٹھہرے۔ ایک جھومتی جھولتی، خوش لباس، علاقائی رنگوں میں رنگولتی عورت کیسے اس ملک کی اصل اقدار اور اخلاقیات کی نمایندگی کر سکتی ہے؟ یہاں حیا تو تھپڑ کھا کر شکر بجا لانا ہے۔ یہاں اخلاق اپنے مجرم ریپ کار کو چائے پیش کرنا ہے نا؟ آزاد، گاتی مسکراتی خوش عورت ہرگز اس معاشرے کی عکاسی نہیں کرتی، بالکل ٹھیک دلیل دے رہے ہیں۔

آپ کو مری ہوئی، متعدد بار حمل سے قریب الموت عورتیں، تھپڑ، گالیاں، ٹھوکریں، جھڑکیاں کھاتی، کلائیاں مڑواتی، چوٹی کھنچواتی عورتیں ہی با حیا اور با کردار لگتی ہیں، جو اس عصبیت کی اصل نمایندہ ہیں۔ اس ملک کے مردوں نے ساری عمر اپنی ماؤں کو تمانچے، طعنے جھڑکیاں کھاتے اور روتے دیکھا ہے اور ایسی عورتیں ان کو اچھی لگتی ہیں جو ان کی ماؤں جیسی ہوں۔ یہ نا اپنی ماؤں کی قسمت بدلتے ہیں، بلکہ دوسروں کی قسمت بھی اپنی ماں سی بنانے میں کسر اٹھا نہیں رکھتے۔

پس طے ہوا کہ تکلیف آپ کا مذہب، اذیت آپ کا ایمان، ماں بہن کو پڑتی گالی آپ کی حیا اور مار پیٹ آپ کی اقدار ہیں۔ مبارک ہو۔

مگر میرے نزدیک سب سے بڑی بے حیائی کسی مرد اداکار کا رقص ہے، نہ کسی اداکارہ کا۔ سب سے بڑی بے حیائی ایک عورت کے آنسو ہیں، اس کے جسم پر مار پیٹ سے پڑے نیل دھبے ہیں۔ زیادتی کے بعد بچیوں، عورتوں کی مسخ شدہ نعشیں ہیں، جو حقیقتاً اس معاشرے کی اقدار اور اخلاقیات ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).