فزکس نوبل انعام 2020ء


،۔
اس سال 2020ء کے نوبل انعام برائے طبیعات کا اعلان ہوتے ہی دل میں خوشی کی ایک لہر دوڑ گئی، کیوں کہ میرا اپنا ذاتی میلان اور طبیعات میں تحقیق اسی شعبے میں رہی ہے۔ کائنات کی گہرائیوں میں جھانکنے والے تین سائنسدانوں کو یہ انعام ’رائل سویڈش اکیڈمی آف سائنسز‘ کی جانب سے ”کائنات کے سب سے پراسرار مظہر“ کی دریافت کے لئے پیش کیا گیا۔ اس انعام کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے جس میں سے پہلا حصہ مشہور پروفیسر سر راجر پینروز کو دیا گیا، جن کا تعلق آکسفورڈ یونیوسٹی سے ہے۔

آپ کی پیدائش 1931ء میں یونائٹڈ کنگڈم کے شہر کولچیسٹر میں ہوئی۔ آپ مشہور زمانہ سائنسدان سٹیفن ہاکنگ کے استاد تھے اور آپ ہی کی رہنمائی میں ہاکنگ نے بلیک ہول اور بگ بینگ کے حوالے سے اہم دریافتیں پیش کی تھیں، جن کا حوالہ ہم ذیل میں پیش کریں گے۔ آپ کو نوبل انعام کا آدھا حصہ پیش کیا گیا، کیوں کہ آپ ہی کے ابتدائی کام کی بدولت یہ معلوم ہوا کہ ”بلیک ہول کا بننا آئن سٹائن کے نظریہ عمومی اضافیت کی مضبوط ترین دلیل ہے۔“

نوبل انعام کا دوسرا حصہ، مزید دو لوگوں میں تقسیم کیا گیا ہے، جس میں سے ایک چوتھائی حصہ پروفیسر رائن ہارد گینزل کے نام ہوا۔ پروفیسر گینزل کا تعلق کیلے فورنیا یونیوسٹی برکلے اور میکس پلانک انسٹیٹیوٹ برائے ماورائے ارضی طبیعات جرمنی سے ہے۔ آپ کی پیدائش 24 مارچ 1952ء میں جرمنی میں ہوئی۔ آخری چوتھائی حصہ ایک خاتون سائنسدان آندریا گھیز کو دیا گیا، جن کا تعلق کیلے فورنیا یونیورسٹی لاس اینجلس امریکا سے ہے۔ ان دونوں کو یہ انعام ”ہماری کہکشاں کے مرکز میں شدید کمیت والے ایک کمپیکٹ جسم“ کی دریافت پر دیا گیا ہے ۔ آئیے ہم ان دونوں دریافتوں کے پس منظر میں موجود طبیعاتی تصورات کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

یہ اٹھارہویں صدی عیسوی کی بات ہے کہ جب نیوٹن کی طبیعات اور خاص طور پر اس کے نظریہ کشش ثقل نے دھوم مچا رکھی تھی اور بڑے بڑے سائنسدان اس کے مضمرات اور نتائج پر غور و فکر کر رہے تھے۔ اس وقت تک یہ سمجھا جا چکا تھا کہ زمین کی سورج کے گرد حرکت اور چاند کی زمین کے گرد حرکت اور اسی طرح تمام اجرام فلکی کی حرکت کی وجہ، ان اجسام میں پائی جانے والی کمیت سے پیدا ہونے والی ایک قوت ہے، جسے کشش ثقل کا نام دیا گیا تھا۔

چوں کہ یہ کشش کی قوت ہے لہذا یہ مختلف اجسام کو ایک دوسرے سے جوڑنے کا کام کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک پتھر کو زمین سے اٹھا کر چھوڑا جائے، تو وہ زمین کی کشش کی وجہ سے زمین پر جا گرتا ہے۔ اس وقت یہ ایک سوال پیدا ہوا کہ اگر کسی پتھر کو زمین سے اوپر پھینکا جائے، تو کیا ممکن ہے کہ یہ واپس نہ آ سکے؟ یعنی وہ کون سی رفتار ہے کہ جس کی حد پار کرتے ہی ہم کشش سے آزاد ہوسکتے ہیں؟ اس سلسلے میں 1783ء میں مشعل نامی سائنسدان نے نتیجہ نکالا کہ اگر سورج سے 500 گنا بڑے رداس کا جسم ہو، لیکن اس کی کثافت سورج ہی کے برابر ہو تو روشنی ایسے جسم کی کشش سے آزاد نہیں ہو پائے گی۔

اسی طرح 1799ء میں لاپلاس نامی سائنسدان بھی ریاضیاتی انداز سے اسی نتیجہ پر پہنچا۔ لیکن یہ نتائج خالص نیوٹن کی مساواتوں سے اخذ کیے گئے۔ بعد ازاں انیسویں صدی میں ہونے والی دریافتوں خاص طور پر میکسول کی مساواتیں جو کہ برقی مقناطیسی مظاہر کی وضاحت کرتی ہیں اور روشنی کی محدود رفتار کے لئے جواز فراہم کرتی ہیں، اسی طرح ریاضی میں چار یا اس سے زائد ابعادی سپیس یا جیومیٹری کے تصورات نے کشش ثقل کے حوالے سے اہم پیش بینی کی، جس کی تاریخی تفصیلات کے لئے ہم اس مضمون کو مناسب نہیں سمجھتے۔

بہرحال 1905ء میں آئن سٹائن نے نظریہ خصوصی اضافیت پیش کیا، جس میں اس نے روشنی کی محدود رفتار اور تمام قوانین فطرت کا مختلف انرشیل مشاہدین کے لئے یکساں ہیئت کے مفروضے کی بنیاد پر حیران کن نتائج پیش کیے۔ سب سے بڑا نتیجہ یہ ملا کہ زمان و مکاں مطلق نہیں ہیں۔ یعنی ایسا نہیں ہے کہ دنیا میں ہونے والے واقعات سے زمانے کی رفتار اور مکاں کی صورت میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی، بلکہ یہ دونوں آپس میں مختلف مظہرات تو ہیں لیکن ان کی اساس ایک ہی چار ابعادی زمان و مکاں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دو مختلف مشاہد خاص طرح کے حالات میں وقت اور جگہ کی پیمائش کے مختلف نتائج اخذ کر سکتے ہیں۔ اسی کو اضافیت کہا جاتا ہے۔

1915ء میں آئن سٹائن نے اپنے ان تصورات کو مزید عمومی شکل دی، یعنی اب نان انرشیل یا اسراع پذیر مشاہدین میں بھی اضافیت کو دیکھا گیا۔ اس دفعہ نیوٹن کے نظریہ کشش ثقل کی ایک حیران کن شکل سامنے آئی اور یہ دیکھا گیا کہ کمیت رکھنے والے اجسام میں کشش کی وجہ کوئی قوت نہیں، بلکہ زمان و مکاں کی اپنی ساخت ہے۔ یعنی زمان و مکاں بذات خود کسی کمیتی جسم کی موجودگی میں اپنی ساخت تبدیل کرتے ہیں، جس کی وجہ سے اجسام ایک دوسرے کی جانب اسراع پذیر حرکت کرتے ہیں۔

کسی جسم کی کمیت یا توانائی (جو کہ دراصل ایک ہی مظہر ہیں یعنی کمیت دراصل توانائی ہی ایک شکل ہے) جس قدر زیادہ ہو گی، وہ ایک پہلے سے چپٹے زمان و مکاں کو اتنا زیادہ خم دار کرے گا۔ یعنی زمین کے باعث یہ خم سورج کے مقابلے میں کم ہو گا اور سورج کے گرد خم دار زمان و مکاں زمین کو اپنی جانب حرکت کرنے پر مجبور کرے گا۔ اس لیے زمین سورج کے گرد گھومتی ہے۔ اسی نظریہ عمومی اضافیت کی بنیادی مساواتوں پر غور و فکر کرتے ہوئے 1916ء میں کارل شوارز چلڈ نامی ایک جرمن سائنسدان نے یہ دیکھا کہ کسی مکمل کروی، ساکن جسم کی موجودگی میں پیدا ہونے والے زمان ومکاں کا خم کسی نقطے یعنی مرکز پر اس قدر شدید ہو جائے گا کہ جسے ریاضی دانوں کی زبان میں ناقابل فہم لا محدود نقطہ یا سنگولیرٹی کہا جاتا ہے۔

یہ نتیجہ اس قدر حیران کن تھا کہ آئن سٹائن خود بھی اسے تسلیم نہ کر سکا۔ اس نتیجے کی وجہ سے نظریہ عمومی اضافیت پر شدید تنقید ہوئی۔ یہ کہا گیا کہ یہ نظریہ نا مکمل ہے، کیوں کہ محدود کمیت کے اجسام لا محدود خم پیدا نہیں کر سکتے۔ اس نظریے کے دیگر نتائج جیسے کہ عطارد سیارے کے مدار میں ہونے والی غیرمعمولی تبدیلی، وقت کی اضافیت اور روشنی کا کسی بھاری جسم کے گرد راستے کو خم دار کر لینا وغیرہ، قابل تفہیم بھی تھے اور با آسانی دریافت بھی کر لئے گئے۔ لیکن یہ کہا گیا کہ شاید یہ نظریہ نا مکمل ہے اور شوارز چلڈ کے نتیجے کو از سر نو دیکھا جانا چاہیے۔

اس سلسلے میں اہم پیش رفت 1939ء میں اوپن ہائمر اور سنائڈر کی تحقیق میں ہوئی۔ اس تحقیق میں پہلی دفعہ شوارز چلڈ کے نتائج کی کچھ تفہیم ہونا شروع ہوئی۔ انہوں نے دیکھا کہ اگر ایک جسم اپنے آپ میں سکڑنا شروع ہو جائے تو ایک خاص حد کے بعد اس جسم کا بیرونی مشاہدین سے رابطہ منقطع ہو جائے گا۔ اس خاص حد کو ایونٹ ہورائزن کہا جاتا ہے۔ لیکن یہ نتیجہ صرف ایسے اجسام پر لاگو ہو سکتا تھا، جو مکمل طور پر کروی اجسام ہوں۔ کیوں کہ اگر یہ مکمل طور پر کروی نہ ہوں تو کیسے ممکن ہے کہ سارا مادہ ایک ہی نقطے پر مرکوز ہو جائے؟ آئن سٹائن نے بھی اوپن ہائمر کے اس نتیجے پر تحفظات کا اظہار کیا۔ روسی سائنسدان لفشٹز اور خلاتنیکوف نے ثابت کیا کہ حقیقی اجسام میں لامحدود نقاط یا سنگولیرٹی کا وجود نہیں پایا جاتا۔

بیسویں صدی عیسوی کے دوسرے نصف کے آغاز ہی میں کچھ خاص قسم کے اجرام فلکی کو دیکھا گیا کہ جو ہماری اپنی کہکشاں ملکی وے کا حصہ نہیں تھے۔ انہیں کوازر کہا گیا۔ مزید تکنیکی ترقی اور محتاط پیمائشوں سے ثابت ہوا کہ یہ دوسری کہکشاؤں کے مرکز میں کسی بہت بڑے حجم کے اجسام ہیں کیوں کہ ان سے خارج ہونے والی روشنی کی شدت کسی بھی عام کہکشاں کے مجموعی ستاروں کی روشنی سے کہیں زیادہ تھی۔ لیکن اتنے بڑے اجسام اتنا زیادہ عرصہ قائم نہیں رہ سکتے تو پھر یہ مسلسل روشنی کا باعث کیا تھا؟ اس صورت حال میں مشہور طبیعات دان جان وہیلر نے اپنے شاگرد راجر پنروز کو اکسایا کہ وہ اوپن ہائمر اور شوارز چلڈ کے نتائج پر دوبارہ غور کرے۔

پنروز نے سوچنا شروع کیا کہ کیا ایسا ممکن ہے کہ حقیقی اجسام جو کہ مکمل طور پر کروی نہیں ہوتے، ان میں بھی سکڑ کر کسی لامحدود نقطے میں مرکوز ہونا ممکن ہو سکے؟ اس کے لیے پنروز نے نئے ریاضیاتی طریقے ایجاد کرنا شروع کیے جن میں سب سے اہم پھندا نما دو جہتی سطحوں کا تصور ہے۔ انہیں پھندا اس لیے کہتے ہیں کیوں کہ اگر ایک سطح میں سے نکلنے والی روشنی کے راستے مستقبل کی جانب چلنا چاہیں تو یہ سطح انہیں واپس موڑ لیتی ہے۔

جب کہ چپٹی سطح میں ایسا نہیں ہوتا۔ یہ ثابت کیا جا سکتا ہے کہ شوارز چلڈ کے ایونٹ ہورائزن کو پار کرتے ہی ایک مکمل کروی جسم تبدیل ہو کر، اس پھندا نما سطح میں ڈھل جاتا ہے اور یہی وجہ کہ پھر مستقبل کی طرف جانے والی روشنی بھی واپس پلٹ جاتی ہے۔ اور یہی وہ صورت حال ہے جسے بلیک ہول کہتے ہیں یعنی روشنی اس کے ایونٹ ہورائزن سے باہر نہیں نکل سکتی۔ وہاں زمان و مکاں اپنی حیثیت میں رد و بدل کر لیتے ہیں۔ مکاں میں سفر کرنے والا زماں میں سفر کرنے لگتا ہے۔ لہذا جوں جوں زمانے کی سمت پر چلتے ہوئے ایک جسم اس ابتدائی کروی جسم کے مرکز کی طرف سفر کرتا ہے، وہ ل امحدود نقطے یا سنگولیرٹی کی طرف چلا جاتا ہے۔ گویا پنروز نے ثابت کر دیا کہ اگر کوئی بھی شکل و صورت کا جسم سکڑتے ہوئے ایک دفعہ پھندے نما سطح میں ڈھل گیا تو پھر واپسی نا ممکن ہے اور یوں وہ لازمی طور پر بلیک ہول بن جائے گا۔ گویا حقیقی دنیا میں اگر کوئی ستارہ سکڑتے ہوئے پنروز والی شرط پر پورا اترے گا تو وہ لازمی طور پر بلیک ہول بن جائے گا۔ یعنی حقیقی دنیا میں بھی بلیک ہول ہو سکتے ہیں!

اس کے علاوہ پنروز نے ایک خاص طرح کی تکنیک جسے کنفرمل ٹرانسمیشن کہتے ہیں، اس کا بھی تصور دیا۔ اس میں ہم کسی بھی بڑے سائز کے جسم یا تصویر کا سکیل چھوٹا یا بڑا کر سکتے ہیں، جس سے اس کی ہیئت یا زاویے وغیرہ تبدیل نہیں ہوتے۔ اس تکنیک کی مدد سے نظریہ اضافیت کے پیچیدہ تصورات کو تصاویر کی مدد سے با آسانی سمجھا جا سکتا ہے۔ اپنے انہی نتائج کو مزید ترقی دیتے ہوئے بعد ازاں پنروز نے سٹیفن ہاکنگ کے ساتھ مل کر ستاروں کی بجائے پوری کائنات کی جیومیٹری سمجھنے کے لئے کام کیا اور بگ بینگ کی مساواتوں میں موجود سنگولیرٹی کے لئے بھی یہی طریقہ کار استعمال کیا۔ ان کے مشترک کام کو ہاکنگ پنروز تھیورم کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

پنروز کی بدولت حقیقی دنیا میں سنگولیرٹی کے وجود اور یوں بلیک ہول کے وجود کو تسلیم کر لیا گیا۔ اور ہماری کہکشاں کے باہر سے جن بڑے اجسام کی روشنی کا مشاہدہ کیا گیا تھا، ان کے بارے یہ تصور آسان ہو گیا کہ یہ اجسام در اصل ان کہکشاؤں کے مرکز میں موجود بڑے حجم کے بلیک ہول ہی ہیں۔ بلیک ہول کے بارے میں مزید تحقیق کے دروازے کھل گئے۔ سٹیفن ہاکنگ اور دیگر کی کاوشوں سے نت نئے مظاہر جیسے کہ ہاکنگ توانائی کا بلیک ہول سے اخراج، گھومنے والے بلیک ہول کے گرد سے توانائی کا اخراج، ہاکنگ پیراڈاکس، ہولوگرام وغیرہ سامنے آتے رہے ہیں۔

2002ء کا نوبل انعام بھی اسی دریافت پر دیا گیا، جس میں یہ مشاہدہ کر لیا گیا کہ واقعی جب ان بڑے بلیک ہول میں مادہ گرتا ہے، تو ایکسرے اور ریڈیائی شعاؤں کا اخراج ہوتا ہے۔ 1971ء میں بیل اور مارٹن ریس نے ثابت کیا کہ ہماری اپنی کہکشاں ملکی وے کے مرکز میں بھی ایسا ہی ایک بڑا بلیک ہول موجود ہے۔ لیکن اس کی واضح تصدیق کا عمل مختلف مقامات اور مختلف تکنیک کی مدد سے جاری رہا۔ ایسے ہی تجربات میں گھیز نے ہوائی میں موجود کیک رسد گاہ اور گینزل نے چلی میں یورپی ساؤتھ مشاہدہ گاہ میں، کہکشاں کے مرکز کے قریب ستاروں کی گردش کا باریکی سے مطالعہ کیا۔

یہ ایک انتہائی مشکل کام ہے، کیوں کہ ہم سے لاکھوں سال دور کہکشاں کے مرکز کے گرد ستاروں اور اجرام فلکی کی اس قدر گرد جمع ہے کہ اس میں سے ایک کھرب فوٹان میں سے صرف ایک فوٹان ہی نکل کر ہم تک پہنچ پاتا ہے۔ انفراریڈ شعاعوں کی مدد سے کام لیتے ہوئے، خاص تکنیک کی مدد ہی سے، مرکز میں موجود بلیک ہول کی شناخت ممکن ہو سکتی تھی۔ یہ تکنیک اڈاپٹیو آپٹکس کہلاتی ہے۔

اس تکنیک میں مطلوبہ شے کو دیکھنے کے لیے اپنی دور بین اور اس شے کے درمیان ایک مصنوعی ستارہ ایک لیزر کی مدد سے پیدا کیا جاتا ہے۔ زمین کے اوپر فضا میں موجود سوڈیم کے ایٹموں میں لیزر کی توانائی سے یہ روشنی پیدا کی جاتی ہے جسے مصنوعی ستارہ کہا جا رہا ہے۔ اس ستارے میں ہونے والی روشنی کی گڑ بڑ کو ایک تبدل پذیر آئینے کی مدد سے ریکارڈ کیا جا سکتا ہے اور یوں مطلوبہ شے سے آنی والی روشنی کو مزید وضاحت اور گہرائی سے دیکھا جا سکتا ہے۔ یوں مرکز کے قریب ہم سے دور ستاروں کی گردشی رفتار پیمائش کی جا سکتی ہیں۔ اس انقلابی تکنیک کے استعمال نے ملکی وے کے مرکز میں موجود بلیک ہول کا مشاہدہ کروایا، جس کے باعث ان دونوں سائنسدانوں یعنی گھیز اور گینزل کو مشترک نوبل انعام کا آدھا حصہ ملا۔

یہ نوبل انعام ایک دفعہ پھر نظریاتی طبیعات اور بالخصوص آئن سٹائن کے نظریہ اضافیت کی طاقت اور انسانی ذہن میں موجود آگہی کی بے پناہ قوت کا شاخسانہ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کائنات میں عجیب و غریب اور دلکش مظاہر کی موجودگی کا احساس تازہ کرتا ہے۔ مزید یہ کہ تکنیکی ترقی کسی بھی نظریے کی بقا کے لئے فیصلہ کن کردار بھی ادا کرتی ہے، تا کہ نظریے کو تجربے سے پرکھا جا سکے جو کہ سائنس کا اصل کام ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).