اللہ جمہوریت کے مستقبل پر رحم فرمائے!


پکڑ دھکڑ اور تھوک کے حساب سے اپوزیشن کے خلاف انکوائریوں اور مقدمات کے علاوہ حال ہی میں پی ٹی آئی کے ایک متنازعہ شخص کی جانب سے بغاوت کی ایف آئی آر درج کرانے کے منظرنامے میں وزیراعظم کی یہ خواہش کہ وہ ایسا پاکستان چاہتے ہیں جو عالمی طاقت بن کر ابھرے، بڑی نیک خواہش ہے اور کون پاکستانی ذی شعور ہو گا، جو اس سے اختلاف کرے گا لیکن زمینی حقائق یہ ہیں کہ تحریک انصاف کے دو سال سے زائد عرصے کے دور حکومت میں صورتحال خراب سے خراب تر ہوتی چلی گئی۔

عالمی بینک کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اقتصادی صورتحال مسلسل روبہ زوال ہے، غربت میں اضافہ ہی ہوتا چلا جا رہا ہے حتیٰ کہ اقتصادی شرح نمو مالی سال 2021 میں کم ہونے کی توقع ہے اور 0.5 فیصد رہنے کا امکان ہے جو گزشتہ تین برس میں چار فیصد تھی۔ رپورٹ کے مطابق اقتصادی نمو توقع سے کم یعنی مالی سال 2021۔ 22 ء میں اوسطاً 1.3 فیصد رہنے کی توقع ہے۔ پاکستان کے بارے میں رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے جی ڈی پی کی حقیقی نمو مالی سال 2019 ء کی 1.9 فیصد سے کم ہو کر 2020 ء میں 1.5 فیصد رہنے کا امکان ہے جو کئی دہائیوں کے بعد بدترین کمی ہے۔

اس کے علاوہ مالی سال 2021۔ 22 ء میں مالی خسارہ 7.4 فیصد تک محدود رہنے کی توقع ہے۔ عالمی بینک نے رپورٹ میں مزید کہا آئندہ سال جنوبی ایشیا میں ترقی کی شرح منفی 7.7 فیصد سے بہتر ہو کر 4.5 فیصد ہونے کا امکان ہے۔ ایک ایسی حکومت جو دن رات یہی گردان کرتی رہتی ہے کہ ہم پاکستان کے عوام کی تقد یر بدل رہے ہیں کیسے دعویٰ کر سکتی ہے کہ لوگوں کے خان صاحب کے ہوتے ہوئے وارے نیارے ہیں، کرپشن کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیا گیا ہے۔

غیر ملکی سرمایہ کاری پاکستان میں آ رہی ہے۔ ملازمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے، لوگوں کی قوت خرید بڑھ رہی ہے، زرمبادلہ کے ذخائر بڑھتے جا رہے ہیں گویا کہ مجموعی طور پر عوام اقتصادی خوشحالی کے راستے پر گامزن ہیں۔ یہ سب باتیں، دل کے بہلانے کو یہ خیال اچھا ہے، کہ زمرے میں آتی ہیں۔ نتائج کی پروا کیے بغیر حکومت اپنے اس یک نکاتی ایجنڈے پر سختی سے قائم ہے کہ کرپٹ اپوزیشن کا صفایا کر دیں گے۔ اس صورتحال میں دیوار سے لگی ہوئی اپوزیشن نے آہستہ آہستہ اپنا کام سیدھا کر لیا ہے۔

حکومت کے سیاسی انجینئرنگ کے شعبے کا یہ خیال تھا کہ حزب اختلاف اپنے باہمی تضادات کی بنا پر ایک صفحے پر اکٹھی نہیں ہو پائے گی، مرتے کیا نہ کرتے کے مصداق قریبا ً ایک صفحے پر اکٹھی ہوتی جا رہی ہے۔ گزشتہ برس مولانا فضل الرحمن جو تحریک چلانے کی کوشش کر رہے تھے اسے اس وقت ناکامی کامنہ دیکھنا پڑا جب مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے ان کو گھاس ڈالنے میں لیت ولعل سے کام لیا۔ آج بھی ممکن ہے کہ اپوزیشن اپنے باہمی تضاد کی بنا پر ایک صفحے پر مکمل طور پر نہ رہ پائے اور حکومت کے خلاف موثر تحریک چلانے کا خواب ادھورا رہ جائے لیکن اس بار اپوزیشن کو ایک طرف چھوڑ دیں لگتا ہے کہ خو د اقتدار کے ایوانوں میں جوتیوں میں دال بٹ رہی ہے۔

چند روز قبل ہی مسلم لیگ نون کے تھوک کے حساب سے رہنماؤں کے خلاف لاہور کے تھانہ شاہدرہ میں بغاوت کے الزام میں ایف آئی آر درج کرائی گئی۔ اس کی وطن عزیز میں آمرانہ دور میں بھی کم مثالیں ملتی ہیں حتیٰ کہ وزیراعظم آزاد کشمیر سردار فاروق حیدر کو بھی بغاوت کے اس مقد مے کی لپیٹ میں لیا گیا، تین ریٹائرڈ جرنیل جو اب مسلم لیگ (ن) کے رکن ہیں بھی ملزموں کی فہرست میں شامل کر دیے گئے۔ وزیراعظم نے غدار سازی کی اس طویل فہرست سے لاتعلقی کا اظہار کیا اورکہا ہے اس ایف آئی آر سے حکومت کا کوئی تعلق نہیں، حکومت اپوزیشن کو چور سمجھتی ہے غدار نہیں۔

شاید ایسا ہی ہو لیکن نفسانفسی کے اس ماحول میں جھوٹ سچ اور سچ جھوٹ بن کر رہ گیا ہے۔ ایف آئی آر درج کرانے والا بدر رشید منظرسے یکسر غائب ہو گیا ہے، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بغاوت کی ایف آئی آر کے اندراج سے پہلے چھان بین کی جاتی کہ ایک ”نامعلوم“ شخص کو کس طرح ایسی جرات ہوئی کہ وزیراعظم کو خود اس سے لاتعلقی کا اظہار کرنا پڑا۔ اطلاعات کے مطابق وفاقی کابینہ کے حالیہ اجلاس میں سابق وزیراعظم نواز شریف پر بغاوت کے مقد مے کے حوالے سے تفصیلی بات چیت ہوئی۔

دو وفاقی وزراء اور ایک معاون خصوصی نے ایف آئی آر کی حمایت کی اور مشورہ دیا کہ مقدمہ چلایا جائے۔ نہ جانے یہ افراد احمقوں کی کس جنت میں رہتے ہیں۔ پاکستان کی ناقا بل فخر تاریخ میں ذوالفقار علی بھٹو، شیخ مجیب الرحمن، ولی خان حتیٰ کہ مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح، نصرت بھٹو اوربے نظیر بھٹو کو بھی غداری کے الزامات اور مقدمات سہنے پڑے۔ مولانا فضل الرحمن نے تواس سیاسی انتقام کے ناپسندیدہ الزامات پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا میں غداری کے ان مقدمات کو جوتے کی نو ک پر رکھتا ہوں۔

جب تک نام نہاد کرائے کے مدعی کا کچا چٹھا با ہر نہیں آتا اس بارے میں شکوک وشہبات قائم رہیں گے۔ بعض سیاسی ناقدین نے برمحل سوال اٹھایا ہے کہ سابق ڈکٹیٹر جنرل پرویزمشرف جو کھلم کھلاآئین شکنی کے مرتکب ہوئے اور برملا کہتے تھے کہ یہ کاغذ کا ٹکڑا ہے اس کی کیا حیثیت ہے، بڑے طمطراق کے ساتھ پاکستان سے رخصت کیے گئے۔ اس وقت کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف بھی پرویزمشرف کو بیرون ملک بھیجنے کے مرکزی کردار تھے لیکن دوسری طرف سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے بڑا جائز سوال اٹھایا ہے کہ حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ کہاں سے بنتا ہے۔

خان صاحب اگر نیا پاکستان بنانے میں مخلص ہیں تو انہیں کھمبیوں کی طرح لگی ہوئی غداری کی اسناد دینے والی فیکٹریاں بند کر کے اچھی گورننس افہام وتفہیم اور جیو اور جینے دو کی پالیسیاں اپنانا ہوں گی۔ موجودہ حکومت جو اس لحاظ سے خوش قسمت ہے کہ اسے مقتدر اداروں کی مکمل تائید وحمایت حاصل ہے۔ اس حمایت کے ذریعے جمہوری اداروں کو مضبوط سے مضبوط تر کرنے کی بھرپور سعی کرنی چاہیے لیکن یہاں تو الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ اس حکومت کی ابھی نصف کے قریب مدت پوری ہوئی ہے کہ اپوزیشن اس کے خلاف تحریک چلانے پر کمربستہ ہو گئی ہے۔ اللہ جمہوریت اور جمہوری اداروں کے مستقبل پر رحم فرمائے۔
بشکریہ روزنامہ 92۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).