قدیم میسو پوٹیمیا کی مختلف سلطنتیں


قدیم میسوپوٹیمیا (دجلہ و فرات کی وادی) کے عوام دراصل دو بڑے نسلی گروہوں پر مشتمل تھے، شمالی عراق اور کردستان میں سامی النسل اکادی قوم (جو بعد میں آشوری اور بابلی کہلائے ) اور جنوبی ڈیلٹا میں آباد سمیری جو ایک الگ تھلگ لسانی قوم تھی۔ تہذیب کی ابتدا ولادت مسیح کے پانچ ہزار سال پہلے جنوبی عراق کے سمیریوں نے کی۔ ابتدا میں یہ لوگ متحدہ قوم نہیں تھے، بلکہ مختلف چھوٹی شہری ریاستوں میں منقسم تھے۔ چار ہزار سال قبل از مسیح ہمیں انسانیت کے پہلے باقاعدہ مذہب کا ثبوت اسی علاقے سے ملتا ہے جو کہ 3500 قبل مسیح میں میخی لکھائی Cuneiform کی ایجاد کے بعد، لکھی گئی مذہبی کتھاؤں اور دعائیہ کلام کے ملنے سے ثابت ہوا ہے۔

اگرچہ یہ معلوم نہیں ہے کہ سمیری لوگ قدیم تاریخی زمانے میں اس علاقے میں ہجرت کر کے پہنچے تھے یا وہ یہاں کے قدیم/اصل باشندے تھے۔ بہرحال وہ جنوبی میسوپوٹیمیا میں آباد تھے، جو سمیر کے نام سے مشہور ہوا، جبکہ سامی النسل اکاد قوم سمیریوں کے شمال میں آباد تھی۔ سمیریوں نے اکادیوں کی ثقافت پر کافی اثر ڈالا۔

سمیری باشندے ترقی یافتہ تھے۔ لکھنے کی ایجاد کے ساتھ ساتھ انہوں نے ریاضی کی ابتدائی شکلیں، ابتدائی پہیے والی گاڑیاں، فلکیات، علم نجوم، تحریری قانون، منظم طب، جدید زراعت اور فن تعمیر جیسے علوم اور ابتدائی کیلنڈر بھی ایجاد کیے۔ قدیم مصر اور سندھو۔ سرسوتی تہذیب کے ہمعصر سمیریوں نے دنیا کی ابتدائی شہری ریاستیں قائم کیں جیسے کہ ارک، ار، لاگیش، ایسن، کیش، اما، ایریڈو، اداب، اکشک، سیپور، نیپور اور لارسا۔ غالباً اریڈو یا ارک سب سے پرانے شہر تھے۔ (موجودہ عراق دراصل ارک کی بگڑی شکل ہے ) ان چھوٹی چھوٹی شہری ریاستوں کے حکمرانوں کو وہ ”اینسی“ کہتے تھے۔

اکاد کی ریاستوں کے حکمرانوں کے نام ہمیں کھنڈرات سے ملی تختیوں پر لکھی ’بادشاہوں کی فہرستوں‘ میں پہلی بار سن 2800 قبل مسیح میں ملتے ہیں۔ 3500 ق م سے پہلے سمیری۔ اکاد تہذیب پر سمیریوں کا غلبہ تھا، تاہم 2335 قبل مسیح میں اکاد حکمران سارگون اعظم نے سمیر پر قبضہ کر کے تمام میسوپوٹیمیا کو اکادی سلطنت کے ماتحت متحد کر دیا۔ یہ دنیا کی پہلی باقاعدہ سلطنت یا بادشاہت تھی۔

وقت گزرنے کے ساتھ سمیری اور اکاد ثقافتوں اور مذاہب کے بیچ انضمام ہوتا گیا، بادشاہوں کو دیوتاؤں کے نمائندے کی حیثیت حاصل ہو گئی۔ سارگون اول کی قائم کردہ اکاد سلطنت کی حدود قدیم مغربی ایران، لیوانت (شام و عراق) ، ایشیائے کوچک ( ترکی) ، کنعان ( اسرائیل و لبنان) اور جزیرہ نما عرب کے کچھ شمالی حصوں تک پھیلی ہوئیں تھی۔ سارگون کی قائم کردہ یہ پہلی اکادی سلطنت دو صدیاں ہی قائم رہ سکی۔ معاشی زوال، داخلی تنازعات اور شمال مشرق سے آنے والے گوتی حملہ آوروں کے حملوں کی وجہ سے اکادی سلطنت دو صدیوں بعد ڈھے گئی۔

اکادیوں کے زوال کے بعد نو سمیری سلطنت کا زمانہ آیا۔ 2100 ق۔ م میں شمال میں ایک اور سامی النسل قوم آشوری کا عروج شروع ہوا۔ جبکہ جنوبی میسوپوٹیمیا (سمیر) متعدد شہری ریاستوں میں بٹ گیا۔ جن میں ایسن، لارسا اور ایشنا اہم شہر تھے۔ 1894 ق م میں مغربی سامی قوم آمور نے بابل نام کے نئے شہر کی بنیاد رکھی۔ یہ لوگ مغرب میں کنعان (فونیشیا) کے علاقے سے میسوپوٹیمیا پر حملہ آور ہوئے تھے۔ بابل کی پوری تاریخ میں شاذ و نادر ہی مقامی لوگوں نے اس پر حکومت کی تھی۔

اس کے بعد ہمیں سمیر قوم کا وجود آثار قدیمہ (کی تحریروں ) میں نہیں ملتا یقیناً وہ بابلی سلطنت کے دیگر قبائل میں ضم ہو گئے ہوں گے۔ سن 1750 قبل مسیح کے لگ بھگ بابل کے آموری نسل کے حکمران، حمورابی نے میسوپوٹیمیا کا بیشتر حصہ فتح کر کے اپنی سلطنت میں شامل کیا، لیکن یہ بابل کی سلطنت اس کی موت کے ساتھ ہی ایشیاء کوچک (موجودہ ترکی) سے آنے والے کاسی نام کے پہاڑی لوگوں کے حملوں کی وجہ سے تباہ ہو گئی، اگلے 500 سے زیادہ سال تک کاسی بابل کے حکمران رہے۔

اس کے بعد ایک مرتبہ پھر آشوریوں نے طاقت پکڑی اور درمیانی۔ آشوری سلطنت ( 1391 ق م۔ 1050 ق م) کے دوران قائم رہی۔ اسی عرصے میں آشور نے اپنے شمال میں انطالیہ (ترکی) میں طاقتور ہو رہے، ہند۔ یورپی ( آریائی) قبائل حتی اور میتانی کو شکست دی۔ نیز یہ مصریوں سے کنعان (اسرائیل و لبنان) چھیننے والی پہلی میسوپوٹامیائی سلطنت تھی۔ سلطنت آشور اپنے عروج پر کوہ قاف سے لے کر بحرین تک اور قبرص سے مغربی ایران تک پھیلی ہوئی تھی۔

اسکے بعد قائم ہونے والی ایک نئی آشوری سلطنت ( 911۔ 605 ق م) سطح زمین پر اپنے وقت کی سب سے بڑی طاقت تھی۔ اسی نئے آشور کے زمانے میں آرامی زبان کو عروج حاصل ہوا۔ عربی اور عبرانی دونوں کی ماں سمجھے جانے والی اس مغربی سامی خاندان کی زبان کو اس وقت تک بین الاقوامی زبان کی حیثیت حاصل ہو چکی تھی۔ اس زمانے تک بہت سے قدیم سمیری مذہبی تصورات عبرانی یہودیوں میں سرایت کرچکے تھے۔

یہ سلطنت 605 قبل مسیح میں آخری آرامی شہنشاہ آشور اوبلاۃ ثانی کی موت کے بعد اندرونی تنازعات کا شکار ہوئی۔ جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بابل، کالدیہ اور ایرانی (مادیا اور پارسا) اقوام کے مشترکہ لشکر نے سن 625 قبل مسیح میں بابل کے شہنشاہ نبوپلاسر کی سربراہی میں حملہ کیا اور بچی کھچی آشور ایمپائر کو شکست دی۔

بابل کا آخری بادشاہ نبوند، چاند دیوتا، جنا کی پوجا پاٹ میں ایسا مستغرق ہوا کہ اپنا تاج و تخت اپنے بیٹے بیلش ضر کے حوالے کر کے امور سیاست سے کنارہ کش ہو گیا۔ اسی زمانے میں مشرق میں ایرانی۔ آریائی قبائل فارس اور میدیا طاقت پکڑ رہے تھے اب تک صدیوں سے آشور کی طاقتور ریاست نے انہیں باجگزار بنا کر اپنے ماتحت رکھا ہوا تھا۔

تاہم اب میسوپوٹیمیا کی اس آخری آشوری۔ بابلی سلطنت کے زوال کے زمانے میں مشرقی سمت کوروش نامی ایرانی شہنشاہ نے دو پرانے آریائی حریف قبیلوں (پارسا اور میدیا) کو متحد کر کے نئی علاقائی طاقت ہخامنشی سلطنت کی بنیاد رکھی۔ اس پہلی فارسی سلطنت نے 552 قبل مسیح میں میسوپوٹیمیا کے دارالحکومت بابل کو فتح کیا اور یوں قدیم میسو پوٹیمیا کے مشرق وسطی پر تین ہزار سال سے زائد راج کا عہد تمام ہوا!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).