دو دن، دو تقریریں اور دو بیانیے: سائے  کی سائے سے جنگ ہے


دو دن میں دو تقریریں دعویٰ، جواب دعویٰ کی صورت میں پاکستانی قوم کے گوش گزار کی گئی ہیں۔ نواز شریف نے جمعرات کو مسلم لیگ (ن) کے پارلیمنٹیرینز سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان کی فوج اس وقت دنیا کی بہترین فوج ہو گی جب وہ آئین کا احترام کرے گی۔ آج وزیر اعظم عمران خان نے اس تقریر کا جواب دیتے ہوئے ایک بار پھر نواز شریف اور دیگر اپوزیشن لیڈروں کو چور اچکا قرار دیا اور کہا کہ انہیں فوج سے صرف یہ مسئلہ ہے کہ وہ ان کی چوری پکڑ لیتی ہے۔

پاکستان کے سیاسی منظر نامہ پر دو سیاسی قوتیں آمنے سامنے ہیں۔ دونوں کا موضوع سیاست میں فوج کا کردار ہے۔ نواز شریف اور پاکستان جمہوری تحریک (پی ڈی ایم) کے نام سے متحد ہونے والی 11 سیاسی پارٹیوں کا مؤقف ہے کہ ملک میں جمہوریت کا سب سے بڑا مسئلہ سیاست میں فوج کا عمل دخل ہے۔ عمران خان کی سربراہی میں جو حکومت مسلط کی گئی ہے، اس نے ملک کو تباہی کے کنارے پہنچا دیا ہے۔ اسی لئے اپوزیشن جماعتیں عمران خان کے استعفیٰ کا مطالبہ کرتے ہوئے نئے انتخابات کی بات کرتی ہیں۔ نواز شریف نے یہ دو ٹوک مؤقف اختیار کیا ہے کہ ان کی جدو جہد عمران خان کے خلاف نہیں ہے بلکہ انہیں اقتدار میں لانے والوں کے خلاف ہے۔

طویل خاموشی کے بعد 20 ستمبر کو آل پارٹیز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جب نواز شریف نے یہ بات کی اور عسکری اداروں کو براہ راست نشانے پر لیا تو ملکی سیاست میں طوفان بپا ہوگیا۔ اس کے بعد سے ایک طرف ’نامزد وزیر اعظم‘ کا طعنہ دینے کے علاوہ فوج کی نگرانی میں انتخابی دھاندلی ختم کرنے کا مطالبہ کیا جارہا ہے تو دوسری طرف حکمران تحریک انصاف کی طرف سے اپوزیشن لیڈروں کو کرپٹ قرار دیتے ہوئے ملک دشمن اور بھارتی ایجنڈے پر چلنے والا کہا جارہا ہے۔ البتہ جس ادارے یا عناصر کی وجہ سے یہ ’دنگل‘ ملکی سیاسی منظر نامے پر برپا ہے، اس کی طرف سے مکمل خاموشی اختیار کی گئی ہے۔

فوج اور سیاست کے حساس موضوع پر چھڑی اس سنگین بحث میں فوج نے اپنی پوزیشن واضح کرنے کی کوشش نہیں کی۔ ایسا لگتا ہے کہ فوج کی قیادت کو اس پر بھی کوئی اعتراض نہیں ہے کہ عمران خان اور ان کے ساتھی نواز شریف و دیگر اپوزیشن لیڈروں کے الزامات کا جواب دیں اور اس طرح انہیں دیوار سے لگایا جائے۔ حکومت کے علاوہ فوج بھی شاید اس بات پر یقین کرتی ہے کہ عوام اپوزیشن پارٹیوں کا ساتھ نہیں دیں گے۔ اس رائے کے مطابق اپوزیشن کے جلسے جلوس کامیاب نہیں ہوں گے۔ اور موجودہ سیاسی انتظام کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوگا جسے اب متعدد مبصر ہائبرڈ حکومتی انتظام قرار دے رہے ہیں۔ اس اصطلاح سے یہ مراد لی جارہی ہے کہ ملک میں گوکہ انتخابات کے ذریعے منتخب ہوکر آنے والی سیاسی جماعت ہی حکومت کر رہی ہے لیکن اس کی ساری پالیسیاں عسکری اداروں کی صوابدید اور ضرورت کے مطابق ہیں۔ اس طرح فوجی قیادت موجودہ حکومتی انتظام کے ذریعے وہی مقصد حاصل کرنے کی کوشش کررہی ہے جو ماضی میں متعدد فوجی جرنیلوں نے مارشل لا نافذ کرکے حاصل کیا تھا۔

مسئلہ صرف یہ ہے اس حکومتی انتظام کی آئین میں گنجائش نہیں ہے۔ فی الوقت یہ انتظام عمران خان کی مقبول سیاسی قیادت اور اعلیٰ عدالتوں کی خاموشی کی وجہ سے کامیاب دکھائی دیتا ہے۔ یہ صورت حال کسی بھی وقت تبدیل ہوسکتی ہے۔ تحریک انصاف کی حکومتیں جس طرح ڈیلیور کرنے میں بری طرح ناکام ہوئی ہیں، اس کی وجہ سے عمران خان کی مقبولیت یقیناً کم ہوئی ہے۔ اسی طرح عدالتیں اگرچہ فی الوقت ’مفاہمانہ‘ اور موجودہ انتظام کو قبول کرنے والا رویہ اختیا رکئے ہوئے ہیں لیکن کسی بھی وقت یہ صورت حال بھی تبدیل ہوسکتی ہے۔ سیاسی معاملات اگر بریکنگ پوائنٹ تک پہنچتے ہیں تو عدلیہ کے لئے بھی خاموش رہنا شاید ممکن نہ رہے۔ اس کا ایک نمونہ سابق چیف جسٹس، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی توسیع کے سوال پر شبہات اٹھا کر اور پارلیمنٹ کو یہ معاملہ طے کرنے کا مشورہ دے کر پیش کرچکے ہیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت صدیقی کی برطرفی اور اس کے بعد سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف کارروائی سے بھی نظام کے اندر اس خوف کے سایے محسوس کئے جاسکتے ہیں جو آئین سے ماورا کسی ہائبرڈ سیاسی انتظام کے لئے محسوس کئے جارہے ہیں۔

عمران خان پوری قوت سے فوج کے سیاسی اثر و رسوخ کا دفاع کررہے ہیں اور مخالف آوازوں کو بھارتی ایجنڈا پورا کرنے کی کوششیں قرار دیتے ہوئے خاموش کروانے کی حکمت عملی تیار کی گئی ہے۔ اس گرم جوشی میں یہ بنیادی نکتہ فراموش کیا جارہا ہے کہ نواز شریف کا مؤقف فوج کو اس کے آئینی کردار تک محدود کرنے کے بارے میں ہے۔ سیاسی اور فکری طور سے اس مؤقف کو غلط کہنا ممکن نہیں۔ اس پر یہ بحث تو ہوسکتی ہے کہ نواز شریف یا دیگر اپوزیشن پارٹیاں اب کیوں فوج کے سیاسی کردار کو ختم کرنے کی بات کررہی ہیں جبکہ یہی پارٹیاں ماضی میں کچھ اسی قسم کے انتظام کے تحت حکومتوں کا حصہ بھی رہی ہیں۔ لیکن اس دلیل کی بنیاد پر اس اصولی آئینی مؤقف کو مسترد کرنا ممکن نہیں ہے کہ فوج اور سیاست دو علیحدہ شعبے ہیں۔ فوج کا کام ملک کا دفاع ہے اور ان پالیسیوں کو قبول کرنا ہے جو منتخب حکومت وضع کرے۔ کسی لیڈر کے کردار کو موضوع بحث بنا کر اس اصولی بحث کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

وزیراعظم کی نگرانی میں ملکی سیاسی قیادت نے جو حکمت عملی بنائی ہے اس میں یہی بنیادی نقص ہے۔ اس معاملہ پر عسکری قیادت کی خاموشی کی وجہ سے یہ قیاس کیا جاسکتا ہے کہ حکومت کے اس طریقہ کو ملکی فوجی قیادت کی بھی تائد و حمایت حاصل ہے۔ اس پالیسی کے تحت عمران خان، نواز شریف کو بدعنوان اور بھارتی ایجنٹ قرار دینے کے علاوہ تواتر سے یہ دلیل بھی دے چکے ہیں کہ نواز شریف کو ہمیشہ فوج سے مسئلہ رہا ہے کیوں کہ : 1)وہ باقی اداروں کی طرح فوج کو اپنے کنٹرول میں کرنا چاہتے تھے۔ 2) آئی ایس آئی نواز شریف کی چوری کے بارے میں جانتی تھی۔ اس لئے وہ اب اپنی چوری چھپانے کے لئے فوج اور اس کے اداروں پر تنقید کررہے ہیں۔

اس طرز استدلال میں چند بنیادی نقص ہیں۔ ایک تو یہی کہ فوج ملک کے آئینی انتظام کے تحت قومی دفاع کے لئے قائم کیا گیا ایک ادارہ ہے اور آئین کے مطابق وہ وزارت دفاع کے ماتحت کام کرنے والا شعبہ ہے۔ اسے بلاشبہ حکومت وقت اور وزیر اعظم کے کنٹرول میں ہونا چاہئے۔ ملکی تاریخ کا کوئی بھی طالب علم یہ گواہی نہیں دے سکتا کہ کبھی کسی آرمی چیف نے سیکرٹری دفاع کو اپنا ’باس‘ سمجھا ہو۔ عوام تک تو یہ تصویر پہنچائی جاتی ہے کہ آرمی چیف، وزیر اعظم کے شانہ بہ شانہ کھڑا ہوتا ہے اور اس کا رتبہ کسی بھی وزیر یا عہدیدار سے بلند و برتر ہوتا ہے۔

یہ اگرچہ محض علامتی بات ہے لیکن پوچھا جانا چاہئے کہ اس تاثر کو قوی کرنے کی ضرورت کیوں محسوس کی جاتی ہے۔ فوج کے ساتھ کسی حکومت کا تعلق حسب قانون وزارت دفاع کے ذریعے کیوں طے نہیں پاتا۔ وزیر اعظم یا پرائم منسٹر ہاؤس اور آرمی چیف یا جی ایچ کیو کے درمیان براہ راست سلسلہ جنبانی کی ضرورت کیوں محسوس کی جاتی ہے۔ پیش کی گئی اس تصویر سے تو نواز شریف کی شکایت درست لگتی ہے اور عمران خان کی دلیل ناقص دکھائی دیتی ہے۔ جس کے نتیجے میں سوال کیا جا سکتا ہے کہ فوج کو کیوں وزیر اعظم یا حکومت کے کنٹرول میں نہیں ہونا چاہئے؟ عمران خان کی دلیل اور اس بارے میں اٹھنے والے سوال ہی کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ کیا عمران خان کی حکومت اس لئے کامیاب ہے کہ وہ نواز شریف کی طرح فوج کی بالادستی کو چیلنج نہیں کرتی؟

اس حوالے سے دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ آئی ایس آئی کے فرائض منصبی کا حصہ ہے کہ وہ ملک کے وزیر اعظم اور دیگر سیاست دانوں کے مالی اور نجی معاملات کی نگرانی کرے اور ان کا حساب لے؟ اور اگر یہ معلوم ہو جائے کہ وہ کرپشن میں ملوث ہیں تو فوج کا سربراہ براہ راست یا بالواسطہ اقدام کرتے ہوئے ایسے وزیر اعظم اور حکومت کو چلتا کر دے۔ ملک کا وزیر اعظم جب یہ دلیل دیتے ہوئے بزعم خویش ملک میں اٹھنے والی سیاسی تحریک کے غبارے سے ہوا نکالنا چاہتا ہے تو کیا یہ سوال پیدا نہیں ہوتا کہ  کیا ملک کا آئین آرمی چیف یا آئی ایس آئی کو کسی حکومت کی نگرانی کرنے اور اخلاقی لحاظ سے انہیں پست پا کر، فارغ کرنے کا حق و اختیار دیتا ہے؟ ظاہر ہے کہ ملکی آئین کسی بدعنوان سیاسی لیڈر سے گلو خلاصی کا یہ طریقہ تجویز نہیں کرتا۔ پھر ملک کا وزیر اعظم اسے دلیل کے طور پر استعمال کرتے ہوئے بالائے آئین کسی طریقہ کو جائز قرار دینے کی حجت کیسے پیش کرسکتا ہے؟ کیا عمران خان اس وقت کسی ایسی طاقت ور پوزیشن پر فائز ہیں کہ وہ اپنی مرضی سے آئین کی توجیہ و تشریح کرسکتے ہیں؟ اور اس ہائبرڈ حکومتی انتظام کو درست قرار دے سکتے ہیں جو انہیں اقتدار تک پہنچانے اور قائم رکھنے کا سبب بنا ہے۔

سیاسی تصادم کی حدت سے باہر نکل کر غور کیا جائے تو اپوزیشن کو خاموش کروانے کے جوش میں عمران خان دراصل ان الزامات کی تصدیق کررہے ہیں جو نواز شریف اور دیگر لیڈروں کی طرف سے موجودہ انتظام پر عائد کئے جا رہے ہیں۔ اس طرح عمران خان فوج کے وکیل تو بنے ہوئے ہیں لیکن وہ ایسے نادان دوست ہیں جو فوج کی آئینی پوزیشن و حیثیت کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ کج بحثی کے اس ماحول میں نواز شریف کی تقریروں سے صرف وہ فقرے چنے جاتے ہیں جو جوش خطابت میں معاون ہوسکتے ہیں۔ گزشتہ روز کے خطاب میں نواز شریف نے فوج سے آئین کے احترام کا تقاضہ کرتے ہوئے یہ بھی کہا تھا کہ ’مجھے فوج کے چھوٹے اور بڑے تمام افسران عزیز ہیں لیکن وہ افسر مجھے پسند نہیں جو دھاندلی کرتے ہیں‘۔ لیکن عمران خان کو یہ فقرہ یاد رکھنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔

اگر نواز شریف کے خلاف بدعنوانی کے سارے الزامات بھی درست ہوں تو بھی ان کی اس بات کو کیسے مسترد کیا جائے گا کہ فوج کی عزت آئین کا احترام کرنے میں ہے۔ یہ بات تو جنرل قمر جاوید باجوہ بھی تواتر سے کہتے رہے ہیں۔ عمران خان اور ان کے ہمدردوں کو جاننا چاہئے کہ اب ملک میں کسی سیاسی تبدیلی کے لئے شاید سڑکوں پر طوفان بدتمیزی برپا کرنے کی ضرورت نہ پڑے۔  جمہوری بیداری اپنے اظہار کا کوئی دوسرا راستہ بھی اختیار کرسکتی ہے۔ عوام کی خواہش کو نظر انداز کرنا شاید اتنا آسان نہیں ہوگا جس کا تاثر عمران خان دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2766 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali