کیا بلوچستان سے منشیات کا خاتمہ ناممکن ہے؟


اس وقت جب میں نویں اور دسویں کلاس میں پڑھتا تھا۔ میری عمر تقریباً سولہ سترہ برس کے لگ بھگ تھی۔ اسکول کے ایک دوست تھے جن سے سلام دعا رہتی تھی۔ وہ سکول کے قابل اور ذہین طالب علم تھے جو اپنی کلاس میں ہمیشہ پوزیشن لیتے تھے اور میرے ہم عمر بھی تھے پھر آہستہ آہستہ برے سوسائٹی کی وجہ سے چرس پینے کے عادی ہوچکے اور اس حد تک گئے کہ اب ذہنی طور پر بالکل صحیح نہیں۔ اب اس کی ایسی حالت ہے۔ کسی سے بات چیت یا سلام دعا تک نہیں کرتا میں جب بھی اسے دیکھتا ہو وہ سب یاد آتا ہے۔ اسکول میں انتہائی پوزیشن لینے والا نیک خوب صورت نوجوان اور سگریٹ چرس کی عادت اسے کہا سے کہا تک پہنچا چکی ہے۔ بہت دکھ بھی ہوتا ہے۔ تکلیف بھی ہوتی ہے۔ شہر کے لوگ تو اس کے نام کے ساتھ پاگل کا لفظ بھی استعمال کرتے ہیں۔

اسی طرح ہر موالی ہر ذہنی طور مفلوج انسان کے پیچھے ایک نام ایک کہانی ضرور ہوتی ہے۔ بلوچستان کے عوام جو کہ انسانی زندگی کی تمام بنیادی سہولیات صحت، تعلیم، روزگار، گیس، بجلی، پانی سمیت اس اکیسویں صدی میں بھی محروم ہیں۔ اسی طرح منشیات کے پھیلاؤ میں بہت آگے ہیں۔ یہاں صوبائی دارالحکومت کے ساتھ ساتھ ضلع تحصیل و یونین کونسل تک منشیات کے اڈے اور ہائی لیول پر اس کے کاروبار کرنے والے موجود ہیں۔ چرس اور شراب کو تو اب منشیات سمجھا ہی نہیں جاتا اور کیوں سمجھا جائے جب ہمارے معاشرے کے گلی گلی محلے محلے ہیروئن و کرسٹل میں 14 سالہ طالب علم اس زہر کا شکار ہوں وہاں تو چرس اور شراب پینا و بیچنا کچھ بھی نہیں سمجھا جائے گا۔

بلوچستان میں منشیات کے حوالے سے ہائی لیول کاروبار چاغی و ویش چمن سے قمر الدین کاریز سے شروع ہو کر بلوچستان کے کونے کونے تک باآسانی پہنچ جاتا ہے۔ گزشتہ سال دالبندین میں اسسٹنٹ کمشنر انجینئر عائشہ زہری تعینات ہوئی تو انہوں نے منشیات فروشوں کے خلاف سخت اقدام کرتے ہوئے کارروائی کر کے کروڑوں روپے مالیت کی منشیات پکڑ لی جس پر ڈپٹی کمشنر چاغی سیخ پا ہوئے اور اسٹنٹ کمشنر عائشہ زہری کو فوری طور تمام منشیات طویل میں نہ لینے اور چھوڑنے کا حکم دیا جس پر انہوں نے انکار کیا اور پریس کانفرنس کی۔ تعجب تو تب ہوا جب چیف سیکرٹری بلوچستان کیپٹن (ریٹائرڈ) فضیل اصغر نے اسٹنٹ کمشنر عائشہ زہری کو میڈل دینے کے بجائے شوکاز نوٹس بھیج دیا جس میں لکھا تھا کہ پاک افغان سرحدی علاقے سے منشیات کی برآمدگی کے بعد ڈی سی کے حکم پر تحویل میں نہ لیے جانے کے متعلق عائشہ زہری کی پریس کانفرنس حکومت کے لیے شرمندگی کا باعث بنی ہے۔

چلو اس بات سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس کالے دھندے میں گورے لوگ ملوث ہیں۔ اس اقدام کی بلوچستان میں بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی ) نے شدید مذمت کی جبکہ پارٹی کے مرکزی صدر میر اسرار اللہ خان زہری و مرکزی جنرل سیکرٹری و صوبائی وزیر میر اسد اللہ بلوچ نے بلوچستان اسمبلی میں کھل کر اس امر کی شدید مذمت کی اور بلوچستان میں منشیات کے خاتمے کے لیے اقدامات کا مطالبہ بھی کیا۔

اس کے بعد گزشتہ ماہ بی این پی عوامی نے بلوچستان میں منشیات کے خلاف بلوچستان بھر میں موٹر سائیکل ریلیوں و مظاہروں کا اعلان کیا اور 17 ستمبر کو مرکزی کابینہ مرکزی کمیٹی کے ممبران و ضلعی رہنماؤں نے کوئٹہ، سبی، پنجگور، لسبیلہ حب، خضدار، سوراب، قلات، ہرنائی، بولان، چاغی، جعفر آباد، اوستا محمد، ڈیرہ مراد جمالی، دالبندین، چاغی، گوادر، پسنی، اورماڑا، تربت، کوہلو، خاران، نوشکی، زہری، موسی خیل، سمیت تمام چھوٹے بڑے شہروں میں مظاہرے کیے گئے اور اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا اور ڈپٹی کمشنرز کو یاداشت بھی پیش کی گئی۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا بلوچستان میں منشیات کا خاتمہ ناممکن ہے؟ جب کوئی افسر یا ایس ایچ او منشیات فروشوں کو گرفتار کرے تو اوپر سے انہیں چھوڑنے کے احکامات آتے ہیں۔ اگر کوئی انکار کرے تو انہیں کے خلاف کارروائی ہوتی ہے جس کی ایک مثال سابقہ اسٹنٹ کمشنر چاغی عائشہ زہری بھی ہے۔

دوسری جانب چند مہینوں سے بلوچستان اسمبلی کے اپوزیشن اراکین سرگرم ہیں جنہوں نے بلوچستان ہائی کورٹ میں پی ایس ڈی 2020۔ 2021 پٹیشن دائر کی اس کے بعد خلاف ورزی پر ہائیکورٹ میں توہین عدالت کی درخواست بھی دائر کی گئی جس پر چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ نے وزیر اعلی، پرنسپل سیکرٹری، چیف سیکرٹری، سیکرٹری خزانہ اور پی این ڈی سکریٹری کو نوٹسز جاری کر دیے۔

کیا ہماری اپوزیشن جماعتوں کے لیے اتنی کوششیں پی ایس ڈی پی اور اس کے کمیشنوں کے لیے ضروری تھی۔ جتنی جدوجہد وہ اپنی پی ایس ڈی کے کمیشنوں کے لیے کر رہے اس طرح وہ بلوچستان میں منشیات کے خاتمے کے لیے کرتے تو ان ماؤں بہنوں کی دعائیں انھیں ملتی جن کے بچے چودہ پندرہ سال کی عمر میں تعلیم کے حاصل کرنے کے بجائے کرسٹل ہیروئن چرس جیسی منشیات کی دلدل میں پھنستے جا رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).