کثیر تعداد میں جوان خواتین اب بھی شوہر کا نام ساتھ لگانے کے لیے اپنا نام کیوں بدل لیتی ہیں؟


دلہن دلہا کے سنگ
امریکہ میں زیادہ تر خواتین شادی کے بعد اپنے شوہر کا خاندانی نام اختیار کر لیتی ہیں
کورونا کی عالمی وبا کے دوران شادی کرنے کے بارے میں بہت کچھ غیر یقینی ہو سکتا ہے مگر 30 سالہ لنڈسی ایوانس کے لیے ایک بات بالکل یقینی ہے اور وہ ہے اپنا خاندانی نام بدلنا۔

ان کی شادی جولائی 2021 کے لیے طے ہو چکی ہے۔

امریکہ میں 70 فیصد خواتین شادی کے بعد اپنے شوہروں کے خاندانی نام اپنے نام کے ساتھ لگا لیتی ہیں۔

2016 کے اعداد و شمار کے مطابق یہ شرح 90 فیصد تک پہنچ جاتی ہے اور ان میں سے 85 فیصد خواتین کی عمریں 18 سے 30 برس کے درمیان ہوتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

شادی کے نام پر سودا

’مجھے میرے باپ کا نام نہیں چاہیے‘

یہ ’فیمنسٹ‘ اصل میں کیسی ہوتی ہیں؟

‘شادی کا سفید جوڑا پہننا تھا مگر سفید تابوت میں دفنایا’

مغربی معاشرے میں جہاں انفرادیت پر زیادہ زور ہے اور لوگ صنف کے معاملے میں زیادہ حساس ہیں، یہ ثقافتی روایت اب بھی توانا ہے۔

نسوانیت کی کوئی متفقہ تعریف تو موجود نہیں مگر امریکہ میں 30 برس سے کم عمر کی 68 فیصد اور برطانیہ میں 60 فیصد عورتیں خود کو حقوق نسواں کی علمبردار کہتی ہیں۔

لنڈسی ایوانس

Lindsay Evans
30 سالہ لنڈسی ایوانس چاہتی ہیں کہ وہ اپنے ہونے والے شوہر کے خاندانی نام کو اپنائیں

اس روایت کے بارے میں تحقیق کرنے والے برطانیہ کی بریڈ فورڈ یونیورسٹی سے وابستہ پروفیسر سائمن ڈنکن کا کہنا ہے کہ ’یہ قابل حیرت ہے کیونکہ یہ روایت پدرسری نظام، جس میں کنبے کا سربراہ مرد ہوتا ہے، کی دین ہے، یعنی جب شادی شدہ عورت کو مرد کی ملکیت سمجھا جاتا تھا۔‘

انگریزی بولنے والے ممالک میں یہ ایک دیرینہ روایت چلی آ رہی ہے، اگرچہ برطانیہ میں بیویوں کو ملکیت سمجھنے کا تصور ایک صدی سے بھی پہلے ختم ہو چکا ہے اور کوئی ایسا قانون بھی موجود نہیں جو خواتین کو اپنا نام بدلنے پر مجبور کرے۔

سپین اور آئس لینڈ میں خواتین شادی کے بعد نام نہیں بدلتی اور یونان میں سنہ 1983 میں قانون بنا دیا گیا تھا کہ خواتین شادی کے بعد بھی اپنا ہی نام استعمال کریں گی، ان کے علاوہ مغربی یورپ کے دوسرے ملکوں میں شوہر کا خاندانی نام اپنانے کی روایت پائی جاتی ہے۔

حتٰی کہ ناروے میں بھی، جو صنفی مساوات میں سب سے آگے ہے اور جہاں پدرسری نظام زیادہ مضبوط نہیں تھا، خواتین شوہر کا نام اختیار کرتی ہیں۔

پروفیسر ڈنکن سوال اٹھاتے ہیں: ’کیا یہ ایک غیر مضر روایت ہے یا اس کے پیچھے کوئی گہرے معنی ہیں جو صدیوں سے چلے آ رہے ہیں؟‘

پدرسری روایات

عورتوں کے اپنا نام بدلنے کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں، یا انھیں اپنا نام پسند نہیں یا پھر وہ اپنے والدین اور اذیت پہنچانے والے رشتہ داروں سے گلو خلاصی چاہتی ہیں۔

مگر برطانیہ اور ناروے میں تحقیق اور تجزیے کے بعد پروفیسر ڈنکن اور ان کی ٹیم نے دو وجوہات معلوم کی ہیں۔

پہلی تو پدرسری نظام کی بالا دستی ہے۔ دوسری وجہ یہ تصور ہے کہ اپنے شوہر کا نام اختیار کرنا اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ عورت شوہر اور اس کے خاندان سے وفادار ہے۔

شادی کی تجویز

نام کی تبدیلی کو بعض دوسری روایات سے جوڑا جاتا ہے، جیسے شادی کے لیے مرد کی عورت سے درخواست

اس تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ عورت کے نام بدلنے کا رواج پدرسری نظام کی اس روایت کی باقیات ہے جس میں باپ بیٹی کو بیاہتا ہے اور شوہر شادی کی پیشکش کرتا ہے۔

سٹاک ہوم کی 32 سالہ کورینا ہِرش، جن کی شادی گزشتہ برس ہوئی ہے، کہتی ہیں، ’یہ پیار کا حصہ ہے۔ شادی کی رات ہم الگ الگ کمروں میں سوئے۔ میرے والد اور شوہر نے خطاب کیا، مگر میں نے نہیں۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ویسے تو وہ آٹھ برس سے ساتھ رہ رہے تھے مگر اس رسم نے ان کے درمیان بندھن کو مزید مضبوط کر دیا ہے۔

کورینا نے بتایا ’شادی کے بعد ہمیں یہ توقع نہیں کہ ہم خود کو ایک دوسرے سے زیادہ قریب محسوس کریں گے مگر ہم نے شادی کا بڑے پیمانے پر اہتمام کیا، ایک ہی خاندانی نام چنا جس نے کمال دکھایا۔‘

’اچھا خاندان‘

ڈنکن اور ان کی ٹیم کا کہنا ہے کہ دوسرے سبب کا تعلق ظاہری زیادہ ہے جس سے لگتا ہے کہ شوہر کا نام اختیار کرنا وفاداری اور خاندان کی یکجہتی کا ثبوت ہے۔

لِنڈسی ایوانس اس سے اتفاق کرتی ہیں، ’مجھے اس میں انفرادی کے بجائے ایک خاندان کی حیثیت سے اجتماعی شناخت محسوس ہوتی ہے۔‘

خاندان کی یکجہتی

بعض خواتین اپنے شوہر کا خاندانی نام اختیار کر لیتی ہیں تاکہ خاندانی یکجہتی کا تاثر قائم رہے

ڈنکن کی ٹیم نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ’اچھے خاندان‘ کا تصور ان خواتین میں زیادہ راسخ تھا جن کے بچے تھے بلکہ جن خواتین نے شوہر کا نام ساتھ نہیں لگایا تھا بچے ہونے کے بعد ان میں سے بھی کئی خواتین نے خاوند کا خاندانی نام اختیار کر لیا۔

اوسلو کی 36 برس کی جیمی برگ کہتی ہیں ’میں نے اپنے بیٹے سے اپنے ربط کو نہ صرف رشتے کے طور پر بلکہ کاغد پر بھی مضبوط کرنے کے لیے ایسا کیا۔‘

اپنی پیشہ ورانہ شناخت کے لیے کئی برس تک انھوں نے اپنا پیدائشی نام استعمال کیا مگر بیٹے کی پیدائش کے بعد انھوں نے اپنے پاسپورٹ اور دیگر دستاویزات میں شوہر کا خاندانی نام بھی شامل کرلیا کیونکہ بقول ان کے ’تاکہ تینوں کا آخری نام ایک ہی ہو۔‘ ان کے خیال میں اس سے انھیں بیرون ملک سفر میں کم دشواریوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔

تحریک نسواں کے خلاف روایت؟

اہل علم اس بارے میں منقسم ہیں کہ اس رواج سے صنفی مساوات کے لیے کی جانے والی کوششوں پر اثر پڑتا ہے یا نہیں۔

ڈنکن کے خیال میں اگر ایسا بغیر سوچے سمجھے کیا جائے تو یہ ’خاصا خطرناک ہے‘۔

اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے ان کہنا ہے: ’اس سے اس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ شوہر حاکم ہے۔۔۔ جو اس روایت کی پھر سے پختگی کا باعث بنتا ہے کہ کنبے کا سربراہ شوہر ہوتا ہے۔‘

شوہر کا خاندانی نام اور تحریک نسواں

بعض خواتین کا خیال ہے کہ شوہر کا خاندانی نام اپنانے سے تحریک نسواں کو زک پہنچتی ہے

برطانیہ کی رہائشی 34 برس کی بزنس وومن، نِکی ہیسفورڈ اس دلیل کی حمایت کرتی ہیں۔ اس وقت وہ مطلقہ ہیں مگر شادی کے وقت انھوں نے شوہر کا نام اپنانے سے انکار کر دیا تھا۔ انھیں اس پر حیرت ہے کہ چند ہی بیویاں ایسا کرتی ہیں۔

نکی کہتی ہیں: ’عورتیں شکایت کرتی ہیں کہ وہ ہی ہمیشہ دوسروں کی دیکھ بھال کرتی ہیں، جب بچہ بیمار پڑتا ہے تو وہ کام یا ملازمت کو ایک طرف رکھ دیتی ہیں، اسے سپتال لے کر جاتی ہیں۔ مگر اصل میں وہ اس کی نظیر اپنے شوہر کا نام اپنانے کے ساتھ ہی قائم کر دیتی ہیں یعنی یہ کہ آپ اوّل ہیں اور میں ثانوی۔‘

تاہم آئرلینڈ کی رہائشی اور جوڑوں کے تعلقات میں بہتری لانے کی ماہر ہِلڈا برک کا کہنا ہے کہ جو خواتین اپنے نام کے ساتھ شوہر کا نام نہیں لگاتیں انھیں دوسروں کے بارے میں رائے زنی نہیں کرنا چاہیے۔ ان کا کہنا ہے کہ فلموں اور ادب سے فروغ پانے والی یہ قدامت پسندی سماجی رابطوں سے بڑھتی ہے۔

ان کے خیال میں نام بدلنے کا زیادہ تعلق عملی آسانی سے ہے اور اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ایسی بیویاں حقوق نسواں پر یقین نہیں رکھتیں۔

ساحل سمندر پر مٹر گشت

ایک اور دلیل یہ دی جاتی ہے کہ تحریک حقوق نسواں کا مقصد عورتوں کو اپنی پسند کا حق دینا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر شوہر کا نام اپنانے کا فیصلہ بیوی اپنی مرضی سے کرے تو اس سے فرق نہیں پڑنا چاہیے کہ یہ پدرسری نظام کے حق میں ہے یا نہیں۔

ایوانس کا کہنا ہے، ’میرے بوائے فرینڈ نے مجھ سے کبھی نہیں کہا کہ میں اس کا خاندانی نام اپناؤں۔ حقوق نسواں کی علمبردار ہونے کے ناطے میں اس قابل ہوں کہ میں صنفی کرداروں کی پروا کیے بغیر اپنے لیے وہ فیصلہ کروں جو میرے لیے بہترین ہے۔‘

کیا مستقبل میں زیادہ لوگ نام بدلیں گے؟

محققین اس بارے میں گرما گرم بحث میں مصروف ہیں کہ مستقبل میں شوہر کا نام اپنانے کی روایت کتنی عام ہو گی۔ فی الحال اس بارے میں اتنی تحقیق موجود نہیں کہ اس بارے میں کوئی پیشگوئی کی جا سکے۔ البتہ ایسے اشارے موجود ہیں کہ مرد و خواتین دونوں ہی کسی بھی متبادل کے لیے تیار ہیں۔

36 برس کے برطانوی نژاد نِک نِلسن بین ویسے سویڈن میں رہتے ہیں اور انھوں نے اپنے اور اپنی بیوی کے خاندانی ناموں کو ملا کر ایک مرکب نام اپنایا ہے۔ ان کا کہنا ہے ’ہم نے اس بارے میں پہلے ہی بات کر لی تھی کہ چونکہ ہم زندگی میں ہر چیز شیئر کریں گے، اس لیے یہ بات قرین از قیاس ہے کہ ہم نام بھی شیئر کریں۔‘

شادی کی انگوٹھی

بعض جوڑے اپنے لیے مرکب خاندانی نام پسند کرتے ہیں

اپنی بات کی وضاحت میں وہ کہتے ہیں، ’مجھے یہ ذرا دقیانوسی لگا کہ میں اپنا ہی خاندانی نام ساتھ رہنے دوں۔‘

امریکہ میں ایسی خواتین کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے جو پیشہ ورانہ تقاضوں کے سبب خود کو آن لائن پر زیادہ نمایاں رکھنا چاہتی ہیں اور اپنا خاندانی نام ہی ساتھ لگاتی ہیں۔

جبکہ بعض جوڑے اپنے ناموں کے امتزاج سے نئے نام اختراع کرتے ہیں اور شوہر اپنی بیویوں کے نام ساتھ لگاتے ہیں۔ اگرچہ یہ دونوں طریقے زیادہ رواج نہیں پا سکے ہیں۔

ناروے اور امریکہ میں کی گئی ایک تحقیق سے پتا چلا ہے کہ تعلیم یافتہ اور مالی لحاظ سے خود کفیل خواتین اپنے پیدائشی نام کو ترجیح دیتی ہیں جبکہ یہ دستور جوان، کم آمدنی والی، غیر معروف خواتین اور افریقی امریکی کمیونٹی میں زیادہ مقبول نہیں۔

خوشی سے سرشار دلہن اور دلہا

افریقی امریکی خواتین شادی کے بعد بالعموم اپنا خاندانی نام ترک کر دیتی ہیں

ناروے میں رہنے والی پچاس سال کی دندان ساز، جن کی گزشہ برس شادی ہوئی ہے، کہتی ہیں ’میرے پاس اپنا گھر تھا۔ میرے پاس ڈگری، کار اور بہت سی چیزیں تھیں تو اگر میں اپنا نام بدلتی تو یہ تمام کاغذات نئے سرے سے بنوانا پڑتے۔‘

بعض محققین ایل جی بی ٹی برادری کے اثر پر روشنی ڈالتے ہیں جہاں نام بدلنے کے رجحان کے بارے میں زیادہ لچک کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32289 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp