نوزائیدہ بچہ اور پتھر کا بینچ


اس کے دو بچے پہلے ہی مر چکے تھے۔ پیدا ہونے سے قبل، جب کچے ہی تھے۔ ایک حمل کے اٹھارہ ہفتے میں اور دوسرا بائیسویں ہفتے میں۔ ”نہ جانے ہماری قسمت میں کیا ہے۔“ اس نے تقریباً روہانسا ہو کر کہا تھا، ”ڈاکٹر صاحب، جو بھی علاج ممکن ہو سکے، کیجیے گا۔ میں بڑی امید لے کر آیا ہوں۔ مجھے آپ کے دوست رفیق نے بھیجا ہے۔“

اسے رفیق ہی نے بھیجا تھا۔ رفیق کراچی میٹرو پولیٹن کارپوریشن کے محکمہ مالیات میں کام کرتا تھا اور وہ بھی ”کے ایم سی“ ہی میں چپراسی تھا۔ اس نے رفیق کو بتایا تھا کہ دو دفعہ اس کی بیوی کو حمل ٹھہرا اور اچھا خاصا وقت گزر گیا، مگر پانچویں چھٹے مہینے میں بچے کچے ہی تھے تو ضائع ہو گئے۔ اب پھر اس کی بیوی کو حمل ٹھہر گیا ہے اور آنے والے خوف سے وہ پریشان تھا۔ رفیق نے اسے اپنا کارڈ دے کر میرے پاس بھیجا تھا۔

وہ دونوں میاں بیوی میرے پاس ساتھ ہی آئے تھے۔ وہ ڈھائی ماہ کے حمل سے تھی اور پریشان تھی۔ پریشانی اس کے چہرے پر صاف عیاں تھی اور ایسی صورت حال میں مریضوں کا پریشان ہونا کوئی غیر معمولی بات تھی بھی نہیں۔ میں نے اسے تسلی دی تھی۔ سمجھایا تھا کہ انہیں اب میرے پاس ہر دو ہفتے بعد آنا ہو گا۔ حمل کو چودہ ہفتے گزر جائیں گے تو پھر فیصلہ کریں گے کہ کیا کرنا ہے۔

اس نے بتایا کہ وہ دوسرے ڈاکٹر کے پاس گئے تھے اور ان ڈاکٹر صاحبہ نے کچھ گولیاں اور انجیکشن لگانے کو کہا تھا۔ وہ انجیکشن بہت مہنگے تھے مگر پھر بھی ان لوگوں نے دو انجیکشن لگوائے تھے۔

ایسے مریضوں کو سمجھنا بہت مشکل ہوتا ہے کہ بنیادی طور پر حمل کے اولین زمانے میں کسی بھی قسم کی کوئی بھی دوا نہیں کھانی چاہیے۔ یہاں تک کہ وٹامن اور آئرن کی گولیوں کی بھی ضرورت نہیں ہے اور ہوتا یہ ہے کہ اس قسم کے مریض جن کے پہلے ہی دو دو تین تین حمل ضائع ہو چکے ہوں، دواؤں اور دعاؤں کے تلاش میں رہتے ہیں۔ ہر قسم کے پیر، عجیب قسم کے فقیر دعا کرنے والی مائیاں، تعویذ لکھنے والے بابے، روحانی علاج کرنے والے بزرگ، بچہ دینے والے مزار، پانی پھونک کر دینے والے مولوی صاحب اور محلے کی نام نہاد دائیوں کے پاس جو ہر قسم کے زنانے امراض کا علاج کرتی ہیں، یہ لوگ اپنے علاج کے لئے جاتے ہیں۔

میرے پاس آنے سے پہلے یہ لوگ ایسی جگہوں پر گئے تھے۔ زمان کی ماں کا خیال تھا کہ اس کی بہو پر کسی قسم کا سایہ ہے، جو حمل ضائع کرا دیتا ہے۔ جس کے لئے وہ نئی کراچی میں ایک پیر صاحب رہتے ہیں، ان سے جا کر ملی تھیں اور تعویذ لے کر آئی تھیں۔ یہ تعویذ کالے دھاگے میں پرویا ہوا اس کے پیٹ پر بندھا ہوا تھا۔ اس کی ماں سیہون سے برکت والے کڑے لے کر آئی تھی، جو حمل کے آخر تک اس کو داہنے ہاتھ میں پہننے تھے۔ محلے میں رہنے والی بوا نے بھی پانی والے بابا سے پھونکا ہوا پانی لا کر دیا تھا، جو ہر جمعرات کو عصر اور مغرب کی نماز کے دوران میں پینا تھا۔ روحانی علاج کرنے والے بزرگ نے فی الحال عمل سے منع کر دیا تھا، کیوں کہ ان کے علاج کے ساتھ دوسرے قسم کا علاج کا الٹا اثر ہو جاتا تھا۔

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3