اڈلی: کملا ہیرس کے پسندیدہ ساؤتھ انڈین پکوان کو ’پھیکا‘ کہنے والے برطانوی معلم پر سوشل میڈیا صارفین برہم
ایک برطانوی معلم کی جانب سے کی جانے والی ٹویٹ نے سوشل میڈیا پر ایک دلچسپ جنگ چھیڑ دی ہے اور انڈین کھانوں کے شوقین سراپا احتجاج ہیں۔
مورخ ایڈورڈ اینڈرسن کے مطابق ساؤتھ انڈیا کی مشہور اڈلی ’دنیا کا سب سے پھیکا پکوان‘ ہے۔
اڈلی ابلے ہوئے چاولوں سے بننے والے پیڑوں کو کہتے ہیں جنھیں عام طور پر مصالحہ دار سامبھر کے ساتھ کھایا جاتا ہے۔ یہ پکوان انڈیا کی جنوبی ریاستوں میں بسنے والوں کی مرغوب ڈش ہے اور ناشتے سمیت کئی مواقع پر پیش کیا جاتا ہے۔
کئی لوگ تو اسے ساؤتھ انڈین کھانوں کا بادشاہ قرار دیتے ہیں!
امریکی صدارتی دوڑ میں نائب صدر کے عہدے کے لیے الیکشن لڑنے والی ڈیموکریٹک امیدوار کملا ہیرس کی والدہ انڈین نژاد ہیں۔ انھوں نے حال ہی میں انکشاف کیا کہ جب وہ چھٹی پر انڈیا کے شہر مدراس (چنائی) آتیں تو ان کی والدہ انھیں ’اچھی اڈلی‘ ضرور کھلاتیں۔
تاہم سینیٹر ہیرس اڈلی کے گن گانے والی اکیلی سیاستدان نہیں۔ انڈیا کی جنوبی ریاست تمل ناڈو کے شہر سالم میں حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے اراکین کورونا وائرس کی وبا کے دوران غریب افراد کے لیے سستے داموں پر ملک کے وزیر اعظم سے منسوب ’مودی کی اڈلی‘ فروخت کر رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
’یہ بریانی نہیں مذاق ہے، ہمارے جذبات سے مت کھیلیں!‘
انڈین کھانوں کو ’بد ذائقہ‘ کہنے پر سوشل میڈیا پر کہرام
’والدہ سے ڈوسا بنانا سیکھا، آج وہی کام آ رہا ہے‘
اسے ریاست کی حکمران جماعت کے خلاف ایک کھلی چال کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ تمل ناڈو کی سابق وزیراعلی جے للیتا کو لوگ ’اماں‘ کہہ کر پکارتے تھے اور ان کی جماعت اکثر غریبوں میں جے للیتا سے منسوب ’اماں کی اڈلی‘ تقسیم کرتی ہے۔
ڈاکٹر اینڈرسن برطانیہ کے شہر نیوکاسل کی نارتھامبریا یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں اور اس بحث کا آغاز اس وقت ہوا جب ایک انڈین فوڈ ڈلیوری سروس نے سوشل میڈیا پر صارفین سے رائے مانگی کہ ان کے نزدیک وہ کون سے پکوان ہیں جن کی مقبولیت کی وجہ سمجھ سے باہر ہے۔
جونہی انھوں نے یہ ٹویٹ پوسٹ کی تو اڈلی کے مداحوں اور ساؤتھ انڈیا سے تعلق رکھنے والے تمام صارفین نے ان پر دھاوا بول دیا۔
لکھاری اور کالم نگار اشان تھرور نے ان پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا: ’میرے خیال میں یہ ٹوئٹر پر کہی جانے والی سب سے اشتعال انگیز بات ہے۔‘
ان کے والد اور سیاستدان ششی تھرور بھی بحث میں شامل ہوگئے اور انھوں نے ڈاکٹر اینڈرسن کو اڈلی سے لطف اندوز ہونے کی ایک ترکیب بھی بتائی۔
کئی صارفین ڈاکٹر اینڈرسن کی بات سن کر صدمے میں چلے گئے اور سنہ 2020 کی نحوست کو کوسنے لگے۔
صرف انڈین ہی نہیں، دیگر قوموں کے افراد نے بھی مورخ کی متنازع رائے سے اتفاق کرنے سے انکار کیا۔ جرمنی میں مقیم اینا سوزن تھامس نامی ایک صارف نے تو اینڈرسن کو جرمنی آنے کی بھی دعوت دی تاکہ وہ صحیح معنوں اڈلی سے لطف اندوز ہو سکیں۔
تاہم اتنی تکرار کے باوجود بھی برطانوی معلم اپنے موقف پر قائم رہے۔ انھوں نے ایک اور ٹویٹ میں کہا کہ انھیں لگتا ہے کہ ان کی ٹویٹ سے پورا ساؤتھ انڈیا ناراض ہے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ کہ انھوں نے لوگوں کا ردعمل دیکھتے ہوئے دوپہر کے کھانے میں اڈلی آرڈر کی لیکن اسے کھانے کے بعد بھی وہ اپنے موقف پر قائم ہیں۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے اپنی زندگی میں کئی بار اڈلی کھائی اور ایسی زیادہ تر اتفاق انڈیا میں ہوئے۔ ’میری بیوی کا تعلق کیرالہ سے ہے اور میں نے اپنے زندگی کے کئی ادوار وہاں گزارے ہیں۔ ساس، سُسر کے ہاں ناشتے میں اکثر اڈلی کھانے کو ملتی ہے۔‘
سوشل میڈیا صارفین نے انھیں نہ بخشا اور ڈاکٹر اینڈرسن کو کئی لوگوں نے اڈلی سے لطف اندوز ہونے کے نت نئے طریقے بتائے، لیکن اینڈرسن بضد رہے کہ اگرچہ سامبھر اور مختلف قسم کی چٹنیاں بہت خوش ذائقہ ہوتی ہیں، انھیں اڈلی کے ساتھ کھانے کا اتنا مزہ نہیں آتا جتنا ڈوسا، وادا یا اپام کھانے میں آتا ہے۔
تاہم ڈاکٹر اینڈرسن کے مطابق اس بحث سے معلوم ہوتا ہے کہ مقامی پکوان لوگوں کی قومیت اور شناخت سے کتنے جڑے ہوتے ہیں اور ان میں جذبات بھی اجاگر کر سکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ انھیں زیادہ تر ایسے لوگوں نے جواب دیا جنھوں نے بچپن میں بہت اڈلی کھائی یا ایسے لوگ جو اب انڈیا سے باہر رہتے ہیں اور یہ پکوان ان کی شناخت اور اپنی زمین سے ناطے کی علامت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کچھ لوگوں نے اسے ذرا زیادہ سنجیدگی سے دیکھا تاہم 99 فیصد کمنٹ کرنے والے افراد نے خاصی مضحکہ خیز باتیں کیں اور کچھ لوگوں نے یہ بھی کہا کہ کوئی برطانوی کسی اور ملک کے کھانوں کو پھیکا کیسے کہہ سکتا ہے جب ان کے سب ہی پکوان دنیا بھر میں پھیکے تصور کیے جاتے ہیں!
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).