ایرانی ثقافت اور موسیقی کا ’بین الاقوامی سفیر‘ سمجھے جانے والے شجریان کون تھے؟


شجریان
ایران کے معروف کلاسیکل گلوکار اور موجودہ حکومت کے مخالف فنکار، آغائے محمد رضا شجریان جن کا گذشتہ روز تہران میں انتقال ہو گیا تھا، انھیں مشہد کے قریب نیشاپور میں فارسی زبان کے عظیم شاعر فردوسی کے مقبرے کے قریب دفن کیا جا رہا ہے۔

ان کی اپنی وصیت کے مطابق ان کے اہلِ خانہ نے ’شاہنامہِ‘ لکھنے والے گیارہویں صدی کے شاعر فردوسی کے مقبرے میں دفن کرنے کی وصیت کی تھی۔ ان کے حکومت مخالف پرستاروں نے سوشل میڈیا پرانھیں فردوسی سے ملاتے ہوئے کہا ہے کہ جس طرح محمود غزنوی کا نام ختم ہو گیا اور فردوسی کا زندہ رہا، اسی طرح شجریان بھی زندہ رہے گا۔

شجریان کو کینسر

ایرانی گلوکار اور موسیقار شجریان کی عمر 80 برس تھی اور وہ پندرہ برسوں سے گردوں کے کینسر میں مبتلا تھے۔ ان کا کافی عرصے سے علاج ہو رہا تھا۔ حال ہی میں ان کی حالت خراب ہونے کے بعد انھیں جام ہسپتال کے انتہائی نگہداشت کے یونٹ میں منتقل کردیا گیا تھا۔

ان کے پرستاروں میں فن کے قدردانوں کے علاوہ ایران کی موجودہ مذہبی قیادت کے مخالفین کی بڑی تعداد شامل ہے۔

یہ بھی پڑھیے

ایرانی شہنشاہوں کی پرتعیش زندگی کی ایک جھلک

قرون وسطیٰ کی فارسی شاعرائیں جنھوں نے محبت کو ایک نئی زبان دی

’رضا شاہ پہلوی کو ایران ہی میں دوبارہ احترام کے ساتھ دفن کیا جائے‘

جب تہران کے جام ہسپتال کے ڈائریکٹر نے ان کی موت کا اعلان کیا تو تہران میں رہنے والے ان کے پرستار اور حزبِ اِختلاف سے تعلق رکھنے والوں کی ایک بڑی تعداد وہاں جمع ہو گئی اور حکومت مخالف نعرے لگانے شروع کر دیے۔

محمد شجریان کے بیٹے ہمایوں شجریان نے ان کی موت کی تصدیق کرتے ہوئے اعلان کیا کہ انھیں ان کی وصیت کے مطابق فردوسی کے مقبرے کے قرین دفن کیا جائے گا اور ان کے جنازے میں کورونا وائرس کے سماجی فاصلوں کے اصولوں کی وجہ سے خاندان کے قریبی افراد شرکت کریں گے۔

تاہم ان کی میت کو مشہد لے جانے سے پہلے تہران کے سب سے بڑے اور معروف قبرستان ‘’ہشتِ زہرہ‘ لے جایا گیا جہاں ان کی نمازِ جنازہ ادا کی گئی جس میں ایک بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔

جنازے میں سرکاری عہدیداروں سمیت وزیر ثقافت اور اسلامی رہنما سید عباس صالحی بھی شریک ہوئے۔ ایران کے صدر حسن روحانی، وزیرِ خارجہ جواد ظریف اور کئی دوسرے اعلیٰ سرکاری عہدیداروں نے ان کی وفات پر تعزیتی پیغامات بھیجے ہیں۔

شجریان کو ایرانی ثقافت اور موسیقی کا بین الاقوامی سفیر کہا جاتا تھا۔ وہ ایرانی کلاسیکل موسیقی کے بے مثل اُستاد کہلاتے تھے جنھوں نے نت نئی موسیقی دھنیں ترتیب دیں اور خود گائیکی کے اعلیٰ مظاہرے بھی کیے۔

محمد رضا شجریان کے البمز کو سنہ 2004 اور سنہ 2006 میں موسیقی کے عالمی شہرت والے گریمی ایوارڈ دیے گئے تھے۔ سنہ 2006 میں اقوام متحدہ کے ثقافت کے ادارے یونیسکو نے انھیں ’موٹزارٹ ایوارڈ‘ عطا کیا تھا۔

شجریان

حکومت مخالف نظریات

سنہ 2009 کے ایران کے صدارتی انتخابات کے دوران انھوں نے حزب اختلاف کے صدارتی امیدوار میر حسین موسوی کی حمایت میں احمدی نژاد کی مخالفت کی تھی۔ احمد نژاد کے دوسری مرتبہ صدر منتخب ہونے کے بعد مظاہرے شروع ہو گئے تھے جنھیں انھوں نے ’خش و خاشاک‘ کہا تھا۔

اس برس بی بی سی فارسی کو دیے گئے انٹرویو میں انھوں نے احمد نژاد کے مظاہرین کے خلاف استعمال کیے گئے الفاظ پر برہمی کا اظہار کیا تھا۔ ’میں خش و خاشاک کی آواز ہوں اور میری آواز ہمیشہ خش و خاشاک کی نمائندگی کرے گی۔‘

اس بیان کے بعد ایک تنقیدی مضمون میں، کیہان اخبار نے محمد رضا شجریان کو ’محب وطن‘ کہا اور آغائے شجریان نے کیہان اخبار کے خلاف شکایت درج کروائی، جس پر کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔

محمد رضا شجریان نے مختلف انٹرویوز میں کہا تھا کہ حالیہ برسوں میں، ایران میں کنسرٹ کے لیے ان کی درخواستوں کو بار بار مسترد کیا گیا حتّٰی کہ حسن روحانی کی حکومت کے اقتدار میں آنے سے بھی کوئی فرق نہیں پڑا۔

شجریان نے آخری بار سنہ 2008 میں ایران میں ایک کنسرٹ کا انعقاد کیا تھا۔ جب ان کا تنازعہ احمد نژاد کی حکومت سے بڑھا تو ایران کے سرکاری میڈیا نے ان کی آواز میں پیش کی گئی ’ربنا‘ نامی دعا کو نشر کرنا بند کردیا تھا۔

جواباً آغائے شجریان نے سخت بیان جاری کیا جس میں انھوں نے کہا تھا کہ آئندہ سرکاری میڈیا سے ان کی آواز میں پڑھی گئی کوئی دعا یا نغمہ نشر نہ کیا جائے۔ اس طرح انھوں نے حکومت کے خلاف ایک خاموش احتجاج کا سلسلہ جاری رکھا جو ان کی موت تک جاری رہا۔

آغائے شجریان ذہنی طور پر کسی سیاسی نظریے کے حامی نہیں تھے اور نہ وہ سیاست میں دلچسپی رکھتے تھے لیکن انھوں نے اپنے فن کی آزادی پر سمجھوتہ نہیں کیا۔

اس سے پہلے ایران کے اسلامی انقلاب کی تحریک کے دوران سنہ 1978 میں ستمبر کے مہینے میں شاہ کی فوج نے مظاہرین پر ہیلی کاپٹروں سے گولیاں چلا کر قتلِ عام کیا تھا تو انھوں نے سرکاری نشریاتی اداروں پر گانے سے انکار کردیا تھا۔

اور پھر انقلاب کی کامیاب کے کچھ عرصے کے بعد نغمہ سرائی کا آغاز کیا۔

مرغِ سحر

پچھلی دہائی میں ان کی حکومت مخالف حلقوں میں اس وقت پذیرائی بڑھی جب انھوں نے اسی نوے برس پرانی ایک نظم ’مرغِ سحر‘ گائی۔ اس نظم کو ایران کے سبز تحریک (سنہ 2009 کے صدارتی انتخابات کے بعد کے مظاہروں) کے دوران عوامی سطح پر گایا جانے لگا۔

’مرغِ سحر‘ سنہ 1926 میں ایک ایرانی سیاستدان محمد تقی بہار کی نظم تھی جو قاچاری بادشاہت کے خاتمے کے بعد کے حالات میں کہی گئی تھی۔ قاچاری بادشاہت کے بعد ایران کے ایک جمہوری ملک بننے کے امکانات پیدا ہو گئے تھے۔

لیکن رضا شاہ کبیر (شاہ ایران محمد رضا شاہ کے والد) نے اپنی بادشاہت کا اعلان کر دیا جسے اس وقت کی مغربی طاقتوں نے تسلیم کر لیا۔ جمہوریت کے خواب کو بکھرتے ہوتے ہوئے دیکھ کر ان حالات میں کہی گئی نظم ایران میں مزاحمت کا ایک استعارہ سمجھی جاتی ہے۔

مرغ سحر نالہِ سر کن

داغ مرا تازه تر کن

ز آه شرر بار این قفس را

برشکن و زیر و زبر کن

بلبل پربستہ ز کنج قفس درآ

نغمہِ آزادی نوع بشر سرا

وز نفسی عرصہ این خاک توده را

پر شرر کن، پُر شرر کن

ظلم ظالم, جور صیاد

آشیانم داده بر باد

ای خدا ای فلک ای طبیعت

شام تاریک ما را سحر کن

مرغِ صبح کے کراہنے کی آواز ہے

کہ میرے زخم کو تازہ کرو

اوہ اس پنجرے کا برا ہو کہ جسے

زیرِ و زبر کردو یعنی توڑ ڈالو

پنجرے کے کونے میں موجود بلبل

انسان کا نغمہِ آزادی گانا چاہتی ہے

جو اس اجتماعی مٹی کے میدان کی روح ہے

برائی کو دفن کردو، برائی دفن کردو

جور و جبر، ظلم، ظالم و صیاد

میں نے اپنا گھونسلا ہوا کو دے دیا

اے خدا ، اے آسمان، اے قدرت

ہماری سیاہ رات کو روشن صبح بنا دے

پہلی مرتبہ جب یہ نظم لکھی گئی تھی تو اس وقت اس کے شاعر کا نام ظاہر نہیں کیا گیا تھا بعد میں جب یہ نظم مقبولِ عام ہوئی تو رضا شاہ نے اسے ضبط کرلیا، کسی کے پاس یہ نظم ملتی یا اس کے ریکارڈ ملتے تو انھیں ضبط کرلیا جاتا اور اُس شخص کو گرفتار کر لیا جاتا۔

سماجی اثرات

امریکہ میں ہارورڈ یونیورسٹی کی فیلو، ناہید سیام دوست نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ شجریان ’ایران کی اُس نسل کے گلوکار اور موسیقار تھے جنھوں نے ایرانی موسیقی کو انقلابی رنگ دیا جس میں انھوں نے اپنے حالات کے سماجی مسائل پر بات کی۔‘

ناہید سیام دوست کہتی ہیں ’ان کا پیغام آفاقی نوعیت کا تھا۔ وہ دھڑے بندی والی سیاست کے حامی نہیں تھے، وہ ایک لحاظ سے روزمرّہ کے معمولات والی سیاست میں شامل نہیں ہوتے تھے بلکہ وہ آفاقی آزادیوں کے حامی تھے۔‘

شجریان ایک ورثہ

آغائے شجریان ایک ایسا شخص جو قدیم نسل اور ایرانی گلوکاروں کی بعد کی نسل کے مابین ایک پل تھا، انھوں نے اپنے وقت کے ایران کے معروف اساتذہ سے کلاسیکل موسیقی سیکھی اور اپنے ہم عصروں میں عزت حاصل کی۔

انھوں نے گزشتہ چار دہائیوں کے بیشتر ممتاز گلوکاروں، جیسے شہرام نذری اور اپنے بیٹے ہمایوں شجریان کے ہمراہ گلوکاری اور موسیقاری کا مظاہرہ کیا اور انھیں سکھایا بھی۔ اس کے علاوہ انھوں نے ایران کی تاریخ میں متعدد معاشرتی ادوار میں نمایاں کردار ادا کیا۔

ایران میں شجریان جیسے بہت کم فنکار اپنے سامعین میں معاشرے کی اس طرح کی ایک وسیع حمایت رکھتے ہیں۔ طلبا اور گھریلو خواتین سے لیکر کاروباری طبقوں، دانشوران، مذہبی افراد اور سرکاری عہدیداروں سے لیکر حکومت کے ناقدین اور ایران سے باہر کے تارکین وطن، وہ سب میں یکساں مقبول تھے۔

بی بی سی فارسی کے پوریا ماہرویان کے مطابق، ساٹھ اور ستّر کی دہائیوں میں، جب ایران کے تعلیم یافتہ اور سیاسی معاشرے کا ایک نمایاں حصہ ایران سے باہر رہتا تھا اور ایران کے اندر ثقافتی برادری سے ان کا بہت کم رابطہ تھا، تو شجریان ہی وہ رابطہ تھا جس نے انھیں ایران سے جوڑے رکھا تھا۔

اور شاید اسی وجہ سے ان کا ایک سب سے مشہور البم بیرون ملک میں ریکارڈ شدہ کنسرٹ کا تھا۔ ایران سے باہر اس کی مقبولیت کی وجہ سے وہ ایران میں بھی مقبول ہوئے۔ ایران میں اُس زمانے میں کلاسیکل موسیقی کی سرگرمیاں بہت محدود تھی۔

پیام نسیم ، سرو چمن، ارم جان اور فریاد جیسے البمز تہران کے سٹوڈیو میں نہیں بلکہ یورپ یا امریکہ کے ایک سٹیج پر ریکارڈ کیے گئے تھے۔ ان کے دیگر کئی البمز، جو باضابطہ طور پر ایران میں جاری نہیں کیے گئے تھے، ایران سے باہر ہی ریکارڈ کیے گئے ہیں۔

ایرانی قومیت اور اسلامی جمہوریت

ایران سے باہر بہت سے لوگوں کو ایران سے برآمد کی جانے والی ثقافتی مصنوعات سے متعلق ساختی اور نظریاتی مسائل تھے اور ان میں سے بہت ساری مصنوعات، جن میں فلمیں، تھیٹر، کتابیں، یہاں تک کہ موسیقی بھی شامل ہیں، کو اسلامی جمہوریہ کے پراپیگنڈے کا حصہ یا اس سے وابستہ سمجھا جاتا تھا۔

اب ان لوگوں کا شجریان کے بارے میں مختلف نظریہ تھا۔ متعدد موسیقاروں، جن میں سے بہت سے سیاسی وجوہات کی بنا پر ایران سے باہر رہتے تھے، شجریان کی موسیقی کی محفلوں میں شرکت کر کے ایران کے اندر موجود سامعین سے رابطہ برقرار رکھنے میں کامیاب ہوئے۔

تلاوت سے گلوکاری

محمد رضا شجریان مشہد میں یکم اکتوبر 1940 کو پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد، مہدی شجریان، جوانی میں ہی خوشگوار آواز میں نغمہ سرائی کرتے تھے لیکن تعلیم نہیں رکھتے تھے۔ وہ مشہد میں ایک بہترین قرآن خوانی کرنے والوں میں سے ایک تھے۔

چھ برس کے محمد رضا، جو اپنے والد کے ساتھ قرآن خوانی کی محفلوں میں شریک ہوتے تھے، نے ابتدائی دور میں صرف قرآن خوانی کرنا شروع کی۔ باپ بیٹے کی تلاوت کی محفلیں 13 سال تک جاری رہیں۔

شجریان نے گلوکاری میں اپنی بعد کی کامیابیوں کی بنیاد ان ملاقاتوں اور اپنے والد کی تعلیمات کو قرار دیا۔

’میں نے جو کچھ حاصل کیا وہ ان کی تعلیم، رہنمائی اور حوصلہ افزائی کی بدولت ممکن ہوا ہے۔‘ یہ انھوں نے ’ان میموری آف فادر‘ کے عنوان سے ایک البم کے تعارف میں لکھا جو ان کی قرآنی تلاوت کا مجموعہ ہے۔

تاہم جب شجریان ایرانی موسیقی میں سنجیدہ گلوکار بن گئے تو ان کے والد کو زیادہ عرصے تک اس کے بارے میں معلوم نہیں تھا اور بہت برسوں سے ترقی پانے والے باصلاحیت نوجوان گلوکار کو ’سیاوش بیدکانی‘ یا ’سیاوش‘ کہا جاتا تھا۔ بعد میں والد نے ان کی آواز کو پہچان لیا۔

پھرانھوں نے شجریان کے نام سے گلوکاری جاری رکھی۔

روزگار اور فنکار

وہ بیس برس کے تھے جب انھیں محکمہ تعلیم خراسان نے ملازمت پر رکھا تھا اور وہ اس وقت ایک استاد بن گئے تھے۔ یہ درس و تدریس کے ابتدائی برسوں میں ہی تھا کہ وہ سنتورہ سے واقف ہوئے اور انھوں نے اپنا سنتورہ بنایا اور اسے بجانا سیکھا۔

کئی برسوں کے بعد انھوں نے فرامرز پیوار کے ساتھ سنتورہ بجانا شروع کیا۔

1940 کی دہائی کے وسط میں ہی وہ تہران آ گئے اور ریڈیو کے لیے گلوکاری کے لیے ٹیسٹ دیا۔ انھیں بتایا گیا کہ وہ باصلاحیت ہیں لیکن ’ریڈیو میں کام کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہوا۔‘

اس سے پہلے کے دور میں انھوں نے گلوکاری کی باقاعدہ تربیت حاصل نہیں کی تھی۔

تب ہی انھوں نے کلاسیقی موسیقی سیکھنے کے لیے نوازندہ بجانے والے استاد اسماعیل مہرتاش سے جامعہ باربد میں موسیقی سیکھنا شروع کی۔ لیکن چونکہ جامع باربد کی تھیٹر پر زیادہ توجہ مرکوز کی اور مہرتاش گلوکار نہیں تھے، اس لیے انھوں نے باربد برادری کو چھوڑ دیا۔

تاہم شجریان کمپوزنگ سے زیادہ گانے سے وابستہ تھے۔ انھوں نے کئی بار کہا تھا کہ اگر یہ ان کے سننے والوں کے لیے نہ ہوتا تو شاید وہ کسی کی آواز بھی نہ سناتے۔ سنہ 1975 میں، انھوں نے ریڈیو کے ساتھ اور بعد میں موسیقی کے تحفظ اور پھیلاؤ کے مرکز کے ساتھ کام کرنا چھوڑ دیا۔

فارسی کے شعرا کی موسیقی

شجریان نے کہا کہ ان کی گلوکاری اور کمپوزیشن کے ذریعے، جو بنیادی طور پر حافظ اور کچھ سعدی، رومی اور عطار نے ترتیب دی تھیں، نئی نسل بہت سارے قدیم ایرانی ادب سے واقف ہوئی۔

سنہ 2014 میں فرانسیسی ’نائٹ آف آرٹ اینڈ لٹریچر‘ کا ایوارڈ ایک اور معاملہ تھا جس نے انتہا پسند شخصیات اور میڈیا کے غم و غصے کو اکسایا۔ شجریان نے ایوارڈ کی تقریب میں، جو تہران میں فرانسیسی سفیر برونو فوچے کی رہائش گاہ پر منعقدہ ہوئی تھی، کہا: ’میں اسے آگے پہنچاؤں گا اور اسے مستقبل میں بھی بھجوا دوں گا۔‘

شجریان پر تنقید کرتے ہوئے کیہان اخبار نے ایک بار پھر لکھا کہ ایوارڈ وصول کرنے والے فنکار ان لوگوں کی طرح ہیں جو اس سرزمین کی ایرانی اسلامی ثقافت کو دبانے کی ’کوشش‘ کرتے ہیں۔

کہا جاتا تھا کہ موشیری کی ایک نظم کے ساتھ ’آگ کی زبان‘ کے گیت کی اشاعت ’اپنی بندوق ڈال دو‘ کے ساتھ ان مشکل دنوں میں 2009 کے واقعات کا رد عمل ہے۔

اگرچہ شجریان خود کہتے تھے کہ وہ سیاسی نہیں، شاید ایران کے کسی بھی فنکار سے زیادہ، ان کے کام شعوری طور پر سیاست سے منسلک ہیں۔

شجریان کی اولاد

محمد رضا شجریان نے دو شادیاں کی، ان کی پہلی شادی سے تین بیٹیاں اور ایک بیٹا اور دوسری شادی سے ایک بیٹا تھا۔ موجن، ان کی سب سے چھوٹی بیٹی، کچھ البمز کے لیے گرافک ڈیزائنر رہی ہیں اور ان کا پہلا بیٹا ہمایوں بھی موسیقی سے وابستہ ہے۔

شجریان نےعلاج کے بعد اپنے فن میں واپس آنے کا وعدہ کیا تھا۔ ان کا علاج امریکہ میں ہی ہوا لیکن زیادہ تر علاج ایران میں ہوا۔

شجریان ایک خطاط بھی تھے جنھوں نے ایرانی خطاط ایسوسی ایشن میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا۔ وہ باغبانی، فوٹو گرافی، کارپینٹری اور کوہ پیمائی میں بھی بہت دلچسپی رکھتے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32289 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp