مجھے یہ بھی یاد تھا


میں سکول کا طالب علم تھا کہ عمران خان کی قیادت میں سینیئر کھلاڑیوں نے جاوید میانداد کی کپتانی کے خلاف بغاوت کی تھی اور کچھ دنوں بعد عمران خان بذات خود ٹیم کے کپتان بن گئے تھے، مجھے وہ بھی یاد تھا۔

انیس سو بانوے میں جاوید میانداد، انضمام الحق، وسیم اکرم اور عاقب جاوید کی بہترین پرفارمنس کی وجہ سے پاکستان کرکٹ کا ورلڈ کپ جیت گیا تھا اور ٹیم کا کپتان عمران خان ورلڈکپ اٹھانے آیا تو اپنے پراجیکٹ (شوکت خانم) کا ذکر تفصیل کے ساتھ کر کے پروجیکشن کے موقع سے بھرپور فائدہ اٹھایا لیکن اپنے ان کھلاڑیوں کا نام تک نہیں لیا جن کی بہترین کارکردگی کے سبب ورلڈ کپ جیتا گیا تھا۔

مجھے وہ بھی یاد تھا

 انیس سو چھیانوے میں سیاسی جماعت تحریک انصاف بنا کر غریبوں کی آواز بننے کا نعرہ لگایا گیا لیکن یوسف صلاح الدین سے احسن رشید مرحوم تک “غرباء” پارٹی پر چھا گئے۔

مجھے وہ بھی یاد تھا۔

ڈکٹیٹر پرویز مشرف نے منتخب وزیراعظم کا تختہ الٹا، پارلیمنٹ کو برخاست کیا، جمہوریت پر شب خوں مارا، عوام کے منتخب وزیراعظم اور اس کے خاندان کو جیل میں ڈالا، آئین اور قانون کو جوتے کی نوک پر رکھا اور ریفرنڈم کا ڈرامہ رچایا تو عمران خان اس کے سب سے بڑے حامی بن کر سامنے آئے۔

مجھے وہ بھی یاد تھا۔

دو ہزار آٹھ کے آتے آتے پرویز مشرف قصہ پارینہ بن چکے تھے، پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہو چکی تھی، ناتواں جمہوریت پاؤں پاؤں چلنے لگی تھی اور نواز شریف طویل جلاوطنی کے بعد وطن لوٹ آئے تھے۔

اگلا الیکشن بھی قریب آتا جا رہا تھا اور ہر کوئی جانتا تھا کہ اگلے الیکشن میں پورے ملک خصوصا پنجاب کے انتخابی نتائج کیا ہوں گے اسی “خوف” نے مخصوص منطقوں کے دروبام میں ایک دہشت اور سراسیمگی پھیلا دی تھی اور “توڑ” کے منصوبوں پر غور و خوض ہو رہا تھا کہ یکایک نگاہ انتخاب سیاسی طور پر یوسف بے کارواں عمران خان ہی ٹھہرے اور اب ہر باخبر آدمی جانتا ھے کہ 30 اکتوبر 2011ء کو ایک جلسے کے ذریعے اسے سیاسی بانس پر چڑھانے کا سلسلہ کہاں سے اور کیسے چلا؟

مجھے یہ بھی یاد تھا۔

خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت کا مشاہدہ بھی کرتا اور بہت سی کہی، ان کہی کی خبر بھی رکھتا رہا۔ عمران خان کے بلند بانگ دعووں کے برعکس کرپشن، اقربا پروری اور مس منیجمنٹ کی مثال صوبائی حکومت کو اسی طرح ناکام دیکھتا رہا جس طرح آج کی مرکزی حکومت کو دیکھ رہے ہیں۔

مجھے وہ بھی یاد تھا۔

2013ء میں نواز شریف حکومت قائم ہونے کے بعد دھرنے کے معمار کون تھے اور مقاصد کیا تھے؟

مجھے یہ بھی یاد تھا۔

دھرنے میں مرغ باد نما سیاستدانوں کی آمد، بہتان طرازی کے ماھر اینکروں اور صحافیوں کی خرمستیاں، طاہرالقادری کی کمک، تہذیب و شائستگی کے پرخچے اڑاتی زبان، سیاست کو گالی بنانے کے حربے، امپائر کی انگلی، گیلی شلواریں، پارلیمنٹ اور پی ٹی وی پر حملے، یہ سب کچھ میں دیکھ بھی چکا تھا اور یہ سب کچھ مجھے یاد بھی تھا، اس لئے کسی جذباتی بہاؤ میں بہنے یا کسی غلط سمت میں قلم موڑنے کی بجائے میں وہیں کھڑا رہا جہاں ناسازگار موسموں میں بھی ایک لکھاری کو کھڑا ہونا چاہئے، بے شک اکیلا ھی کیوں نہ ہو۔

گو کہ میرے قبیلے کے بے ہنر بھی سونے کے بھاو بکتے رہے لیکن ایک سر بلند تفاخر کا احساس ہے کہ نہ قلم نے کوئی غلیظ ایجنڈا اگلا نہ حلق سے حرام کا لقمہ اترا۔

میں جس عمران خان کا مدتوں سے مشاہدہ کرتا رہا اسی مشاہدے کی بنیاد پر لکھتا اور قلم کا رخ متعین کرتا رہا اور اس سلسلے میں کھبی کسی حرص و خوف کو قریب بھی نہیں پھٹکنے دیا لیکن پھر بھی دوسروں کی طرح روز روز یہ نہیں کہا کہ “میں اس گناہ میں شریک نہیں تھا”۔

اب جب کہ سراب کو دریا سمجھنے والے حقائق کی بے مہر گزرگاہ پر پہنچ کر ایک دوسرے کو نوچ رہے ہیں اور ایک بد رنگ سیاست کو نام لیواوں کی قلت کا سامنا ہے تو گلی گلی قلمی مجاہدین نکل آئے ہیں لیکن مدتوں یاد تو آتا رہے گا کہ تب مخالف سمت میں تیرنے والے ہم کل کتنے لوگ تھے اور ہمیں کس غضب کی طغیانی کا سامنا تھا۔

حماد حسن
Latest posts by حماد حسن (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).