پہلوانی: جب ضیا الحق نے بھولو برادران کے انڈیا جانے پر پابندی عائد کر دی



بلکہ اکثر ایسا ہوتا کہ شام کے اوقات میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد وہاں جمع ہو جایا کرتی اور ورزش میں مصروف پہلوان نوجوانوں کو دیکھا کرتی تھی۔ ان نوجوانوں میں توجہ کا مرکز وہ زور آور پہلوان ہوا کرتے تھے جن کا تعلق مشہور بھولو پہلوان خاندان سے تھا۔

دارالصحت کو سب ’بھولو کا اکھاڑہ‘ کے نام سے جانتے تھے۔ اس اکھاڑے میں اس گھرانے کے تمام ہی پہلوان روزانہ ایک دوسرے کے ساتھ پنجہ آزمائی کرتے نظر آتے تھے۔ اس اکھاڑے کی زمین پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان نے بھولو پہلوان کے گھرانے کو عطیہ کی تھی۔

بھولو کا یہ اکھاڑہ اب بھی موجود ہے جہاں نوجوان باڈی بلڈنگ اور مختلف نوعیت کی ورزشیں کرنے آتے ہیں اور صبح سویرے کچھ کُشتیاں بھی ہوتی ہیں لیکن فرق صرف یہ ہے کہ بھولو خاندان اب یہاں موجود نہیں۔ اس خاندان کی پرانی نسل تو دنیا سے ُکوچ کر گئی جبکہ موجودہ نوجوان نسل اِس فن کی پاکستان میں بے قدری کے باعث اسے کب کا ترک کر چکی ہے۔

بھولو خاندان میں کون کون شامل؟

بھولو برادران میں سب سے بڑے پہلوان منظور حسین تھے جنھیں دنیا ’رستم زماں‘ بھولو پہلوان کے نام سے جانتی ہے۔

بھولو پہلوان نے سنہ 1949 میں کراچی کے پولو گراؤنڈ میں یونس پہلوان کو پچھاڑ کر ’رستمِ پاکستان‘ کا ٹائٹل جیتا تھا۔ اُس کُشتی کے مہمان خصوصی گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین تھے جنھوں نے بھولو پہلوان کو روایتی گرز پیش کیا تھا۔

بھولو پہلوان کو سنہ 1962 میں صدر ایوب خان نے صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی سے بھی نوازا تھا۔

بھولو پہلوان نے مئی 1967 میں لندن کے ویمبلے سٹیڈیم میں اینگلو فرنچ پہلوان ہنری پیری کو شکست دی اور ’رستم زماں‘ قرار پائے تھے۔

بھولو پہلوان کی روایت کو ان کے بھائیوں نے آگے بڑھایا جن میں حسین عرف حسو پہلوان، اسلم پہلوان، اکرم پہلوان، اعظم پہلوان اور معظم عرف گوگا پہلوان شامل تھے۔ یہ سب پہلوان بھائی اب اس دنیا میں نہیں رہے ہیں۔

اس خاندان کی تیسری نسل میں بھولو پہلوان کے بیٹے ناصر بھولو اور اسلم پہلوان کے بیٹے زبیر عرف جھارا نے شہرت حاصل کی۔ ناصر بھولو نے دیسی کُشتی کے علاوہ فری سٹائل کشتی میں بھی مہارت حاصل کی۔

زبیرعرف جھارا کی سب سے مشہور کشتی جاپانی پہلوان انوکی سے ہوئی تھی جس میں وہ فاتح رہے تھے۔ اس سے قبل انوکی نے ان کے چچا اکرم پہلوان کو شکست دی تھی۔ جھارا کا انتقال صرف 30 برس کی عمر میں دل کا دورہ پڑنے سے ہوا تھا۔

اسلم پہلوان کے پوتے اور جھارا کے بھتیجے ہارون عابد کو انوکی اپنے ساتھ جاپان لے جا چکے ہیں جہاں وہ تعلیم کے ساتھ ساتھ پہلوانی کی تربیت بھی حاصل کر رہے ہیں۔

انوکی پہلوان نے ناصر بھولو کو بھی اپنے ساتھ جاپان لے جا کر وہاں ٹریننگ دینے کی پیشکش کی تھی لیکن خاندان کے بڑوں نے اس کی اجازت نہیں دی تھی۔

رستم زماں گاماں پہلوان

بھولو خاندان کا تعلق برصغیر میں پہلوانوں کے مشہور سلسلے سے ہے۔ بھولو پہلوان کے والد امام بخش اپنے دور کے بہترین پہلوان تھے اور ’رستمِ ہند‘ کے طور پر مشہور تھے۔ ان کے بڑے بھائی غلام حسین تھےجو دنیا بھر میں گاماں پہلوان کے نام سے مشہور ہوئے۔

گاماں پہلوان بھولو پہلوان کے تایا اور سُسر تھے جنھوں نے پورے ہندوستان میں کشتیاں لڑیں اور ان کے مقابلے پر کوئی بھی پہلوان نہ ٹھہر سکا۔ ان کی وجہ شہرت وہ کشتی ہے جو انھوں نے پولینڈ کے پہلوان زبسکو سے لڑی اور دونوں بار انھیں زیر کیا۔

ستمبر 1910 میں ہونے والی پہلی کشتی کا احوال بڑا دلچسپ ہے۔ جب گاماں پہلوان لندن پہنچے تو انھیں کسی نے اہمیت نہ دی اور انھیں دنیا کے بڑے بڑے پہلوانوں کے مقابلے میں شرکت کی اجازت تک نہ ملی۔ جس کے بعد انھوں نے ایک تھیٹر کے باہر رنگ لگا کر تمام پہلوانوں کو چیلنج کر دیا کہ جو بھی پہلوان انھیں ہرائے گا وہ اسے پانچ پاؤنڈ انعام دیں گے لیکن کوئی بھی انھیں زیر نہ کر سکا۔

عالمی مقابلے میں حصہ لینے والے آٹھ پہلوانوں کو ہرانے کے بعد جب گاماں پہلوان زبسکو کے مقابل آئے تو زبسکو کو اندازہ ہوگیا کہ ان کی دال گلنے والی نہیں۔ انھوں نے شکست سے بچنے کے لیے رنگ میں مختلف حرکتیں شروع کر دیں یہاں تک کہ ریفری کو کئی بار انھیں وارننگ دینی پڑی۔

آخرکار زبسکو نے یہ مقابلہ ملتوی کرنے کی درخواست کر دی لیکن چند روز بعد جب دوبارہ مقابلے کا وقت آیا تو زبسکو اکھاڑے میں موجود نہ تھے، لہذا منتظمین نے گاماں پہلوان کو فاتح قرار دے کر ورلڈ چیمپیئن شپ کی بیلٹ انھیں پیش کر دی۔

گاماں پہلوان اور زبسکو کے درمیان دوسرا مقابلہ سنہ 1928 میں انڈیا کے شہر پٹیالہ میں ہوا تھا، اس مقابلے میں گاماں نے اپنے حریف کو چند سیکنڈز میں ہی پچھاڑ دیا تھا۔

بھولو خاندان میں اب کوئی پہلوان کیوں نہیں؟

بھولو پہلوان کے صاحبزادے ناصر بھولو نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’کسی بھی فن کی سرپرستی بہت ضروری ہے، چاہے زیادہ ہو یا کم۔ ہماری تو تھوڑی سی بھی نہیں ہوئی۔ اگر تھوڑی بہت بھی سرپرستی ہوتی تو یہ سلسلہ ختم نہ ہوتا۔ ہمارے بڑوں نے اپنی محنت کے بل بوتے پر ملک کا نام روشن کیا۔ جب ہمارے بزرگ پاکستان آ رہے تھے تو ہندوستانی حکومت نے میرے والد صاحب کو وہیں رہنے کی پیشکش کی تھی کہ آپ کو جو کچھ چاہیے وہ دیں گے لیکن ہمارے بزرگوں نے پاکستان کو ترجیح دی تھی۔‘

وہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں انھیں ’اللہ نے بڑی عزت دی لوگوں نے بہت پیار دیا لیکن صاحب اقتدار حلقوں نے جو حالت کی، میں اسے کیا بیان کروں۔‘

ناصر بھولو کہتے ہیں ’میں اپنا یہ سلسلہ ختم نہیں کرنا چاہتا، اسی لیے کراچی میں اکھاڑا قائم رکھا ہے۔‘

ناصر بھولے کے مطابق ’ایک پہلوان بننے میں بہت زیادہ محنت اور پیسہ درکار ہوتا ہے۔ جب میرے چچا کے بعد جھارا نے انوکی سے کشتی کی تو اس دور میں ہم پہلوانوں نے دو سال تک اپنے گھر کی شکل نہیں دیکھی تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ہم لوگ اتنی سخت ٹریننگ میں مصروف تھے کہ ہم نہیں چاہتے تھے کہ اس ٹریننگ میں کوئی مخل ہو۔‘

وہ کہتے ہیں ’دراصل ہمارے بزرگ کہا کرتے تھے کہ پہلوانی لوہے کے چنے ہیں جو انھیں چبائے گا وہی پہلوان ہے۔‘

انھوں نے کہا ’ہمارے دور میں ایک پی ٹی وی ہوتا تھا لیکن سرکاری ٹی وی ہونے کی وجہ سے اس کے پاس بھی وقت نہیں ہوتا تھا۔ چند اخبارات تھے جن میں خبریں شائع ہو جاتی تھیں۔ آج میڈیا بہت مؤثر ہے اور اگر وہ چاہے تو آج بھی صرف ہمارے خاندان سے ہی نہیں بلکہ دوسری جگہوں سے بھی پہلوان سامنے آ سکتے ہیں کیونکہ ٹیلنٹ موجود ہے۔‘

ناصر بھولو کو امید ہے کہ اُن کے خاندان سے کوئی نہ کوئی پہلوان دو تین سال میں سامنے آ جائے گا۔

ضیاء الحق بھولو پہلوان سے ناراض

ناصر بھولو نے سابق فوجی حکمران ضیا الحق کی طرف سے عائد پابندی کے بارے میں بتایا کہ ’بھولو پہلوان نے ایک انٹرویو دیا تھا جس میں انھوں نے کہا تھا کہ حکومت ہماری سرپرستی نہیں کرتی۔ ہمارے ساتھ اتنا برا سلوک کیا جا رہا ہے کہ اگر ہمیں کسی دنگل کے لیے گراؤنڈ چاہیے تو اس کے لیے بہت زیادہ معاوضہ طلب کیا جاتا ہے۔ یہ حق تلفی نہیں ہونی چاہیے اگر آپ ہماری بات سننے کے لیے تیار نہیں تو ہمیں یہاں سے جانے کی اجازت دی جائے ہم یہاں رہنا نہیں چاہتے۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ انٹرویو کرنے والے نے سوال کیا کہ آپ کہاں جائیں گے؟ ’میرے والد صاحب نے کہا کہ ظاہر سی بات ہے کہ جہاں ہماری زبان سمجھی جائے گی ہم وہیں جائیں گے، یعنی جہاں سے ہم آئے تھے۔‘

پھر سوال کیا گیا کہ انڈیا؟

’والد صاحب نے کہا کہ بے شک۔‘ انھوں نے بتایا کہ اس بات پر ضیا الحق ناراض ہو گئے اور انھوں نے ہمارے انڈیا جانے پر پابندی عائد کر دی حالانکہ ایک بار کرکٹ میچ کے سلسلے میں جانا چاہتے تھے اور ایک بار رستم ہند پہلوان سے مقابلے کا موقع تھا لیکن جانے کی اجازت نہ مل سکی۔

فلم اور سیاست

ناصر بھولو نے ایک فلم میں بھی کام کیا لیکن انھیں خاندان والوں کی سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا جس کی وجہ سے وہ مزید فلموں میں کام نہ کر سکے۔انھیں انڈیا سے بھی فلم کی آفر ہوئی تھی لیکن اس وقت پوری فیملی کے انڈیا جانے پر پابندی تھی۔

ناصر بھولو کہتے ہیں ’میں سنہ 1985 میں الیکشن بھی لڑ چکا ہوں لیکن کامیاب نہ ہو سکا۔ اس وقت صورتحال کچھ ایسی ہوئی تھی کہ مجھے الیکشن لڑنا پڑا تھا حالانکہ والد صاحب اس بات کے سخت مخالف تھے۔‘

گاماں کی بیلٹ اور گُرز کہاں ہیں؟

ناصر بھولو کہتے ہیں ’میرے پاس خاندان کے بڑوں کے جیتے گئے گُرز کے علاوہ رستم زماں گاماں پہلوان کی وہ بیلٹ بھی یادگار کے طور پر موجود ہے جو انھیں لندن میں زبسکو کو شکست دینے پر دی گئی تھی۔ وہ بیلٹ ایسے پڑی ہے جیسے کسی کو اس بارے میں پتہ ہی نہیں ہے دراصل اس کی قدر وہی جانے جسے اس کا پتہ ہو۔‘

انھوں نے کہا کہ اب تو لوگوں نےگُرز کا بھی مذاق بنا دیا ہے کہ چھوٹی موٹی کشتیوں میں بھی گُرز دیے جاتے ہیں جبکہ ماضی میں گُرز بند پہلوان وہ کہلاتا تھا جو پورے برصغیر کے پہلوانوں کو ہراتا تھا۔

کلثوم نواز سے رشتہ داری

ناصر بھولو اور بیگم کلثوم نواز دونوں کی والدہ سگی بہنیں تھیں۔

ناصر بھولو کہتے ہیں ’ایک الیکشن کے بعد میرا سیاست سے کوئی تعلق نہیں رہا لیکن بیگم کلثوم نواز سے بہت ملنا جلنا رہا۔ وہ مجھے چھوٹے بھائی کی طرح محبت کرتی تھیں۔ میرے لیے وہ بڑی بہن تھیں۔ ان کے انتقال سے چند روز پہلے میں نے انھیں فون کیا تھا حالانکہ ڈاکٹرز نے انھیں بات کرنے سے منع کر رکھا تھا لیکن انھوں نے مجھ سے بات کی تھی۔ میرے لیے وہ بہت قابل احترام تھیں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp