میرا پلاٹ کب ملے گا: ’عوامی خدمت گار‘ مراعات کی دوڑ میں کیسے شامل ہوئے؟


ابھی سابق فوجی ترجمان لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ عاصم سلیم باجوہ کے اثاثوں اور فوجی افسران کو حاصل مراعات کی بحث تھمی ہی نہیں تھی کہ سپریم کورٹ کے ایک سینیئر جج کے ’پلاٹ پالیسی‘ کے بارے میں دیے گئے فیصلے میں ’اختلافی نوٹ‘ نے ’عوامی خدمت گاروں‘ کو ملنے والی مراعات سے متعلق نئی بحث چھیڑ دی ہے۔

سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے حال ہی میں سپریم کورٹ کے ایک عدالتی فیصلے میں اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا ہے کہ نہ ملکی آئین اور نہ کسی قانون میں ججوں اور افواج پاکستان کے افسران کو پلاٹ جیسی مراعات کی اجازت دی گئی ہے۔

اس سے قبل افواج پاکستان کے افسران کی دوران سروس اور ریٹائرمنٹ کے بعد ملنے والی مراعات کا ذکر تو ہوتا رہا مگر سول سرونٹس جو عوامی خدمت گار کہلانا بھی پسند کرتے ہیں وہ بھی اس دوڑ میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔

بھلے قانون انھیں عوام کے ٹیکس سے مراعات لینے کی اجازت نہ دے مگر ان کا ’گریڈ‘ اور ’پلاٹی رسم‘ انھیں تمام محرومیوں سے بچائے رکھتی ہے۔

پاکستان کی سول بیوروکریسی کو حاصل مراعات کے متعلق جاننے کے لیے بی بی سی نے متعدد حاضر سروس اور ریٹائرڈ افسران سے بات کی ہے۔ چند افسران نے بیوروکریسی کو دی جانے والی مراعات کی کمی کا ذکر کیا ہے تو کچھ نے اسے غریب عوام پہ اضافی بوجھ سے بھی تشبیہ دی ہے۔

ان افسران کے مطابق سروس کے دوران ہی سول بیوروکریسی کو لامحدود مراعات ملنا شروع ہوجاتی ہیں اور یہ سلسلہ ان کی ریٹائرمنٹ تک چلتا ہے بلکہ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی سستے داموں رہائشی پلاٹس اور دیگر مراعات کا سلسلہ کسی نہ کسی صورت جاری رہتا ہے۔

سرکاری عہدیداروں کے مطابق ایک سرکاری افسرگریڈ 22 تک پہنچتے پہنچتے اسلام آباد میں کروڑوں روپے کے ایک کنال کے دو رہائشی پلاٹس لینے کا حق دار ہوجاتا ہے، جس کے بدلے اسے معمولی رقم ادا کرنی ہوتی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

ہم ڈی ایچ اے والے

پاکستان میں فوجی افسران کو کیا کیا مراعات ملتی ہیں؟

پاکستانی فوج کے لیے مختص زمین سِول افسران میں کیوں تقسیم کی گئی؟

جتنا بڑا افسر اتنا بڑا پلاٹ

ایک ریٹائرڈ وفاقی سیکریٹری نے بی بی سی کو بتایا کہ جو بھی افسر گریڈ 22 میں ریٹائرڈ ہوتا ہے اسے فیڈرل گورنمنٹ ایمپلائز ہاؤسنگ اتھارٹی کی طرف سے ایک کنال کا ایک رہائشی پلاٹ دیا جاتا ہے۔

انھوں نے اس کا طریقہ کار سمجھاتے ہوئے بتایا کہ اس پلاٹ کے حصول کے لیے ایک خاص رقم کی ادائیگی بھی کی جاتی ہے جو یقیناً مارکیٹ ریٹ سے بہت کم ہوتی ہے۔

اپنی مراعات کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ انھیں تقریباً دو لاکھ روپے تک پینشن ملتی ہے، جس میں ان کے طبی اور دیگر اخراجات بھی شامل ہوتے ہیں۔

اس بات کی تصدیق گریڈ 22 سے ہی ریٹائرڈ ہونے والے سابق وفاقی سیکریٹری داخلہ تسنیم نورانی نے کی۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ہر بیوروکریٹ جو گریڈ 22 سے ریٹائرڈ ہو اسے ایک کنال کا رہائشی پلاٹ فیڈرل ایمپلائز ہاؤسنگ فاؤنڈیشن کی طرف سے جبکہ دوسرا گریڈ 22 میں پہنچنے کے انعام کے طور پر ملتا ہے۔

ان مراعات کی وضاحت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ پلاٹ بہت رعایتی قیمت پہ مل جاتا ہے مثلاً اگر ایک پلاٹ ایک کروڑ روپے کا ہے تو گریڈ 22 والے کو وہ دس سے پندرہ لاکھ میں مل جاتا ہے۔

تسنیم نورانی کے مطابق ‘پہلے اضافی پلاٹ صرف گریڈ 22 کے فیڈرل سیکریٹری کے لیے ہی تھا لیکن اب دیگر افسران کو بھی مل جاتا ہے اور وہ بھی ڈویلپڈ سیکٹرز میں۔ اب تو وہ سیکٹر بھی ختم ہوگئے ہیں اب پتہ نہیں انڈر ڈویلپڈ سیکٹرز میں ملتا ہوگا شاید۔’

ان کا کہنا ہے کہ چیف سیکریٹری کو تاحیات ایک گاڑی اور ڈرائیور اور سکیورٹی کی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔

فائل فوٹو

Twitter/@ShehryarAfridi1
وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار کی سربراہی میں پنجاب کابینہ نے 30 اپریل کے اجلاس میں ان سول سرکاری افسران و ملازمین کو اربوں روپے مالیت کی کم و بیش پونے آٹھ سو ایکڑ قطعہ اراضی کی الاٹمنٹ کی منظوری دی ہے (فائل فوٹو)
فوج

’اے ون لینڈز‘ کے نام سے الاٹ ہونے والی یہ زمین کسی بھی صورت میں فوج کی تربیت یا آپریشنل مقاصد کے علاوہ کسی اور مقصد کے لیے استعمال نہیں کی جا سکتی

’فوج کی طرز پر پلاٹ کی تقسیم‘

سابق وفاقی سیکریٹری تسنیم نورانی کا کہنا ہے سول بیوروکریسی کو اضافی پلاٹ دینے کی رسم فوج کی طرز پہ چند سال قبل شروع ہوئی۔

اس کے پس منظر سے متعلق بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ سول سرونٹس میں یہ بحث زور پکڑ گئی کہ اگر فوج کے سینیئر افسران کو پلاٹ مل سکتے ہیں تو پھر وفاقی سیکریٹری جس کی خدمات بھی ملک کے لیے کئی دہائیوں پر محیط ہوتی ہیں انھیں بھی یہ مراعات ملنی چائیں۔

ڈائریکٹر جنرل فیڈرل گورنمنٹ ایمپلائزہاؤسنگ اتھارٹی وسیم باجوہ نے گریڈ کے مطابق پلاٹ کی تقسیم سے متعلق پالیسی کی تصدیق کرتے ہوئے بی بی سی کو بتایا کہ گریڈ 22 کے افسران کے لیے اضافی پلاٹ کی منظوری 2007 میں اس وقت کے وزیر اعظم شوکت عزیز نے دی تھی۔

اب بھی یہ پیکج وزیر اعظم پیکج کے نام سے ہی جانا جاتا ہے۔

واضح رہے کہ دو پلاٹ دیے جانے کے حوالے سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا ہے کہ فاؤنڈیشن، حکومت یا حکومت کے ماتحت کوئی ادارہ دوسرا پلاٹ دینے کا مجاز نہیں۔ انھوں نے مزید لکھا کہ بغیر قانونی منظوری کے وزیر اعظم سمیت کوئی بھی اختیار نہیں رکھتا کہ وہ زمین، گھر یا اپارٹمنٹ کسی کو دے سکے۔

چھوٹا افسر چھوٹا پلاٹ

فیڈرل گورنمنٹ ایمپلائزہاؤسنگ اتھارٹی کے وسیم باجوہ نے پلاٹ کی تقسیم کی پالیسی کی مزید وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ گریڈ 18 اور 19 کے افسران کو 12 مرلے کا رہائشی پلاٹ دیا جاتا ہے جبکہ گریڈ 16 اور17 والوں کو دس مرلے کا پلاٹ ملتا ہے۔

اسی طرح گریڈ ایک سے 16 تک والے ملازمین کو بھی اسی حساب سے چھوٹے پلاٹ دیے جاتے ہیں۔

خیال رہے کہ جسٹس قاضی عیسیٰ نے اپنے نوٹ میں مزید لکھا کہ فاؤنڈیشن یا حکومت یا حکومت کے ماتحت کوئی بھی ادارہ جب کوئی رہائشی سکیم متعارف کروائے تو جونیئر سٹاف اور کم آمدن والے ملازمین کے لیے بھی سستے اور چھوٹے پلاٹس مختص کرے تاکہ ان کی رہائشی ضروریات بھی پوری ہوں کیونکہ آئین سینیئر اور جونیئر افسران کی تفریق نہیں کرتا۔

وسیم باجوہ کے مطابق سرکاری ملازمین سے اتنی ہی رقم وصول کی جاتی ہے جتنی رقم پلاٹس کی ڈویلمنٹ پہ خرچ ہوتی ہے، اس کے علاوہ فاؤنڈیشن کے معمولی سے سروس چارجز بھی ہوتے ہیں جو ہم ملازمین سے وصول کرتے ہیں۔

ان کے مطابق مارکیٹ ویلیو سے ہمارا کوئی لینا دینا نہیں ہوتا کیونکہ فاؤنڈیشن ’نو پرافٹ نو لاس‘ یعنی نفع اور نقصان کے بغیر ہی چلتی ہے۔

انھوں نے مزید بتایا کہ اگر رہائشی سکیم سرکاری زمین کی بجائے پرائیویٹ زمین پہ بنائی جائے تو پھر زمین خریدنے کے چارجز، ڈویلمنٹ چارجز اور سروس چارجز لیے جاتے ہیں۔

وسیم باجوہ کے مطابق فاؤنڈیشن کے کل ممبران کی تعداد دو لاکھ کے قریب ہے، جس میں صرف 22 ہزار ملازمین کو پلاٹس دیے جا سکے ہیں۔

ان کے مطابق پہلے ہمیں سی ڈی اے اور باقی ڈویلپرز اپنی سکیموں میں سے دس سے 15 فی صد تک پلاٹ دے دیتے تھے اور ہم ملازمین کو دے دیتے تھے لیکن بدقسمتی سے سی ڈی اے نے گذشتہ 15، 20 برس کے دوران کوئی سکیم شروع ہی نہیں کی۔

ان کا کہنا ہے کہ ’ہم نے ایک سکیم شروع کی ہے جس پہ سپریم کورٹ کی طرف سے ہمارے حق میں فیصلہ آگیا ہے اب اسے ڈویلپ کرکے ملازمین کو ان کا حق دیں گے جبکہ دوسری طرف پنجاب گورنمنٹ اور خیبر پختونخوا حکومتوں سے پیسوں کے عوض زمینیں لے رہے ہیں تا کہ باقی ممبران کو بھی پلاٹس دیے جاسکیں’۔

’پلاٹ کی تقسیم ایک رسم بن چکی ہے‘

گریڈ 21 سے ریٹائرمنٹ لینے والے ایک افسر میاں اعجاز احمد نے بی بی سی کو بتایا کہ کسی قانون میں نہیں لکھا کہ سرکاری ملازمین کو ریٹائرمنٹ کے وقت پلاٹ ملے گا لیکن یہ ایک رسم بن چکی ہے اور بس چلتی آرہی ہے۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ‘پلاٹ دینے کا کوئی ہارڈ اینڈ فاسٹ رول نہیں ہے بس جب کوئی نئی سکیم آتی ہے تو اس وقت جو بھی پلاٹ کے لیے درخواست دیتا ہے اسے مل جاتا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ہاؤسنگ فاؤنڈیشن کی جو سکیمیں سرکاری زمین پہ بنی ہیں وہاں پلاٹ محض چند لاکھ کے عوض مل جاتے تھے، بس ڈویلپمنٹ چارجز دینے پڑتے تھے۔

انھوں نے کہا کہ شاید اب فاؤنڈیشن کے پاس سرکاری زمینیں ختم ہوگئی ہیں اس لیے پرائیویٹ زمینیں خریدنی پڑ رہی ہیں جس کے لیے سرکاری ملازمین کو اب اضافی پیسے دینا پڑیں گے۔

پلاٹ کہانی کتنی پرانی ہے؟

تسنیم نورانی کے مطابق 1989سے پہلے بھی سرکاری افسران کو پلاٹ ملتے رہے ہیں اور وہ کئی ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کو جانتے ہیں جنھیں اس وقت بھی پلاٹ ملے۔ تاہم وہ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ اس وقت ان پلاٹس کی تقسیم کا کوئی خاص طریقہ کار طے نہیں تھا۔

انھوں نے بتایا کہ جو ڈویلپمنٹ اتھارٹیز تھیں ان میں سرکاری ملازمین کا کوٹہ ہوتا تھا جیسے ایل ڈی اے وغیرہ ان میں ملازمین کو پلاٹس ملتے تھے اور کئی لوگوں کو لاہور کے مختلف علاقوں بشمول گلبرگ، جمال شاہ اور دیگر علاقوں میں پلاٹس ملے بھی۔

‘کوئی منظم سسٹم نہیں تھا تعلق کی بنیاد پہ بھی سسٹم چل رہا تھا’۔

اب تک کہاں کہاں پلاٹس دیے گئے ہیں؟

فیز 01 سکیم کے تحت 1989میں سی ڈی اے نے ہاؤسنگ فاؤنڈیشن کو اسلام آباد کے سیکٹر آئی 08 اور جی 11 میں کل 2955 پلاٹس الاٹ کیے جو اس نے سینیئر یارٹی کے حساب سے گریڈ ایک سے گریڈ 22 کے سرکاری ملازمین میں تقسیم کردیے۔

1992 میں فیز2 سکیم کے تحت سی ڈی اے نے فاؤنڈیشن کو اسلام آباد کے سیکٹر ای 12 اور ڈی 12 میں کل 2886 پلاٹس الاٹ کیے جو اس نے سینیئریارٹی کے لحاظ سے ملازمین میں تقسیم کردیے۔

اسی طرح 1996 میں فیز3 سکیم کے تحت سی ڈی اے نے فاؤنڈیشن کو اسلام آباد کے سیکٹر جی 13 اور جی 14 میں کل 7446 پلاٹس الاٹ کیے جو ملازمین میں تقسیم کردیے گئے۔

1996 میں ہی وزیر اعظم سپیشل ایلوکیشن سکیم کے تحت سی ڈی اے کی طرف سے ہاؤسنگ فاؤنڈیشن کوسیکٹر ای 12، ڈی 12، آئی 8،جی 10 اورجی 11 میں کل 481 پلاٹس الاٹ کیے گئے جو اس نے وزیر اعظم آفس کی سفارشات پر سول بیوروکریٹس کو الاٹ کردیے۔

سال 2004 میں فیز 4 سکیم کے تحت سی ڈی اے نے فاؤنڈیشن کو اسلام آباد کے سیکٹر جی 14 میں کل 5486 پلاٹس الاٹ کیے اور 2005 میں فاؤنڈیشن نے گریڈ ایک سے گریڈ 16 تک کے ملازمین کے لیے اپارٹمنٹ سکیم (فیز5) شروع کی اور نیلامی کے ذریعے 1000 اپارٹمنٹس الاٹ کیے۔

فیز6، فیز 7، فیز8، فیز 9 اور فیز 10 کی سکیمیں پر ترقیاتی کام تاحال جاری ہے جن میں کل ملا کر 28000 سے زائد ملازمین کو پلاٹس اور اپارٹمنٹس دیے جائیں گے۔

کبھی کوئی افسر مراعات کی دوڑ سے باہر بھی رہ جاتا ہے؟

گریڈ 22 سے ریٹائرمنٹ حاصل کرنے والے سابق آئی جی پنجاب خواجہ خالد فاروق کی کہانی تھوڑی مختلف ہے۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ انھیں ریٹائرڈ ہوئے دس سال کا عرصہ بیت گیا مگر ابھی تک انھیں گریڈ 22 والا اور نہ ہی ہاؤسنگ فاؤنڈیشن والا پلاٹ مل سکا ہے۔

انھوں نے کہا کہ گریڈ 22 والے کو جو اضافی پلاٹ ملتا ہے اس کے لیے وہ 30 لاکھ روپے بھی جمع کروا چکے ہیں۔

اس کے باوجود خواجہ خالد فاروق اب بھی مراعاتی پیکج ملنے کی آس لگائے ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اب شاید انھیں وہ پلاٹ مل جائے کیونکہ حال ہی میں سپریم کورٹ کا فیصلہ فاؤنڈیشن کے حق میں آیا ہے۔

مگر خواجہ خالد فاروق کے مطابق جب وہ فاؤنڈیشن سے دوسرے پلاٹ کے بارے میں پوچھتے ہیں تو انھیں بتایا جاتا ہے کہ اس کے لیے ابھی نمبر نہیں آیا۔

اپنے اختلافی نوٹ میں سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مزید لکھا ہے کہ سال 2020-21 میں پینشن کی مد میں 470 ارب روپے رکھے گئے ہیں جن میں سے 111 ارب ریٹائرڈ سول ملازمین پہ خرچ ہوں گے جبکہ باقی 359 ارب روپے مسلح افواج کے ریٹائرڈ ملازمین پہ خرچ ہوں گے۔

ان کے مطابق پینشن کی مد میں خرچ ہونے والی رقم سول گورنمنٹ کے کل اخراجات 476 ارب کے برابر پہنچ گئی ہے۔ جسٹس عیسیٰ کے مطابق پاکستان کے لوگ پینشن کی مد اتنی رقم ہر سال ادا کر رہے ہیں جب کہ ان کے اپنے لیے بہت تھوڑا بچتا ہے۔

’پینشن کے علاوہ سرکاری زمینیں لینا نمایاں طور پر غیر منصفانہ ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32508 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp