انڈیا، میانمار تعلقات: کیا دونوں ممالک میں قربتیں بڑھنے کی بڑی وجہ انڈیا کو چین سے درپیش خطرہ ہے؟


انڈیا میانمار تعلقات
کیا میانمار اور انڈیا ایک دوسرے کے قریب آ رہے ہیں؟ انڈیا کے آرمی چیف جنرل ایم ایم ناروانے اور سکریٹری خارجہ ہرشوردہن شرنگلہ چار اور پانچ اکتوبر کو میانمار کے دورے پر تھے۔ کیا یہ اس بات کی علامت ہے کہ دونوں پڑوسی ممالک ایک دوسرے کے قریب آ رہے ہیں؟ کیا دونوں ممالک کے تعلقات میں گرم جوشی پیدا ہو رہی ہے؟

برما میں انڈیا کے سابق سفیر راجیو بھاٹیا نے بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ’میں سمجھتا ہوں کہ اس دورے کی ایک خاص اہمیت ہے۔ یقیناً اس دورے سے دونوں ممالک کے تعلقات مضبوط ہوں گے۔’

یہ امر بھی اہم ہے کہ پہلی بار انڈیا کے سیکریٹری خارجہ اور آرمی چیف ایک ساتھ میانمار کے دورے پر گئے ہیں۔

اس کی وجہ بتاتے ہوئے راجیو بھاٹیا کہتے ہیں ’اس کی دو وجوہات ہیں۔ پہلی یہ کہ وہاں اقتدار تقسیم ہوا ہے، کچھ منتخب حکومت کے ہاتھ میں ہے اور کچھ فوج کے ہاتھ میں، وہاں اس وقت دو قائدین ہیں، ایک کمانڈر ان چیف اور ایک ریاستی مشیر آنگ سان سوچی۔‘

’اسی لیے انڈین حکومت برما حکومت کے دونوں حصوں کے رہنماؤں سے ملنا چاہتی تھی۔‘

ان کا مزید کہنا تھا ’دوسری وجہ میانمار میں انڈیا کی فوج اور اس کی قیادت کے لیے بہت احترام ہے۔ لہذا یہی مناسب سمجھا گیا کہ دونوں انڈین حکام کے دورے سے اچھا اثر پڑے گا۔‘

شاید اسی لیے میانمار کے ساتھ تین باضابطہ ملاقاتوں میں صرف دو آرمی چیف شریک تھے۔

یہ بھی پڑھیے

برمی نژاد بھارتی جو کبھی اپنے گھر نہ لوٹ سکے

انڈیا کے کن ممالک کے ساتھ سرحدی تنازعے ہیں؟

کیا چار بڑی معیشتوں کا اتحاد دنیا پر چین کے تجارتی اثرورسوخ کو کم کر پائے گا؟

انڈیا میانمار تعلقات

انڈیا کی تشویش

خطے میں سکیورٹی انڈیا کے لیے سنگین تشویش کا باعث ہے اور اس کا تعلق چین سے جاری کشیدگی سے بھی ہے۔ یہ اس طرح ہے کہ 1700 کلومیٹر طویل اقتصادی راہداری چینی صوبے یووان سے شروع ہوتی ہے اور برما کے جنوب مغربی علاقے میں ختم ہوتی ہے، جو خلیج بنگال کی سرحد سے متصل ایک علاقہ ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ نظریاتی طور پر چین آسانی سے خلیج بنگال تک پہنچ سکتا ہے۔ یہ اقتصادی راہداری، جس میں چین نے اربوں روپے کی سرمایہ کاری کی ہے، چین اور پاکستان کو انڈیا کے مغرب سے جوڑتی ہے۔

پاکستان اور برما کی اقتصادی راہداریاں چین کے ’بیلٹ اینڈ روڈ‘ منصوبے کا حصہ ہیں، جو چین کو دنیا سے جوڑتا ہے۔ اس میں چین اب تک اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر چکا ہے۔

چین نے بنگلہ دیش کے توسط سے انڈیا کے ساتھ اسی طرح کی اقتصادی راہداری کی تجویز پیش کی تھی جسے انڈیا نے قبول نہیں کیا تھا۔

انڈیا میانمار تعلقات

کہا جاتا ہے کہ اس اقتصادی راہداری کا مقصد کاروبار ہے۔ اس میں عسکری زاویہ نہیں لیکن ماہرین کے مطابق ایک طرح سے چین نے انڈیا کی مغربی اور مشرقی سرحدوں پر اپنی موجودگی قائم کر لی ہے۔

سنہ 2017 میں شمالی علاقے ڈوکلام میں اور رواں برس مئی سے لداخ میں انڈیا اور چین کے درمیان سرحد پر تناؤ ہے۔ شمالی سرحد پر چین کی نیپال کے اندر تک بھی مضبوط رسائی ہے۔

مودی سرکار کی تعلقات کو مستحکم کرنے کی کوششیں

راجیو بھاٹیا کا خیال ہے کہ ملکی سلامتی کے نقطہ نظر سے یہ انڈیا کے لیے ایک تشویش ہے۔ شاید اسی لیے گذشتہ کچھ برسوں سے مودی حکومت اپنی توانائی برما کے ساتھ تعلقات کو مستحکم کرنے میں صرف کر رہی ہے۔

انڈیا میانمار تعلقات

سنہ 2014 کے بعد سے انڈیا اور برما کے رہنماؤں کے درمیان سات باہمی دورے ہوئے ہیں جن میں وزیراعظم مودی کے برما کے دو دورے اور آنگ سان سوچی کے دو انڈیا کے دورے شامل ہیں۔

انڈیا برسوں سے افغانستان، بھوٹان، سری لنکا، نیپال اور مالدیپ کو مالی امداد فراہم کرتا رہا ہے۔ انڈیا نے ان ممالک کے بنیادی ڈھانچے کے منصوبے مکمل کرنے میں مدد کی ہے اور اس وقت بھی بہت سوں پر کام جاری ہے۔

یہاں تک کہ کورونا کی وبا کے دوران بھی انڈیا نے ان ممالک کی ادویات اور میڈیکل کٹس فراہم کر کے مدد کی ہے۔ برما میں بھی انڈیا کے بہت سے منصوبے چل رہے ہیں اور انڈیا اس وبا سے لڑنے میں اس کی مدد بھی کر رہا ہے۔

چین کی طرف زیادہ جھکاؤ

لیکن اس کے باوجود میانمار کا چین کی طرف زیادہ جھکاؤ ہے۔ دوسرے لفظوں میں میانمار انڈیا سے زیادہ چین کے قریب ہے۔ چین کئی دہائیوں سے برما میں کام کر رہا ہے۔

اس قربت میں اس وقت اضافہ ہوا جب چینی صدر نے رواں برس جنوری میں میانمار کا دورہ کیا تھا۔ راجیو بھاٹیا تسلیم کرتے ہیں کہ جہاں تک مالی امداد کا تعلق ہے، انڈیا چین سے مقابلہ نہیں کر سکتا۔

انڈیا میانمار تعلقات

گذشتہ پانچ برسوں میں حالات بدل گئے

راجیو بھاٹیا کہتے ہیں گذشتہ پانچ برسوں میں معاملات بدل گئے ہیں خاص طور پر سنہ 2016 میں چونکہ آنگ سان سوچی نے انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی۔

’برما میں چین کا اثر رسوخ اور وجود بہت بڑھ گیا ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال رواں برس جنوری کی ہے۔ جب چین کے صدر نے برما کا دورہ کیا تھا تو دونوں ممالک کے مابین 33 معاہدوں پر دستخط ہوئے تھے۔‘

کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ برما میں عام سوچ یہ ہے کہ اگر انڈیا اور چین ان کو اپنی جانب راغب کرنے کے لیے مقابلہ کرتے رہیں تو صرف برما کو ہی فائدہ ہو گا۔ لہذا ان کا زور دونوں ممالک کے ساتھ متوازن تعلقات پر ہے۔

دوسری طرف، حقیقت یہ ہے کہ انڈیا نے 1980 اور 1990 کی دہائی میں برما کے ساتھ قریبی تعلقات کو برقرار رکھنے پر زور نہیں دیا تھا، اس کی بنیادی وجہ برما میں فوجی حکمرانی کا قیام اور جمہوریت کا خاتمہ تھا۔

انڈیا میانمار تعلقات

اس وقت انڈیا میں جمہوریت پھل پھول رہی تھی، لہذا ظاہر ہے کہ اس نے اس وقت غیر جمہوری حکومتوں سے دوری اختیار کر رکھی تھی۔

واجپائی کے دور میں تعلقات تبدیل ہوئے

دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں تبدیلی اس وقت آئی جب اٹل بہار واجپائی انڈیا کے وزیراعظم بنے۔ راجیو بھاٹیا، برما میں انڈیا کے سفیر ہونے کے علاوہ دونوں ممالک کے مابین تعلقات پر ایک کتاب بھی لکھ چکے ہیں۔

وہ اتنے مایوس نہیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انڈیا ’سوفٹ پاور‘ میں چین سے اب بھی آگے ہے۔

میانمار میں انڈیا اور برما پر پہلے برطانوی راج تھا۔ بدھ مت انڈیا سے برما گئے اور مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کی زندگی کے آخری ایام بھی اسی ملک میں گزرے تھے اور ان کا انتقال بھی یہی ہوا تھا اور ان کی قبر بھی وہیں ہے۔

برما میں 8 نومبر کو عام انتخابات ہو رہے ہیں۔ ممکن ہے کہ انڈیا سے دوستی بڑھانے کا کام انتخابات تک جاری رہے۔ کچھ ماہرین بھی ایسا ہی مانتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’انتخابات کے بعد برما ایک بار پھر چین کی گود میں چلا جائے گا۔‘

فی الحال، دنیا کے بہت سے ممالک روہنگیا میں مسلمانوں کے ساتھ مظالم کے معاملے پر برما سے ناراض ہیں، جس کی وجہ سے چین پر اس کا انحصار بڑھ گیا ہے اور اب جب انڈیا نے اس کی جانب قدم بڑھایا ہے تو برما نے اس کا خیرمقدم کیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32294 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp