اسرائیل، عرب ممالک امن معاہدے: کیا عوام کی مفلسی اور جرنیلوں کی اقتدار کی خواہش سوڈان کو اسرائیل کا ہمنوا بنا پائے گی؟


ٹرمپ
ایک ایسے وقت میں جب سوڈان کی معیشت تنزلی کا شکار ہے، افراط زر بڑھ رہا ہے اور ملک بھر میں عذائی بحران کے بادل منڈلا رہے ہیں ٹرمپ انتظامیہ اور اسرائیلی حکومت کو یہاں (سوڈان) ایک موقع نظر آ رہا ہے۔

سوڈان میں 18 ماہ قبل طویل مدت تک برسراقتدار رہنے والے عمرالبشیر کو عوامی احتجاج کے پیش نظر معزول ہونا پڑا تھا اور اس کے بعد سے سوڈانی عوام ملک میں جمہوریت کی بحالی کی آس لگائے بیٹھے ہیں۔

ایسے موقع پر اگر سوڈان اسرائیل کو تسلیم کر لیتا ہے تو امریکہ اسے ’دہشتگردوں کی سرکاری طور پر سرپرستی کرنے والے ممالک‘ کی فہرست سے نکال دے گا۔ اور یہ ایک ایسا اقدام ہو گا جو ملک میں معاشی استحکام کا دروازہ کھولنے کا باعث بنے گا۔

یہ ایک پیچیدہ کہانی ہے جو 30 برس قبل سوڈان کی اسلام پسند حکومت کے ابتدائی دنوں کے بارے میں ہے۔

سنہ 1989 میں ایک فوجی بغاوت کے بعد اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد صدر بشیر نے ملک کو عسکریت پسندوں کے جہاد کے عالمی مرکز میں تبدیل کر دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

جنوبی سوڈان کے بعض علاقے قحط زدہ قرار

اسرائیل عرب ممالک کے قریب کیوں آنا چاہتا ہے؟

فوجی بغاوت کے بعد سوڈان کے صدر عمر البشیر زیر حراست

عالمی شدت پسند تنظیم القاعدہ اور دیگر انتہا پسند گروپوں نے سوڈان کو امریکہ، سعودی عرب، مصر، ایتھوپیا، یوگینڈا، کینیا اور دیگر مقامات پر دہشت گرد حملے کرنے کے اڈے کے طور پر استعمال کیا۔

سنہ 1993 میں نیو یارک کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر دہشت گردی کے پہلے حملے کے بعد امریکہ نے سوڈان کو ’دہشت گردوں کا ریاستی سرپرست‘ قرار دیا تھا۔

سوڈان

سی آئی اے سے تعاون

بین الاقوامی سطح پر لگنے والی معاشی و دیگر پابندیوں اور پڑوسی ممالک کے فوجی دباؤ نے سوڈان کو مجبور کیا کہ وہ القاعدہ رہنما اسامہ بن لادن اور دیگر جہادیوں کو ملک بدر کر دے۔

عالمی دباؤ کے پیش نظر اور خصوصاً 11 ستمبر 2001 کے حملوں کے فوراً بعد ہی سوڈان کی سکیورٹی سروسز امریکی سینٹرل انٹیلیجنس ایجنسی (سی آئی اے) کی ایک قابل قدر شراکت دار بن گئیں۔

اگچہ اِس شراکت داری کی بنیاد پر سوڈان کو دہشت گردی کے ریاستی سرپرست ملکوں کی فہرست سے نکال دینا چاہیے تھا لیکن کانگریس کے ارکان نے سوڈان میں خانہ جنگی اور انسانی حقوق کی پامالیوں سمیت دیگر بہت سی وجوہات کی بنا پر سوڈان کو اس فہرست میں شامل رکھا۔

تاہم اس کے باوجود عمرالبشیر کی سربراہی میں سوڈانی حکومت نے مخفی انداز ایران اور حماس سے تعلقات قائم رکھے اور کم از کم دو مواقع پر اسرائیل کے جنگی طیاروں نے سوڈان کے بحر احمر کے ساحل پر گاڑیوں کے دو ایسے قافلوں پر حملہ بھی کیا جو مبینہ طور پر حماس کو دیے جانے والے اسلحے سے لدی تھیں۔

سنہ 2016 میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے دباؤ پر سوڈانی حکومت نے ایران سے اپنے تعلقات کا خاتمہ کر دیا۔

گذشتہ برس جمہوری انقلاب کے باوجود واشنگٹن ڈی سی کی سوڈان کے حوالے سے مثبت تبدیلی کی رفتار سست رہی ہے۔

امریکی محکمہ خارجہ کے عہدیدار اپنے ایک طاقتور ہتھیار کا فائدہ اٹھانا چاہتے تھے اور وہ پریشان تھے کہ شاید نئی جمہوری حکومت زیادہ دن نہ چل سکے۔

سینیٹرز، جو سوڈان کو دہشت گردی کی فہرست سے ہٹانے کی مخالفت کرتے ہیں

جب تک سوڈان بلیک لسٹ میں رہے گا اُس پر مالی پابندیاں بھی عائد رہیں گی۔ ان پابندیوں کے باعث سوڈان میں کاروبار بند ہیں، غیر ملکی براہ راست سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر ہے اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ ( آئی ایم ایف) اور ورلڈ بینک مزید کوئی نیا پیکج بھی نہیں دے سکتے کیونکہ پرانے قرضے ادا نہیں ہو پا رہے ہیں۔

ملک میں خوفناک حد تک بھوک کا راج ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق 96 لاکھ افراد شدید غذائی قلت کا شکار ہیں اور یہ صورتحال کورونا وائرس اور ملک میں آنے والے سیلابوں کی وجہ سے مزید بگڑ گئی ہے۔ یہ ایسا بحران ہے جو کھانے کی فراہمی سے ختم نہیں ہو سکتا بلکہ اس کے لیے بڑے پیمانے پر معاشی معاونت کی ضرورت ہے۔

سیلاب

حالیہ مہینوں میں سوڈان کو دہشت گردی کی فہرست سے نکالنے کا معاملہ آہستہ آہستہ کانگریس میں شروع ہوا تھا، جو مشرقی افریقہ اور یمن میں القاعدہ کے حملوں کے متاثرین کے لواحقین کی جانب سے معاوضے کے مطالبے کے بعد رُک گیا۔

سوڈان 335 ملین کا ایک پیکچ دینے پر تھا لیکن ستمبر میں ڈیموکریٹک پارٹی کے دو سینٹرز چک شمر اور باب میننڈیز نے اس اقدام کے آگے بند باندھ دیا اور اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ یہ سینیٹرز نائن الیون متاثرین کے لیے کچھ بہتر پیکج چاہتے ہوں گے۔

ان حالات میں ٹرمپ انتظامیہ سوڈان کو ان سب مسائل سے نکلنے کا ایک راستہ سجھا رہی ہے۔

اگست کے آخر میں سوڈان کے دورے کے دوران امریکہ کے وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے ملک کے نئے وزیراعظم عبدالا ہمدوک کو ایک تجویز پیش کی۔ تجویز یہ تھی کہ اگر سوڈان اسرائیل کو تسلیم کر لے تو صدر ٹرمپ کانگریس کی اس رکاوٹ کو ختم کر دیں گے اور معاشی پابندیاں ختم ہو جائیں گی۔

گذشتہ ماہ متحدہ عرب امارات کے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے اقدام کے بعد سوڈان ( جو عرب لیگ کا رکن ہے) ایسا کرنے کی صورت میں اسرائیل کو تسلیم کرنے والا عرب چوتھا ملک بن سکتا ہے۔

اس سے امریکہ کے انتخابات سے ہفتوں قبل اسرائیل کے ساتھ عرب تعلقات معمول پر لانے کے لیے انتظامیہ کی مہم کو بڑا فائدہ حاصل ہو گا۔

اسرائیل کو تسلیم کرنا سوڈان کے لیے ایک اہم اقدام ہو گا۔

سوڈان کے وزیراعظم اور مائیک پومپیو

جرنیلوں کے لیے ایک اچھا معاہدہ

مگر اس ممکنہ اقدام کے سب سے بڑے مخالف اسلام پسند ہیں، جو اب اقتدار سے باہر ہیں۔ لیکن یہ سیاسی میدان میں متنازع ہے اور شہری اتحاد میں بہت سے ایسے لوگ شامل ہیں جو پہلے فلسطینیوں کے ساتھ امن پر اصرار کرتے ہیں۔

وزیراعظم ہمدوک جانتے ہیں کہ اگر انھوں نے یہ فیصلہ لیا تو ان کے سویلین حامیوں کا اتحاد ٹوٹ جائے گا۔

انھوں نے ماییک پومپیو کو بتایا کہ اس مسئلے پر فیصلے میں جمہوری طور پر منتخب حکومت کا انتظار کرنا چاہیے، جو کہ تین سال کے عرصے میں ہو گا۔

اگرچہ ہمدوک اور ان کی سویلین کابینہ عہدے پر موجود ہیں لیکن یہ سوڈان کے جرنیل ہی ہیں جو حقیقی طاقت کا استعمال کرتے ہیں۔

متحدہ عرب امارات، سعودی عرب اور مصر کی حمایت میں عبوری کونسل کے چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل عبد الفتاح البرہان اور ان کے نائب لیفٹیننٹ جنرل محمد ہمدان ڈگولو، جو ’ہیمتی‘ کے نام سے مشہور ہیں، فوج کو احکام اور پیسہ دیتے ہیں۔

اور یہ وہی جنرل ہیں جو اسرائیل کے ساتھ بات چیت کر رہے ہیں۔ جنرل برہان نے وزیراعظم ہمدوک کو بتائے بغیر فروری میں اسرائیلی وزیراعظم بنیامن نیتن یاہو سے ملاقات کی اور دونوں کی جلد ہی ایک بار پھر ملاقات ہونے والی ہے۔

جنرل برہان اور جنرل ہیمتی کے لیے، امریکہ اور اسرائیل کے معاہدے نے انھیں بین الاقوامی سطح پر تسلیم کرانے کا وعدہ کیا ہے، جس کے لیے انھیں جمہوریت کی بھی ضرورت نہیں۔

اسی لیے سوڈانی ڈیموکریٹس اس معاہدے پر احتیاط سے نظر ثانی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

سوڈان

گذشتہ برس اپریل میں جب احتجاج کے نتیجے میں عمر البشیر اقتدار سے باہر ہو گئے تو جنرل برہان اور جنرل ہیمتی نے اقتدار سنھبال لیا تھا۔ اس کے دو ماہ بعد ان کے فوجیوں نے 100 سے زائد مظاہرین کو پرتشدد جھڑپ میں ہلاک کر دیا تھا۔

اس سے شور مچ گیا، جس کے بعد امریکہ، برطانیہ، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی مدد سے ایک معاہدے کے تحت وہ سویلین کابینہ کے ساتھ اقتدار میں حصہ لینے پر راضی ہو گئے۔

دوسرے مسائل‘

سب سے اہم بات یہ ہے کہ فوج عام شہریوں کو صرف اس لیے برداشت کرتی ہے کہ کیونکہ انھیں بین الاقوامی سطح پر عزت و احترام کی ضرورت ہے۔ سوڈانی عوام نے جرنیلوں کو ان کی بربریت اور مظالم کے لیے معاف نہیں کیا۔

پرانی نسل ابھی بھی ’آپریشن موسیٰ‘ کو یاد کرتی ہے، جو سنہ 1984 میں اس وقت کے صدر جعفر نمیری کا معاہدہ تھا جس کے تحت اسرائیل کو سوڈان کے پناہ گزین کیمپوں سے ایتھوپیائی یہودیوں کو منتقل کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔ نیمیری پر بعد میں اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد سے لاکھوں ڈالر رشوت لینے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔

اسرائیل اور ایتھوپیا کے یہودی

کسی اور عرب ممالک کا اسرائیل کو تسلیم کرنا اسرائیلیوں کے لیے واقعی ایک انعام ہے۔

لیکن ان نوجوان اسرائیلیوں اور ان کے امریکی ہم منصبوں کے نزدیک جنھوں نے 15 سال قبل دارفور میں بڑے پیمانے پر مظالم کے خلاف مظاہرہ کیا تھا، ان افراد کے قانونی اختیار کی حمایت کرنا جنھوں نے ملیشیاؤں کو اس قتل عام حکم دیا تھا، اخلاقی طور پر نامناسب اقدام ہے۔

لیکن ہمدوک کا نقطہ نظر کافی معقول ہے: دہشتگردی کی فہرست سے نکالنا اور اسرائیل کو تسلیم کرنا دو الگ معاملے ہیں۔

وہ اس بار پر زور دیتے ہیں کہ سوڈان کو دہشتگردی کی فہرست سے نکال دینا چاہیے کیونکہ وہ اپنی سرزمین سے دہشتگردوں کا خاتمہ کر چکا ہے اور اس کی جمہوریت بچانے کے لائق ہے۔

اور اگر اسرائیل کو ایک سچی جمہوری عرب قوم تسلیم کر لیتی ہے تو یہ واقعتاً جیتنے کے قابل ایک انعام ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32298 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp