اب ایک نیا میزائل ساز، اسحق ڈار ‏


بیک انجینیئرنگ کر کے امریکی میزائل ٹام ہاک کی نقل کرنے کے دعوے پر بات ختم نہیں ہو رہی تھی کہ جناب اسحق ڈار بھی دیوانہ وار میدان میں کود پڑے ہیں۔ جناب نواز شریف نے بڑے نپے تلے لہجے میں فرمایا تھا، ”ہمارے میزائل، بیک انجینئرنگ کا شاہکار ہیں۔“ وہ کہنا، ریورس انجینئرنگ چاہتے تھے۔ غالباً یہ واحد راوین ہیں، جن کا انگریزی سے بھی ہاتھ خاصا تنگ رہا ہے۔

اب سابق وزیر خزانہ اسحق ڈار کچھ نئے دعوؤں کے ساتھ میدان میں آئے ہیں۔ ڈار صاحب، ڈاکٹر ثمر مبارک مند کو ڈانٹتے ہوئے فرماتے ہیں، ”ڈاکٹر ثمر مبارک مند صاحب، غلط بیانی کر رہے ہیں۔ وہ سائنسدان رہیں، پروفیشنل رہیں، سیاستدان نہ بنیں (کیوں کہ سب سیاستدان جھوٹ بولتے ہیں ) ۔ وہ جھوٹ بول رہے ہیں کیوں کہ (میزائل) گرا تھا، بالکل ہمارے قبضے میں (آ گیا) تھا۔ ڈاکٹر ثمر مبارک مند صاحب کو یہ یاد کروا رہا ہوں کہ دسمبر 1998 ء میں وہ میرے پاس کس کا پیغام لے کر آئے تھے، جب میں فنانس منسٹر تھا ( اپنے سوال کا خود ہی جواب دیتے ہیں کہ وہ) ، جنرل مشرف کا پیغام لے کر آئے تھے۔ میزائل ٹیکنالوجی کو ڈویلپ کرنے کے لیے، کتنی دیر میں فنڈنگ ہو گی اور میری (شرط) کنڈیشن تھی کہ پوری طرح ایکسپلین (وضاحت ) کی جائے تو ہم (فنڈنگ) کریں گے۔ میرا ایک دن کی ٹوٹل وزٹ تھی (حساس اور خفیہ) جگہ پر میں نے پورا دن گزارا تھا۔ ڈاکٹر ثمر صاحب، مہربانی کر کے سیاست نہ کریں، سیاست سے دور رہیں وہ پروفیشنل رہیں اور ڈاکٹر ثمر مبارک مند نے مجھے بریفنگ دی ہوئی ہے، جس کا میاں نواز شریف نے ذکر کیا ہے۔ میں نے آنکھوں سے دیکھی ہوئی ہے۔ اس طرح نہ کریں یہ لوگ پروفیشنل رہیں، تو بہتر ہے۔ یہ سیاست کو سیاست دانوں کے لئے رہنے دیں اور یہ جو انہوں نے بات کی ہے، یہ پتا نہیں کس کے کہنے پر کی ہے۔ میرے ساتھ جنرل قدوائی اور ڈاکٹر ثمر مبارک مند دونوں نے دسمبر 1998 ء میں، مجھے وزٹ کیا، فنانس منسٹری میں۔ میں نے ان کو کہا کہ مجھے سے پہلے ان کو پانچ سال میں میزائل ٹیکنالوجی ڈویلپ کرنے کا کہا گیا۔ میں نے کہا، دو سال میں میزائل تیار ہونے چاہئیں۔ وہ حیران ہو گئے۔ ان کا خیال تھا کہ (پابندیاں لگ جائیں گی) پاکستان پہ۔ سختی ہو جائے گی۔ وہ پانچ یا دس سال کا کہہ رہے تھے۔ میں نے انہیں کہا، دو سال میں کام مکمل کریں، کیوں کہ دنیا میں کریٹیکل چینج ہوتی ہے، تو ہم یہ نہ کر سکیں، ہمیں مشکلات آ جائیں۔ وہی ہوا نائن الیون کے بعد۔ شکر ہے میری ایک ہی کنڈیشن (شرط) تھی کہ جا کر جنرل مشرف کو کہہ دیں،

We will finance for two years not five years.

یہ گورنمنٹ کی ذمہ داری ہے۔ دیکھیں پاکستان میں میاں نواز شریف، میری ذات تک مسلم لیگ نون، ہماری جو پارٹی ہے، ہم نے ہمیشہ ڈیفنس اور سکیورٹی کے جو معاملات ہیں، خاص طور پر کلاسیفائیڈ اور نیوکلیئر، ہمیشہ ہماری ترجیح رہی ہے۔ پابندیاں لگی ہوئی تھیں۔ مجھے پانچ سال جو پہلے دیے گئے تھے۔ ٹائم کے اندر میں نے دو سال کیے اور میں نے کہا کہ میں وزٹ کروں گا، ایک دن مجھے پوری بریفنگ دی جائے گی۔ “

ڈاکٹر ثمر مبارک مند سمیت، دنیا کے تمام چوٹی کے سائنسدان اس احمقانہ فلسفے کو یکسر مسترد کر چکے ہیں کہ انتہائی بلندی سے کرنے کے بعد میزائل ناکارہ اور بے کار ملبے کا ڈھیر ہوتا ہے، جس سے ریورس انجینیئرنگ کا خیال بھی پاگل پن سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ جناب نواز شریف نے فرمایا تھا کہ اس میں سے دو ایک کروز سالم مل گئے تھے۔ ڈاکٹر ثمر مبارک مند اور دیگر عالمی ماہرین نے نواز شریف کے اس دعوی کو یکسر مسترد کر دیا ہے کہ سیکڑوں میلوں کی دوری سے فائر کیے جانے والے میزائلوں کا بلندی سے گرنے کے بعد صحیح سالم مل جانے کا دعوی احمقانہ ہے۔ ویسے بھی بارودی مواد سے خود امریکیوں نے اس ناکارہ ملبے کی واپسی کا مطالبہ، آج تک نہیں کیا۔ جناب نواز شریف نے اپنے اس بیان میں عدالتی ضروریات کی تکمیل کے لیے یہ حلف اٹھانا بھی ضروری سمجھا کہ میں بقائے ہوش و حواس یہ بات کر رہا ہوں۔ تا کہ امریکی ان کے اس بیان کو بطور مستند عدالتی ثبوت مناسب وقت پر پاکستان کے خلاف استعمال کر سکیں۔

نیسکام کے بانی اور پاکستان کے میزائل اینڈ ریسرچ پروگرام کے ریٹائرڈ ڈائریکٹر ڈاکٹر ثمر مبارک مند کہتے ہیں، ’یہ بیان غلط ہے کہ پاکستان نے ٹام ہاک کو ریورس انجینئرنگ کر کے اس کو نقل کیا ہے۔ یہ تکنیکی طور پر ممکن نہیں، کیوں کہ ساخت کاپی کر بھی لیں، تو اصل کام تو سافٹ ویئر کا ہوتا ہے، جس کا مکمل کنٹرول مینو فیکچرر کے پاس ہوتا ہے۔‘

ڈاکٹر ثمر مبارک مند کہتے ہیں، ’یہ میزائل نہایت نازک ہوتا ہے اور یہ بات مضحکہ خیز ہے کہ وہ زمین پر گرے اور اس کے ٹکرے ٹکڑے نہ ہو جائیں۔ پاکستان کو اس علاقے سے میزائل کے چند نا کارہ ٹکڑے ملے تھے، ان پر کیا ریسرچ کی جا سکتی تھی؟‘

ایک ریٹائرڈ امریکی جنرل تھامس جی میکنرنی نے کہا تھا، ’یہ میزائل شیشے کے مانند بہت نازک ہوتا ہے۔ ٹوٹ کر گرتا ہے، تو ریزہ ریزہ ہو جاتا ہے۔‘

ایس پی ڈی کے سربراہ جنرل (ر) خالد قدوائی کے زمانے میں امریکا نے پاکستان کی پیشکش قبول کرتے ہوئے اپنے سائنسدانوں کی ٹیم پاکستان بھیجی تھی، جس نے پاکستان کے تیار کردہ میزائل کا جائزہ لینے کے بعد، رپورٹ دی تھی کہ پاکستانی ساختہ کروز میزائل امریکی میزائل کی نقل نہیں ہیں۔ لیکن اسحق ڈار کسی سائنسدان یا میزائل ماہر کی بات ماننے کو تیار نہیں اور ”بیک انجنیئرنگ“ کے ذریعے کروز میزائل بنانے پر اصرار کرتے ہوئے بطور وزیر خزانہ اپنے اطمینان اور شرائط کی تفصیلات بھی بیان کیے جا رہے ہیں۔

جانے کیا واقعہ ہے ہونے کو
جی بہت چاہتا ہے رونے کو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).