مسلم لیگ نون نے ٹک ٹاک بھی بند کروا دیا


تبدیلی سرکار اتنی ظالم ہو گی، سوچا بھی نہ جا سکتا تھا۔ کئی ماہ سے خبریں اڑ رہی تھیں کہ حکومت عوام کی پسندیدہ ایپ ٹک ٹاک پر پابندی لگا رہی ہے۔ نوجوانوں، عورتوں، مردوں اور بزرگوں کی جتنی نمایاں تعداد، ٹک ٹاک استعمال کر رہی تھی، امید تھی کہ حکومت عوام کے جذبات اور پسند کو مد نظر رکھتے ہوئے ایسا اقدام نہیں اٹھائے گی، مگر حکومت کے سینے میں تو دل ہی نہیں۔

اخباروں کی سرخیاں پڑھتے رہے ہیں کہ حکومت نے عوام پر پٹرول بم، بجلی بم یا گیس بم گرا دیا، قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ کر دیا مگر یہ ٹک ٹاک بم بلکہ ایٹم بم، پہلی بار گرایا گیا ہے۔ ابھی فیس بک پر ایک کلپ دیکھ رہا تھا کہ خاتون زار و قطار رو رہی تھی کہ عمران خان اتنا ظالم ہے، ایک ٹک ٹاک ہی تھا، جس سے دل بہلا لیتے تھے۔ یہ سکون بھی چھین لیا۔ واقعی عمران خان تم اتنے ظالم ہو؟

بچوں اور دوستوں کو دیکھ دیکھ کر مجھے بھی ٹک ٹاک کا شوق پیدا ہو گیا۔ دوست عثمان نے میرا کاؤنٹ بنا دیا۔ پھر ویڈیو اپ لوڈ کرنا سیکھ لیا۔ ویڈیو تو بہت کم بنائیں۔ ایک ویڈیو بنائی تھی، جس میں کہا تھا کہ بعض نیکیاں ایسی ہوتی ہیں، جن کو کر کے دریا میں ڈال دیا جائے تو دریا بھی وہ نیکی اگل دیتا ہے اور کہتا ہے اے کی چول ماری اے۔ خیر تصاویر کو محفوظ رکھنے کے لئے ٹک ٹاک بہترین ایپ تھی۔ تصاویر کے پیچھے میوزک یا گانا لگا کر ان یادوں کو اپنی طرف سے ہمیشہ کے لئے محفوظ کر لیا تھا، مگر پھر چراغوں میں روشنی ہی نہ رہی۔

ٹک ٹاک پر آپ 15 سیکنڈ سے ایک منٹ تک کی ویڈیوز بنا سکتے تھے۔ اتنے مختصر وقت میں اپنا پیغام دوسرے تک پہنچانا یا دوسرے کو اپنی بات سے ہنسانا معمولی کام نہیں سمجھتا۔ یہ بلا کی ذہانت کا کام ہے۔ ٹک ٹاک پر ٹک ٹاکرز ایک فیملی بن چکے تھے۔ ایک دوسرے پر تنقید بھی کی جاتی اور مذاق بھی اڑایا جاتا۔ ایک ویڈیو کے جواب میں دوسری ویڈیو بھی بنائی جاتی ہے۔ خوشی اس بات کی ہے، تنقید یا مذاق کو کسی نے دشمنی کا روپ نہیں دیا۔ ایک دو روز ٹک ٹاک پر ایک دوسرے سے جنگ چل رہی ہوتی تھی، تو تیسرے روز دونوں اکٹھی ویڈیو بناتے اور لوگوں کو کہتے کیسا بیوقوف بنایا ہے اور ایک دوسرے کو خوشی سے گلے لگا لیا جاتا اور کہا جاتا، چل مستی کرو، ٹک ٹاک کا یہی حسن مجھے بھی پسند تھا۔

کہتے ہیں نا کہ ایک مچھلی پورے تالاب کو گندا کر دیتی ہے۔ ایسی ہی صورت حال ٹک ٹاک پر تھی۔ راولپنڈی کی ایک خاتون جو نقاب کرتی تھی، اس نے بی بی ایل کے نام سے آئی ڈی بنائی ہوئی تھی۔ اس خاتون نے جتنا گند ٹک ٹاک پر پھیلایا، اتنا کسی نے بھی نہیں پھیلایا۔ لوگ کمنٹس میں تنقید کرتے اور گالیاں بھی دیتے، مگر لائیکس بھی سب سے زیادہ اسی کو ملتے تھے۔ پچھلے دنوں تو اس نے حد ہی کر دی۔ پیٹ بڑھا کر ایک ٹک ٹاکر دانش پر الزام لگا دیا کہ اس کے پیٹ میں جو بچہ ہے، وہ دانش شیخ کا ہے۔ حد ہے۔

عمران خان کے دھرنے میں میوزک اور گانے چلانے سے شہرت پانے والا ڈی جے بٹ، تمام ٹک ٹاکرز کا ماما بنا ہوا تھا۔ بی بی ایل اس کے پاس بھی پہنچ گئی۔ اب یہ ماما مودا بن کر دانش شیخ کو تنبیہ کرتے رہے کہ اگر غلطی ہو گئی ہے، تو دانش شیخ اسے تسلیم کر لو۔ وغیرہ۔ سوچنے کی بات ہے کہ ایسی ویڈیو سے نو عمر بچوں پر کیا اثر پڑا ہو گا۔

ٹک ٹاک پر کیسے کیسے لوگوں کو عوام نے پسند کیا، اس سے ہماری قوم کے مزاج اور ان کی پسند کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ ایک ٹک ٹاکر پھلو تھا۔ ایسی ایسی چول ویڈیوز تھیں کہ تبرہ کرنے کو دل چاہتا تھا۔ اس کے فالورز لاکھوں میں تھے، جس کی وجہ سے شو بز سے تعلق رکھنے والی خواتین ٹک ٹاکرز اسے مدعو کرتیں اور اس کے ساتھ ویڈیوز بنا کر اپنے فالورز میں اضافہ کرتیں، اس سے ہر نوجوان زیادہ سے زیادہ چولیں مارنے لگا۔

ٹک ٹاک پر مزاحیہ ویڈیوز بھی بنتی تھیں، جن میں سب سے اچھی ویڈیو مولوی عثمان کی ہوتی تھیں۔ خوبصورت نوجوان کی ویڈیوز بھی خوبصورت اور با مقصد ہوتی تھیں۔ اس نے کبھی بے ہودہ ویڈیو بنائی، نا ہی کبھی چول ماری۔ ٹک ٹاک کی ایک ویڈیو بہت ہٹ ہوئی۔ مجھے ذاتی طور پر بہت پسند آئی۔ اس نوجوان کا نام یاد نہیں آ رہا، معذرت۔ اس ویڈیو میں دکھایا گیا کہ وزیر اعظم عمران خان قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ سب سے پہلے آپ نے گھبرانا نہیں ہے، اس جملے کے بعد وہ نوجوان جو زمین پر بیٹھا سن رہ تھا، چلا اٹھا، ”نہیں خان صاحب، اب نہیں، اب گھبرانا ہمارا بنتا ہے۔“

ٹک ٹاک پر ایک گروپ، امیر لڑکوں اور لڑکیوں کا بھی تھا، جو بڑے بڑے گھر، مہنگے ہوٹلوں میں قیام اور مہنگی گاڑیوں میں بیٹھنے کی ویڈیوز بناتے اور عوام سے لائیکس لیتے۔ شو بز اور ”بازار“ سے تعلق رکھنے والی خواتین زیادہ تر ڈانس کی ویڈیو بنا کر فالورز بناتیں، ان میں مناہل ملک کی ویڈیوز اچھی ہوتی تھیں۔ اس لڑکی کا فٹ ورک بہت اچھا تھا، اگر مناہل ڈراموں یا فلموں میں کام کرے، تو سپر سٹار بنے گی۔

شہرت بہت برا نشہ ہے۔ اکثر میاں بیوی بھی ٹک ٹاک ویڈیوز بناتے۔ ڈانس کرتے، ایک دوسرے کو جگتیں کرتے۔ فلمی انداز میں گانوں پر پرفارم کرتے مگر ایک جوڑے نے تو حد ہی کر دی۔ شہرت کے لئے کوئی ایسا بھی کر سکتا ہے، کم از کم میرے جیسا شخص تو نہیں سوچ سکتا۔ عادل راجپوت کے نام سے ایک آئی ڈی ہے، یہ میاں بیوی ہیں، ان کے فالورز بھی اچھے خاصے تھے۔ ایک روز میں ٹک ٹاک ایپ کھولی تو ویڈیو دیکھی کہ عادل کی بیوی زار و قطار رو رہی ہے اور اپنے فین کو بتا رہی تھی کہ عدنان کا فون آیا ہے، عادل کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے اور عادل نہیں رہے۔ سن کر بہت دکھ ہوا بعد میں پتا چلا کہ یہ ڈراما صرف فالورز بڑھانے کے لئے تھا۔ اس ویڈیو سے اس کے فالورز تیس لاکھ تک پہنچ گئے آج کل وہ موصوف بیوی کے ساتھ اسٹیج کی سابق رقاصہ دیدار کے ساتھ ویڈیوز بنا کر اپ لوڈ کر رہے ہیں۔ شہرت کے لئے اس حد تک گرا جاتا ہے، اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

طنز و مزاح کی یہ ایپ سیاسی گند سے بھی محفوظ نہ رہ سکی۔ اس میں مسلم لیگ نون اور پی ٹی آئی کارکن بھی کود پڑے۔ مسلم لیگ کے کارکنوں نے تو گالیاں ہی دینا شروع کر دیں اور اخلاقیات کا جنازہ نکال کر رکھ دیا۔ وزیر اعظم عمران خان پر اسٹیج ڈراموں والی لچر پن سے بھرپور جگتیں اور فقرے کسے گئے۔ میرے خیال سے ٹک ٹاک پر پابندی کی بڑی وجہ بھی شاید یہی بنی۔ کبھی کبھی تو مجھے لگتا ہے کہ مسلم لیگ نون نے ملکی خزانہ ہی نہیں لوٹا، ٹک ٹاک بند کرا کر عوام کی خوشیاں کو بھی لوٹ لی ہیں۔

ٹک ٹاک پر پابندی سے لاکھوں یا شاید کروڑوں لوگوں کا دل ہی ٹوٹ گیا۔ پابندی سے بہتر تھا کہ حکومت کوئی قانون یا اصول بنا کر اس کو مانیٹر کر کے گندے انڈے باہر کرتی۔ ہر چیز کی اصلاح ممکن ہے، یہ کوئی حل نہیں کہ ایک دو غلطی کرے اور اس کا خمیازہ سارے بھگتیں، مہنگائی، بے امنی کے مارے عوام کو سستی تفریح مل رہی تھی۔ حکومت سے یہ بھی برداشت نہ ہو سکا اور ٹک ٹاک پر بھی پا بندی لگا کر کروڑوں لوگوں کے ارمانوں کا خون کر دیا۔ سلمی آغا نے اسی لئے گایا تھا:
دل کے ارمان ’ٹک ٹاک‘ میں بہہ گئے، ہم وفا کر کے بھی تنہا رہ گئے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).