اصول تغیر پذیری


تبدیلی فطرت کا ایک مسلمہ اصول ہے۔ کائنات کی ہر طرح کی اشیا پر اس اصول کا مساوی اطلاق ہوتا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ کچھ اشیا پر اس اصول کی کار فرمائی ذرا نمایاں ہوتی ہے، جب کہ کچھ تغیر اور تبدل کے اس عمل مسلسل سے دو چار تو ہوتی ہیں لیکن ان میں تبدیلی کی رفتار ذرا سست ہوتی ہے۔ اس طرح یہ ایک ہمہ گیر اور آفاقی اصول ہے، جو ہر آن جاری و ساری رہتا ہے۔ در اصل خالق کائنات نے اس اصول کے ذریعے نا صرف اپنی خلاقیت کے بحر نا پیدا کنار کو جاری کر کے کائنات کے عناصر ترکیبی کے اندر ایک حسین نظم و ضبط پیدا کیا ہے، بلکہ کائنات کے تکمیل کی طرف سفر کو اسی اصول کے اندر پوشیدہ رکھا ہے۔

آفاق و افلاک کی مختلف اشیا میں یہ تغیر انسان کی مقدار حیات کے مقابلے میں اتنا سست ہے کہ انسان اس کو محسوس کرنے سے قاصر رہتا ہے۔ انسان کبھی کبھار اس اصول کو اس لئے بھی سمجھ نہیں پاتا کہ یہ اصول ”بکھراو“ اور ”بناو“ کے پس پردہ کام کرتا رہتا ہے۔ یا ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ اس اصول کی عمومیت اس کو ایسا پردہ فراہم کرتی ہے کہ انسان کی چشم باریک بین اس کا مشاہدہ تو کر لیتی ہے، لیکن اس کا تجزیہ کرنے میں نا کام ہو جاتی ہے۔

یہی وجوہ ہیں کہ انسان از منہ قدیم سے کائنات میں موجود مختلف اشیا کو، جو اگر چہ ہر دم تغیر پذیر ہیں، لا فانی اور ابدی قرار دے بیٹھا اور ان کو ابدیت کی سند فراہم کر دی۔ شاید اسی لئے اکثر و بیش تر اجرام فلکی کو اس طرح ”فنا“ سے ماورا قرار دیا گیا کہ انسان ان کی الوہیت کا اعلان کر بیٹھا۔ یہ اعلان عام لوگ کرتے تو کوئی مسئلہ نہیں تھا کہ اس کو ”عوام کالانعام“ کا عنوان دے کر ٹالا جا سکتا تھا۔ اس کی توجیہ آسانی کے ساتھ کی جا سکتی تھی کہ عوام نفسیاتی طور پر اپنے لئے بھی اسی ثبات کے متمنی تھے جو ان اشیا کو حاصل تھا۔ لیکن اکثر و بیش تر فلاسفہ، جو دنیا کے عظیم اور بالغ النظر لوگ رہے ہیں، نے بھی کائنات کی ابدیت کا ڈنکا بجا کے در اصل اسی سوچ کی عکاسی کی کہ انسان عمومی طور پر ”بقا“ کا امیدوار ہے۔ لیکن دنیا کے ان ذہین و فطین دماغوں نے عوام پر یہ الزام لگایا کہ عوام نے ڈر کی نفسیات سے پس پا ہو کر مختلف اشیا کو الوہیت کی کرسی پر براجماں کیا۔

اس سوچ کو مختلف پیغمبران کرام (ء) نے مختلف زمانوں میں رد کیا کہ ابدیت اور ثبات اگر کسی ذات کو حاصل ہے تو وہ اللہ رب العزت کی ذات بے ہمتا ہے۔ اسی سوچ کو ابراہیم (ء) نے فلاسفہ کے اپنے ایجاد کردہ طریقے یعنی ”حجت الزامی“ کے ذریعے ڈنکے کی چوٹ مسترد کر دیا۔ اس طرح فانی اور بے ثبات اشیا نا صرف عوام کے سامنے مبرہن ہوئیں بلکہ فلاسفہ کے ایجاد کردہ کائنات کے متعلق ابدیت کے نظریے کے غبارے سے بھی ہوا نکل گئی۔

دور جدید میں سائنسی انکشافات نے آفاق ’افلاک اور انفس میں جاری تغیر و تبدل کے عمل کو اس طرح آشکارا کیا کہ اس اصول کو سمجھنے میں نا صرف آسانیاں پیدا ہو گئیں بلکہ اسے کائنات کے ہمہ جہت ارتقا میں ایک مرکزی اصول کے طور پر متعارف کرا دیا۔ افلاک کے ارتقائی عمل کو سمجھنے کے لئے نظریہ بگ بینگ کو پیش کیا گیا، جو در اصل اصول تغیر پذیری ہی کی سائنسی شکل ہے۔ یہ نظریہ در اصل کائنات کی ابتدا کو ایک ”مرکز گریز دھماکے“ سے تعبیر کرتا ہے، جس کے ساتھ ہی کائنات کے عناصر ترکیبی مختلف عوامل کے تحت وقوع پذیر ہونا شروع ہوئے۔ ان عوامل کے تحت کائنات کی جو سب سے نمایاں چیز وجود میں آئی، وہ ستارہ تھا جس کے ارتقا میں لاکھوں برس کا عرصہ صرف ہوا۔ مختلف گیسوں کے تعامل سے بننے والا ستارہ، اصول تغیر پذیری کی ایک اعلی مثال ہونے کے ساتھ ساتھ اس اصول کی سست رفتاری کو بھی ظاہر کرتا ہے۔

مختلف گیسوں کے باہم ملنے سے ستارے کا بننا، اس کا جوان ہو کر حرارت اور روشنی بکھیرنے کے قابل ہونا اور اس کا اندرونی مواد اختتام پذیر ہو کر ”سرخ دیو۔ Red Giant“ صورت اختیار کر لینا، اصول تغیر پذیری کے اصول کو واضح کرتا ہے۔ ستارے کے بچے کھچے مواد سے پھر سیاروں، سیارچوں اور کشودر گرہوں (Asteroids) کا تخلیق ہونا بھی اسی اصول کو مبرہن کرتا ہے۔

انہی عوامل نے زمین کو منصہ شہود پر آشکارا کیا۔ جب زمین کا جغرافیائی مطالعہ کر کے تجزیہ کیا جاتا ہے تو یہاں پر بھی اسی اصول کو مرکزی اہمیت حاصل ہے۔ مختلف بر اعظم جو آج بالکل جدا گانہ حیثیت میں موجود ہیں، ابتدا میں در اصل ایک ہی عظیم بر اعظم Panacea تھے۔ سال ہا سال اسی بر اعظم سے رس رس کر ان کی کانٹ چھانٹ جاری رہی تب جا کر زمین نے وہ صورت اختیار کرلی، جو آج ہمارے سامنے موجود ہے۔ یہاں پر یہ بات قابل ذکر ہے کہ کئی ایک پہاڑ آج بھی نہایت سست رفتاری کے ساتھ اونچائی میں آگے بڑھ رہے ہیں اور آتش فشاں پھٹ پھٹ کر آج بھی زمین پر تغیر و تبدل کے عمل کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔

قرآن نے انہی واقعات کو انسان کی تفہیم کے لئے لفظ ”کن“ اور ”چھے ادوار“ کی اصطلاح سے تعبیر کیا ہے۔ جب پہاڑوں کی چٹانیں کٹ کٹ کر سنگریزوں اور ریت میں تبدیل ہو جاتی ہیں تو یہاں پر بھی یہی اصول کار فرما ہوتا ہے۔ قرآن کی رو سے یہ چٹانیں اللہ کے خوف سے ہلتی ہیں، ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتی ہیں اور چشمے ابلتی ہیں۔ نباتات بھی اسی اصول تغیر و تبدل کے تحت سر سبز و شاداب ہوتے ہیں، پھول اور پھل لاتے ہیں اور پت جھڑ میں اپنی تمام رونق کھو دیتے ہیں۔

اسی اصول کو ابن مسکویہ اور مولانا رومی نے فلسفیانہ انداز میں بیان کیا ہے۔ اس اصول کی حیاتیاتی کڑی کو ڈارون نے Origin of Species کے ذریعے اپنے نظریہ ارتقا میں بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ البتہ جس طرح دور جدید کے ماہرین نفسیات نے فرائڈ کے نفسیاتی افکار کی کھینچ تان کر کے اس کو مذہب کے ساتھ ٹکرا دیا، بالکل اسی طرح ڈارون کے نظریات کو مذہب مخالف قرار دیا گیا۔ حالاں کہ نظریہ ارتقا میں بندر سے انسان بننے کی کوئی کہانی نہیں سنائی گئی، بلکہ زمین پر کارفرما مختلف حیاتیاتی کڑیوں کو مل اکر ایک حیاتیاتی خاکہ پیش کیا گیا ہے۔ البتہ جس کلیسائی مذہب کے جوشیلے نمائندوں نے گلیلیو کو زمین کو نظام شمسی کا مرکز ماننے سے انکار پر عدالت کے کٹہرے میں پہنچا دیا تھا، اس طرح کا کوئی معاملہ ڈارون کے ساتھ نہیں کیا جا سکا۔

تاہم جہاں تک حیات انسانی میں کارفرما تغیر و تبدل کا تعلق ہے، تو وہ یہ انسان کے رحم مادر میں پہنچنے سے بہت پہلے شروع ہوتا ہے۔ قرآن میں اس کی بہترین تصویر کشی کی گئی ہے :

وہ تمہیں بخوبی جانتا ہے، جب کہ اس نے تمہیں زمین سے پیدا کیا اور جب کہ تم اپنی ماؤں کے پیٹ میں تھے۔ (النجم : 32 )

تبدیلی کا یہ عمل نو مہینے تک ماں کے پیٹ میں جاری رہتا ہے اور انسان تخلیق کے مختلف ادوار سے گزر کر دنیا میں آنکھ کھولتا ہے۔ مہد سے لحد تک بھی یہ عمل جاری و ساری رہتا ہے اور انسان بچپن سے لڑکپن، لڑکپن سے جوانی، جوانی سے ادھیڑ عمر اور پھر ”ارذل العمر“ کو پہنچ جاتا ہے۔ اس طرح انسان بے چارگی کی پہلی حالت کو لوٹ جاتا ہے۔ اس سارے عمل کو بھی قرآن نے مختلف پیرایوں میں بیان کیا ہے۔ تغیر پذیری کے عمل میں موجود سائنسی عوامل کی طرف قرآن نے معتد بہ اشارے کیے ہیں اور انسان کے ان ادوار سے گزرنے کے معاشرتی، سماجی اور اخلاقی پہلووں کو بھی قرآن نے اجاگر کیا ہے۔

حیات انسانی کے معاشرتی اور سیاسی دائروں میں بھی تبدیلی کا یہ عمل مسلسل جاری رہتا ہے۔ اس طرح نا صرف انسانی معاشرہ ترقی کرتا رہتا ہے بلکہ میدان سیاست بھی گرم رہتا ہے۔ ابن خلدون اور شاہ ولی اللہ دہلوی نے معاشرتی و سیاسی میدانوں میں جاری تغیر کے اس عمل کو اپنی فکر کا موضوع بنایا ہے۔ تاہم شاہ ولی اللہ کا زیادہ زور معاشرتی پہلووں پر رہا ہے۔ معاشرہ کس طرح وقوع پذیر ہوتا ہے، کس طرح بلوغ کو پہنچتا ہے، کس طرح انسانی زندگی کی تنظیم کرتا ہے اور کس طرح سیاسی نظام اس کو ایک ڈھال فراہم کرتا ہے، ان درجات کو شاہ صاحب نے چار ارتفاقات سے تعبیر کیا ہے۔

ترقی اور تنزل کی کہانی کو شاہ صاحب نے مغلیہ سلطنت کے زوال پذیر ہونے کے زمانے کے آس پاس لایا ہے جہاں اب صرف ”طاؤس اور رباب“ ہی باقی رہا تھا اور ”شہنشاہ عالم“ کی سلطنت صرف ”از دلی تا پالم“ ہی برقرار تھی! ابن خلدون نے سلطنتوں کے ابھرنے اور بکھرنے کو اپنی ”کتاب الابار“ کا موضوع خاص بنایا ہے اور اس کے اصولوں کو ”مقدمہ“ میں واضح کیا ہے۔ انہوں نے مختلف سلطنتوں کے بناو اور بگاڑ کے عمل میں کار فرما اصولوں کی توضیح و تشریح کی ہے اور ”شمشیر و سناں“ کی ضرب کاری کے لئے درکار ”عصبیت“ پر خوب روشنی ڈالی ہے۔ در اصل ابن خلدون کے زمانے تک بلکہ ان کی آنکھوں کے سامنے مختلف سلطنتیں ابھری تھیں اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کر بکھر چکی تھیں۔ ایڈورڈ گبن جو شاہ ولی اللہ دہلوی کے (تقریباً ) ہم عصر تھے، نے بھی The Decline and Fall of the Roman Empire میں سلطنت روماں کے کمال و زوال کے وجوہ کو قلم بند کر کے واضح کیا ہے کہ سلطنتیں کتنی ہی عظیم کیوں نہ ہوں، اور سلاطین کتنے ہی با جبروت، ان کے بننے اور زور پکڑنے کے عمل میں زوال کے جراثیم در اصل شامل ہوتے ہیں، جو آگے چل کر ان کو لے ڈوبتے ہیں۔

قرآن نے نا صرف مختلف قوموں کے عروج و زوال کو بڑے اعجاز کے ساتھ بیان کیا ہے بلکہ تہذیبوں کے ادل بدل کو بھی ایک خاص پیرائے میں واضح کیا ہے۔ جہاں ایک طرف ان اقوام کا ذکر کیا گیا ہے جو صناعی میں لا ثانی ہونے کے با وجود اپنی تباہی کو ایک لحظہ موخر نہ کر سکے تو دوسری طرف اللہ تعالٰی کی پیغام رسانی پر مامور قوم، بنی اسرائیل کی ”در بدری“ کو بھی نہایت وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ اس اصول کو قرآن نے ایک سے زائد جگہ پر الفاظ کے تھوڑے سے فرق کے ساتھ بیان کیا ہے :

اگر اللہ تعالٰی بعض لوگوں کو بعض سے دفع نہ کرتا تو زمین میں فساد پھیل جاتا۔ (البقرہ: 251 )

اس اصول کی ہمہ گیریت ہی ہے کہ سلطنت برطانیہ جس پر کسی دور میں ”سورج غروب نہیں ہوتا تھا“ آج آئرلینڈ اور اسکاٹ لینڈ کو بھی کھو چکی ہے۔ لیکن ٹمٹماتے سورج کی روشنی میں اس سلطنت نے مشرق وسطٰی میں ایک نا جائز ریاست کو قائم کیا۔ لیکن جہاں دو ہزار سال تک ”در بدری“ جھیلتے ہوئے بنی اسرائیل نے اصول تغیر پذیری کو نہیں بھلایا، وہیں صرف ستر برس کی مختصر مدت کے اندر درجن بھر عرب مملکتوں نے اسرائیل کو سینے سے لگانا شروع کر دیا۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے، فلسطین میں آباد ہونے والے یا صحیح تر الفاظ میں فلسطین پر قابض ہونے والے یہودی کئی ایک تحقیقات کے مطابق نسلا ”یہودی ہیں ہی نہیں۔ یعنی یہودیوں نے یہاں پر صیہونیت (Zionism) کو نسلی امتیاز و افتخار پر ترجیح دی۔ کاش عرب ریاستیں بنو اسرائیل کے بارے میں قرآنی بیانیے کو مد نظر رکھتے ہوئے اسرائیل کو گلے لگانے سے احتراز کرتے۔ قرآن نے واشگاف الفاظ میں واضح کیا ہے :

ان پر ہر جگہ ذلت کی مار پڑی، الا یہ کہ اللہ تعالٰی کی یا لوگوں کی پناہ میں ہوں، یہ غضب الہی کے مستحق ہو گئے۔ (آل عمران: 112 )

یہ بات تاریخی طور پر ثابت شدہ ہے کہ بخت نصر کی یلغار ( 586 ق۔ م) کے بعد بنی اسرائیل بابل کی اسیری سے سائرس کی مہربانی ( 520 ق۔ م۔ ) سے پھر ارض مقدس میں واپس لوٹے اور اب دور جدید میں وہ امریکا بہادر کی پشت پناہی میں فلسطینیوں پر ظلم و بربریت کی داستان روا رکھے ہوئے ہیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ عرب حکمراں تو اب دنیا کی واحد مشرک ریاست سے بھی پینگیں بڑھا رہے ہیں۔ اس طرح یہ لوگ قرآن کے اس اعلان کی واضح خلاف ورزی کے مرتکب ہو رہے ہیں، جس میں یہود اور ہنود (مشرکوں ) کو مسلمانوں کی عداوت میں بڑا شدید قرار دیا گیا ہے۔ بایں الفاظ قرآن:

یقیناً آپ ایمان والوں کا سب سے زیادہ دشمن یہودیوں اور مشرکوں کو پائیں گے۔ (المآئدہ: 82 )

دوسری طرف ”مملکت خداداد“ ہنود کے سامنے سینہ سپر تو ہے لیکن تقریباً ان ہی ستر برسوں میں اس کا کشمیر کے تئیں اپنا سیاسی بیانیہ تسلسل کے بجائے الٹ پھیر کا شکار رہا۔ ہنود نے اسی عرصے میں اپنے ملک کو سیکولر ازم کے پھندے سے باہر نکال کر ”ہندو راشٹر“ بنانے کی بنیادیں مضبوط کر دیں۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ اصول تغیر و تبدل کو مد نظر رکھتے ہوئے ”مملکت خداداد“ اپنے سیاسی بیانیے کو صبر و ثبات کے ساتھ جاری رکھے، کیوں کہ ”مملکت خداداد“ کے فکری رہنما نے فرمایا ہے :

سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں
ثبات فقط اک تغیر کو ہے زمانے میں

یہاں پر ”مملکت خداداد“ کو اپنے آہنی دوست (چائنا) سے بھی سبق لینا چاہیے، جو صدیوں کے انتظار کے باوجود ہانگ کانگ اور تائیوان پر اپنے حق سے دست بردار نہیں ہوا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).