سرفراز احمد: کیا پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان قومی ٹیم میں اپنے مستقبل کے حوالے سے ایک اہم موڑ پر کھڑے ہیں؟


سرفراز
پاکستان کے سابق کپتان اور وکٹ کیپر بیٹسمین سرفراز احمد کو جب گذشتہ سال پاکستانی کرکٹ ٹیم کی قیادت سے ہٹانے کے ساتھ ساتھ تینوں فارمیٹس میں بھی ٹیم سے باہر کیا گیا تو رائے عامہ کا ملا جلا ردعمل سامنے آیا تھا لیکن پاکستان کرکٹ بورڈ کی جانب سے انھیں ٹی ٹوئنٹی فارمیٹ سے بھی باہر کیے جانے کے فیصلے کو حیران کن اور ناانصافی سے تعبیر کیا گیا تھا۔

حیرانی اور ناانصافی کا یہ تاثر اس لیے قائم ہوا تھا کہ ٹیم کے اعلان سے قبل ہی پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین احسان مانی نے بورڈ کی پریس ریلیز میں یہ بات کہہ دی تھی کہ انھیں اس بارے میں کوئی شک نہیں ہے کہ سرفراز احمد کسی موقع پر پاکستان ٹیم میں واپس آئیں گے۔

احسان مانی کے اس جملے کا مطلب یہی تھا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ سرفراز احمد کو نہ صرف کپتانی سے ہٹانے بلکہ صرف کھلاڑی کی حیثیت سے بھی ٹیم میں نہ رکھنے کا فیصلہ کرچکا تھا اور جب ٹیم کا اعلان ہوا تو سرفراز احمد اس میں شامل نہیں تھے۔

سرفراز احمد کی ٹی ٹوئنٹی ٹیم سے عدم موجودگی کے فیصلے کو اس لیے بھی پذیرائی نہیں ملی کیونکہ ان کی قیادت میں پاکستانی ٹیم نے لگاتار گیارہ سیریز جیت کر عالمی رینکنگ میں پہلی پوزیشن حاصل کر رکھی تھی لیکن سری لنکا کے خلاف صرف ایک سیریز کی ناکامی کو بنیاد بنا کر انھیں نکالا گیا۔ حالانکہ اس سیریز کے پس پردہ معاملات میں کچھ ایسی باتیں بھی شامل تھیں جن میں بحیثیت کپتان سرفراز احمد کی مرضی شامل نہیں تھی مثلاً احمد شہزاد اور عمر اکمل کو ٹیم میں شامل کرکے بنے بنائے ’کامبی نیشن‘ کو متاثر کرنا۔

یہ بھی پڑھیے

’جانی جتنا بتاتے وہ میرے بارے میں اتنا برا بھی نہیں ہوں۔۔۔‘

سرفراز احمد: کپتانی میں اپنے بارے میں کم، ٹیم کے بارے میں زیادہ سوچا

‘سرفراز احمد پاکستان کے خوش قسمت ترین کپتان تھے’

مصباح سرفراز کو ٹِم پین بننے دیں گے؟

حالات پہلے سے مختلف

سرفراز احمد کی اگرچہ بعد میں ٹیم میں واپسی ہوگئی لیکن اب وہ پہلے جیسی پوزیشن میں نہیں رہے ہیں۔ محمد رضوان نمبر ایک وکٹ کیپر کے طور پر ٹیم میں جگہ بنا چکے ہیں اور سرفراز احمد کو نمبر دو وکٹ کیپر کی حیثیت حاصل ہو چکی ہے۔

نیشنل ٹی ٹوئنٹی کپ جو اس وقت جاری ہے، اس میں سرفراز احمد سندھ کی ٹیم کی قیادت کر رہے ہیں لیکن ملتان میں کھیلے گئے ٹورنامنٹ کے پہلے مرحلے میں وہ بیٹنگ میں خاطرخواہ کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کرسکے اور چار اننگز میں محض 40 رنز بنانے میں کامیاب ہوئے۔ دوسری جانب اس مرحلے میں محمد رضوان نے دو نصف سنچریاں بنائی ہیں۔

ایک جانب محمد رضوان اپنی عمدہ کارکردگی سے ٹیم میں اپنی پوزیشن مستحکم کر چکے ہیں اور دوسری جانب انڈر نائنٹین وکٹ کیپر روحیل نذیر بھی سلیکٹرز کے ریڈار پر آچکے ہیں۔

سرفراز

سرفراز احمد کی حالیہ کارکردگی

سرفراز احمد سکور بورڈ کو مسلسل حرکت میں رکھنے والے بیٹسمین کے طور پر مشہور رہے ہیں لیکن پچھلے کچھ عرصے سے وہ اپنی شہرت کے مطابق قابل ذکر کارکردگی دکھانے میں کامیاب نہیں ہوسکے ہیں۔

انھوں نے 2018 میں سکاٹ لینڈ کے خلاف ایڈنبرا کے ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میں 89 رنز کی اننگز کھیلی تھی جس کے بعد سے اب تک ان کا سب سے بڑا سکور 38 رنز رہا ہے جو انھوں نے 2018 میں ہی زمبابوے کے خلاف بنایا تھا۔

گذشتہ ایک سال کے دوران سرفراز احمد نے بیشتر ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میچوں میں چوتھے نمبر پر بیٹنگ کی ہے لیکن ان کی جانب سے کوئی قابل ذکر کارکردگی دیکھنے میں نہیں آئی۔ اس سال پاکستان سپر لیگ میں بھی وہ بجھے بجھے سے رہے اور 9 اننگز میں 148 رنز بنا سکے جن میں سب سے بڑا سکور 41 رنز تھا۔

سرفراز احمد کو سخت محنت کرنی ہوگی

پاکستان کے سابق وکٹ کیپر کپتان راشد لطیف کا کہنا ہے کہ ٹیسٹ اور ون ڈے میں محمد رضوان کی پوزیشن مضبوط ہو چکی ہے البتہ ٹی ٹوئنٹی میں چند امیدوار موجود ہیں اور ان کے مطابق سرفراز احمد کے لیے صورتحال مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں ہے۔

راشد لطیف کہتے ہیں کہ کسی ایک فارمیٹ میں واپس آنے کے لیے انھیں سخت محنت کرنی پڑے گی اور انھیں رنز کرنے پڑیں گے، خاص کر فرسٹ کلاس کرکٹ میں انھیں دو تین سنچریاں بنانی ہوں گی۔

سرفراز

سابقہ نہیں بلکہ موجودہ کارکردگی اہم

پاکستانی کرکٹ ٹیم کے ایک اور سابق وکٹ کیپر کپتان معین خان کے خیال میں سرفراز احمد کو ٹیم میں جگہ برقرار رکھنی ہے تو انھیں پرفارم کرنا ہوگا۔

’ایسے کھلاڑی کے لیے کبھی یہ آسان نہیں ہوتا کہ اس نے کپتانی کی ہو اور پھر وہ باہر ہو جائے۔ اسے کم بیک کرنا پڑے اور وہ جونیئر کھلاڑیوں کے ساتھ نارمل کھلاڑی کی حیثیت سے کھیلے‘۔

معین خان کہتے ہیں کہ سرفراز احمد کو اپنے بیٹنگ آرڈر کو اوپر کرنا چاہیے۔

’وہ ماضی میں اوپننگ بھی کرچکے ہیں۔ وہ ٹاپ آرڈر میں بیٹنگ کر کے ہی اپنی کھوئی ہوئی فارم دوبارہ حاصل کرسکتے ہیں اور سلیکٹرز پر دباؤ ڈال سکتے ہیں۔ دوسری صورت میں آپ مقابلے کی دوڑ سے باہر ہو جاتے ہیں۔ سب سے اہم چیز کھلاڑی کی موجودہ فارم اور پرفارمنس ہوتی ہے۔ اگر فارم نہیں ہے تو پھر سلیکٹرز کے لیے اس کے بارے میں فیصلہ کرنا بہت آسان ہو جاتا ہے‘۔

معین خان کا کہنا ہے کہ ٹی ٹوئنٹی نوجوان کرکٹرز کا فارمیٹ ہے۔

’سلیکٹرز کو چاہیے کہ وہ زمبابوے کے خلاف نوجوان کھلاڑیوں کو موقع دیں تاکہ مستقبل کے لیے ایک اچھی ٹیم تیار ہو سکے۔ سرفراز یا کسی بھی سینیئر کھلاڑی کو اگر کھیلنا ہے تو انھیں مستقل مزاجی سے کارکردگی دکھانی پڑے گی۔ سابقہ کارکردگی پر کھلانا مشکل ہوتا ہے‘۔

اب اپنے بارے میں سوچنے کا وقت

سرفراز احمد خود یہ اعتراف کرچکے ہیں کہ کپتانی کے دور میں انھوں نے ٹیم کے بارے میں زیادہ سوچا اور اپنی بیٹنگ کے بارے میں کم۔

سرفراز احمد کی یہ بات اس لیے غلط نہیں ہے کہ ایسے متعدد میچز ہیں جن میں وہ خود بیٹنگ کے لیے نہیں آئے بلکہ حسن علی، عماد وسیم اور فہیم اشرف کو بیٹنگ کے لیے بھیجا لیکن اب انھیں اپنی انفرادی کارکردگی کے بارے میں بہت زیادہ سوچنا ہوگا۔

سرفراز احمد ایک ایسے کھلاڑی ہیں جنھوں نے ماضی میں بھی کم بیک کیا ہے اور مشکل صورتحال میں حوصلہ نہیں ہارا اور اب بھی ان سے یہی توقع کی جارہی ہے کہ وہ کھوئی ہوئی فارم اور اعتماد دوبارہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔

سلیکٹرز کیا سوچ رہے ہیں؟

زمبابوے کے خلاف ہوم سیریز کے لیے پاکستانی سکواڈ کا اعلان 19 اکتوبر کو متوقع ہے۔ انگلینڈ کے دورے کی طرح اس مرتبہ بھی کووڈ 19 کی صورتحال کے پیش نظر 20 سے 22 کھلاڑیوں کے سکواڈ کا اعلان ہو سکتا ہے جس میں سرفراز احمد بھی جگہ بنا سکتے ہیں لیکن ان کے لیے اصل امتحان اس سال کے اواخر میں ہونے والے نیوزی لینڈ کے دورے کی سلیکشن ہو گی۔

اس دورے سے قبل انھیں قائداعظم ٹرافی کے دو یا تین فرسٹ کلاس میچ کھیلنے کا موقع ملے گا اور وہی کارکردگی ان کے سلیکشن کا تعین کرے گی۔

سلیکٹرز کے لیے بھی موجودہ صورتحال آسان نہیں ہے کیونکہ وہ سرفراز احمد جیسے تجربہ کار کھلاڑی کو آسانی سے ڈراپ نہیں کر سکتے لیکن دوسری جانب ان کے لیے یہ بھی مشکل ہے کہ اگر سرفراز احمد کی جانب سے تسلی بخش کارکردگی سامنے نہیں آتی تو اس صورت میں ان کے پاس سرفراز احمد کو ٹیم میں شامل کرنے کے لیے کوئی ٹھوس دلیل موجود ہونی چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp