تناور درخت کی کھوکھلی جڑیں


درویش نے خود جب اس دور میں بدیسی تاریخ میں پناہ لی تو ہماری کیا مجال کہ استاذ کے آگے اپنا پاؤں رکھیں۔ ہم بھی اسی دور کی تاریخ کا جائزہ لیتے ہیں۔ فرانسس فوکو یاما کسی تعارف کے محتاج نہیں، ان کی شہرہ آفاق کتاب ”تاریخ کا اختتام اور آخری انسان“ (یہاں تاریخ سے واقعات کا تسلسل مراد نہیں بلکہ اس کا مطلب تہذیب کا شعوری ارتقا ہے، جو فوکو یاما کے مطابق ’مغربی آزاد خیال جمہوریت‘ کی شکل میں اپنے منتہی کو پہنچ گیا ہے ) میں ہم طالب علموں کے لیے سیکھنے کو بہت کچھ ہے۔

فوکو یاما نے جبر کی دو مختلف اقسام بیان کی ہیں : انیسویں صدی کی روایتی ”آمرانہ حکومتیں“ اور بیسویں صدی کی ”مطلق العنان ریاستیں“ ۔ دونوں میں اہم فرق یہ ہے کہ اول الذکر وسائل کی تقسیم، مذاہب کی روایات کو اپنی جگہ پر ہی رہنے دیتے تھے لیکن آخر الذکر ریاستوں کا بیانیہ معاشرے پر ہمہ گیر تسلط چاہتا تھا۔ وہ معاشرے کی ہر جہت پر پہرے بٹھانا چاہتا ہے، وہ ایک ہی بیانیے کو ’سالمیت‘ کا ضامن قرار دیتا ہے اور ہر متفرق آواز کو دبانا چاہتا ہے، اس طرح اصلاحات کے لیے نا قابل عمل ہو جاتا ہے۔

لکھتے ہیں:
A totalitarian state, in contrast to a merely authoritarian one, was able to control its underlying society so ruthlessly that it was fundamentally invulnerable to change or reform.

مطلق العنانیت ”ٹوٹلیٹیرین“ کا تصور، دوسری جنگ عظیم کے بعد ان روایتی آمرانہ حکومتوں سے امتیاز کے لیے آیا جس کے بانی ’سٹالن‘ اور ’ہٹلر‘ تھے۔ دونوں کا مطمح نظر معاشرے کی ہر فکر پر ایک ہی ریاستی بیانیے کو مسلط کرنا اور ہر مخالف آواز کو غدار اور ریاست کی بقا کا مخالف قرار دینا تھا۔

Totalitarianism was a concept developed in West after WW II to describe the Soviet Union and Nazi Germany, which was tyrannies of very different character from the traditional authoritarianism of 19th century. Hitler and Stalin redefined the meaning of strong state by the very audacity of their social and political agendas.

ہٹلر نے تو ء1945 میں اپنی جان لے کر فاشسٹ ریاست کی بنیاد ختم کر دی، لیکن 1922ء میں قام کی گئی ولاد میر لینن کی متحدہ سوشلسٹ سوویت ریاست، ایک ٹوٹلیٹیرین ریاست کی تعریف پر پوری اترتی تھی۔

بالشویک نے اپنا اقتدار 1922ء میں مستحکم کیا۔ انقلاب کے مخالفین خاص کر ’کلاک‘ (ایسے کسان جو 8 ایکڑ سے اوپر کے زمیں کے مالک تھے ) پر ریاستی تشدد تو ’لینن‘ کے دور سے ہی شروع ہو گیا تھا، لیکن اس کے جانشین ’سٹالن‘ کے دور میں اپنے عروج کو پہنچ گیا۔

ٹوٹلیٹیرین ریاست میں سٹالن کا پہلا پانچ سالہ منصوبہ جو کہ پارٹی نے 1928ء کو منظور کیا، (صنعتی انقلاب اور اجتماعی زراعت) نے صرف معیشت کی راہ نہیں متعین کی بلکہ ایک ریاستی بیانیہ اور ریاستی فکر بھی تشکیل دی جس کے خلاف آواز اٹھانا یا تنقید کرنا قابل جرم ٹھہرا۔ صنعتی معیشت میں ترقی اور زراعت میں بری طرح نا کامی ہی تھی، جس کی وجہ سے 1932ء سے 1933ء میں قحط آ گیا۔ سوال اہم یہ ہے کہ اتنی طاقتور فکر جو معاشرے کی ہر جہت پر تسلط رکھتی تھی، خزاں کے پتوں کی طرح کیوں بکھر گئی؟ اس کی سب سے اہم وجہ ”معیشت میں نا کامی“ تھی۔ اپنے قیام یعنی 1922 ء سے لے کر 1975 ء تک سوویت یونین کی معاشی نمو بے مثال تھی، جی این پی کی شرح 4.4 فی صد سے بڑھ کر 6.3 ہو گئی، اور ’خرشیف‘ نے دھمکی دی کہ وہ امریکا کو دفن کر دے گا۔

لیکن پھر یہ اضافے کی شرح کم ہونا شروع ہوئی، یہاں تک کہ ختم ہو گئی اور 1980ء سے دفاعی اخراجات میں دو سے تین فی صد اضافے کا مطلب ہے کہ سویلین معیشت بری طرح متاثر ہوئی۔ یہاں تک کہ 1985ء میں گوربا چوف کو کہنا پڑا ”سوویت یونین بحران میں نہیں بلکہ بحران کے آغاز میں ہے۔“ لیکن معیشت کی نا کامی تو ’علامات‘ کا اظہار تھا۔ بنیادی ’بیماری‘ کیا تھی؟ فوکو یاما کے مطابق اصل مسئلہ ’ٹوٹیلیٹیرین‘ ریاست کا ’فکر کو قابو کرنے میں نا کامی تھا‘ ۔

اس نا کامی کی پہلی بازگشت، آپ سٹالن کی موت کے بعد 1956 ء میں ’خرشیف کی خفیہ تقریر‘ میں سن سکتے ہیں، جس میں وہ ا اپنے پیش رو کے مظالم کی داستان بیان کرتا ہے۔ جس میں 1936 ء سے 1938ء تک ظلم کی داستان جس میں ’گلاگ جیل خانے، نسلی اقلیتوں کی نسل کشی اور کمیونسٹ پارٹی اور ریڈ آرمی کی‘ صفائی ’شامل ہے۔ مورخین کے مطابق بارہ لاکھ لوگ، اس‘ صفائی ’میں کھیت رہے۔

فوکو یاما اس فکری انقلاب کو بیان کرتے ہیں کہ عوام کا اعتماد اور یقین ختم ہو گیا اور وہ جان گئے کہ ان سے جھوٹ بولا گیا اور ’ریاست ہو گی ماں کی جیسی‘ مقتدر طبقے کا پروپیگنڈا تھا۔ ’غیر طبقاتی معاشرے‘ کا وعدہ جو کیا گیا تھا اس نے صرف ایک اور ’نیا طاقتور طبقہ‘ ہی پیدا کیا، جس میں زیادہ ’منافقت‘ اور ’دوغلا پن‘ تھا۔

Many (Soviet People) understood، despite years of government propaganda، that their government was lying to them۔ People remained enormously angry at the personal suffering they had endured during Stalinism۔ Virtually every family had lost members or friends during ’collectivization‘ ، or Great Terror of 1930 s۔ People understood as well that a new kind of class system had arisen in this supposedly classless society، ۔ as corrupt and privileged as anyone under the old regime، but far more hypocritical۔

لیکن جبر کا مسئلہ یہ ہے کہ اس کا استعمال دیرپا نہیں ہوتا، وہ ریاستی تشدد جو پہلے ریاستی بیانیے کے مخالفوں اور اقلیتوں پر ہوتا تھا وقت کے ساتھ اس کا دائرہ تنگ ہوتا گیا۔ یہاں تک کہ اپنے پرائے کی تمیز نہ رہی، اور اشرافیہ خود خوف اور دہشت کے ماحول کا شکار ہو گئی۔ اسی وجہ سے سٹالن کی موت کے بعد خرشیف کو بہر حال گلاگ کے جیل خانے ختم کرنے پڑے اور معاشرے کو ’سٹالن کے اثر سے پاک‘ کرنے کی مہم شروع کرنی پڑی۔

جیسے ہی جبر کم ہوا، طاقت کا توازن ’ریاست‘ سے ’فرد‘ کے حق میں جھک گیا اور ریاست اپنا ’فکری تسلط‘ برقرار نہ رکھ سکی۔ یہی وجہ ہے کہ 1985 ء میں گوربا چوف کو ’گلیسنوٹ‘ اور ’پریسٹرائیکا‘ (یعنی شفاف، سیاسی اور معاشی تشکیل نو) کی پالیسی اپنانا پڑی۔ یہ پالیسی اصل میں اس بات کا اعلان تھا کہ تناور درخت کی جڑیں کھوکھلی ہو چکیں اور اپنا وزن نہیں سہار سکتیں۔ باقی تاریخ ہے۔

1989ء کا سال اس ”مطلق العنانیت“ کے لیے قاتل ثابت ہوا۔ فروری میں افغانستان سے روسی انخلا، مارچ میں روس میں ’ڈیپٹیز کے انتخابات‘ ، جون میں چین میں ’ٹائنامن سکوائر‘ کا حادثہ، جولائی میں ’دیوار برلن‘ کا انہدام۔ جنوری 1990ء میں سوویت این میں آرٹیکل 6۔ جو کمیونسٹ پارٹی کے قائدانہ کردار کی ضمانت دیتا تھا، کی منسوخی۔ جون 1991ء میں ’پہلے صدارتی انتخابات‘ میں بورس یلسن کی کامیابی، اگست میں کمیونسٹ پارٹی کی طرف سے ’نا کام مارشل لا کی کوشش‘ اور دسمبر میں ’بیلوویزا اکارڈ‘ جس میں ”آزاد ریاستوں کی کامن ویلتھ“ کا قیام تھا، اس فکر کے لیے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوا۔

بالآخر 25 دسمبر 1991ء میں گورباچوف نے استعفی دیا اور اختیارات رشین فیڈریشن کے پہلے صدر بورس یلسن کو سونپ دیے۔ اسی شام 7 بج کر 32 منٹ پہ آخری مرتبہ سوویت جھنڈا اتارا گیا۔ 15 نئی ریاستیں وجود میں آئیں اور سرد جنگ کا خاتمہ ہو گیا۔ صرف تین سال کے مختصر عرصے میں آہنی پردہ تار تار ہو چکا تھا، مشرقی یورپ ہو یا لاطینی امریکا، یہ فکر ہر جگہ پس پا تھی۔

وطن عزیز کی صورت احوال پر اس کا انطباق میں آپ کی فراست پر چھوڑتا ہوں۔ خورشید ندیم کہا کرتے ہیں کہ ایسے نتیجے کو الفاظ میں ڈھالنا جو سیاق و سباق سے قاری پر واضح ہوں، پڑھنے والی کی توہین ہے اور میں کسی ایسی بے ادبی کا نہیں سوچ سکتا۔ جاننا چاہیے اور سمجھنا چاہیے کہ تاریخ کا تازیانہ سب کے لیے ایک جیسا ہوتا ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا خدا کا طریقہ ’ان‘ کے لیے کچھ اور ہو، ’ہمارے‘ لیے کچھ۔ اس کا قانون بے لاگ ہے۔ جبر اور ظلم کے لیے اس کی کسوٹی ایک ہی ہے۔ یہ بھی سیکھنا چاہیے کی انسانی فکر کو تابع رکھنے کے لیے جبر کا وقتی حربہ تو استعمال کیا جاسکتا ہے، لیکن وہ دیرپا نہیں ہوتا۔ جس طرح جبر کی کمزوری یہ ہے کہ اسے دیر تک مسلط نہیں کیا جا سکتا، اسی طرح انسانی فکر میں حریت کی صلاحیت یہ ہے کہ ایک دفعہ جڑ پکڑ لے، تو اس کی نشو و نما کو روکا نہیں جا سکتا۔ کیا ہم اکیسویں صدی میں تاریخ کے صحیح سمت میں کھڑے ہیں؟ اس کا جواب میں آپ پر چھوڑتا ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).