بابا جان والے ہنزہ سے ابھی ایک آواز آئی، آپ نے سنی؟


شاہراہ قراقرم پر گلمت سے کچھ پہلے آپ آسمان کی وسعتوں کو سمیٹتے ہوئے ایک تنگ و تاریک سرنگ میں چلے جاتے ہیں۔ اس طویل ترین سرنگ کے اگلے سرے کے پار ہوتے ہی آپ نیلے پانیوں کی ہوا دار بہشت میں نکل جاتے ہیں۔ اسے عطا آباد جھیل کہتے ہیں۔ سینکڑوں لوگوں کے ارمانوں پر پانی پھر جانے کو ہم عطا آباد جھیل کہتے ہیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے جن کے گھر یہاں ڈوب گئے تھے وہ در در رسوائی کاٹ رہے ہیں۔ جو ان کا حق مانگ رہے تھے وہ آشفتہ سر غذر کی جیلوں میں پڑے ہیں۔ جو بے خبر ہیں وہ جھیل کے سینے کو واٹر بائیک سے چیر کر پانی اڑا رہے ہیں۔

یہ سطریں ایک کالم میں آئیں تو پوچھنے والوں میں اکثر نے پوچھا، عطا آباد جھیل کی کہانی کیا ہے؟ کن کے ارمانوں پر یہاں پانی پھرا تھا اور کون ہیں وہ آشفتہ سر جو اب غذر کی جیلوں میں ہیں۔ سوالات سے اندازہ ہوا کہ ہنزہ آنے جانے والوں میں شاید ہی کوئی ہوگا جس نے عطا آباد جھیل کے نیلگوں پانیوں میں قیامت کے نامے تیرتے ہوئے دیکھے ہوں۔ ہم جب کسی کشتی میں بیٹھ کر اس جھیل کا پانی چیر رہے ہوتے ہیں، ہم اندازہ نہیں کر پاتے کہ اس کی گہرائیوں میں کتنے خواب دفن ہیں۔ ان پانیوں میں کہیں کہیں جو یہ درخت کھڑے ہیں، آپ کو کیا لگتا ہے کہ یہ ویسے ہی کھڑے ہیں؟ یہ اس سمت میں اشارہ کرنے کے لیے ہی تو کھڑے ہیں جہاں زندگی کبھی رقص کیا کرتی تھی اور بچے کبھی کھیلا کرتے تھے۔ یہ جس جگہ اب مچھلیاں تیرتی ہیں یہاں کبھی پرندے اڑا کرتے تھے۔ یہاں مال مویشی تھے، گرم تنور تھے، پرندوں کے گھونسلے تھے، دریا کا کنارہ تھا، رستے اور گلیاں تھیں، لین دین اور میل جول تھا، عبادتیں اور روایتیں تھی، رسم تھے اور رواج تھے، شہد کے چھتے تھے، بانسریوں کے سر تھے، ستار کی دھنیں تھیں، محبتوں کے نشان تھے، ہجر کی داستانیں تھیں، پرکھوں کی قبریں تھیں اور بچپن کا ساون تھا۔ کچھ نہیں رہا، سب ڈوب گیا۔

2002 کا سن تھا، جب استور میں زلزلے کا ایک جھٹکا آیا اور عطا آباد کے پہاڑوں میں دراڑیں پڑ گئیں۔ تب سے یہاں کی زمین رفتہ رفتہ سرکنے لگی اور پہاڑوں کا نوشتہ واضح ہونے لگا۔ عطا آباد کے لوگ آتی جاتی سرکار کو بتاتے رہے کہ جناب، پہاڑوں کی کمر کسی بوجھ تلے دب گئی ہے۔ دھیرے دھیرے اس کے کندھے جھک رہے ہیں اور اعصاب چٹخ رہے ہیں۔ کسی دن اس کی ہمت جواب دے گئی تو مصائب کا آسمان ٹوٹ کر ہماری چھوٹی سی اس دنیا پر گر پڑے گا۔ پھر ہم کہاں جائیں گے اور ان بچوں کا کیا بنے گا۔

یہاں با اختیار حلقے حادثوں کا رخ کہاں موڑتے ہیں، یہ تو حادثوں کی پرورش کرتے ہیں۔ ماہرین کی بریگیڈ آئی، ہر طرف سے معاملے کا جائزہ لیا، ایک مقام کی نشاندہی کی اور بتایا کہ کل کلاں اگر قیامت ٹوٹی تو وہی لوگ بچ پائیں گے جو اس جگہ بیٹھے ہوں گے۔ لوگوں نے تھوڑا تھوڑا کر کے سامان سمیٹا اور حضرت نوح کی کشتی کے سائے میں جاکر بیٹھ گئے۔ سال 2010 میں زمین کھسکی تو آخری دموں پر کھڑے پہاڑ کی کمر بیٹھ گئی۔ ایک جھٹکا اور لگا تو اس کی پشت پر زمانے بھر کا جتنا ملبہ رکھا تھا وہ دریائے ہنزہ کے بیچوں بیچ آ کر گر پڑا۔ زمین پر پڑنے والے تودے اچھلے تو عین اس مقام پر جا کر لگے جسے نقطہ نجات بتایا گیا تھا۔ بیس افراد اسی موقع پر با اختیار حلقوں کی بے دھیانی کی بھینٹ چڑھ گئے۔

متبادل راستہ لینے کے لیے دریائے ہنزہ یہاں وہاں پھیلا تو زندگی کا دائرہ تنگ ہونے لگا۔ عطا آباد میں بسنے والے چھ ہزار افراد گھروں سے نکلے اور بے بسی کی تصویر بن کر کناروں پر بیٹھ گئے۔ زمین و آسمان بے رحمی سے دیکھتے رہے اور پانیوں میں صدیوں کے سب نشان ایک ایک کر کے بہتے چلے گئے۔ یہاں تک کہ زندگی کا بڑا حصہ ہمیشہ کے لیے آنکھوں سے اوجھل ہو گیا۔ لتا منگیشکر اور طلعت محمود کے گائے ہوئے گیت کا یہ بند آپ نے بھی سنا ہوگا۔

دوسرا گھر ڈھونڈنا عام حالات میں بھی کہاں اتنا آسان ہوتا ہے۔ جن کی عمر بھر کی کمائی امیر شہر کی غفلتوں کی نذر ہو گئی اور یادوں کا پورا جہان ایک جھٹکے میں بہہ گیا، وہ اپنا دل سنبھالیں یا دوسرا ٹھکانہ ڈھونڈیں۔ ایسا تو نہیں تھا کہ یہاں سے نکلیں گے تو وہاں کسی گھر کے ساتوں دروازے کھلے ملیں گے۔ یہ انسان تھے، پانی کی لہریں تو نہیں تھیں کہ تودوں نے راستہ روکا تو انہی قدموں متبادل راستے پر چل نکلے۔ اب دن رات کا جگر کاٹیں گے تو کہیں جاکر سر چھپانے کو کوئی جگہ ملے گی۔ ایک مدت تک بے گھر لوگوں کا یہ قافلہ اس وعدے پر جیا کہ بہت جلد آپ کے دکھوں کا مداوا ہو جائے گا مگر وہی بات کہ خوشی مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا؟

بے کسوں کا درد اتنا رائیگاں بھی نہیں ہوتا۔ زمین صرف عطا آباد کی نہیں سرکتی، دل کی زمین بھی برابر سرکتی ہے۔ پہاڑ صرف ہنزہ کے نہیں ٹوٹتے، غم کے پہاڑ بھی ٹوٹتے ہیں۔ غم کے پہاڑوں میں پڑے شگاف بڑھتے ہیں تو زبان جنم لیتی ہے۔ یہ سیدھی سادی سی زبان ہوتی ہے جس سے فلسفے کا ہر مشکل باب بہت سہولت سے سرزد ہوجاتا ہے۔ ایسی ہر زبان کا اپنا ایک نام ہوتا ہے، جو زبان عطا آباد کے بے گھر لوگوں کی ہے اسے بابا جان کہتے ہیں۔

بابا جان بنیادی طور پر بائیں بازو کے سیاسی کارکن ہیں اور عوامی ورکرز پارٹی کے نمائندے ہیں۔ بابا جان کوئی بہت بڑا دماغ نہیں ہیں، بس یہ ہے کہ عطا آباد کے لوگ جو چاہتے تھے بابا جان وہ کہتے تھے۔ اسی سادہ سی ذمہ داری کو قوم کی ترجمانی کہتے ہیں۔ یقین مانیے اس ملک میں سب سے بھاری قیمت اسی فریضے کی ہے۔ بابا جان جب علی آباد میں یہی فریضہ انجام دے رہے تھے تو ریاست نے وہی روایت نبھائی جو انیس سے اڑتالیس سے نبھاتی چلی آ رہی ہے۔

بھابڑہ میں جب باچا خان کے پیروکار جمع ہوئے تو بندوقوں کے پے درپے راونڈ چلا دیے گئے تھے۔ ساڑھے چھ سو پر امن سیاسی کارکنوں کی خون آلود لاشیں سرخ پوشوں کو اٹھانی پڑی تھیں۔ ڈھاکہ کی سڑکوں پر کچھ طلبا اپنے پیدائشی حق کا سوال لے کر نکلے تو بھی معاملہ بندوق کو سونپ دیا گیا تھا۔ اساتذہ، طلبا، وکلا، دانشوروں، ادیبوں اور سیاسی کارکنوں میں کون تھا جو پھر اس بندوق کی زد میں نہیں آیا۔ راولپنڈی کے لیاقت باغ میں بھی کچھ سیاسی ذہن جمع ہوئے تو اول پانی میں کرنٹ چھوڑا گیا اور پھر گولیاں برسا دی گئیں۔ بلوچستان میں لوگوں نے زندگی کا بہت بنیادی سا سوال حل کرنے کے لیے ریاست کو پکارا تو ریاست نے جنگی طیارے بھیج دیے۔ کراچی میں بولنے والوں نے اردو میں کچھ کہا تو شہری آبادیوں میں ٹینک اتار دیے گئے۔ علی آباد میں بھی یہی کچھ ہوا، زبان کے مقابلے میں بندوق آئی اور حق مانگنے والوں کو لاشیں دے کر چلی گئی۔

خون گرتا ہے تو بات بہت بڑھ جاتی ہے، سو یہاں بھی بڑھ گئی۔ لوگ گئے اور مقامی تھانے کا گھیراؤ کر لیا۔ اسی جلاؤ گھیراؤ کے کیس میں بابا جان اور افتخار کربلائی کو ساتھیوں سمیت حراست میں لے لیا گیا۔ دہشت گردی کا مقدمہ چلا اور مجموعی طور پر ستر برس کی سزا انہیں سنا دی گئی۔ کبھی کبھی تو انسانی عقل اس بات پر حیران رہ جاتی ہے کہ جو بات محض ایک بات سے ختم ہو سکتی ہے ہم اسی بات کو شیطان کی آنت کیوں بنا دیتے ہیں۔ موقع سر پر ہاتھ رکھنے کا ہو تو ہم گریبانوں میں ہاتھ کیوں ڈال دیتے ہیں۔ جس سوالی کے دل میں گھر کرنے کا موقع ہو، ہم اس کے دل میں نفرت کے زہریلے بیج کیوں بو دیتے ہیں۔ کیوں یہ سوچ لیا گیا ہے کہ جب تک آنسوؤں کی پیداوار نہیں بڑھے گی ہمارے چراغ نہیں جلیں گے۔ کیا مضائقہ ہے اگر ایک بار ذہنوں میں خوشیوں کے آٹھ چراغ روشن کر کے بھی دیکھ لیا جائے۔ کیا پتہ کم زحمتوں میں زیادہ روشنیاں ہمیں میسر آجائیں۔

جمہوریت کیا ہے؟ جمہوریت زمین سے اٹھنی والی سچی آوازوں کو ہمواری بخشتی ہے۔ سلطانی جمہور کا زمانہ ہو تو دھرتی کے بیٹوں کی آواز صاف سنائی دیتی ہے۔ ہماری بدبختی یہ ہے کہ یہاں اشرافیہ کے لیے جمہوریت کے بازاروں میں کاروبار کا سکوپ بہت کم ہے۔ امن کی آشا میں کل ملا کے یہ برائی ہے کہ وہ بندوق کو حکمرانی کا جواز نہیں دیتی۔ جنگ کی بھاشا میں اس کے سوا کوئی خوبی نہیں کہ بندوق کو دلیل کا درجہ حاصل ہوجاتا ہے۔ جنگ کا ماحول ہو تو خوف و ہراس پھیلتا ہے اور لوگ مورچوں کے پیچھے پناہ ڈھونڈتے ہیں۔ زمین زادے ایسے میں آواز دیتے ہیں، لوگو! اے میرے دیس کے لوگو! یہ جس جگہ تم پناہ ڈھونڈ رہے ہو، یہ عطا آباد کے اس مقام جیسا ہے جس کے بارے میں بتایا گیا تھا کہ روز حشر یہیں پناہ ملے گی۔ لیکن افتاد جس دن ٹوٹی تھی، وہی لوگ موت کا نوالہ ہو گئے جو اس جائے پناہ میں زندگی ڈھونڈ رہے تھے۔

انیس سو سینتالیس سے آج دو ہزار بیس تک اور خنجراب سے لے کر بندر عباس تک پھیلی ہوئی ہماری سیاسی تاریخ پر ایک نگاہ ڈال کر دیکھ لیجیے۔ ہر وہ آواز آپ کو غداری کے باب میں ملے گی جو زمین کی نمائندہ آواز ہوگی۔ ہر وہ آواز امید کی آخری کرن بتائی جائے گی جو طاقت کے غیر عوامی لاؤڈ سپیکروں سے سنائی دے گی۔

زمین کی نمائندہ آوازیں اپنے احتجاج سے پہچانے جاتے ہیں۔ ان کے حلقوں میں مٹی کی مہک ہوتی، دیے ہوتے ہیں، کتابیں ہوتی ہیں، محبت ہوتی ہے، خدمت اور قربانی ہوتی ہے، علم اور عمل ایک توازن ہوتا ہے۔ بنگلا دیش کے ڈھاکہ میڈیکل کالج کے سامنے کچھ بنگالی طلبا جمع ہوئے تھے۔ پشاور کے قصہ خوانی بازار میں کبھی خدائی خدمت گار جمع ہوئے تھے۔ کچھ برس قبل اسلام آباد پریس کلب کے سامنے فاٹا کے کچھ لوگوں نے خیمے لگائے تھے۔ اس سے پانچ برس قبل اسی جگہ بلوچ خواتین آ کر بیٹھی تھیں۔ اسی جگہ پر کچھ سندھی طلبا بھی بیٹھے تھے۔

اپنی طرز کے یہ منفرد احتجاج اگر دیکھنا نصیب نہ ہوئے ہوں تو آپ کے بخت ابھی بھی سلامت ہیں۔ آپ کے دوست احباب ان دنوں عطا آباد جھیل دیکھنے نکلے ہوں تو ان سے کہیے کہ ہنزہ سے گزرتے ہوئے علی آباد کے پاس کچھ دیر رک جائیں۔ نمک والی چائے اور چھپ شرو کے بہانے ہی سہی، مگر رک جائیں۔ سامنے دیکھیں، یہاں لوگ کتابیں پڑھ رہے ہیں، بیت بازی کر رہے ہیں اور انتاکشری کھیل رہے ہیں۔ کچھ مائیں اپنے بچوں کو ہوم ورک بھی کروا رہی ہیں۔ یہ کوئی درس گاہ نہیں ہے اور نہ ہی کوئی سٹڈی سرکل ہے۔ یہ ان لوگوں کا دھرنا ہے جن کے خوابوں میں عطا آباد جھیل کے بنیادوں میں گزرا ہوا وقت آتا ہے۔ قریب جاکر پوچھیے آپ یہاں کیوں بیٹھے ہیں۔ یہ کتاب ایک طرف رکھ کر کہیں گے، بابا جان اور ان کے ساتھی ہمیں واپس لوٹا دو۔ یہ ہماری آواز کا سوال ہے، ہماری آواز ہمیں واپس لوٹا دو۔

اس دھرنے میں ایک طرف ایک چلبلی سی گڑیا بچی اچھل کود کر رہی ہے دوسری طرف جھریوں والی ایک بوڑھی ماں بیٹھی ہے۔ آنے جانے والے نوجوان اس ماں کا آشیرباد لے رہے ہیں اور اس بچی کو آشیرباد دے رہے ہیں۔ جس کا آشیرباد لے رہے ہیں، اس کا بیٹا بابا جان جیل میں ہے۔ جس کو آشیرباد دے رہے ہیں، اس کا باپ علیم خان قید میں ہے۔ یہ ہماری پون صدی کی مکمل تاریخ ہے جو ایک ہی منظر میں سما گئی ہے۔ آنکھ رکھتے ہیں تو دیکھیے۔ کان رکھتے ہیں تو سنیے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).