اپوزیشن کی نیت کیا ہے؟


1998 ء میں ملک کے معروف صحافی کامران خان نے میزائل سٹوری لکھی تو ایک ہلچل مچ گئی۔ مقتدر حلقوں میں بے چینی پھیل گئی اور پھر اس سٹوری پر چوہدری شجاعت حسین کے معروف الفاظ ”مٹی پاؤ“ والا معاملہ کیا گیا۔ اب تقریباً بتیس سال بعد میاں نواز شریف نے اپنے حالیہ خطاب میں اس سٹوری کی تصدیق کر دی اور بتایا کہ 1998 ء میں امریکہ کی جانب سے افغانستان پر داغے گئے چند میزائل پاکستان کے علاقے میں گرے، جنہیں بعدازاں حکومت پاکستان نے اپنے قبضے میں کر لیا۔

ان پر تحقیق کرنے کے بعد پاکستان نے میزائل بنایا۔ اس طرح میزائل بنانے کا اعزاز بھی میاں صاحب نے اپنے نام کر لیا۔ یہ میاں نواز شریف کی معصومیت ہے یا لاعلمی کہ وہ ایک انتہائی حساس معاملہ پر غیر ملک میں بیٹھے گفتگو کر رہے ہیں۔ ملک پاکستان کے تین دفعہ کے منتخب وزیراعظم کو بہت اچھی طرح پتا ہونا چاہیے کہ سلامتی کے معاملات کیا ہوتے ہیں؟ انہوں نے پاکستان کے رازوں کے امین کا حلف اٹھایا ہوا ہے اور وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان کے منہ سے نکلے گئے ایسے الفاظ کو دشمن کس طرح اپنے حق میں استعمال کریں گے؟

سوال یہ ہے کہ اس طرح کی بات میاں صاحب اس وقت کیوں نہیں کرتے جب وہ اقتدار میں ہوتے ہیں۔ وہ آج سلامتی کے اداروں کا ملکی معاملات میں مداخلت کرنے کا تذکرہ کیوں کر رہے ہیں؟ جبکہ وہ ایک وقت میں پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت کے ساتھ موجود تھے۔ ایک جمہوری وزیر اعظم ہونے پرچیف آف آرمی سٹاف کے کہنے پر استعفیٰ دینے سے انکار کیوں نہیں کیا؟ مختلف اوقات میں اسٹیبلشمنٹ کے کہنے پر اپنے وفادارساتھیوں سے استعفیٰ کیوں لیا گیا؟

ان ساتھیوں میں پرویز رشید، طارق فاطمی، مشاہد اللہ اور دیگر شامل تھے۔ اگر وہ جمہوریت پر یقین رکھتے تھے تواپنے عروج کے دور میں جمہوریت کی حقیقی شکل اختیار کرنے کی کوشش کرتے، جمہوریت کو مضبوط کرتے، اداروں کو اپنے اپنے دائرہ کار میں کام کرنے کا پابند کرتے، اپنی پارٹی میں جمہوری انداز اختیار کرتے، نسل در نسل اقتدار کی منتقلی کی مخالفت کرتے۔ مگر نہیں وہ ایسا کبھی بھی نہ کرتے کیونکہ انہوں نے اقتدار پر رہنا بھی تھا اور اپنے اثاثوں میں اضافہ بھی کرنا تھا۔

میاں صاحب اب بھی اداروں سے ٹکراؤ ہرگزنہ کرتے اگر ان کے ساتھ کوئی حتمی این آر او طے پا جاتا۔ اس وقت میاں نواز شریف کرپشن کی دلدل میں بری طرح پھنسے ہوئے ہیں، ایون فیلڈ کے فلیٹس کی ملکیت اب بوجھ بن چکی ہے، منی ٹریل کاسوال باقی ہے، ٹی ٹیز کی لمبی قطار ہے، جائیدادوں کے انبار ہیں، پھرظلم یہ ہوا کہ عدالتوں کی طرف سے سزاوار ہیں۔ لہذا ان کو نجات کا راستہ فی الحال ٹکراؤ میں ہی نظر آ رہا ہے چنانچہ میاں صاحب نے مجبوراً ”الطاف بھائی“ بننے کا خطرناک فیصلہ کر لیا ہے۔

یہ بات سچ ہے کہ ”الطاف بھائی“ کا ایک وقت میں کراچی میں سکہ چلتا تھا۔ ایک پکار پرلاکھوں کا مجمع اکٹھا ہو جاتا اورخاموشی سے ”بھائی“ کی تقریر سنی جاتی، جبکہ نواز شریف کا ایسا اثر نہیں ہے۔ یوں لگتا ہے کہ جیسے نواز شریف اب ”الطاف بھائی“ کا بیانیہ لے کر چل رہے ہیں اور شاید وہ اس حقیقت کو بھول چکے ہیں کہ آج ”الطاف بھائی“ اپنے بیانیہ سمیت کہیں گم ہو چکے ہیں۔ جبکہ میاں صاحب ”بھائی“ کی طرح برطانیہ میں بیٹھ کر پاکستان کے دشمنوں کے ساتھ مل کر پاک سرزمین کے خلاف سازشیں کر رہے ہیں۔

عمران خان نے اپنے خدشات کا ظہار کرتے ہوئے کہا ہے ”لگتا ہے نواز شریف کے منہ میں بھارت سرکار کی زبان بول رہی ہے“ ۔ نوا شریف کے قومی سلامتی کے منافی بیانات کے ردعمل کے طور پر چند ارکان پنجاب اسمبلی نے وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار سے چند دن پہلے ملاقات بھی کی اور اب نون لیگ نے ردعمل کے طور پر ایسے پانچ ارکان کو اپنی جماعت سے نکال دیا ہے اور فیٹف کے بلوں کی منظوری کے حوالے سے بھی چند ارکان کو شوکاز نوٹس بھیجے ہیں۔

دراصل یہ جنگ شریف خاندان کی بقا کی جنگ ہے اس وقت صورتحال کچھ یوں ہے کہ نواز شریف اور مریم صفدر اپنی آل، کھال اور اپنے مال کو بچانے کے لیے بہت آگے جا چکے ہیں۔ اگرچہ طبل جنگ بج چکا ہے مگر نون لیگ کی پہلی صفوں کے قومی رہنماؤں میں جوش اور ولولہ نظر نہیں آتا۔ نون لیگ سے وابستہ بیشتر ارکان اسمبلی اپنی نجی محفلوں میں اپنے قائد کے متنازعہ بیانات کی حمایت بھی نہیں کرتے۔ تما م جگہوں پراحسن اقبال نرم نرم نظر آتے ہیں، رانا ثناء اللہ جوہمیشہ سے پر جوش سیاسی کارکن رہے ہیں مگر وہ اب تک مکمل خاموش ہیں اورخواجہ آصف بھی مدہم انداز میں آگے بڑھ رہے ہیں۔

کیونکہ نون لیگ کی مقامی قیادت جانتی ہے کہ غیر ملک میں بیٹھ کر ایسی باتیں کرنا آسان ہے، مزا تو تب ہے کہ میاں نواز شریف پاکستان میں آئیں۔ خبر یہ بھی گرم ہے کہ نون لیگ کا ایک بڑا گروپ اپنے قائد سے الگ ہونے والا ہے جبکہ دوسری طرف موجودہ حالات میں پی پی پی کی قیادت بھی سلامتی کے اداروں سے محاذ آرائی کے خلاف ہے۔ اپوزیشن کی سب جماعتوں کے قائدین اس حقیقت سے بھی بخوبی واقف ہیں کہ نواز شریف کا نعرہ ”ووٹ کو عزت دو“ اور ”پارلیمنٹ کی بالادستی“ محض ایک ڈھکوسلہ اور فریب ہے۔ حقیقت میں میاں صاحب اپنے خاندان کے لیے این آر او حاصل کرنا چاہتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).