میرے ڈرائیور کے ٹک ٹاک پر تین لاکھ فالوور ہیں


گزشتہ دنوں پی ٹی اے نے ٹک ٹاک پر پابندی لگانے کا نہایت درست فیصلہ کیا۔ ٹک ٹاک کی وجہ سے ہمارا معاشرہ تباہ ہو رہا تھا۔ کیا ہم نے لاکھوں جانوں اور عصمتوں کی قربانی دے کر یہ ملک اس لیے بنایا تھا کہ یہاں لوگ پڑھے لکھے لوگوں کی بات نہایت توجہ اور عقیدت سے سننے کی بجائے انہیں یکسر نظرانداز کرتے ہوئے ان پڑھوں کی بات سنیں؟ اب یہی دیکھ لیں کہ راقم کے سوشل میڈیا پر کل ملا کر پندرہ بیس ہزار فالوور ہیں جبکہ اس کے ڈرائیور کے ٹک ٹاک پر تین لاکھ سے زیادہ فالوور ہیں۔ پہلے آپ کا اپنے ڈرائیور سے تعارف کرواتا چلوں۔

ایسا نہیں ہے کہ عرفان ویسا عالم ڈرائیور ہے جو آئن سٹائن کو ملا تھا اور جس نے ایک روایت کے مطابق آئن سٹائن کے ایک لیکچر کے دوران پوچھے گئے ایک پیچیدہ سوال کا اس کی جگہ جواب دے دیا تھا۔ عرفان کی علمی استعداد بس اتنی ہے کہ وہ صفر سے لے کر نو تک نمبر پہچان سکتا ہے۔ عمر اس کی کوئی پچیس برس کے قریب ہے۔ ہر الٹے کام اور موج میلے میں شرکت کا اسے شوق ہے۔ ٹی وی پر علمی مسائل سے بھرپور ٹاک شو دیکھنے کی بجائے موبائل پر دیہاتی گانے اور ٹک ٹاک کے آئٹم دیکھتا ہے۔

اسی شوق نے اسے بھی ٹک ٹاک پر اپنے آئٹم ڈالنے کی مہمیز دی۔ وہ اپنی آواز میں نہایت دکھی قسم کے گانے، واقعات اور موج میلے کے آئٹم ٹک ٹاک پر ڈالتا ہے اور ٹک ٹاک سٹارز کی مینار پاکستان پر ہونے والی ہفتہ وار میٹنگ میں باقاعدگی سے شرکت کرتا ہے خواہ اس کی خاطر اسے کام ہی کیوں نہ چھوڑنا پڑ جائے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اب اس کے ٹک ٹاک پر تین لاکھ سے زیادہ فالوور ہیں اور اس کا کہنا ہے کہ دس لاکھ فالوور ہونے کے بعد اس کی اچھی آمدنی بھی شروع ہو جائے گی۔ مارکیٹ میں اس کے ساتھ جا رہے ہوں تو لوگ ہماری بجائے اسے پہچانتے ہیں اور نہایت عقیدت سے سلام دعا کر کے پوچھتے ہیں کہ آپ وہی عرفان صاحب ہیں نہ جو ٹک ٹاک پر آتے ہیں؟

دیکھا آپ نے؟ اس کے تین لاکھ فالوور ہیں اور دس لاکھ پر نظریں جمائے بیٹھا ہے۔ جبکہ میری رائے میں وہ بالکل احمق ہے اور ساری دانش خداوند کریم نے مجھے ہی بخشی ہے جس کے کل ملا کر پندرہ ہزار فالوور ہیں۔ اس قوم پر عذاب نہیں آئے گا تو اور کیا آئے گا؟

ٹک ٹاک پر ہوتا کیا ہے؟ لوگ مسخروں جیسی حرکتیں کرتے ہیں، ادھر ادھر چلتے پھرتے الٹی سیدھی قسم کی لایعنی سی باتیں کرتے ہیں۔ ان کے مزاح کا معیار نہایت گھٹیا ہے۔ اس سے قوم کی اخلاقی حالت بھی تباہ ہو رہی ہے۔ اس سے بڑھ کر سماجی ڈھانچہ بھی بربادی کی طرف گامزن ہے۔ مثلاً عرفان کو ہی لے لیں، اب اس کے دو تین لاکھ فالوور مزید ہو گئے تو میری نہایت دانشمندانہ بات سن کر جواب میں اپنی رائے پیش کر دے گا اور یہ بھی کہے گا کہ ”سر آپ کو کچھ پتہ نہیں، اسی وجہ سے میری بات لاکھوں لوگ سنتے ہیں اور آپ کی چند ہزار، کچھ سیکھ لیں مجھ سے“ ۔

اس کے دس لاکھ فالوور ہو گئے تو پھر وہ مجھ سے چند ہزار تنخواہ لے کر جو دید لحاظ کرتا ہے وہ بھی رخصت ہو جائے گا۔ ٹک ٹاک سے ڈالروں میں کمائی ہونے لگی تو اس کی آمدنی مجھ سے کئی گنا زیادہ ہو جائے گی اور عین ممکن ہے کہ وہ مجھے ہی ملازم رکھ لے۔ کیا ہم نے لاکھوں جانوں اور عصمتوں کی قربانی دے کر یہ ملک اس لیے حاصل کیا تھا کہ یہاں ہمارے ڈرائیور ہمیں اپنا ملازم رکھ لیں اور ہم سے بہتر کانٹینٹ تخلیق کریں؟

زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ بیشتر لوگ اس کے ساتھ ملے ہوئے ہیں اور وہ ان کے اینٹرٹینمنٹ کے معیار کو خراب کر رہا ہے۔ کیا یہ حکومت کی ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ قوم کی اخلاقی تربیت کرے اور اسے بتائے کہ معین اختر اور انور مقصود کا مزاح دیکھا کرے بجائے اس کے کہ ٹک ٹاک پر بھانڈ بنے لوگوں کا۔ یا چلو اور کچھ نہیں تو ٹی وی پر ٹاک شو ہی دیکھ لیا کرے۔ یا نہ دیکھے، ادھر بھی بھانڈوں کی بات ہی لوگ زیادہ دلچسپی سے سنتے ہیں۔ حکومت ٹاک شوز پر بھی پابندی کیوں نہیں لگاتی؟

ٹک ٹاک والے ریاست کی رٹ کو بھی چیلنج کر رہے ہیں۔ ہمیں باوثوق ذرائع یعنی برخوردار خان سے اطلاع ملی ہے کہ ٹک ٹاک پر باقاعدہ ایک کابینہ بنی ہوئی ہے جس میں مختلف ٹک ٹاکروں کو وزیر، گورنر، صدر، حتی کہ وزیر اعظم تک بنا دیا گیا ہے۔ ایک خاتون کو تو ملکہ بھی بنایا ہوا ہے۔ یہ سب مل کر انتہائی لچر اور فضول باتیں اس انداز سے کرتے ہیں جس سے لوگوں میں یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ وہ اصلی وزیر اور وزیراعظم ہیں۔ کیا یہ سب کچھ برداشت کیا جا سکتا ہے؟ ایک نیام میں دو ایک جیسی تلواریں اور حکومتیں نہیں رہ سکتیں۔

کس فرد نے کس لطیفے پر ہنسنا ہے، کس پر ناک منہ چڑھانا ہے، کس غزل کی داد دینی ہے، کس شاعر کو مسترد کرنا ہے، کون سے کالم نگار کو پڑھنا ہے، کس پر پابندی لگانی چاہیے، کون اچھی اچھی باتیں کرتا ہے جو حکومت کو پسند آتی ہیں، کون ففتھ جنریشن وار کر رہا ہے جس پر پابندی لگنی چاہیے، یہ سب کچھ دیکھنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ حکومت ٹک ٹاک کے علاوہ ابلاغ کے دیگر شعبوں پر بھی جلد پابندی لگائے۔

بعض ناقد یہ سوال اٹھائیں گے کہ کون تعین کرے گا کہ اچھا مزاح اور اینٹرٹینمنٹ کون سا ہے؟ دیکھیں اس کا جواب نہایت واضح ہے۔ کسی معاشرے کی اخلاقیات کا تعین ہمیشہ مڈل کلاس کرتی ہے۔ جو ہم مڈل کلاسیوں سے غریب ہے، اس کا مزاح نہایت تھرڈ کلاس ہے اور جو ہم سے امیر ہے وہ مغرب زدہ ملعون ہے جو فحاشی اور بے حیائی کو مزاح اور گالا بسکٹ کے اشتہار کو آرٹ سمجھتا ہے۔ اب ایک جمہوری ملک میں بطور اکثریت ہمارا حق ہے کہ ہم امیروں کے اقلیتی طبقے کو من مانی کر کے معاشرے کا تار و پو بکھیرنے سے روکیں اور بطور اخلاقیات کے چوکیدار یہ بھی ہمارا حق ہے کہ ہم غریب اور ان پڑھ طبقے کو ان چیزوں سے لطف اندوز ہونے سے روکیں جو انہیں اچھی لگتی ہیں۔ غریبوں کے اکثریت میں ہونے کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ انہیں کھلی چھوٹ دے دی جائے کہ وہ اپنے ذاتی موبائل پر اپنی مرضی کی ٹک ٹاک فلمیں دیکھ دیکھ کر ہنستے رہیں۔

یہ ٹھیک ہے کہ اس پابندی کا کچھ نقصان ہو گا۔ مثلاً جو بے ہنر لوگ ٹک ٹاک کی وجہ سے پانچ سو ہزار روپیہ روزانہ کمانے کی بجائے پانچ سو ہزار ڈالر ماہانہ یا زیادہ کما رہے تھے، وہ دوبارہ غریب ہو جائیں گے۔ ملک میں زرمبادلہ بھی کم آئے گا۔ معاشرے سے خوشی رخصت ہو گی اور بے چینی پھیلے گی۔ لوگ ٹک ٹاکروں کے گھٹیا مزاح پر ہنسنے کی بجائے وزرا کی بات کو ترجیح دینے لگیں گے۔ لیکن یہ بھی تو دیکھیں کہ اس پابندی کے فائدے کتنے زیادہ ہیں۔ ہمارا ڈرائیور دوبارہ ڈرائیوری کرنے لگے گا اور ہمیں اس کے بارے میں جو خدشات ہیں، وہ دور ہو جائیں گے، نیز ٹک ٹاک کی کابینہ کے بارے میں حکومت کے جو خدشات ہیں وہ بھی ختم ہو جائیں گے۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar