کامران آن بائیک: سائیکل پر 50 ہزار کلومیٹر کا سفر طے کرنے والے لیہ کے کامران علی جن کے لیے آرام کا مطلب تھکاوٹ ہے


’نت نئی جگہوں پر جانا اور زبردست مناظر دیکھنا تو بہت اچھا لگتا ہے، لیکن میں آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں کہ سائیکلنگ ایک ایسا شوق ہے جس میں بعض اوقات شدید تنہائی اور اکیلے پن کا احساس بھی ہوتا ہے۔ آپ سینکڑوں میل بیابانوں اور صحراؤں میں سائیکل چلا رہے ہوتے ہیں اور کبھی کبھی تو چرند پرند کی آواز بھی نہیں آتی۔ تنہائی کاٹنے کو دوڑتی ہے۔ اگر آپ یہ برداشت کر سکتے ہیں تو آئیں اور پیڈل چلائیں۔‘

یہ الفاظ ہیں کامران علی کے جنھیں عام طور پر ’کامران آن بائیک‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’میں سوچ رہا ہوں کہ قانونی طور پر بھی اپنا نام بدل کر کامران آن بائیک ہی رکھ لوں۔‘

نو برسوں میں پچاس ہزار کلو میٹر کا سفر اور 43 ممالک کی سیر کرنے والے کامران آج کل کووڈ 19 کی وجہ سے پاکستان میں رُکے ہوئے ہیں اور اس بات کا انتظار کر رہے ہیں کہ انھیں کب سبز جھنڈی نظر آئے اور وہ اپنی سائیکل کے پیڈلوں پر پیر رکھیں۔

یہ بھی پڑھیے

70 دن، 20 ممالک: وبا کے زمانے میں انگلینڈ سے انڈیا کا ’بائی روڈ‘ سفر

سیر و سیاحت آپ کی جان بچا سکتی ہے

سکاٹ لینڈ سے روس کا سفر

تاہم اس دوران بھی وہ فارغ نہیں بیٹھے اور اپنے گذشتہ سفروں میں لی جانے والی انگنت تصاویر میں سے اچھی تصاویر اپنے سوشل میڈیا پر لگاتے رہتے ہیں اور ان کے متعلق بلاگ لکھتے رہتے ہیں۔ یعنی کہ سفر ابھی بھی نہیں رکا اور ’پکچر ابھی باقی ہے میرے دوست۔‘

بی بی سی اردو کے ساتھ ایک ورچوئل انٹرویو میں کامران نے ماضی کی پٹاری میں سے کچھ یادیں نکالیں جو پیشِ خدمت ہیں۔

سائیکل کا جنون اور گھر والوں کی مار؟

میں جنوبی پنجاب کے شہر لیہ میں پیدا ہوا۔ میرے والد صاحب کی پرانے ٹائروں کی ایک دکان تھی جہاں وہ ٹائروں کو پنکچر لگاتے تھے۔

دکان پر میں بھی ان کا ہاتھ بٹاتا رہتا تھا۔ والد صاحب کو شوق تھا کہ میں پڑھ لکھ جاؤں اور ان سے محتلف پیشہ اپناؤں۔ اس لیے لیہ سے ہی انٹر کی اور پھر ملتان چلا گیا جہاں پر میں نے بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی سے کمپیوٹر سائنس میں بی ایس سی اور پھر ایم ایس سی کی۔ اس کے بعد میرا جرمنی میں داخلہ ہو گیا اور وہاں جا کر میں نے ماسٹرز اور پھر وہیں سے پی ایچ ڈی کی۔

بچپن میں جب میں 12 یا 13 سال کا تھا تو ایک دفعہ میں اپنے ایک دوست کے ساتھ کسی اور دوست کی سائیکل پر 12 ربیع الاول کے دن لیہ سے 26 کلو میٹر دور ایک چھوٹی سی جگہ چوک اعظم گیا جہاں 12 ربیع الاول کا ایک پروگرام ہو رہا تھا۔

اس سفر میں ایک اور کلاس فیلو بھی شریک ہو گئے، ایک آگے بیٹھ گیا اور ایک پیچھے اور میں 12 سال کی عمر میں ہی دو لڑکوں کو سائیکل پر بٹھا کر چل پڑا۔

راستے میں ہم نہروں پر رُکے، پھل توڑ کر کھائے، بڑا مزہ آیا۔ اس طرح میرا پہلا سائیکل کا سفر 52 کلو میٹر بنا جس میں آنا جانا شامل تھا۔ اس سے مجھے ایک عجیب سا مزہ آیا اور کہتے ہیں نہ ’جیسے پر لگ جاتے ہیں‘ مجھے بھی ایسا ہی محسوس ہوا۔

اس کے بعد میں نے گھر والوں سے چھپ چھپا کے لیہ سے ملتان کا ٹرپ کیا، جو کہ 150 یا 160 کلو میٹر کا تھا۔ اس کے بعد میں لیہ سے لاہور بھی گیا جو کہ دو دن کا سفر تھا اور ہر سفر کے بعد جب گھر والوں کو پتا چلتا تھا تو پھر مار بھی پڑتی تھی کہ پڑھنے کی بجائے میں کیا کر رہا ہوں۔

اس کے بعد میں نے بتانا ہی بند کر دیا۔ وہ کہتے تھے کہ تم اپنی پڑھائی پر توجہ دو، ہم تم پر اتنا پیسہ خرچ کر رہے ہیں، تمہیں پڑھا رہے ہیں اور تم یہ کر رہے ہو۔ سیدھے ہو جاؤ نہیں تو پھر دکان پر ہی بٹھا دیں گے۔

جرمنی کا سفر

اس کے بعد میرا جرمنی میں کمپیوٹر سائنسز میں داخلہ ہو گیا۔ حالات تو مشکل تھے، بس بڑی مشکل سے لوگوں سے مانگ تانگ کر پیسے اکٹھے کیے اور جرمنی کا سفر شروع کیا۔

یہ 16 اکتوبر 2002 کی بات ہے۔ اسلام آباد سے فرینکفرٹ کے لیے پی آئی اے کی فلائٹ تھی۔ اس ماہ 16 اکتوبر کو اس سفر کو ٹھیک 18 سال ہو جائیں گے۔ جہاز جب ترکی کے اوپر سے گزر رہا تھا تو کھڑکی سے نیچے دیکھتے ہوئے مجھے ہر چیز دریا، ندیاں، سڑکیں وغیرہ آڑھی ترچھی لائنوں کی طرح نظر آ رہی تھی۔

پہاڑ ایسے نظر آ رہے تھے جیسے پرانے کاغذوں میں سلوٹیں پڑی ہوئی ہیں۔ میں نے سوچا کہ اتنا وسیع اور خوبصورت لینڈ سکیپ ہے یہاں لوگ کیسے رہتے ہوں گے، کیا باتیں کرتے ہوں گے، کیا ثقافت ہو گی۔

میں سوچتا رہا لیکن مجھے اس وقت اس کا جواب نہیں مل رہا تھا۔ میں نے اس وقت سوچا کہ کیوں نہ میں ان راستوں پر خود چل کے یہ سب کچھ دیکھوں۔

تو ابھی جہاز نے جرمنی میں لینڈ بھی نہیں کیا تھا میں نے وہیں بیٹھے بیٹھے اپنے آپ سے وعدہ کر لیا کہ میں ایک دن جرمنی سے پاکستان سائیکل پر جاؤں گا۔ جرمنی میں لینڈ کرنے کے بعد اپنا خواب پورا کرنے میں نو سال لگ گئے۔

جرمنی میں زندگی اور غریبوں کی سواری

وہاں پہنچ کر بس زندگی ایک مرتبہ پھر مصروف ہو گئی۔ پہلے اپنی ایم ایس سی کی، اس کے بعد جو قرضے لے کر آیا تھا، وہ آہستہ آہستہ اتارے، پھر اس کے بعد پی ایچ ڈی میں داخلہ مل گیا، وہ کرنے لگ گیا۔ پھر گھر والوں کی ذمہ داریاں پوری کرتے کرتے نو سال لگ گئے۔

جب گھر والوں کو بتایا کہ میں سائیکل پر واپس آنا چاہتا ہوں تو انھوں نے کہا کہ ہم نے تم کو اتنی دور جرمنی اتنا خرچ کر کے پڑھنے کے لیے بھیجا اور تم وہی غریبوں کی سواری سائیکل کی ہی بات کر رہے ہو۔

بہرحال میں نے پھر اپنی ماں کو جذباتی طور پر بلیک میل کیا اور اس طرح مجھے اجازت ملی۔

جرمنی سے پاکستان ایک خواب جو ادھورا رہ گیا

سنہ 2011 میں میں نے جرمنی سے پاکستان کا اپنا سفر شروع کیا۔ پورا یورپ تو بس دیکھتے دیکھتے ہی گزر گیا۔ دن میں سو دو سو کلومیٹر اور کبھی کبھی 250 کلو میٹر بھی ہو جاتے تھے۔ جب میں ترکی پہنچا تو مجھے بھائی کی کال آئی کہ امی کی طبیعت بہت خراب ہے اور وہ ہسپتال میں ہیں۔ ان کو ہارٹ اٹیک ہوا ہے اس لیے میں جلدی جلدی گھر پہنچوں۔

میں نے وہاں ایک جگہ سائیکل رکھی، استبول پہنچا اور وہاں سے پاکستان کے لیے فلائٹ لی۔ آنے کے بعد کچھ عرصہ ہسپتال میں رہا، پھر میری والدہ کا انتقال ہو گیا۔ وہ ایک بہت بڑا صدمہ تھا کیونکہ ایک خواب تھا کہ سائیکل پر جاؤں گا پاکستان اور امی سے ملاقات ہو گی، وہ دیکھیں گی کہ بیٹا سائیکل پر بھی جرمنی سے آ سکتا ہے۔

سو سنہ 2011 میں ہی جرمنی واپس آنے کے بعد دل اتنا بوجھل تھا کہ یہاں تک سوچا کہ اب دوبارہ سائیکلنگ نہیں کرنی۔ والدہ کی موت اور ادھورے سفر سے ایک طرح دل ہی ٹوٹ گیا تھا۔ لیکن دل کا کیا کریں، ایک سال بعد دوبارہ خواب آنا شروع ہو گئے۔

ادھورا خواب بڑا تنگ کرتا تھا، جب میں نقشے کو دیکھتا تو ایسا لگتا تھا کہ کچھ رہ گیا ہے۔ ہمارے باورچی خانے میں دنیا کا ایک نقشہ لگا ہوا تھا، جب بھی میں وہاں کھانا کھانے بیٹھتا تو لگتا کہ کہ نقشے پر ایک نقطے نے چلنا شروع کر دیا ہے اور چلتا چلتا وہ ترکی پر آ کر رک جاتا۔ لیکن نقطہ تھوڑی دیر رک کر دوبارہ چلنا شروع کر دیتا اور چلتا چلتا پاکستان آ کر رکتا۔

اس طرح جب میں دفتر جاتا تو میرے باس مجھے کمپیوٹر کی کوئی ڈائیاگرام وغیرہ سمجھا رہے ہوتے تو مجھے اس میں بھی وہ نکتہ نظر آنے لگ جاتا۔ آہستہ آہستہ یہ دیوانگی والی صورتِ حال مجھے تنگ کرنے لگی اور آخر کار میں نے اپنے باس سے جا کر کہا کہ یہ مسئلہ ہے اور مجھے چھٹیاں چاہییں۔

انھوں نے مجھے چھ مہینے کی چھٹیاں دینے سے انکار کیا اور کہا کہ وہ صرف تین مہینے کی چھٹیاں دے سکتے ہیں۔

اس چھ اور تین ماہ کے چکر میں میں نے مارچ 2015 میں وہ نوکری ہی چھوڑ دی۔ کچھ سامان سٹوریج میں رکھوا دیا، کچھ پھینک دیا۔ ایک چھوٹی سی کار تھی وہ بھی بیچ دی۔ یعنی میں چار سال بعد دوبارہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کے اپنے سفر کی تیاری کر رہا تھا۔ میں نے وہیں سے دوبارہ سفر شروع کیا جہاں پر میرا سفر رکا تھا، بلکہ ترکی کے اسی ہوٹل میں رات بھی گزاری جہاں سنہ 2011 میں ٹھہرا تھا۔

ادھورا سفر مکمل لیکن راستہ مختلف

جب میں نے دوبارہ سفر شروع کیا تو ایران براہ راست جانے کی بجائے میں نے سینٹرل ایشیا کے ممالک سے ہو کر پاکستان جانے کا فیصلہ کیا۔

میں وسطیٰ ایشیا سے ہوتا ہوا خنجراب کے ذریعے پاکستان آیا۔ سفر کچھ اس طرح تھا کہ ایران سے ترکمانستان، اس کے بعد ازبکستان، تاجکستان، کرغستان اور پھر چین اور وہاں سے خنجراب پاس کے ذریعے پاکستان۔

میں جولائی 2015 کو پاکستان میں داخل ہوا۔ اس طرح خواب کے تخیل اور اسے حقیقت کا رنگ بھرنے میں کل 13 سال لگے۔

’میں گرگٹ کی طرح رنگ بدلتا ہوں‘

جب لوگ مجھ سے یہ سوال پوچھتے ہیں کہ کیا میں ایک کمپیوٹر انجینیئر ہوں، سیاح ہوں، سائیکلسٹ یا بلاگر تو میرا جواب یہ ہے کہ ’بُلا کی جانا میں کون؟‘ میں جس موڈ میں بیٹھا ہوتا ہوں وہی بن جاتا ہوں۔

جب کمپیوٹر کی فیلڈ کے لوگوں سے بات کر رہا ہوں تو کمپیوٹر انجینیئر، جب فوٹوگرافروں کے درمیان ہوں تو فوٹو گرافر اور سائکلسٹس کے درمیان ہوں تو سائیکلسٹ۔ تو اس طرح میں بھی گرگٹ کی طرح اپنے رنگ بدلتا رہتا ہوں۔ میں نے کبھی بھی اپنی کوئی فکسڈ شناخت نہیں رکھی، کیونکہ میرے خیال میں وہ آپ کا ایک فکسڈ مائنڈ سیٹ بنا دیتی ہے۔ میں نے تو اپنے انسٹا گرام پر بھی یہ لکھا ہے کہ ’2015 سے بیروز گار۔‘

سفر کا خرچہ کون اٹھاتا ہے؟

شروع شروع میں تو ساری بچت ہی اس پر لگاتا تھا۔ بارہ تیرہ سال جرمنی میں رہ کر جو بچت کی تھی اس سے پہلا سفر تو ہو گیا اور دوسرا بھی شروع ہو گیا لیکن بعد میں جب جنوبی امریکہ کا سفر کیا تو سارے پیسے ختم ہو چکے تھے۔

یہ سفر ارجنٹینا سے شروع کیا اور اپنے خرچے پورے کرنے کے لیے مجھے اس دوران بہت ساری ’اوڈ جابز‘ بھی کرنا پڑیں۔ کبھی کبھار جریدے تصاویر خرید لیتے ہیں، کبھی آن لائن ڈالی ہوئی ٹی شرٹس بک جاتی ہیں، کبھی کبھار ٹریول یا بائسیکل میگزینز کو آرٹیکل لکھ دیتا ہوں۔

فری کھانے اور فری رہائش کے لیے سڑکوں پر مزدوری کی ہے۔ مثلاً ایک دفعہ یہ کہا گیا کہ اگر چار گھنٹے مزدوری کرو گے تو فری رہنے کو جگہ ملے گی، پلیٹیں دھوئی ہیں، ویٹر کی طرح کھانا سرو کیا ہے اور اس کے ساتھ کمپیوٹر سائنس کا کام بھی فری لانس کیا ہے۔

راہ چلتے چلتے رک کر گرافک ڈیزائننگ اور ویب سائٹ ڈیزائننگ بھی کی ہے۔ اور کیونکہ سفر کے دوران میں اپنی پوسٹ ڈالتا رہتا تھا اس لیے لوگوں کو بھی پتا چلنا شروع ہو گیا تھا اور کبھی کبھار لوگ چندہ بھی دے دیتے تھے۔ کسی نے 20 ڈالر بھیج دیے تو کسی نے پچاس۔

جب جنوبی امریکہ کا سفر ختم کر کے میں شمالی امریکہ کی جانب چلا تو مجھے وہاں پہنچنے کے لیے کشتی پر جانا تھا اور میرے پاس کشتی کے سفر تک کے پیسے نہیں تھے۔ وہاں میں نے کراؤڈ فنڈنگ شروع کی۔

میں نے اپنی فنڈنگ کیمپین میں لکھا کہ میں سفر کر رہا ہوں جس میں لکھ رہا ہوں، تصویریں بھیج رہا ہوں اور اگر آپ کو میرا یہ سفر پسند آتا ہے تو مجھے فنانس کریں تو اس سے بھی مجھے تھوڑے بہت پیسے آنا شروع ہو گئے۔

ان سفروں کی دلچسپ بات یہ بھی کہ کئی مرتبہ راستے میں اجنبی لوگوں نے کھڑے ہو کر بھی پیسے دے دیے۔

جنوبی امریکہ کا طلسماتی سفر

اگر آپ ارجنٹینا کا نقشہ دیکھیں تو وہ جنوبی امریکہ کا سب سے جنوب والا حصہ ہے۔ وہاں سے پھر بولیویا اور دوسرے ممالک سے ہوتے ہوتے پیرو اور پھر چلی۔ یہ بات ہے جنوری 2016 کی۔

ایسے ہزاروں واقعات ہیں جو شیئر ہو سکتے ہیں، صفحے ختم ہو جائیں گے واقعات نہیں۔ ان ممالک میں جانے سے پہلے مجھے ان کے بارے میں کوئی آئیڈیا نہیں تھا۔ نکلنے سے پہلے میں نے ڈکشنری میں سے تھوڑی بہت ہسپانوی زبان میں ہیلو وغیرہ سیکھا تھا۔ پھر جہاں پر لینڈ ہوئے تو دیکھا کہ یہاں تو انگلش میں کوئی بات ہی نہیں کرتا تو پھر ہسپانوی زبان ذرا جلدی جلدی سیکھنا شروع کی۔

جنوبی امریکہ میں اگر قدرتی نظاروں کی بات کریں تو ان کا تو کوئی ثانی ہی نہیں ہے۔ اور ان میں ایک سے بڑھ کر ایک ملک ہے، ایسی خوبصورتی آپ کو کہیں نظر نہیں آتی۔ لیکن اس سے بڑھ کے جس طرح کے لوگ اور جس طرح کی وہ پذیرائی کرتے ہیں اس کا مقابلہ بھی مشکل ہے۔

ارجنٹینا سے ہی شروع کرتے ہیں۔ ارجنٹینا کے جس شہر میں میں نے لینڈ کیا اس کا نام اشوایا ہے اور اسے دنیا کا سب سے زیادہ جنوبی شہر کہا جاتا ہے۔ جب ہم وہاں رات کو گلیوں میں پھر رہے تھے تو ایک شخص نے پوچھا کہ یہاں کیا کر رہے ہو۔ ہم نے بتایا کہ ہم مسافر ہیں اور یہاں سے سائیکلوں پر سفر کا آغاز کرنا ہے۔ اس نے کہا آ جاؤ سب میرے ساتھ۔ ہم دو تین سائیکلسٹ تھے۔ اس کے گھر گئے جہاں انھوں نے ہمارے لیے بہت اہتمام کیا، پتہ نہیں کیا کیا کچھ ہمیں بنا کر کھلایا۔ یہ ہمارے سفر کا ابھی آغاز ہی تھا۔

سائیکلسٹس کے ساتھ مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ وہ بہت زیادہ کھانا ساتھ اٹھا کے نہیں لے جا سکتے۔ نہ زیادہ پانی اٹھا سکتے ہیں۔ رہائش کا بھی ہمیشہ مسئلہ ہوتا ہے۔ تو جو جنوبی حصہ ہے وہاں کے ایک خطے کو پامپاس کہتے ہیں۔ پامپا کا مطلب ہوتا ہے نشیبی علاقے اور ارجنٹینا میں اس میں بیونس آئریس، لا پامپا، سانٹا فے، اینٹری ریوز اور قرطبہ کے علاقے بھی شامل ہیں۔

انھیں میں ایک ایسا پیٹاگونیا کے پاس ایک ایسا علاقہ بھی ہے جہاں کوئی درخت نہیں اور وہاں ہوائیں سو ڈیڑھ سو کلو میٹر کی رفتار سے چلتی ہیں اور اگر ٹینٹ لگائیں تو وہ فوراً ہی اڑ جاتا ہے۔ مطلب یہ کہ وہاں سر چھپانے کی کوئی جگہ نہیں ملتی۔ وہاں اگر دور دراز میں کہیں بھی ہمیں کوئی آبادی یا گھر نظر آتا تو ہم سیدھا جا کر اس کا دروازہ کھٹکھٹا دیتے تھے کہ ہمیں سر چھپانے کی تھوڑی سے جگہ دے دیں۔

وہاں جب بھی موسم کی شدت سے تنگ آ کر کسی کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا تو کسی نے کبھی برا نہیں مانا اور ہمیشہ کہا کہ اندر آ جاؤ، کھانا بھی کھلایا اور رہنے کو جگہ بھی دی۔

ایسا ہی ایک واقع یاد آیا۔ ہم شدید موسم سے بچنے کے لیے کوئی ٹھکانا ڈھونڈ رہے تھے کہ ایک گھر نظر آیا۔ گھر والوں نے ہمیں رہنے کو جگہ دی اور گرم گرم اپنی خاص چائے بھی پلائی۔ اب ذرا چائے کی کہانی سنیں۔ ان کی اس چائے کو ماتے کہتے ہیں اور وہ اس طرح نہیں ہوتی کہ اگر پانچ مہمان ہیں تو پانچ کپ بنیں گے بلکہ ایک ہی بڑا کپ ہوتا ہے جس میں سے سٹرا سے سبھی ایک ایک کر کے چائے پیتے ہیں۔

سب سے پہلے میزبان نے سٹرا کو منھ لگا کر تین چار گھونٹ پیے اور پھر دائرے سے ایک دوسرے کو دیا گیا۔ میں نے اپنی جنوبی ایشیائی ذہنیت کی وجہ سے سوچا کہ یہ تو بہت بُری سی بات لگتی ہے کہ پہلے میزبان پی رہا ہے اور بعد میں مہمانوں کو پیش کی جا رہی ہے۔

مجھ سے رہا نہ گیا اور میں نے پوچھ ہی لیا کہ بھئی ہماری ثقافت میں تو پہلے مہمانوں کو کھلایا جاتا ہے اور بعد میں میزبان کھاتا ہے، تو میزبان نے ہنستے ہوئے کہا ’بھائی پہلے کچھ گھونٹ ہم اس لیے لیتے ہیں کہ چائے کی اوپر کی تہیں بہت کڑوی ہوتی ہیں اور کوئی بھی اجنبی یہ پی نہیں سکتا، ہم وہ کڑواہٹ پہلے پی لیتے ہیں تاکہ دوسرا آرام سے پی سکے۔‘

مزید پڑھیے

صحرائے سینا کی سیر تصاویر میں

پیرس کی سیر اور پیشاب؟

ایک واقعہ پیرو کا بھی ہے جو ہمیشہ یاد رہے گا۔ وہاں میں ایک مرتبہ سائیکل پر جا رہا تھا کہ میں نے دیکھا کہ اوپر پہاڑ پر کچھ ہلکا ہلکا شور ہے۔

میں اوپر گیا تو دیکھا کہ وہاں کچھ لوگ لمبے لمبے چوغا نما کپڑے پہنے آگ کے گرد کھڑے ہیں۔ ان کے بال بھی بہت لمبے تھے اور وہ ہاتھ اٹھا کر دعائیں مانگ رہے تھے۔

بعد میں جب ان سے بات چیت ہوئی تو انھوں نے بتایا وہ اسرائیلی ہیں جو حضرت عیسیٰ کو مانتے ہیں اور ان کا عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ یہاں آئیں گے۔ ’ہمارا یروشلم یہیں پیرو میں بنے گا۔‘

انھوں نے مجھے کہا یہیں رکو کل ہم 24 گھنٹے کا روزہ رکھیں گے اور اس کے بعد ہم قربانی بھی دیں گے اور ضیافت بھی ہو گی۔ تم ہمارے ساتھ رکو۔ میں نے بھی ان کا خیال کرتے ہوئے کچھ نہیں کھایا اور 24 گھنٹے کا روزہ رکھا۔

وہ ایک غریب کمیونٹی تھی جس کے پاس چھ بھیڑیں تھیں جو انھوں نے مجھے بتایا کہ چھ دن کے مذہبی تہوار میں وہ یہ چھ بھیڑیں قربان کریں گے۔

پہلے دن انھوں نے ایک بھیڑ کو ذبح کیا، اس کی کھال اتار کر زیتون کا تیل، جڑی بوٹیاں اور نمک لگایا۔ اسے دیکھتے ہی میری بھوک اور تیز ہو گئی اور میں شام کو روزہ کھلنے کے بعد ایک نہایت لذیذ بار بی کیو کا انتظار کرنے لگا۔ شام کو سبھی لوگ اکٹھے ہو گئے اور آگ جلا کر اس پر بھیڑ کو بھوننے لگے۔

آگ سے بھینی بھینی لذیذ خوشبو آنے لگے اور بھوک تھی کہ زور پکڑتی گئی۔ لیکن اسی اثنا میں میں نے دیکھا کہ لوگ ایک ایک کر کے واپس جانے لگے۔ بھیڑ تو آگ پر ہی پڑی تھی اور اب تو وہ کچھ جل بھی رہی تھی۔ میں نے سوچا کہ شاید یہ زیادہ بھنی یا جلی ہوئی بھیڑ کھاتے ہوں گے۔ میری پریشانی اور بھوک دونوں ہی اپنے عروج پر تھے۔

تھوڑی دیر بعد سبھی لوگ چلے گئے اور جلنے کی بہت زیادہ بو آنے لگی، میں بھاگا بھاگا ایک شخص کے پاس گیا اور اسے پوچھا کہ بھئی بھیڑ تو اب جل رہی ہے، اس کا کیا کرنا ہے۔ اس نے کہا کہ ہم اسی طرح قربانی کرتے ہیں۔ قربانی ہم نہیں کھاتے، یہ تو خدا کے لیے ہے اور اس تک یہ دھویں کے ذریعے پہنچتی ہے۔

خدا نے خود تو نہیں کھانا لیکن اس کی خوشبو آسمان تک ضرور پہنچ جاتی ہے۔ پھر وہ مجھے ایک کچن میں لے گئے اور بڑی کڑھائی میں سے ساری ساری بوٹیاں میری پلیٹ میں ڈال دیں اور کہا کہ کھانا یہاں ہے۔

مجھے کافی شرم بھی آئی لیکن انھوں نے کہا کہ یہ تمہارے لیے ہے آرام سے کھاؤ۔ اتنی غربت کے باوجود انھوں نے مجھے پیٹ بھر کے کھلایا اور ایک اور رات گزارنے کو بھی جگہ دی۔

اگلے دن جاتے ہوئے میں نے سوچا کہ ان لوگوں کے احسان کے بدلے مجھے بھی ان کے لیے کچھ کرنا چاہیے اور ان کو کچھ پیسے ہی دے دینے چاہییں۔

میں ان کے پاس دو راتیں رہا ہوں اور اتنا خیال بھی رکھا ہے۔ پھر خیال آیا کہ پیسے تو میرے پاس بھی بہت کم ہی رہ گئے ہیں، ان کو دیے تو بالکل ہی ختم ہو جائیں گے، اس لیے میں نے پیسے دینے کا خیال دل سے نکال دیا۔

اگلے دن جب میں وہاں سے نکلنے لگا ہوں تو ایک بوڑھا شخص میرے پاس آیا اور مجھ سے ہاتھ ملایا۔ جیسے ہی اس نے اپنا ہاتھ واپس لیا تو میں نے دیکھا کہ اس نے میرے ہاتھ میں کچھ چھوڑ دیا ہے۔

وہ دس پیروئین سولیس (پیرو کی کرنسی) کا نوٹ تھا۔ میں نے کہا کہ یہ کیا ہے تو اس بزرگ نے جواب دیا ’یار تم مسافر ہو اور یہ تمہارے سفر کے لیے ایک چھوٹی سی رقم ہے، اس سے کچھ لے کر کھا لینا‘۔ اس نے مجھے اپنی مہربانی اور مروت میں بالکل مات دے دی۔

میں اپنی نظر میں بہت شرمندہ ہوا۔ میں نے جس سوچ کو کچھ دیر پہلے رد کر دیا تھا، انھوں نے بڑے آرام سے اسے شکل دے دی۔ اس میں مجھے ایک بہت بڑا سبق ملا کہ جب بھی کچھ اچھا کام کرنے کا من چاہے تو فوراً کر دو، انتظار نہ کرو۔

گوئٹے مالا سے عشق کیوں ہے؟

گوئٹے مالا وسطی امریکہ کا میرا پسندیدہ ترین ملک ہے اور اس کی بنیادی وجہ اس کا لینڈ سکیپ ہے۔ جب ایک چھوٹے سے شہر کے اوپر تین تین آتش فشاں کھڑے ہوں تو لگتا ہے جیسے وہ شہر ایک بادشاہ ہے اور یہ اس کے چوب دار۔ ان چوبداروں میں سے ایک اکثر کسی ڈریگن کی طرح آگ بھی اگل رہا ہوتا ہے۔

گوئٹےمالا سے پیار کی ایک اور وجہ بھی ہے کہ میں وہاں زیادہ دیر رکا ہوں اور وہاں میں نے ہسپانوی زبان کا کورس کیا اور مقامی خاندانوں کے ساتھ رہ کر زبان سیکھی۔

دو خواتین تھیں جو ہمیں سکھاتی تھیں۔ ایک کے ساتھ میں اور کچھ اور لوگ تین گھنٹے ہسپانوی زبان کی گرائمر سیکھتے تھے اور اس کے بعد دوسری کے ساتھ ہم تین گھنٹے شہر جا کر اس گرائمر کا استعمال کرتے یعنی جو کچھ صبح سیکھا تین گھنٹے کے بعد اسے مقامی لوگوں کے ساتھ بول کر استمعال کیا۔

وہیں ایک دن میں تصویریں کھینچ رہا تھا تو ایک خاتون میرے پاس آئی اور بولی کہ کیا تم میری تصویر کھینچ سکتے ہیں۔ اس نے کہا کہ آئی ڈی کارڈ کے علاوہ اس کے پاس اس کی کوئی تصویر نہیں ہے۔

میں نے اس کی تصویر کھینچی اور اگلے دن اسے پرنٹ کرا کے دی۔ وہ وہاں ہاتھوں سے بنائی ہوئی مقامی چیزیں بیچنے آتی تھی۔ اگلے دن وہ اپنے ساتھ اور لوگ لے آئی اور ہوتے ہوتے میں نے تیس چالیس لوگوں کی تصاویر بنا ڈالیں۔

اس کا فائدہ یہ ہوا کہ وہ سبھی لوگ جو دور دراز سے اس چھوٹے شہر میں اپنی چیزیں بیچنے آتے تھے میرے دوست بن گئے اور اصرار کر کے مجھے اپنے اپنے گاؤں میں لے کے جاتے رہے جس کی وجہ سے میں نے ان کی ثقافت کو بہت قریب سے دیکھا۔ شاید اسی گھریلو رشتے کی وجہ سے مجھے گوئٹے مالا سے پیار ہے۔ میں نے ان کی مذہبی، سماجی نیز یہ کہ ہر طرح کی رسومات میں شرکت کی ہے۔

یہ ایسے ایسے دور دراز دراز علاقے تھے جہاں سیاح بھی نہیں جاتے اور نہ ہی ان لوگوں کو باہر کی دنیا کے بارے میں کچھ زیادہ پتا ہے۔ پاکستان کا تو بالکل نہیں۔ سو مناظر، کلچر اور زبردست لوگوں کی وجہ سے میں اس چھوٹے سے ملک کے چھوٹے چھوٹے علاقوں میں کل تین مہینے رہا۔ وہاں کے لوگ جتنے مہمان نواز تھے شاید ہی کہیں اور کے ہوں۔

اسی طرح امریکہ کے گرینڈ کینیئن میں ایک سنسان پہاڑ پر ایک خاتون ملی جو 800 میل لمبی ایریزونا ٹریل پر اپنی بہن کی یاد میں سفر کر رہی تھیں۔

انھوں نے مجھے بتایا کہ ان کی بہن نے خودکشی کی تھی اور اس لیے انھوں نے فیصلہ کیا کہ گھر بیٹھ کر بہن کی یاد میں ماتم کرنے اور پھر ڈپریشن میں جانے سے بہتر ہے کہ میں اپنی بہن کے لیے کچھ کروں۔

انھوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنی بہن کی استھیاں گرینڈ کینیئن کے آخر میں دریائے کولوراڈو میں بہائیں گی۔ ’گرینڈ کینیئن ان کی پسندیدہ جگہ تھی۔ اسی لیے میں یہاں آئی ہوں۔ یہ ان کے لیے ہے۔‘

اس نے مجھے بھی کچھ راکھ دی کہ اگر میں پہلے وہاں پہنچا تو میں بھی اسے دریا میں بہا دوں۔ جب کچھ دنوں بعد میں دریا پر پہنچا تو میں نے وہ راکھ دریا میں بہا دی۔ اس نے ایک دائرہ سا بنایا اور اسے لگا جیسے مجھے بھی اس میں سمیٹ لیا ہو۔ دیکھیں میں گرینڈ کینیئن اپنے شوق کی تسکین اور تصاویر لینے گیا تھا اور اس نے کس طرح مجھے ایک جذباتی کہانی کا حصہ بنا لیا۔

کبھی اکیلے ڈر نہیں لگتا؟

میں نے اب تک کم از کم پچاس ہزار کلو میٹر سفر طے کیا ہے۔ اس میں سے تقریباً دو ہزار لوگوں کے ساتھ جبکہ باقی سارا اکیلے ہی طے کیا ہے۔ کہیں کہیں ڈر ضرور لگتا ہے۔

آبادی والی جگہ پر ٹریفک سے ڈر لگتا ہے اور سنسان بیابان جگہ پر جانوروں اور چوروں سے ڈر لگتا ہے۔ دیکھیں سائیکلسٹ بڑا کمزور ہوتا ہے، اس کے ساتھ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔

میرے ساتھ کبھی سڑک پر تو کچھ نہیں ہوا لیکن جب شہروں میں کہیں تھوڑی دیر کے لیے سائیکل چھوڑی تو کچھ نہ کچھ ضرور ہو جاتا تھا۔

جیسے کولمبیا میں میرا لیپ ٹاپ بیگ جس میں پاسپورٹ، کریڈٹ کارڈ اور ایمرجنسی کیش تھا چوری کر لیا گیا۔ میری قسمت اچھی تھی کہ وہ مجھے بعد میں واپس مل گیا۔

اسی طرح کہیں جنگلی شیروں کا ڈر تو کہیں جنگلی ریچھوں کا، آپ جتنی بھی احتیاط کر لیں لیکن اندھیرے میں ڈر ضرور محسوس ہوتا ہے۔ بس آپ کو اسے برداشت کرنا آنا چاہیے۔

اگر کسی کو سائیکلنگ کا شوق ہے تو وہ کہاں سے شروع کرے؟

شوق اپنے راستے ڈھونڈ لیتا ہے۔ میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ میں دنیا کے اتنے زیادہ ملکوں میں سائیکل چلاؤں گا۔ اگر آپ پاکستان میں ہیں تو آپ کے پاس پاکستان میں سائیکل چلانے کی بھی جگہیں ہیں۔

میں تو بس یہی کہوں گا کہ چھوٹے سے شروع کریں اور بس پھر کرتے جائیں۔ لیکن یہ بھی بتاتا چلوں کہ یہ ایک بہت ہی زیادہ اکیلا اور دماغی اور جسمانی طور پر تھکا دینا والا شوق ہے۔

یہ بھی ٹھیک ہے کہ ایک طرح سے ایک آزادی بھی ہے کہ سینکڑوں میل کے علاقے میں پہاڑ، وادیاں، اور لینڈ سکیپ آپ کے منتظر ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان ہزاروں میلوں میں جو مشکلات، سردی، گرمی، بارش، طوفان ہے وہ بھی ایک حقیقت ہے۔

آپ دس دس دن شاور نہیں لیتے، کھانا ختم ہو جاتا ہے، پانی کم ہو رہا ہے۔ ایک ہی طرح کا کھانا بار بار کھانا پڑ رہا ہے، پیزا کے خواب آ رہے ہیں۔ کئی لوگ تو ان کو برداشت ہی نہیں کر پاتے اور درمیان میں ہی چھوڑ کے چلے جاتے ہیں۔

کیا سائیکل کے علاوہ کسی کو ساتھی بنانے کا ارادہ ہے؟

ایک دفعہ تو تاجکستان میں ایک خاندان نے جس کے پاس میں رکا تھا، مجھے کہا کہ میں ان کی لڑکی سے شادی کر لوں۔ ایک مرتبہ افغانستان اور تاجکستان کے درمیان وادئ وخان میں پنج دریا کے ساتھ جہاں دریا بہت سکڑ جاتا ہے، ایک لڑکے نے دریا کے پار سے دری زبان میں مجھے آواز دی کہ کیا تمہاری شادی ہوئی ہے۔ میں نے کہا نہیں۔ اس نے پاس کھڑی ایک لڑکی طرف اشارہ کر کے کہا کہ یہ میری بہن ہے اس سے شادی کر لو۔

وہاں پورا خاندان یعنی ایک عورت، ایک بچہ، وہ لڑکی اور اس کا بھائی بھی موجود تھا۔ لیکن انھیں اس میں کچھ عجیب نہیں لگا۔ جب میں نے لڑکی کی طرف دیکھا تو اس نے دری میں مجھے کچھ کہا جس کا مطلب تھا ’آئی لو یو‘۔ میں تھوڑا حیران ہوا اور پھر میں نے بھی ہمت کر کے وہی جملہ دہرا دیا۔ بس بات یہی پر ہی ختم ہو گئی۔ اور میں دریا کے پار نہیں گیا اور نہ ہی وہ میری سوہنی بنی۔ ’آئی لو یو‘ کی آواز کئی دنوں تک ذہن میں گھونجتی رہی۔

ویسے میں نے تو سائیکل سے ہی شادی کر لی ہے۔

بی بی سی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32472 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp