ہم سفر کے سنگ خوبصورت سفر


”سنو عمرہ کرنے چلو گی؟“ ہمارے شوہر محترم نے آئینے میں بالوں کو برش کرتے ہوئے، ہم سے پوچھا، تو کچھ لمحے ہم حیرانی سے ان کی شکل ہی تکتے رہے۔ اپنی سماعتوں پر یقین ہی نہیں آ رہا تھا۔ پھر حیرت اور خوشی کے سمندر سے ابھر کر ہم نے کہا، ”واقعی؟“

”ہاں نا! دیکھو، بات تو کی ہے ٹریول ایجنٹ سے۔ پہلے ہم ابو ظہبی اور دبئی جائیں گے، پھر چار دن وہاں رک کر ان شا اللہ مکہ جائیں گے۔ بس دعا کرو ویزا لگ جائے۔

اصل میں ان کا بچپن ابو ظہبی میں گزرا ہے۔ اور جہاں بچپن گزرا ہو وہاں کی یاد اکثر و بیش تر انسان کو ستاتی رہتی ہے۔ ان کی بڑی خواہش تھی کہ ہمیں بھی ایک دفعہ ضرور وہاں لے کر جائیں اور ہمیں بھی ان گلی محلوں کی سیر کروائیں، جہاں بچپن میں وہ کھیلا کرتے تھے۔ سوری محلے تو نہیں وہاں تو بلڈنگ اور فلیٹس سسٹم ہے۔ یہ محلے وغیرہ تو ہمارے دیسی علاقوں میں ہوتے ہیں۔

میاں جی نے پورا پلان ہمارے گوش گزارا اور یہ سنتے ہی جہاں خوشی حد سے زیادہ تھی، وہیں بہت ساری فکروں میں سے ایک سب سے بڑی فکر یہ تھی کہ اتنی چھوٹی بچی کے ساتھ یہ سب کیسے ہو گا۔ کیوں کہ ہماری سب سے بڑی صاحب زادی اس وقت صرف 10 مہینے کی تھیں اور چھوٹی بچی کے ساتھ عمرے کی صحیح طرح سے ادائیگی ہو بھی پائے گی یا نہیں۔

خیر! انہی فکروں اور خیالات کے ساتھ ہم نے تیاری مکمل کرلی اور بالآخر وہ دن بھی آ ہی گیا جب صبح کی فلائٹ سے ہم دبئی کے لئے روانہ ہوئے۔ دبئی ائر پورٹ پر اترے، تب تو اس کو ’تسخیر‘ کرنے کا خیال نہیں آیا۔ کیوں کہ ایک تو ہم پہلی دفعہ ملک سے باہر نکلے تھے اور پھر جو رائے ہم پاکستانیوں کے بارے میں دنیا کی ہے، وہ کسی سے بھی مخفی نہیں۔ اس بات کا بھی ڈر تھا کہ خدانخواستہ کہیں کچھ الٹا سیدھا نہ ہو جائے اور ہمیں اگلی فلائٹ سے واپس روانہ نہ کردیں یا پھر جیل ہی میں نہ ڈال دیں۔ دوسرا یہ شیطان کی آنت کی طرح لمبا اور بڑا ائر پورٹ ہے دبئی کا۔ جہاز سے اتر کر چل چل کر ہماری ٹانگیں دکھ گئیں مگر مجال ہے جو امیگریشن کاؤنٹر آ جائے۔ اللہ اللہ کر کے وہاں تک پہنچے اور پھر تمام مراحل سے گزر کر باہر ٹیکسی اسٹینڈ تک گئے۔

چوں کہ ہمارا قیام ابو ظہبی میں تھا۔ طے یہی ہوا تھا کہ ابو ظہبی ہی سے دبئی گھومنے کے لئے بعد میں آئیں گے۔ چناں چہ ہم نے ٹیکسی بک کی اور چل پڑے منزل کی جانب۔ اپنی منزل تک پہنچنے کے لئے پہلے ہمیں آدھا سفر بذریعہ ٹیکسی طے کرنا تھا، پھر باقی راستے میں ان کے رشتہ دار کے ساتھ طے ہوا، جہاں ہمارا قیام ہونا تھا (ہمارے شوہر کے دو کزن ابو ظہبی ہی میں مقیم تھے اور وہیں ہمیں بھی جانا تھا) ۔

ائر پورٹ سے باہر نکل کہ جب ریاست میں داخل ہوئے، تو سچی بات ہے کہ ہمیں کچھ خاص نظر نہیں آیا۔ دبئی میں بس اونچی اونچی عمارتیں تھیں، لیکن ہاں سڑکیں بہت صاف ستھری اور اچھی تھیں۔ اس وقت تو بس ہم یہی سوچتے رہے کہ پتا نہیں یہاں لوگوں کو اتنا ”چارم“ کیوں نظر آتا ہے۔ ایک ریاست ہے بس، جیسے باقی شہر اور ممالک ہوتے ہیں۔ مگر جب دبئی اور ابو ظہبی میں دن گزارے اور تفریحی مقامات کی سیر کی، تب دل قائل ہو گیا کہ واقعی بہت اچھی، منظم اور صاف ستھری ریاستیں ہیں۔

ہم جب ابو ظہبی پہنچے، تو تقریباً رات کا وقت تھا۔ لہذا طے یہ پایا کہ کل جمعے کا دن ہے، تو کیوں نا ابو ظہبی کی مشہور شیخ زائد مسجد دیکھی جائے۔ ابو ظہبی ہی میں جو مشہور جگہیں ہیں، ان کی سیر کر لی جائے۔ کھانے سے فارغ ہو کر جیسے ہی پروگرام سیٹ ہوا، ہم اپنی تھکان اتارنے کے لئے بستروں میں گھس گئے، تا کہ کل تازہ دم ہو کر سفر پر روانہ ہوں۔ اگلے دن جمعے کی نماز سے پہلے، ہم دونوں خود ہی (اپنی صاحب زادی کے ساتھ) علاقے کی نزدیکی جگہیں دیکھنے کے لئے نکل پڑے۔ چوں کہ باقی کا پروگرام ہمارا، ان کے کزن کی فیملی کے ساتھ تھا اور وہیں مقیم ہونے کی وجہ سے ان لوگوں کو راستوں اور جگہوں سے پوری واقفیت تھی تو پروگرام یہی تھا کہ ہم جو دبئی گھومنے کے لئے جائیں گے تو ان کے کزنوں میں ہی سے کسی کے ساتھ جائیں گے۔ وہاں پارکنگ میں مہنگی اور اعلیٰ گاڑیاں کھڑی تھیں۔ زندگی میں پہلی بار اتنی مہنگی گاڑیاں اور وہ بھی مختلف کمپنیوں کی ایک ہی قطار میں کھڑی دیکھیں تھیں۔

پر آسائش اور مہنگی گاڑیاں ”دیکھنے“ کا یوں بھی ہمیں بہت شوق تھا (خرید کر کون کشش ختم کرے ) ۔ پھر تھوڑی بہت چہل قدمی کر کے ہم نے واپس گھر کی راہ لی۔ نماز اور کھانے سے فارغ ہونے کے بعد ہم مسجد کے لئے روانہ ہوئے۔ شیخ زائد مسجد، متحدہ عرب عمارات کی سب سے بڑی جامع مسجد ہے۔ بلا شبہ مسجد کی بناوٹ اور اندرونی زیبائش اور آرائش بہت نفیس و عمدہ تھی۔ اور سب سے خوبصورت بات یہ لگی کہ اس مسجد کی خوبصورتی کو غیر مسلموں کی بڑی تعداد دیکھنے کے لئے آتی ہے۔ اسی لئے مسجد میں برقعے کا انتظام بھی ہے تا کہ مسجد کا تقدس مجروح نہ ہو۔ وہاں سے پھر ہم نے ابو ظہبی کے تین چار اور مقامات کی سیر کی اور پھر گھر کی راہ لی۔

باقی تین دن میں ہم نے دبئی کے چند تفریحی مقامات کو رونق بخشی تھی۔ ابن بطوطہ مال بہت منفرد اور خوب صورت مال ہے۔ ابن بطوطہ کی سیاحت کو موضوع بنا کر اس مال کی تعمیر کی گئی ہے۔ اور ان تمام ممالک کی سخاوت کی جھلک اس مال میں نظر آتی ہے۔ پھر باری آئی دبئی مال گھومنے کی جس کے سامنے ہی ڈانسنگ فاؤنٹین جیسا دلکش نظارہ اور برج الخلیفہ جیسی آسمان کو چھوتی دنیا کی سب سے بلند و بالا عمارت ہے۔ یوں تو انفرادیت میں ابن بطوطہ مال کا کوئی ثانی نہیں لیکن دبئی مال میں بنے دو منزلہ ایکوریم کا بھی جواب نہیں۔

”انڈر واٹر زو“ میں اتنے نایاب اور مختلف اقسام و نسل کے آبی جانور ہیں کہ دیکھتے ہی بندہ بے اختیار اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کرنے لگتا ہے اور انڈر واٹر زو کی انتظامیہ کو بھی داد دیتا ہے۔ دنیا کا سب سے بڑا مگر مچھ اور سب سے بڑی اور نایاب اسٹار فش بھی یہاں موجود ہے۔ ایکوریم کے نیچے بنی شیشے کی سرنگ میں داخل ہوتے ہی ایسا لگا جیسے ہم آب دوز میں سفر کر رہے ہیں۔ اپنا آپ بھی سمندری دنیا کا ہی حصہ معلوم ہو رہا تھا۔ دائیں بائیں اور اوپر شارک اور مانٹا رے سے لے کر انواع و اقسام کی مچھلیاں تیر رہی تھیں۔ تحقیقات کے مطابق مچھلیاں دیکھنے سے دل و دماغ پر بہت اچھا اثر پڑتا ہے۔ ذہنی دباؤ کم کرنے کے لئے عموماً ڈاکٹر حضرات ایکوریم رکھنے کا مشورہ دیتے ہیں۔

مگر ہمارے لئے جو سب سے انوکھا، دلچسپ اور دل موہ لینے والا نظارہ تھا وہ پینگوئن دیکھنے کا تھا۔ ہمارے درمیان شیشے کی دیوار حائل تھی، ورنہ ہمارا بس نہیں چل رہا تھا کہ اسے جا کر پکڑ لیں یا اس کی طرح مزے سے اس کے پیچھے چلنا شروع کردیں۔ ہمارے خیال میں پینگوئن گھر میں رکھنا مشکل ہے ورنہ سب سے زیادہ قنوطیت پینگوئن کو دیکھ کر ہی کم ہوتی ہے۔ آج بھی وہ منظر ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھیر دیتا ہے۔

پھر دبئی میں جو سب سے یاد گار اور سحر انگیز جگہ ہے (ہمارے مطابق) وہ ہے ”مریکل گارڈن“ ۔ جیسا نام ویسا شاہکار۔ قدرت کے حسن اور انسانی تخلیق کا بے مثال امتزاج اگر کسی کو دیکھنا ہے، تو وہاں ضرور جائیں۔ یہ گارڈن سال کے کچھ ہی مہینوں میں کھلتا ہے کیوں کہ شدید گرمی میں بہت سے پھول اور پودے مرجھا جاتے ہیں۔ اس لئے یہ نسبتاً کم گرم مہینوں میں عامتہ الناس کے لئے کھولا جاتا ہے۔ اصلی پھولوں کی اتنی خوبصورتی سے تزئین و آرائش کی گئی ہے کہ بصارتیں خیرہ ہو جاتی ہیں۔ مصنوعی گاڑیاں، عمارتیں اور مختلف چیزوں کو خوبصورت پھولوں اور پودوں کا لبادہ پہنایا گیا ہے۔ غرض ہر سو سبزہ اور پھولوں کی بہار ہے اور جتنی خوبصورتی اور دلکشی کے ساتھ اس گارڈن کی آرائش کی گئی ہے اتنے ہی منظم طریقے سے اس گارڈن کی دیکھ بھال بھی کی جاتی ہے۔

یوں بہت سا یادگار وقت گزار کر ہم جدہ کے لئے روانہ ہوئے۔ رات کے تقریباً ڈھائی بجے ہم جدہ ائر پورٹ پر اترے۔ ڈیڑھ گھنٹہ ہمیں ائر پورٹ سے باہر آنے میں لگا۔ سامان لینے اور امیگریشن وغیرہ سے فارغ ہونے میں دیر ہوئی پھر پتا چلا کہ ٹریول ایجنٹ نے جدہ سے مکہ کے لئے جس ڈرائیور سے بات کی تھی وہ تو ہمیں باب مکہ (جہاں سے مکہ کی حد شروع ہوتی ہے ) ، سے ہمارے ہوٹل تک پہنچائے گا۔ ائر پورٹ سے اس جگہ تک ہمیں خود ہی ٹیکسی کر کے جانا ہو گا۔

یہ سنتے ہی اعصاب پر مزید تھکن سوار ہونے کے ساتھ ایک انجانا سا خوف بھی محسوس ہوا۔ انجان شہر میں رات کے آخری پہر چھوٹی سی بچی کے ساتھ سفر کرنا اور اس پر جو ٹیکسی ڈرائیور ہمیں ملا تو سیر پر سوا سیر کا کام ہو گیا تھا۔ پہلے تو اس نے ہمارے پاسپورٹ رکھ لئے اپنے پاس اور پھر ہمیں مطمئن کرنے کے لئے اپنا موبائل دے دیا۔

پاسپورٹ اس نے جب اپنے پاس رکھے تو دل تیز تیز دھڑکنے لگا کہ و اللہ اعلم یہ کیا کرے گا۔ اگر خدانخواستہ ہمیں پھنسا دیا تو۔ جیسے ہی وسوسے آنے شروع ہوئے ہم نے اللہ تعالیٰ سے گڑگڑا کے دعا مانگنی شروع کردی کہ ”اے اللہ! تو نے ہی اپنے گھر کا مہمان بننے کا شرف بخشا ہے۔ اگر اس سرزمین سے واپسی لکھی ہے تو ہم ساتھ خیریت کے اپنے گھر واپس لوٹیں۔“ دعا مانگ کر دل کو کچھ ڈھارس بندھی، پھر جب ٹیکسی میں بیٹھے تو کچھ ہی دیر کے بعد ہم تو دنیا و مافیہا سے غافل ہو گئے تھے۔

رات بھر کی تھکن کے بعد آنکھیں خود بخود بند ہونے لگیں۔ ہم تو ساری فکروں اللہ کے سپرد کر کے سکون سے سو گئے، لیکن ہمارے میاں سارا وقت جاگتے رہے۔ (یہ اللہ کا کرم ہے کہ اپنے محرم رشتوں کے ساتھ عورت ہمیشہ خود کو محفوظ سمجھتی ہے کیوں کہ مرد کو محافظ اور سرپرست بنایا گیا ہے اور یہ بھی اللہ کا فضل ہے کہ بندہ جب صدق دل سے دعا مانگتا ہے تو ضرور قبول ہوتی ہے ) ۔

خیر بات کہاں سے کہاں چلی جاتی ہے۔ جی تو پھر ہم باب مکہ پر اترے اور پھر اپنے ہوٹل کی جانب ہمارا سفر شروع ہوا۔ تقریباً صبح کے ساڑھے ساتھ یا آٹھ بجے ہوں گے جب ہم ہوٹل پہنچے۔ ہمیں جس ہوٹل میں رکنا تھا وہ حرم شریف سے صرف 500 میٹر کے فاصلے پر تھا۔ ویسے تو یہ خاصا کم فاصلہ ہے مگر بچی کو گود میں لے کر تھوڑا سا فاصلہ بھی بہت محسوس ہو رہا تھا۔ جب ہوٹل پہنچے تب ارادہ تو یہی تھا کے کمرے میں سامان رکھ کر فریش ہو کر پھر عمرہ ادا کرنے جائیں گے۔ لیکن جب ہم پہنچے تو پتا چلا کے کمرا خالی ہی نہیں ہوا۔ ہم نے سامان وہیں ہوٹل کی لابی میں چھوڑا، منیجر کو مطلع کیا اور اللہ کا نام لے کر عمرہ ادا کرنے چل پڑے۔

مکہ شہر میں داخل ہوتے ہی دل کی حالت بدلنے لگتی ہے۔ اور جب آپ کے قدم بیت اللہ کی جانب بڑھ رہے ہوں تو کیفیت بیان سے باہر ہوتی ہے۔ اپنی خوش نصیبی پر یقین نہیں آتا کہ واقعی بس ہم چند قدم کی دوری پر ہیں، اپنے قبلے سے۔ اتنے پیار کرنے والے اللہ کے گھر سے۔ ہم نے لوگوں سے سنا تھا کہ مکہ شہر میں جلال ہے، وہاں کی فضا میں ایک دبدبہ ہے۔ اب تو حرم کے اطراف کی تقریباً سبھی پہاڑیاں ختم ہو گئیں ہیں لیکن پھر بھی جو باقی ہیں اور مکہ شہر کے جو پہاڑ ہیں، ان میں ہیبت نظر آتی ہے۔ یہی بات ہمیں بھی محسوس ہوئی۔ دل خود بخود گداز ہوتا ہے اور خود بخود ہی تقویٰ کی کیفیت آشکار ہونے لگتی ہے۔

صحن میں داخل ہونے کے بعد اور جوں جوں ہم آگے بڑھتے رہے جسم و جان پر رقت طاری ہونے لگی۔ بار بار آنکھوں سے اشک جاری ہوئے جا رہے تھے۔ تعظیم کا تقاضا ہے کہ بادشاہوں کے دربار میں سر اور آنکھیں جھکا کر داخل ہوتے ہیں اور جب کائنات کے بادشاہ کے در پر حاضر ہوتے ہیں نا تو تمام اعضا سر بسجود ہو جاتے ہیں۔ نگاہیں یوں بھی نہیں اٹھتیں اور جب سامنے دنیا کا خوبصورت ترین منظر ہو، بیت اللہ ہو تو کوئی آنکھ اس منظر کی تاب نہیں لا سکتی۔

ہم بھی جب بیت اللہ کے سامنے پہنچے تو ساری دعائیں اور سارے اذکار بھول گئے۔ کعبے پر جب پہلی نظر پڑتی ہے تو وہ قبولیت کی گھڑی ہوتی ہے لیکن یقین مانیے کہ بندہ کچھ پل کے لئے بالکل مسحور ہو جاتا ہے۔ کچھ بھی یاد نہیں رہتا۔ کچھ ساعتوں بعد جب ہمیں ارد گرد کا احساس ہوا تو دعائیں مانگیں اور طواف کعبہ شروع کیا (چوں کہ ہم صفر کے مہینے میں عمرہ ادا کرنے گئے تھے، تب رش کم ہوتا ہے اور ہم صبح 9 بجے طواف کرنے چلے گئے تھے ) ۔

جب طواف کعبہ شروع کیا تو مطاف میں ہم خانہ کعبہ کے اتنے قریب تھے کہ پہلا چکر ہی ہمارا مقام ابراہیم کے احاطے سے شروع ہوا۔ اور آہستہ آہستہ خانہ کعبہ کے نزدیک ہوتے رہے۔ پہلے حطیم کو چھونے اور اس کے اندر طواف کی جگہ نصیب ہوئی، حتی کہ رکن یمنی کی طرف سے تو اللہ تعالیٰ نے ہمیں خانہ کعبہ کو چھونے کی اور غلاف کعبہ کو ہاتھ لگانے کی سعادت عطا کی۔ اس وقت اپنی خوش نصیبی پر کوئی شک باقی نہیں رہا۔ غلاف کعبہ کی خوشبو اور اس کا لمس کتنی ہی دیر تک ہاتھوں کو معطر کرتا رہتا ہے۔

ہماری صاحب زادی ہماری ہی گود میں تھیں لیکن طواف کے دوران میں تھکن کا احساس نہیں ہوتا۔ طواف مکمل کرنے کے بعد عمرے کے دوسرے رکن یعنی کہ سعی کرنے کے لئے گئے۔ صفا اور مروہ کے درمیان چلتے ہوئے جب قدم تھوڑے سست پڑنے لگے تو فوراً خیال اس جانب گیا کہ تمام تر آسائشوں اور سہولیات کے بعد بھی ہم پر تھکاوٹ حاوی ہو رہی ہے۔ بی بی ہاجرہ کس طرح تپتی دھوپ میں ان بنجر پہاڑیوں پر بھاگی ہوں گی۔ پیاس کی شدت سے بلکتے حضرت اسماعیل کا رونا اور بی بی ہاجرہ کا پانی کی تلاش میں ان پہاڑیوں پر دوڑنا، یہ تصور میں آتے ہی خود بخود قدموں میں نیا جوش اور نئی ہمت پیدا ہو جاتی ہے۔ خیال کی رو بار بار اس لئے بھی ان واقعات کی طرف جا رہی تھی کیوں کہ ایک چھوٹا بچہ ہمارے ساتھ تھا۔

سعی کے دوران کبھی ہم نے تو کبھی ہمارے شوہر نام دار نے صاحب زادی کو گود میں اٹھایا اور یوں الحمد للہ ہم نے اپنا پہلا عمرہ ادا کیا۔ عمرہ کے دونوں ارکان کی ادائیگی کے بعد ہم نے حلق کیا (بال کاٹے ) اور پھر ہوٹل پہنچ کر احرام کھولا۔ عمرے پر جانے سے قبل اکثر سب نے یہی کہا تھا کہ اپنے بیگ اور سامان کا دھیان رکھنا۔ رش میں کوئی بیگ میں سے پیسے نکال لیتا ہے، لیکن اللہ کا شکر ہے کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ ہمارا بیگ تو ہر وقت بلکہ مستقل ہی کھلا رہتا تھا۔ مطاف میں داخل ہو کر جب بھی طواف کرنے کا موقع ملتا، تو ہم طواف شروع کر دیتے تھے۔ اس دوران میں بھی چوں کہ ہماری گڑیا گود میں ہوتی تھیں اور کبھی بھی کسی چیز کی ضرورت پڑ جاتی تھی، چناں چہ میرا بیگ کھلا ہی رہتا تھا۔ اور کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ذرا سی بھی کوئی چیز گم ہوئی ہو۔

ہمارے گھر جب کوئی مہمان آتا ہے، تو ہم اپنی بساط سے بڑھ کر مہمان نوازی کرتے ہیں۔ ہم جب کائنات کی سب سے بڑی ہستی کے مہمان بنتے ہیں، تو ہمارے رب کی مہمان نوازی کی شان تو سب سے نرالی ہے۔ مکے میں ہمارا قیام سات دن کا تھا اور سات دن بہت تھوڑے ہوتے ہیں۔ روزانہ چار وقت خانہ کعبہ جانے (کیوں کہ ہم مغرب کے بعد وہیں صحن میں بیٹھ جاتے تھے ) ، وہاں قرآن مجید پڑھنے اور کچھ نہیں، تو بس خانہ کعبہ کو عقیدت مندی سے دیکھنے اور ڈھیروں دعائیں مانگنے کے بعد بھی دل سیر نہیں ہوتا۔ بس دل چاہتا ہے کہ وقت یہیں تھم جائے۔

حرم شریف میں انسان دنیا کے ہر خوف اور پریشانی سے آزاد ہو جاتا ہے۔ یاد رہتا ہے تو بس نمازوں کا خشوع خضوع، اذکار کی لذت، خوش الحان اذانیں اور دعاؤں میں رب کے حضور گڑگڑانا۔ اور یہی سب لذتیں مسجد النبوی میں بھی انسان کو نصیب ہوتی ہیں۔ مکہ میں اگر جلال ہے تو مدینہ میں اتنی ہی ٹھنڈک اور حلاوت ہے۔ مکہ المکرمہ میں قیام کے بعد اپنا سامان سمیٹ کر پھر ہم مدینہ المنورہ روانہ ہوئے۔ مدینہ میں ہمارا ہوٹل 300 میٹر کے فاصلے پر تھا۔

ہوٹل سے جب ہم مسجد النبوی کی طرف جا رہے تھے تو ہمارے راستے میں دو یا تین عطر کی دکانیں پڑتی تھیں۔ ان دکانوں کے قریب سے گزریں تو مستقل دھونی کی وجہ سے اپنے آپ میں سے بھی خوشبو آنے لگتی تھی۔ تو جب ہم مسجد النبوی میں داخل ہوتے تھے تو بھلے ہی ہم خود خوشبو لگا کر نہ گئے ہوں راستے میں معطر ہو جاتے تھے۔ ایک بات جو ہم نے نوٹ کی وہ یہ تھی (اور شاید جن لوگوں کو یہ سعادت ملی ہے کہ وہ حج و عمرہ پر گئے ہیں وہ بھی اتفاق کریں گے ) کہ مسجد النبوی کے اوپر اور خاص طور پر روضۂ رسول ﷺ پر بادلوں کا سایہ رہتا ہے۔ چاہے مطلع بالکل صاف ہی کیوں نہ ہو مگر کچھ بادلوں کے ٹکڑے ضرور روضۂ رسول ﷺ پر سایہ فگن رہتے ہیں۔

شام کا وقت تھا جب ہم مسجد النبوی میں داخل ہو رہے تھے۔ صحن میں موجود خود کار چھتریاں بالکل بند ہونے کے قریب تھیں۔ چھتریاں کھولنے اور بند ہونے کا نظارہ بھی بہت دلفریب ہوتا ہے۔ صبح صادق کے بعد یہ چھتریاں کھل جاتی ہیں اور مغرب سے کچھ دیر قبل جب سورج تقریباً ڈھل چکا ہوتا ہے، یہ بند ہو جاتی ہیں۔ مغرب کی نماز صحن ہی میں ادا کرنے کے بعد پھر ہم اندر مسجد میں داخل ہوئے اور مسجد کی خوبصورتی اور ہم آہنگی دیکھ کر مبہوت رہ گئے۔

احادیث کے مفہوم کے مطابق جب دجال دنیا میں آئے گا تو وہ مکہ اور مدینہ میں داخل نہیں ہو سکے گا اور لوگوں سے پوچھے گا کہ یہ نورانی سفید محل کس کا ہے؟ تو اسے جواب دیا جائے گا کہ یہ سرکار دو عالم حضرت محمدﷺ کا ہے۔ تو وہ کہے گا کہ جب ہی مجھے اجازت نہیں ہے۔ اور آج جب ہم مسجد النبوی کو دیکھتے ہیں تو وہ واقعی سفید نورانی محل لگتی ہے۔

مسجد الحرام ہو یا مسجد النبوی، دونوں مساجد اپنے تقدس اور افضلیت کی بنا پر تو مسلمانوں کے لئے حرمت کی حامل ہیں ہی، لیکن ظاہری طور پر بھی جتنی خوبصورتی اور کاریگری کے ساتھ دونوں مساجد کی تعمیر کی گئی ہے اور جس منظم طریقے سے وہاں کی حرمت کا، صفائی کا اور نظم و ضبط کا خیال رکھا جاتا ہے وہ بھی قابل توصیف ہے۔

جس دن ہم مدینہ پہنچے، اس دن تو ہم روضۂ رسول ﷺ پہ حاضری نہیں دے سکے۔ صرف ہمارے میاں چلے گئے تھے کیوں کہ عورتوں کے لئے روضہ پر جانے کے اوقات مقرر ہیں۔ صبح دس بجے سے لے کر قبل از ظہر اور رات کو عشا کی نماز کے بعد (اوقات میں اگر مغالطہ ہو تو اس کے لئے معذرت لیکن جہاں تک ہماری یاد داشت میں محفوظ ہے تو یہی دو اوقات تھے ) ۔ لہذا ہم اگلے دن رات کو عشا کی نماز کے بعد روضۂ رسول ﷺ پہ درود و سلام پیش کرنے کے لئے حاضر ہوئے۔ مسجد کے احاطے میں ہم وطن عورتوں کا گروپ بنا کر بٹھا دیا جاتا ہے۔ اگر کوئی ہم وطن نہ ہو، تو کسی دوسرے گروپ میں بھی بیٹھ سکتی ہیں۔

بے قاعدگی اور دھکم پیل کو روکنے کے لئے باری باری دو تین گروپ کو حاضری کے لئے بھیجا جاتا ہے۔ تا کہ سب کو پوری عاجزی کے ساتھ درود و سلام پیش کرنے کا موقع مل سکے اور ریاض الجنہ میں بھی نوافل کی ادائیگی نصیب ہو سکے۔ ہم بھی جب ریاض الجنہ میں نوافل ادا کر رہے تھے اور درود و سلام پیش کر رہے تھے، تو لگ رہا تھا ہفت اقلیم کی دولت ہمیں مل گئی۔ دنیا کی ساری نعمتیں و برکتیں ایک طرف اور ریاض الجنہ میں نوافل کی ادائیگی ایک طرف۔ ہمارے شوہر کو کو تو ما شا اللہ سے فرض نماز بھی ریاض الجنہ میں ادا کرنے کا موقع ملا تھا۔

مدینہ ہی میں ہم زیارتوں پہ گئے تھے۔ اس دن ہماری شادی کی دوسری سالگرہ بھی تھی۔ شادی کی سالگرہ کا یہ تحفہ سب سے انمول ہے ہمارے لئے۔ مسجد قبا کو مدینہ میں تعمیر ہونے والی سب سے پہلی مسجد ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ منافقین نے مسجد قبا کے مقابل مسجد ضرار بنائی تھی جس کے بارے میں اللہ نے بذریعہ وحی نبی پاکﷺ کو آگاہ کیا تھا۔ جس کے بعد اس مسجد کو گرا دیا گیا۔ آج وہ جگہ مسجد قبا کے احاطے میں ہے اور اس جگہ وضو خانہ اور بیت الخلا وغیرہ ہے۔

جو قلبی سکون و راحت مدینہ کا اور خاص طور سے مسجد النبوی کا خاصہ ہے وہ ہی سکون مسجد قبا میں بھی حاصل ہوتا ہے۔ جنت البقیع، احد کی پہاڑیاں، غزوہ احد کے شہدا کی قبور، تمام ایمان افروز جگہیں دیکھ کر دل میں ایمان کی روشنی اور نور مزید گہرا ہونے لگتا ہے۔ مدینے میں واقع وادیٔ جن جانے کا بھی موقع ملا۔ وادیٔ جن اصل میں جنوں کی وادی ہے یا نہیں اس کا تو علم نہیں لیکن یہ واقعی بہت حیرت انگیز جگہ ہے۔ اور بظاہر کچھ غیر معمولی واقعات کی وجہ سے اس وادی کا نام وادیٔ جن مشہور ہو گیا، جن میں سے ایک تو یہ ہے کہ پانی کا ڈھلان کی مخالف سمت میں بہنا۔

پانی کی فطرت ہے کہ وہ ہمیشہ اس طرف بہہ کر جاتا ہے جہاں نشیب ہو۔ لیکن اس وادی میں پانی نیچے بہنے کے بجائے اوپر کی سمت بہتا ہے۔ دوسری غیر معمولی بات یہ ہے گاڑی کا انجن بند ہونے کے باوجود بھی گاڑی آگے کی جانب بڑھتی ہے چاہے گیئر نیوٹرل پر ہو جب بھی۔ یہ راستہ ڈھلواں نہیں ہے مگر پھر بھی گاڑی تقریباً 40 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار تک پہنچ جاتی ہے۔

مدینہ میں ہم نے آٹھ دن گزارے اور مزید دو دن ہمارا جدہ میں قیام تھا۔ ان دو دنوں میں ہم دوبارہ عمرہ کی ادائیگی کے لئے پبلک ٹرانسپورٹ میں مکہ گئے۔ یہ تجربہ بھی بہت اچھا رہا۔ ورنہ اس سے قبل مکہ سے مدینہ اور پھر مدینہ سے جدہ اور زیارتوں کے لئے سب جگہ ہم پرائیویٹ گاڑی میں ہی گئے تھے۔ اور تمام جگہوں کے سفر بہت یادگار رہے۔ اور جناب واپسی میں ہماری کنیکٹنگ فلائٹ تھی۔ جدہ سے پہلے دبئی اور دبئی ائر پورٹ پر چھے گھنٹے رکنے کے بعد ہمیں کراچی پہنچنا تھا تو ان چھے گھنٹوں میں جتنا ہم ’تسخیر‘ کر سکے، دبئی ائر پورٹ وہ ہم نے کیا۔ بھئی بہت دیدہ زیب، جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ اور صاف ستھرا ائر پورٹ ہے۔ جو سب سے دلچسپ بات ہے، وہ یہ کہ ائر پورٹ اتنا بڑا ہے کہ اس کے اندر ریل چلتی ہے۔ ایک حصہ سے دوسرے حصے تک جانے کے لئے آپ کو ریل کا سفر کرنا پڑتا ہے یعنی ایک ٹکٹ میں دو مزے۔

عمرے پہ جانے سے قبل مجھے سب سے زیادہ فکر جس بات کی تھی وہ یہ کہ دس ماہ کی بچی کے ساتھ عمرے کے ارکان صحیح طرح ادا ہو بھی پائیں گے کہ نہیں، ہم وہاں جب نمازوں میں مشغول ہوں گے تو کون سنبھالے گا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے تمام ارکان اور تمام کام آسان طریقے سے مکمل کروا دیے۔ صرف عربی ہی نہیں بلکہ جس بھی نسل یا قومیت کے لوگ ملتے تھے ان کا انداز سب بچوں کے لئے اتنا فدویانہ اور شفقت سے بھرپور ہوتا تھا کہ بے اختیار دل ان کا گرویدہ ہو جاتا تھا۔

ہمیں نہیں یاد کہ کسی بھی نماز کے وقت ایسا ہوا ہو کہ ہم جا رہے ہوں اور راستے میں ہماری صاحب زادی کو روک کر پیار نہ کیا گیا ہو، یا پھر کوئی تحفہ نہ دیا گیا ہو۔ ہماری نیت بندھی ہوتی تھی اور بیٹی صاحبہ رونا شروع کر دیتیں تھیں، تو برابر میں جو بھی عورت یا لڑکی ہوتی تھی، وہ بیٹی کو اٹھا کر بہلانا شروع کر دیتی تھی۔ ڈھیر ساری بے لوث محبتیں ہمیں ہماری بیٹی کے توسط ہی سے ملیں۔ سب سے بڑھ کر پرخلوص اور چاہنے والے ہم سفر کا ساتھ حاصل تھا، جن کے سنگ زندگی کا طویل سفر سہل لگتا ہے، تو یہ یادگار سفر بھی حسین اور خوش گوار رہا۔

بس اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ بار بار ہمیں اپنے در پر بلائیں۔ یہ خوبصورت اور دل فریب مناظر اور ساعتیں ہمیں پھر سے نصیب ہوں۔ تمام امت مسلمہ کے مقدر میں اللہ تعالیٰ کے گھر کی حاضری ہو (آمین) ۔ ہم تو وہ خوش قسمت امت ہیں کہ اپنے والدین کو پیار سے دیکھنے پہ بھی ہمیں حج کا ثواب ملتا ہے، تو جب تک حاضری مقدر میں نہیں، ہم یوں بھی فیض یاب ہو سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).