اک ہچکی اور بس یادیں: آہ! سردار کرم خان آف کوٹ فتح خان


کوئی جیب ایسی نہیں، جو کاغذوں سے بھری نا ہو۔ کاغذوں کے درمیان دبے ہوئے نوٹ، جن پہ ہماری گہری نظر ہوتی ہے۔ کبھی ضد کر کے رس ملائی کھا لی، اور کبھی دائیں بائیں بیٹھ کے باتوں کا جال بنتے ہوئے مجبور کر دیا کہ آج تو کھانا کھلائیں ہی کھلائیں۔ وہ بھی اپنے ایسے شعروں کی طرح بحر کا توازن لیے ہوئے۔ مقطع اور مطلع مجال ہے کہ کبھی بے وزن ہو، کہ ہر لمحہ تھوڑی سی ضد کے بعد، جیب سے نوٹ نکالتے اور ہماری دعوت کا اہتمام ہو جاتا۔

ان کی ایک صلاحیت کے ہم سب معترف ہیں کہ جتنی رقم کا تقاضا کیا جاتا، اتنی ہی رقم ان کی انگلیوں میں دبی ہوئی جیب سے باہر آتی۔ کچھ کردار ایسے ہوتے ہیں جن کی زندگی میں آپ ان سے لاکھ اختلاف رکھیں۔ ہر درجہ کا مباحثہ کریں لیکن ان کے چلے جانے کے بعد آپ چاہیں یا نا چاہیں آپ کے دل میں ایک ایسا خلا، آپ کو محسوس ہونے لگتا ہے جو باوجود کوشش کے پورا نہیں ہو سکتا۔ اور ایسا ہی کچھ ہوا اس دفعہ۔ سردار کرم خان آف کوٹ فتح خان بھی چل بسے۔ آہ۔

آپ اپنی ذات پہ خرچ نہیں کرتے۔ آپ پیسے کیوں جمع کرتے ہیں۔ آپ بس شعر ہی سنائے جاتے ہیں۔ آپ ایک منٹ کا کام ہو تو اس جگہ شعر و شاعری میں گھنٹہ پورا لگا دیتے ہیں۔ فلاں آپ کے شعروں سے تنگ ہے۔ فلاں نے ہم کو گلہ دیا ہے۔ یہ عمومی جملے ہوتے جو ان سے ہم اکثر کہتے رہتے۔ لیکن آج ان کے جانے کے بعد ایک عجیب سا احساس ہے دل میں کہ اب ہم یہ جملے کسے کہیں گے؟ آج کل نفسا نفسی کا دور ہے۔ سگے رشتے ایک سے دو مرتبہ کی ضد یا تکرار کے بعد تنگ آ جاتے ہیں اور ایسی کڑوی کسیلی سنانا شروع کر دیتے ہیں کہ آپ کا دل ہی مر جاتا ہے کسی ضد سے۔

لیکن یہ کیسا کردار تھا جس کا ہونا، ہونا لگتا نہیں تھا۔ اور جب نہیں رہا تو ایسا لگتا ہے جیسے دل پہ ایک ہو کا عالم ہے۔ نا کسی کا ہنسنا اچھا لگ رہا ہے نا کسی کا بات کرنا۔ یہ ہماری زندگی کا کیسا کردار تھا کہ جس سے رشتہ پیشہ وارانہ تھا لیکن ہر کوئی خاندانی رشتوں کے نام لے کر اس کو پکارتا تھا۔ کیا واقعی ایسا ہے کہ جب کچھ پاس ہو تو احساس و اہمیت نہیں ہوتی اور جب چلا جائے تو اہمیت کا پتا چلتا ہے؟ ”اس وقت منشی فاضل کیا تھا، جب تم پیدا بھی نہیں ہوئے تھے۔“ یہ سخت ترین جملہ شمار ہو سکتا ہے، اس ہنس مکھ ہستی کا۔ اور اس میں بھی سختی کہاں، اس ایک جملے کی مٹھاس بھی ایسی، جو دلوں میں مسکراہٹ بھر دے۔

سردار کرم خان آف کوٹ فتح خان، شعروں کا ایک ذخیرہ تھے۔ فارسی، اردو کے ہزاروں اشعار انہیں ازبر تھے۔ جن کے شعر سنانے سے ہم سب تنگ پڑتے تھے۔ اب ایک عجیب افسردگی سی ہے کہ بار بار ہمارے پاس آ کے زبردستی شعر اب کون سنائے گا۔ آنکھ بظاہر خشک ہے لیکن دل میں آنسوؤں کا ایک سمندر موجزن ہے کہ اب ہمیں کون کہے گا راقم الحروف کو کہ میں بات شروع کرتا ہوں تو تم اٹھ جاتے ہو۔ جن کو ہم کنجوس کہتے تھے کہ خود پہ خرچ نہیں کرتے لیکن یہ حقیقت ہم کبھی نہ جان پائے کہ اپنی خوشیاں اسے عزیز ہی کب تھیں۔

وہ تو خوشیاں بانٹنے والا کردار تھا۔ ہر لمحہ دعوت دینے کو تیار۔ کھانے کی میز پہ ان کو باتوں سے گھیرا، تو چائے تک، مٹھائی آ جاتی۔ چائے کی ٹیبل پہ دعوت دعوت کی رٹ لگائی تو دوسرے دن کھانے پہ کچھ مسالے دار موجود ہوتا۔ وہ کردار ہی ایسا تھا کہ بے ضرر محسوس ہوتا تھا۔ لیکن ہم میں نہیں تو ایک چبھن سی ہے کہ جیسے وہ عزیز ہستی چلی گئی، جو ہماری ہنسی کی وجہ تھی۔ غصہ کر لیا، جوابی غصہ نہیں آیا۔ مذاق کر لیا، جوابی مذاق نہیں آیا۔

پشت پہ بندھے ہاتھ، سفید سرداروں جیسی مونچھیں، اپنے آپ ہی سے شعر بڑبڑاتے ہوئے، ہمیں لگتا انہیں کوئی کام نہیں ہے۔ لیکن آج وہ نہیں تو لگتا ہے کہ ان کا تو کام ہی ہم پریشانیوں کے ماروں کو شعر سناتے ہوئے، اپنی فارسی کے نہ سمجھ آنے والے جملے، ہمیں سناتے ہوئے، مقصد پریشانیوں کو زائل کرنا تھا۔ دل تنگ پڑ جاتا تو ان سے بحث کر کے دل کی بھڑاس نکل جاتی۔ اس برداشت سے عاری معاشرے کا وہ ایک ایسا کردار تھا، کہ جو جتنی بھی بحث ہو جائے یا تو مسکراتا رہتا یا قہقہہ لگاتے ہوئے کوئی ایس جملہ بول دیتا جو موضوع سے یکسر ہٹ کے ہوتا۔

آپ ایک لفظ تو کہیے، غالب، میر انیس، اقبال، فیض اور نجانے کس کس کے اشعار اس ایک لفظ پہ ہماری سماعتوں سے آ ٹکراتے۔ شعروں کا انسائیکلو پیڈیا یا ادبی الفاظ کی ڈکشنری۔ وہ اک شخص جس کے ہونے کا احساس نہیں تھا، وہ گیا تو دل کرب میں ہے۔

نواب زادہ نصراللہ خان کے یہ اشعار، ہمیشہ ان کی زبان پہ رہتے تھے، اور یہی اشعار ان کو یاد کرتے ہوئے قارئین کے لیے۔
؎ کب اشک بہانے سے کٹی ہے شب ہجراں
کب کوئی بلا صرف دعاؤں سے ٹلی ہے
دو حق و صداقت کی گواہی سر مقتل
اٹھو کہ یہی وقت کا فرمان جلی ہے
ہم راہرو دشت بلا روز ازل سے
اور قافلہ سالار حسینؑ ابن علیؑ ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).