عطا آباد کی نیلگوں جھیل اور بابا جان کی اندھیری کال کوٹھری


عطا آباد جھیل جون 2010ء میں دیوقامت پہاڑوں کے لینڈ سلائیڈنگ کے نتیجے میں دریائے ہنزہ کا راستہ رکنے سے وجود میں آئی۔ یہ پہاڑ 2002ء کے زلزلے کے نتیجے میں مخدوش ہو گئے تھے اور ہزاروں ٹن وزنی چٹانوں کی مسلسل ٹوٹ پھوٹ کی خبروں کے باوجود کسی کو ممکنہ سانحے کی روک تھام کا دماغ نہیں تھا۔ پرویز مشرف حکومت قاف لیگ بنا رہی تھی، پیپلز پارٹی کے “محب وطن” ارکان پارلیمنٹ کی غیرت جگا رہی تھی۔ کچھ مصروفیات کا تعلق قندوز میں انسان ہمدردی کی بنا پر ہیلی کاپٹر سروس سے تھا، کچھ مہمان داری وانا وزیرستان اور چمن میں درپیش تھی۔ حکومت وقت ہنزہ میں قریب قریب یقینی سانحے پر توجہ نہیں دے سکی۔

بالآخر 4 جنوری 2010 کو کریم آباد سے 14 کلومیٹر شمال کی طرف دریا کے مشرقی کنارے پر مٹی کے میلوں پر محیط تودے گرنے سے بیس افراد ہلاک ہو گئے اور پانچ ماہ تک دریائے ہنزہ کا بہاؤ رک گیا۔ دریا کا پاٹ رکنے سے آنے والے سیلاب نے 6000 افراد کو بے گھر کردیا، 25000 افراد زمینی نقل و حمل کے راستے مسدود ہونے سے پھنس گئے کیونکہ شاہراہ قراقرم کا 19 کلومیٹر طویل حصہ زیر آب آ گیا تھا۔ جون 2010 کے پہلے ہفتے تک اس سیلاب نے 21 کلومیٹر کے رقبے پر 120 گز گہری جھیل کی صورت اختیار کر لی۔ پانی لینڈ سلائیڈ سے بننے والے بند کے اوپر بہ رہا تھا، موضع ششکاٹ مکمل طور پر سیلاب برد ہو گیا جب کہ گوجال وادی میں سیلابی ریلا پھیلنے لگا۔ شاہراہ قراقرم بند ہونے سے کھانے پینے اور دیگر اشیا کی قلت پیدا ہو گئی۔ 4 جون تک جھیل میں 3700 کیوسک فی سیکنڈ کی رفتار سے پانی بڑھ رہا تھا۔ پانی کے اخراج کی کوئی صورت نہیں تھی چنانچہ پانی کی سطح میں 18 جون 2010 تک اضافہ جاری رہا۔ خراب موسم کے باعث ہنزہ تک ہیلی کاپٹر سروس سمیت ہر طرح کی آمدورفت بند ہونے سے خوراک، ادویات اور دیگر سامان کی فراہمی بھی بند ہوگئی۔

کچھ ماہرین کے اس غلط اندازے نے صورت حال کو مزید تشویش ناک کر دیا کہ جھیل کا پانی قدرتی رکاوٹ کے اوپر سے گزرے گا تو پورے علاقے کو فوری طور پر سیلاب کی 60 فٹ اونچی لہر آ لے گی۔ 20 مربع کلومیٹر رقبے پر ٹھاٹھیں مارتے 100 گز گہرے پانی سے ملک بھر میں قیامت خیز سیلاب کا خطرہ تھا۔ پوری قوم اضطراب میں تھیں۔ فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن نے پہلے 27 مارچ 2012 کو اور پھر 15 مئی 2012 کو جھیل کے اسپل وے کو دھماکے سے اڑا دیا، جس سے جھیل کے پانی کی سطح میں فوری طور پر 33 فٹ تک کمی لائی گئی۔ پاکستان فوج کے جوانوں نے دن رات جان کی بازی لگا کر پانی کے نکاس کا متبادل راستہ نکالا جسے جدید انجنیئرنگ کا معجزہ سمجھا جاتا ہے۔ گلمت اور زیریں علاقے سیلاب سے بچ گئے لیکن جھیل بننے سے سینکڑوں مکان، کاروباری مراکز، تعلیمی ادارے، نقل و حمل کا افراسٹرکچر سب غرق آب ہو گئے۔ 25000 شہری سر پر چھت اور روزگار سے محروم ہو گئے۔ ریاست نے 2005ء کے زلزلہ زدگان کی خبر نہیں رکھی تو عطا آباد کے آفت زدگان کیا امید رکھ سکتے تھے۔ بابا جان اور ان کے رفیق متاثرہ شہریوں کے لئے ریاست اور حکومت سے مدد مانگنے کے جرم ہی کی سزا پا رہے ہیں۔

جنوری سے مئی 2010 تک لینڈ سلائیڈنگ سے متاثر ہونے والے افراد کی مدد کے لئے اگست میں ایک احتجاجی مہم شروع ہوئی جس کی قیادت علاقے کے معروف ترقی پسند رہنما بابا جان اور ان کے ساتھی کر رہے تھے۔  11 اگست کو علی آباد میں ایک مظاہرے کے دوران پولیس فائرنگ کے نتیجے میں ایک شخص اور اس کا 22 سالہ بیٹا ہلاک ہو گئے۔ اس پر مشتعل مظاہرین نے مقامی پولیس سٹیشن کو آگ لگا دی۔ حکومت نے متاثرین کو انصاف دلانے کی بجائے بابا جان کے خلاف جلاؤ گھیراؤ کے الزام میں دہشت گردی کے مقدمات درج کر کے انہیں گرفتار کر لیا۔ 13 مہینے جیل میں گزارنے کے بعد باباجان کو ضمانت پر رہائی ملی۔

2013 میں گندم کی سبسڈی بحال کرانے کے لئے گلگت بلستان میں عوامی ایکشن کمیٹی تشکیل دی گئی تو ضلع ہنزہ نگر میں بابا جان اس کمیٹی کے سربراہ تھے۔، حکومت نے سبسڈی تو بحال کر دی لیکن 2014 میں بابا جان کی ضمانت منسوخ کر کے انہیں پھر سے جیل میں ڈال دیا۔ انسداد دہشت گردی کی عدالت نے تین مقدمات میں انہیں مجموعی طور پر 70 سال کی سزا سنائی۔

2015ء کے انتخابات میں بابا جان نے ہنزہ کی سیٹ پر جیل سے انتخاب لڑا اور دوسرے نمبر پر آئے۔ اس نشست پر ضمنی انتخاب میں بابا جان کی مقبولیت سے خائف ہو کر سپریم کورٹ کے ذریعے ان کی معطل سزا بحال کروا دی گئی تاکہ وہ انتخاب میں حصہ نہ لے سکیں۔ اس وقت سے بابا جان اور ان کے 12 ساتھی بدستور قید میں ہیں اور ہنزہ کے باشندے ان کی رہائی کے لئے سراپا احتجاج ہیں۔

بابا جان کے ہمدردوں کا کہنا ہے انہیں جلاؤ گھیراؤ کے جس واقعے کی پاداش میں قید کیا گیا ہے، وہ یہ واقعہ ہونے کے وقت پوشی نگر میں وزیر خزانہ (تب) محمد علی اختر سمیت متعدد عمائدین کے ساتھ گفت و شنید کر رہے تھے۔ جلاؤ گھیراؤ کرنے والے 35 ملزمان کی ویڈیو حکومت کے پاس موجود ہے لیکن اسے مقدمے کا حصہ نہیں بنایا گیا۔

مرحومہ عاصمہ جہانگیر سمیت 2012  میں فرحت اللہ بابر، مشاہد حسین سید اور افراسیاب خٹک جیسے رہنما اس کیس کو ‘سیاسی بدنیتی پر مبنی مقدمہ’ قرار دے چکے ہیں۔ 2019 میں صدر عارف علوی نے بھی اپنے دورے میں ہنزہ کے نوجوانوں کے ساتھ زیادتی کا اعتراف کیا تھا۔

ذیل میں چند تصاویر مئی – جون 2010 کے ان قیامت خیز دنوں کی کہانی سناتی ہیں جب عطا آباد جھیل کا “سیاحتی مقام” بغیر اعلان کئے نمودار ہو گیا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).