غداری کے فتوے اور بغاوت کے سرٹیفکیٹ


شہید ذوالفقار علی بھٹو محسن پاکستان تھے انہیں نے ہند و پاک جنگ کے دوران قیدی بنائے گئے 93 ہزار جنگی قیدی رہا کروائے اور قبضہ کیا گیا سیکڑوں میل ملکی رقبہ ہندستان سے واگزار کروایا، پھر ٹوٹے پھوٹے دولخت منتشر ارض پاک کو متحد، منظم و مستحکم کیا، ادارے بنائے، تباہ حال اداروں کی بحالی اور تنظیم نو کی۔ پاکستان کی افواج کا پستیوں میں گرا ہوا مورال بلند کیا، انہیں جدید ہتھیاروں سے لیس کیا، ایک شکست خوردہ قوم کو مایوسیوں سے نکال کر عزم و ہمت اور استقلال کا پیکر بنانے کے لیے اپنے دن رات ایک کردیے۔ ملک کو 1973 کا پہلا متفقہ مکمل دستور دیا، جب ہندستان نے 1974 میں ایٹمی تجربات کیے تو شہید بھٹو کو بھی اپنے ملک کی سلامتی کی فکر لاحق ہو گئی اور انہوں نے گھاس کھائیں گے مگر ایٹم بم بنائیں گے کا نعرہ لگا کر پاکستان کے ایٹمی جوہری پروگرام کا سنگ بنیاد رکھا، انہوں نے کشمیر کو کبھی بھارت کا حصہ قبول نہیں کیا اور اقوام متحدہ میں تاریخی الفاظ کہے کہ اگر کشمیر کی آزادی کے لیے بھارت سے سؤ سال جنگ کرنا پڑی تو بھی کریں گے۔ اسی شہید ذوالفقار علی بھٹو نے منکرین ختم رسالت کو آئینی طور پر کافر قرار دیا۔ آخر میں انہیں اس کا پھل کیا ملا؟ کبھی انہیں کافر کہا گیا تو کبھی پاکستان کے دولخت ہونے کا ذمے دار قرار دے کر غدار کہا گیا۔ اور پھر ایک جھوٹے قتل کے مقدمے میں پھانسی چڑھا دیا گیا، اسی طرح ان کی عظیم بیٹی محترمہ بینظیر بھٹو کو بھی غداری کا سرٹیفیکیٹ دیا گیا، انہیں ملکی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیا گیا۔

شہید بینظیر کہتی تھیں کہ بدترین جمہوریت بھی آمریت سے اچھی ہے کیونکہ جمہوریت میں اظہار رائے پہ قدغنیں نہیں لگتیں، جمہوریت میں عوام کے بنیادی انسانی، شہری، شرعی حقوق سلب نہیں کیے جاتے، جمہوریت میں غداری کے فتوے نہیں لگائے جاتے نہ ہی غداری اور بغاوت کے مقدمات قائم کیے جاتے ہیں۔ شہید بینظیر سب کے بلا امتیاز احتساب کی حامی تھیں وہ کہتی تھیں کہ جب ملک کی عوام کا منتخب وزیراعظم احتساب کے کٹہرے میں کھڑا ہو سکتا ہے تو اس کے ماتحت سرکاری ادروں کے سربراہان کیوں نہیں ہوسکتے، وہ سیاست میں اخلاقی، انسانی، اسلامی اور جمہوری قدروں کی بہت بڑی داعی تھیں، وہ سیاسی مخالفین کے خلاف انتقامی کارروائیوں کے سخت خلاف تھیں، اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف سیاسی میدان میں ڈٹ کر سیاسی مقابلہ کرنے اور اپنے مخالفین کو پچھاڑنے میں دلچسپی رکھتی تھیں وہ ایک مضبوط و مستحکم اسلامی جمہوری نظام پہ غیر متزلزل یقین رکھتی تھیں، مگر انہیں بھی انسانی حقوق، جمہوری جدوجہد، ملکی اور بین الاقوامی امن و سلامتی کے لیے لازوال خدمات کے صلے میں آخر میں کیا ملا سر راہ خون میں نہلا دی گئیں۔

شہید بھٹو، ان کے خاندان کے خلاف یہ سب کچھ کرنے والوں کے کاسہ لیس کبھی بھی شہیدوں کے مصالحانہ، ایماندارانہ سیاسی ارادوں کو نہیں بھانپ سکے، ان کے خلاف تند و تیز تقاریر کرنے ان کی کردار کشی کی مہمات کی نگہبانی و نگرانی کرنے، ان کے خلاف سیاسی انتقامی احتساب کرنے اور جھوٹے مقدمات بنانے میں جتے رہے اور یہ بھول گئے کہ وقت کبھی ایک جیسا نہیں رہتا، بینظیر کہتی تھی کہ آمریت کے ناز و نعم کے پالنے میں پلنے سے بہتر ہے کہ جمہوریت کے کٹھن اور پرخار راستوں پہ پرورش پاؤ، رات کی تاریکی میں فوجی جرنیلوں سے ملاقاتیں کر کے جمہوریت کی پیٹھ میں خنجر گھونپنے سے بہتر ہے کھل کر آمروں کے ہم رکاب بن جاؤ، جمہوریت کے خلاف سازشیں کر کے جمہوریت کو شرمندہ اور آمریت کو رعونت زدہ نہ کرو، مگر جب بینظیر یہ سب کہتی تھی تو شرانگیزی اور کردار کشی کی ایک شرمناک مہم ان کے خلاف شروع ہو جاتی تھی، آج جن سیاسی خانوادوں کے خلاف غداری کے فتوے جاری ہو رہے ہیں بغاوت کے مقدمات درج کیے جا رہے ہیں ان ہی کی آشیرباد سے پارلیمنٹ میں شہید بینظیر کے خلاف اخلاقیات کو شرمندہ کردینے والے الفاظ استعمال کر کے انہیں گالیاں دی جاتی تھیں یہ سوچے سمجھے اور جانے بغیر کہ بینظیر ایک عورت ہے، ایک ماں، ایک بہن ایک بیٹی اور کسی کی اہلیہ ہے، مغلظات بکنے والوں کی بھی مائیں، بہنیں، بیٹیاں تھیں مگر اس کے باوجود خوف خدا سے بے پرواہ، شرم و حیا، اخلاقی، انسانی اور اسلامی اقدار سے عاری لوگ بینظیر کے خلاف انتہائی اقدامات سے کبھی نہیں چوکے۔ اتنا سب کچھ سہنے کے باوجود بینظیر شہید نے ان لوگوں کو نہ صرف معاف کر دیا بلکہ ان کے ساتھ میثاق جمہوریت کیا، جمہوریت کے احیاء، اس کی مضبوطی، تسلسل کے لیے ، ملک میں امن سلامتی، تعمیر و ترقی کے لیے ۔

2018 کے انتخابات تک میثاق جمہوریت کرنے والوں نے ملک میں جمہوریت کی بساط لپیٹنے والوں کو ایک اور موقع فراہم کیا، مگر اس بار جمہوریت کی بساط جمہوریت کے ذریعے ہی لپیٹنے کی واردات ڈال دی گئی ایک ایسا کٹھ پتلی، شجاع پاشا کے ہاتھوں کا تراشا ہوا ایک بت جان ڈال کر مسند اقتدار پر بٹھا دیا گیا تاکہ آمریت پہ بھی کوئی حرف نہ آئے اور جمہوریت بھی مزید رسوا ہو کر عوامی ساکھ کھو بیٹھے۔ اب تک ان سوا دو سال میں جو کچھ پاکستانی قوم نے دعووں اور وعدوں کے نام پہ بھگتا ہے شاید اب تک ان کی جمہوریت سے امیدیں ہی دم توڑ چکی ہوں گی۔ اب تو حد ہو گئی کہ جمہوریت میں غداری کے سرٹیفکیٹ بانٹے جا رہے ہیں اور بغاوت کے الزامات کے تحت مقدمات بنائے جا رہے ہیں۔ ملک کے دو سابق وزراء اعظم، تین تھری اسٹار جرنیل مسلم لیگ نون کی تقریبآ پوری قیادت اور سونے پہ سہاگا وزیراعظم آزاد کشمیر پہ مقدمہ دائر کر کے نریندر مودی کے اس بیانیے کو تقویت پہنچائی گئی کہ یہ کشمیری ہیں ہی غدار ان پہ اسی طرح غداری اور بغاوت کے مقدمات ہی بننے چاہئیں۔

ایک وزیراعظم جو جمہوریت کا لبادہ اوڑھے آمریت کو بھی مات دے گیا ہے اس کو ذرا بھی احساس نہیں ہوا کہ غداری اور بغاوت کے الزامات ملک کے سابق وزراء اعظم اور کشمیر کے وزیر اعظم پہ لگا کر وہ کس قسم کی جمہوریت ملک میں نافذ کرنا چاہتے ہیں کیا وہ یہ چاہتے ہیں نہ کوئی سر اٹھا کر چلے نہ ہی کوئی حق اور سچ کے لیے آواز اٹھائے، نہ کوئی ان کے مظالم، زیادتیوں، نا انصافیوں کے خلاف بولے نہ ہی مزاحمت کرے تو میرے خیال میں وزیراعظم صاحب کہ یہ سوچ ان کی خام خیالی ہے کیونکہ مسلمان کے لیے ظلم و نا انصافی سہنا بھی کفر ہے اور کسی کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ محب وطن پاکستانیوں پہ غداری اور بغاوت کے الزامات لگائے۔

آج وزیراعظم عمران خان پاکستان کے اس وزیراعظم کی حیثیت اختیار کر گئے ہیں کہ جنہیں کسی بدترین آمر سے بھی زیادہ عوامی نفرت، غم و غصے کا سامنا ہے، مقبولیت کے ریکارڈ قائم کرنے والا وزیراعظم محض سوا دو سال میں غیر مقبولیت میں بھی ریکارڈ قائم کرتا جا رہا ہے، انہیں تکبر اور گھمنڈ چھوڑ کر یہ سوچنا پڑے گا کہ آج جس صورتحال سے ان کے مخالفین دوچار ہیں کل اس سے بھی بدتر صورتحال انہیں درپیش آ سکتی ہے اور اس وقت ان کے خانہ بدوشوں کی فوج ان کے آس پاس بھی نہیں پھٹکے گی تب انہیں اپنی غلطیوں کا احساس ہوگا۔ آج ہم سوچنے پہ مجبور ہیں کہ آخر کب ہمارے ملک میں جمہوریت بلوغت کی عمر کو پہنچے گی اور ہم ایک باشعور، ترقی یافتہ، سچی مسلمان، ایماندار اور انصاف پسند قوم کہلانے کے لائق بنے گے آخر کب۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).