کاون، ’سفید ہاتھی‘ اور برصغیر کی تاریخ میں دیے جانے والے چند دلچسپ سفارتی تحائف کی کہانی


شہنشاہ جہانگیر اور شہزادہ خرم

مغل شاہی دربار میں جو سفارت کار جتنا نایاب، قیمتی اور دلچسپ تحفہ بادشاہ سلامت یا ملکہ عالیہ کی خدمت میں پیش کرتا، وہ اُسی تناسب سے اپنے ملک اور حکومت کے لیے مراعات حاصل کرنے میں کامیاب رہتا

سترہویں صدی کے اختتام پر جب مغل شہنشاہ جہانگیر اور اُن کے بیٹے خُرم کو ہیرے جواہرات میں تولا جا رہا تھا (دھیان رہے کہ شہنشاہ موصوف لباس اور دیگر تام جھام سمیت کوئی ڈھائی سو پاؤنڈ وزن رکھتے تھے) اُس وقت تاجِ برطانیہ اپنی خارجہ پالیسی کالی مرچ کی تیزی سے بڑھتی ہوئی قیمتوں کے تناظر میں وضع کر رہا تھا۔

پُرتگال اور ہالینڈ نو آبادیاتی دوڑ میں برطانیہ کے حریف تھے اور ہندوستان، مشرق بعید کے علاقوں پر قبضہ کرنے کی کوششوں میں پہل کر چکے تھے اور اس حوالے سے کاروباری لین دین میں بھی سبقت لے جا چکے تھے۔ ان ممالک نے کالی مرچ کی تجارت پر مکمل اجارے کے باعث اس کی قیمت دُگنی کر دی تھی۔

اس صورتحال میں برطانوی تجارتی کمپنیاں جو کہ تاجِ برطانیہ کے زیرِ سایہ اپنے اور ملکی تجارتی مفادات کو آگے بڑھاتی تھیں، ہندوستان میں قدم جمانے کی سر توڑ کوشش کرنے لگیں۔

ہسپانوی بحری بیڑے کو سنہ 1588 میں شکست دینے کے بعد برطانیہ اپنی بحری قوت کی صلاحیت کے بارے میں بہت پُراعتماد ہو چکا تھا۔ لہٰذا بیرونی فتوحات اور تجارتی روابط بڑھانے کے سلسلے میں اس نے بحری قوت، تحائف و رشوت اور سفارتی رنگ بازی (ڈپلومیٹک تھیٹرکس) کا بے پناہ استعمال کیا۔

اکثر تاریخ دان بحری قوت کے اثر کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں حالانکہ اس کا مظاہرہ دارالخلافہ سے بہت دور ساحلی شہروں میں ہوتا اور مغل فرمانروا پر اس کا کوئی خاص رعب مرتب نہ ہوتا۔

مغل سلطنت، خصوصاً بادشاہ کے لیے تو ہندوستان ہی کُل عالم تھا۔ بیرونی دنیا کے معاملات ایران، ترکی میں سلطنت عثمانیہ اور اُزبکستان تک محدود تھے اور خارجہ تعلقات یا پالیسی کے لیے کوئی مخصوص وزیر بھی نہ تھا۔ لہٰذا خارجی امور کی تمام فیصلہ سازی مغل بادشاہ کے اندازوں اور مزاج پر منحصر ہوتی۔

مغل بادشاہ

جب مغل شہنشاہ جہانگیر اور ان کے بیٹے خُرم کو ہیرے جواہر میں تولا جا رہا تھا

اِس صورتحال میں تحائف اور سفارتی چالاکیاں بحری قوّت سے کہیں زیادہ موثر اور اہم حیثیت اختیار کر گئیں۔

پرانے زمانے کے قصے کہانیوں میں یہ اکثر ہوتا تھا کہ بادشاہ یا اس کی بیٹی شدید بیمار پڑ جاتی اور سرکاری طبیب، حکیم، اتائی، ٹونے ٹوٹکے سب ناکام ہو جاتے تو ایسے میں کوئی مسافر یا درویش دور دیس کی کسی جڑی بوٹی یا تریاق سے فوری شفایاب کرتا اور انعام میں کوئی وزارت یا صوبہ پاتا۔

یہی حال سفارت کاروں کا بھی ہوتا۔ جو جتنا نایاب، قیمتی اور دلچسپ تحفہ بادشاہ سلامت یا ملکہ عالیہ کی خدمت میں پیش کرتا، اُسی تناسب سے اپنے ملک اور حکومت کے لیے مراعات حاصل کر لیتا۔ اِن تحائف میں بیش قیمت جواہر، ریشمی خلعت، پُرزوں سے بنے عجائبات، اعلیٰ نسل کے گھوڑے، اونٹ، ہاتھی اور اُس علاقے میں ناپید جانور جیسے زرافہ، زیبرا، چیتا وغیرہ بھی شامل ہوتے۔

’سفید ہاتھی‘ اور گھوڑے کی مثال

اس سلسلے میں کئی محاورے بھی ایجاد ہوئے۔ انگریزی میں کہتے ہیں ’ٹو لُک اے گفٹ ہارس ان دی ماؤتھ‘ یعنی تحفے میں مین میخ نکالنا جو کہ صرف سفارتی آداب کے ہی نہیں، شرافت کے بنیادی اصولوں کے بھی خلاف ہے۔

’سفید ہاتھی‘ کا محاورہ بھی اسی تناظر میں وجود میں آیا، گویا کسی کو اُس کی حیثیت سے بڑھ کر تحفہ دینا جس کی دیکھ ریکھ میں وصول کنندہ تباہ ہو جائے۔ اس کا پس منظر کچھ یوں ہے کہ سفید ہاتھی دراصل سفید نہیں بلکہ سورج مُکھی (البائنو) ہونے کے باعث کم تعداد میں پائے جاتے ہیں اور اس وجہ سے عام ہاتھی سے زیادہ قیمتی ہوتے ہیں۔

سفید ہاتھی

اگر کسی منصوبے کی لاگت اس کی افادیت سے زیادہ ہو تو اسے انگریزی میں بھی ‘وائٹ ایلیفنٹ’ یا ’سفید ہاتھی‘ قرار دیا جاتا ہے

جنوب مشرقی ایشیا کی قدیم بادشاہتیں، جن میں برما (میانمار)، سیام (تھائی لینڈ)، کمبوڈیا اور لاؤس شامل ہیں، سفید ہاتھی کی ملکیت کو قابلِ فخر تصور کرتیں اور انھیں صرف شاہی محل کے لیے مخصوص کر دیا جاتا۔ عوام اسے خوشحالی اور انصاف کی نشانی سمجھتے اور مقدس خیال کرتے۔

اب ایسے جانور سے کچھ محنت مزدوری تو کروائی نہیں جا سکتی بلکہ الٹا اس کی دیکھ بھال پر بہت خرچ آتا۔ بادشاہ کبھی ایسے ہاتھی تحفے میں امرا کو عطا کرتا تو وہ اس عزت افزائی سے معذرت بھی نہیں کر سکتے اور اسے پالنے کے متحمل بھی نہ ہوتے۔ اس طرح جسمانی رنگت اور معاشی و معاشرتی پس منظر مل کر ’سفید ہاتھی‘ محاورے کا موجب بنے۔

یہ محاورہ انگریزی میں بھی ان ہی معنوں میں استعمال ہوتا ہے اور اگر کسی منصوبے کی لاگت اس کی افادیت سے زیادہ ہو تو اسے ’وائٹ ایلیفنٹ‘ قرار دیا جاتا ہے۔

سفارتی تحائف اور ہاتھیوں کا ذکر چل ہی نکلا ہے تو کچھ تذکرہ بیچارے کاون کا بھی ہو جائے۔

دوست مُلک سری لنکا نے یہ ہاتھی نہایت پُرخلوص جذبے سے سنہ 1985 میں پاکستان کو دیا لیکن یہاں خیال رہے کہ کاون کسی طور سے ’سفید ہاتھی‘ نہیں ہے، نہ جسمانی طور پر اور نہ دینے والے کی نیت کے اعتبار سے۔ لیکن عملی طور پر ہم نے اپنی نالائقی سے اس بیچارے کو ’سفید ہاتھی‘ بنا دیا اور خود کو اس لاجواب تحفے اور دوست ملک کے جذبہ خیر سگالی کے لیے نااہل ثابت کیا۔

کاون کے ساتھ جو سلوک وفاقی دارالحکومت کے چڑیا گھر میں ہُوا وہ افسوسناک ہے۔ اس سلسلے میں جانوروں سے بےرحمی کے خلاف کام کرنے والی بین الاقوامی تنظیموں نے مہم چلائی، اسلام آباد ہائیکورٹ نے حکم جاری کیا کہ کاون اور دیگر جانوروں کو کسی خاطرخواہ پناہ گاہ (سینکچوئری) میں منتقل کیا جائے اور اگر انتظامیہ ذمہ دارانہ طریقے سے چڑیا گھر چلانے سے قاصر ہے تو اسے بند کر دیا جائے۔

اس سلسلے میں پاکستان کی جو جگ ہنسائی ہوئی وہ اپنی جگہ، عدالتی حکم پر عمل درآمد میں جس غیر پیشہ ورانہ رویے کا مظاہرہ کیا گیا (جس کے نتیجے میں دو شیر اسلام آباد سے لاہور منتقلی کے دوران ہلاک ہو گئے) وہ غور و فکر کرنے والوں کے لیے ہولناک اشارہ ہے۔

بد قسمتی سے سری لنکا اور یہ خطہ جو آج پاکستان کہلاتا ہے، ان کے درمیان تحائف کی لین دین کے حوالے سے تاریخ بہت خوشگوار نہیں رہی۔

کاون ہاتھی

کاون کے سلسلے میں بھی ہمیں اب جا کر یہ بات سمجھ آئی کہ کاون کو اتنے دور دراز ملک کمبوڈیا بھیجنے کے بارے میں کیوں سوچا جا رہا ہے

محمد بن قاسم، چچ نامے کے تناظر میں

ہمیں سکول میں جو تاریخ پڑھائی گئی ہے وہ کسی حد تک ’چچ نامہ‘ سے مستعار لی گئی ہے اور اُس میں حسبِ ذائقہ کہیں ’شوگر کوٹنگ‘ یعنی گڑ ملایا گیا ہے اور کہیں حسبِ عارضہ ’ڈائٹ یا لائٹ ہسٹری‘ میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ چچ نامہ سندھ کی فتح کے بعد عربی میں لکھا گیا تھا جبکہ اس کا فارسی ترجمہ تیرہویں صدی عیسوی میں علی بن کُوفی نے مرتب کیا۔

اِس تاریخ میں ہمیں محمد بن قاسم کے برِصغیر پر براستہ سندھ حملے کا سبب یہ بتایا جاتا ہے: ابنِ قاسم کے حاکم حجاج بن یوسف کے لیے سراندیپ یعنی سری لنکا کے راجہ نے تحائف بذریعہ سمندری جہاز عراق بھجوائے، جنھیں رستے میں سندھ کے قزاقوں نے لوُٹ لیا۔

اس جہاز پر کچھ مسلمان خواتین بھی سوار تھیں جو سندھ کے حکمران راجہ داہر کی قید میں پہنچ گئیں۔ حجاج کو جب یہ خبر ہوئی تو اس نے سترہ سالہ ابن قاسم کو راجہ داہر کی سرکوبی کے لیے روانہ کیا اور اس نوجوان نے سندھ فتح کر لیا۔

چچ نامے کے مطابق مفتوح راجہ داہر کی دو بیٹیوں کو خلیفہ ولید بن عبد المالک کے دربار میں تحفتاً بھجوایا جاتا ہے جہاں وہ خلیفہ کو ابنِ قاسم سے بدظن کرتی ہیں جس کے نتیجے میں اُسے سندھ سے واپس طلب کر لیا جاتا ہے۔ کچھ تاریخی روایتوں میں ابنِ قاسم مردہ حالت میں خلیفہ کے دربار میں پہنچایا جاتا ہے اور کچھ کے مطابق اُس کا انتقال خلیفہ کی قید میں ہوتا ہے۔

کاون کے سلسلے میں بھی ہمیں اب جا کر یہ بات سمجھ آئی کہ کاون کو اتنے دور دراز ملک کمبوڈیا بھیجنے کے بارے میں کیوں سوچا جا رہا ہے۔ آخر پڑوسی ممالک انڈیا اور بنگلہ دیش میں بھی ہاتھیوں سے متعلق خاصی مہارت رکھی جاتی ہے اورعمدہ حفاظت گاہیں بھی موجود ہیں، تو کاون کو ان کے حوالے کیوں نہیں کیا جاتا؟

بات یہ ہے کہ ہماری اِن دونوں ممالک سے کوئی خاص بات چیت نہیں ہے، ورنہ روزمرہ ضروریات کی چیزیں ہمیں سات سمندر پار سے درآمد نہ کرنی پڑتیں۔ باقی بچا سری لنکا تو صاحبو، واپس چلیے سفارتی آداب و قوائد کی جانب۔

اگر آپ کسی کو کوئی تحفہ دیں اور وہ آپ ہی کو مرمت یا علاج کے لیے واپس بھیج دیا جائے، تو کیا آپ کو اچھا لگے گا؟ آپ یقیناً خفا ہوں گے اور یہ سمجھنے میں حق بجانب ہوں گے کہ آپ کے تحفے کے معیار، صحت اور نسل پر انگشت نمائی کی جا رہی ہے اور تحفہ لوٹا کر آپ کی تضحیک کی جا رہی ہے۔ سو اس بنا پر کاون کو واپس سری لنکا بھیجنے کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔

بینظیر جاپان میں

سنہ 1996 کے دورہ جاپان کے موقع پر دورانِ گفتگو ہماری وزیرِاعظم نے کہیں دریائے سندھ کی پلّا مچھلی کا ذکر کر دیا اور محترم میزبان سے مچھلی کا وعدہ کر بیٹھیں

پلّا مچھلی کی تحریک عدم تعاون

سفارتی تحائف کا ذکر چل ہی پڑا ہے تو ایک آنکھوں دیکھا قصہ بھی ملاحظہ فرمائیے جو ہماری دانست میں اس سے پہلے کبھی منظرِعام پر نہیں آیا۔

پاکستان کی وزیرِ اعظم سنہ 1996 میں جاپان کے سرکاری دورے کے دوران اُس وقت کے شہنشاہِ جاپان کے ہاں عشائیے پر مدعو تھیں۔ دورانِ گفتگو ہماری وزیرِاعظم نے کہیں دریائے سندھ کی پلّا مچھلی کا ذکر کر دیا اور محترم میزبان سے مچھلی کا وعدہ کر بیٹھیں۔ اب دن رات سفارت خانے اور اسلام آباد کے مابین پیغامات کا تبادلہ شروع ہوا کہ پلّا مچھلی کس طرح اور کیوں کر جاپان پہنچائی جا سکے۔

نامِ خُدا! وہ دن بھی آ ہی گیا کہ جس دن مچھلی نے ٹوکیو میں لینڈ کرنا تھا۔ کچھ سفارتکار ہماری جانب سے، کچھ اہلکار گائموشو یعنی جاپانی وزارت خارجہ کے اور کچھ ماہرین سفید اوور آل وردیوں میں ملبوس، ایمبولینس نُما گاڑیوں پر سوار پلّا مچھلی کے استقبال کے لیے مستعد۔ اچانک اسلام آباد سے ایک ہنگامی پیغام موصول ہُوا کہ جو جہاں ہے وہیں رہے، چند تکنیکی وجوہات کی بنا پر مچھلی آج سفر نہیں کرے گی۔

یہ پہلا مرحلہ تھا خفت کا۔ اس کے بعد ایک معمول سا بن گیا اور ہر دوسرے چوتھے دن پلّا مچھلی کی آمد کا غلغلہ سا اُٹھتا، سفارتی پیغامات کا تبادلہ ہوتا، دونوں جانب کا عملہ کیل کانٹے سے لیس ٹوکیو کے نریٹا ایئرپورٹ پہنچ جاتا اور پھر وہی ہنگامی پیغامات، وہی تکنیکی حیلے، وہی خفت آمیز بہانے۔

معلوم ہُوا کہ وزیر اعظم تو اپنے طور پر ہدایات وغیرہ دے کر دوسرے ہزار جھمیلوں میں مصروف ہو گئیں لیکن یار لوگوں کی وہی ٹیڑھی چال، پہلی کوشش میں تو پلّا مچھلی براہ راست دریائے سندھ سے پکڑی، پانی سے بھری تھیلی (پانی والی بات ہم نے خود ہی اخذ کر لی ہے) میں ڈالی اور حیدرآباد سے کراچی جانے والی بس کے ڈرائیور کی ٹھوڑی کو ہاتھ لگا کر التجا کی کہ ’یار یہ خالص دودھ کے کرمنڈل تو لیجا ہی رہا ہے، ذرا یہ مچھلی بھی لے جا، ٓسُہراب گوٹھ پر ہمارا بندہ لے لے گا۔‘

پھر کسی منچلے نے بس کے مسافروں کو مِڈوے شنواری ڈھابے پر دودھ پتی کی لالچ دلا کر ’ہرا سمندر، گوپی چندر، بول میری مچھلی کتنا پانی‘ تالیاں پیٹ پیٹ کر گانے پر بھی آمادہ کر لیا۔ مگر مچھلی نے حیدرآباد کے ٹول پلازہ پر ہی جان جانِ آفریں کے سُپرد کر دی۔

پلّا مچھلی

مچھلی کو جاپان پہنچانے کے غرض سے کبھی پانی سے بھری تھیلیوں کے بجائے بالٹیاں اور ٹب استعمال کئیے گئے اور کبھی ایکویریم نما شیشے کے کنٹینر، مگر پلّا مچھلی نے تحریک عدم تعاون جاری رکھی

دوسرے مرحلے میں پانی سے بھری تھیلیوں کے بجائے بالٹیاں اور ٹب استعمال کیے گئے، تیسرے میں ایکویریم نما شیشے کے کنٹینر مگر پلّا مچھلی نے تحریک عدم تعاون جاری رکھی۔

ہاں کبھی کبھار بھُول چُوک ہو جاتی تو کراچی تک زندہ پہنچ جاتی۔ ایسا نہیں ہے کہ اس سارے قضیے میں پلّا مچھلی کبھی جہاز میں نہیں بیٹھی (تیری)۔ یہ شرف اسے بلکہ یوں کہیں کہ جہاز کو کئی مرتبہ حاصل ہُوا۔ مگر ٹوکیو پہنچنے پر مچھلی ہمیشہ مردہ ہی پائی گئی۔ کتنی باوردی و باملاحظہ ٹیمیں ںریٹا ہوائی اڈے سے ناشاد و نامراد لوٹیں اس کا کوئی شمار ہی نہیں۔

جاپانی نہایت دھیمے، بامروت اور شائستہ لوگ ہیں، ہمارے علم میں تو نہیں کہ انھوں نے اس ممکنہ سفارتی تحفے کی عدم ترسیل کو کبھی دونوں ممالک کے دوستانہ تعلقات پر اثرانداز ہونے دیا ہو۔ ہم خود اس نتیجے پر پہنچے کہ پلا ابھی قرونِ اولیٰ میں زندہ ہے اور قدیم عقائد کے مطابق سمندر پار کے سفر سے گریزاں۔

آخر میں ہماری طرف سے مستقبل کے تمام وزرائے اعظم یعنی پاکستان کی نصف آبادی اور تمام کرکٹرز (کہ خواہشمندوں اور زیرِ تربیت پٹھوں کی شرح اسی تناسب سے ہے) سے دست بستہ گزارش ہے کہ جب آپ وزارتِ عظمیٰ کی مسند پر براجمان ہو جائیں تو خدارا کسی جاندار کا تحفہ دینے کا وعدہ نہ کریں اور لینے سے تو صاف انکار کر دیں۔

وقتی سفارتی تناؤ کو قابو کیا جا سکتا ہے لیکن مستقل شرمندگی اور ملکی ساکھ کا نقصان برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ مستقبل کے وزرائے اعظم اور ان کے سہولت کار بھی ہاتھی اور مچھلی کی کہانی کو تربیتی نصاب کا لازمی حصہ تصور کریں اور تحفے، تحائف سے گریز ہی کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32495 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp