سانحۂ ہاتھرس اور مسلمانوں کے خلاف کریک ڈاؤن


ایسا لگتا ہے جیسے ہندوستان میں مسلمان ہونا کوئی بہت بڑا جرم ہو گیا ہے۔ وہ ناخوش گوار واقعہ جس کا بادی النظر میں مسلمانوں سے کوئی دور کا بھی تعلق نہ، اگر اس میں انہیں ماخوذ قرار دینے کی کوشش کی جائے اور واقعہ کو فرقہ وارانہ رنگ دی جائے تو فطری طور پر یہی خیال ذہن پر ابھرے گا کہ کیا اب وطن عزیز میں مسلم ہونا گناہ تو نہیں ہے؟ ہاتھرس کے حالیہ واقعہ کو ہی لے لیجیے، جس میں مبینہ طور پر ریاست اترپردیش میں 14 ستمبر 2020 کو ایک دلت لڑکی کا اونچی ذات کے کچھ افراد کے ذریعے ریپ اور جنسی تشدد کا معاملہ سامنے آیا اور آخرکار یہ بچی دوران علاج چل بسی۔ اس سانحہ پر پورے ہندوستان میں احتجاج اور غم و غصہ دیکھنے کو ملا اور حکومت پر جرائم پیشہ افراد کی حمایت کا الزام لگایا گیا لیکن اس پورے ٹریجڈی میں ایک نیا موڑ تب آیا، جب انصاف پسند طبقہ کے احتجاج و اشتعال کے درمیان اس معاملے میں یوپی پولیس نے چار مسلم نوجوانوں کو گرفتار کیا اور ان پر الزام لگایا گیا کہ وہ دنگا بھڑکانے کے لئے ہاتھرس جا رہے تھے۔

اترپردیش کی پولیس کا دعویٰ کیا کہ پی ایف آئی، ایس ڈی پی آئی اور مافیاؤں کی ملی بھگت اور سازش کے ٹھوس اشارے ملے ہیں۔ اس حوالے سے دارالحکومت لکھنؤ میں بھی ایک مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ لکھنؤ کے حضرت گنج پولیس اسٹیشن میں 3 اکتوبر 2020 کو آئی پی سی کے سیکشن 153۔ اے، 153۔ بی، 420، 465، 468، 469، 500، 50 ( 1 ) (بی) 505 ( 2 ) ، آئی ٹی ایکٹ کی دفعہ 66 اور کاپی رائٹ ایکٹ کی دفعہ۔ 63 کے تحت مقدمہ دائر کیا گیا ہے۔

حالانکہ اس سے قبل متاثرہ خاندان کے افراد کی جانب سے پولیس پر یہ سنگین الزام عاید کیا جا چکا ہے کہ اس معاملہ میں چونکہ اعلیٰ ذات کے افراد شامل ہیں، اس لئے پولیس حکومت کی شہ میں مجرمان کو بچانے کی کوشش کر رہی ہے۔ غورطلب نکتہ یہ بھی ہے کہ پولیس نے ہاتھرس کی متاثرہ کی لاش کو رات کی تاریکی میں اس کے گھر والوں کی موجودگی کے بغیر نذر آتش کر دیا، جبکہ ہندو رسم و رواج کے مطابق رات کے اندھیرے میں آخری رسومات کی ادائیگی نہیں کی جا سکتی۔ یوپی پولیس اس ’سچائی‘ سے بھی انکار کر رہی ہے کہ بچی کے ساتھ زنا بالجبر کیا گیا تھا۔ حالانکہ میڈیکل رپورٹ میں اس کی تصدیق ہو گئی ہے کہ بچی کے ساتھ ریپ کیا گیا۔

پورے ملک میں جاری احتجاج اور حزب مخالف کے شدید رد عمل سے بوکھلائی حکومت نے اس پورے معاملے سے لوگوں کی توجہ ہٹانے کی جس انداز میں کوشش کی ہے اور جس طرح اس شرمناک واقعہ کو بھی ہندو مسلم کا رنگ دیا جا رہا ہے، اسے مضحکہ خیز اور حکومت و انتظامیہ کی متعصبانہ کارروائی کہا جا سکتا ہے۔

’سازش کی تھیوری‘ کے تحت دھڑا دھڑ مسلم نوجوانوں کی گرفتاریاں شروع کر دی گئی ہیں۔ کیرالہ کے صحافی صدیق کپن اور تین دیگر مسلم نوجوانوں کو پکڑ کر ان پر غیر قانونی سرگرمیوں کے تدارک کے سخت ترین قانون یو اے پی اے کے تحت معاملات درج کر لیے گئے ہیں۔ انہیں پیر کو یوپی کی پولیس نے متھرا میں ہاتھرس کی جانب جاتے ہوئے گرفتار کیا تھا اور پھر منگل کو متھرا کی مقامی عدالت نے چاروں کو 14 دن کے لیے پولیس حراست میں دے دیا۔ چاروں کے خلاف ایک ایف آئی آر پولیس اسٹیشن میں داخل کی گئی ہے جس میں چاروں پر ملک سے بغاوت، دو گروپوں میں نفرت پھیلانے کی کوشش، مذہبی جذبات مجروح کرنے اور دیگر الزامات عائد کیے گئے ہیں۔

کیرالہ کے ملاپورم سے تعلق رکھنے والے صحافی کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ ہاتھرس میں گینگ ریپ معاملے کی رپورٹنگ کے لیے جا رہے تھے۔ گرفتار شدگان میں باقی تین کے نام عتیق الرحمن، مسعود احمد اور عالم بتائے جا رہے ہیں۔ یہ مظفر نگر، بہرائچ اور رامپور کے بتائے جا رہے ہیں۔ ان میں سے پہلے دو نوجوان پولر فرنٹ آف انڈیا کے طلباء ونگ کیمپس فرنٹ آف انڈیا کے رکن ہیں۔ مسعود احمد جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ایل ایل بی کا طالب علم ہے۔ عالم وہ گاڑی چلا رہا تھا جس سے چاروں سفر کر رہے تھے۔

یوپی پولیس کے اے ڈی جی پی لا اینڈ آرڈر پر شانت کمار کا دعویٰ ہے کہ چاروں کو ایک ٹول ناکہ پر اس اطلاع کے بعد گرفتار کیا گیا کہ وہ ہاتھرس بدامنی پھیلانے کے لیے جا رہے ہیں۔ پولیس یہ بھی دعویٰ کر رہی ہے کہ ان کے قبضہ سے لیپ ٹاپ، موبائل اور ایسا تحریری مواد ضبط کیا گیا ہے جس سے ہاتھرس میں نظم و ضبط بگڑ سکتا تھا۔ اطلاعات کے مطابق ان کے قبضہ سے پمفلٹ ضبط کیے گئے ہیں جن پر لکھا تھا ہاتھرس کی گینگ ریپ کی شکار کو انصاف دیا جائے۔ انصاف کا مطالبہ کب سے فساد کا پیش خیمہ ہو گیا سمجھ سے بالا تر ہے۔

انٹلیجنس پولیس کے مطابق ہاتھرس کے بہانے اترپردیش میں نسلی اور فرقہ وارانہ ماحول پیدا کرنے کے لئے ایک بہت بڑی سازش رچائی گئی تھی، جو حکومت کی چوکسی سے ناکام بنا دی گئی۔ سازش میں بڑے پیمانے پر فنڈز دینے کی بھی بات کہی گئی ہے۔ جو کچھ مافیا، مجرموں اور مذہبی تنظیموں کی جانب سے کی گئی۔ تحقیقات میں پی ایف آئی، ایس ڈی پی آئی کے خلاف کافی ثبوتوں کا دعوی کیا جا رہا ہے۔ سازش کی تھیوری کاجو ’خلاصہ‘ میڈیا میں آیا ہے اس کے مطابق سی اے اے کے خلاف احتجاج میں ملوث تنظیموں کے کردار کے بھی ثبوت موجود ہیں۔ کہا گیا ہے کہ وزیر اعلیٰ یوگی کے خلاف شرپسندوں کے ذریعہ پوسٹر لگانے، سی اے اے مخالف احتجاجات میں حکومتی پراپرٹی کے نقصان کے بعد وصولی اور مکانات کی نیلامی کے اقدام سے پریشان عناصر نے یوپی میں یہ سازش رچانے کی کوشش کی تھی۔

صرف یہی نہیں، متاثرہ افراد کے اہل خانہ کو حکومت کے خلاف بھڑکانے کی سازش کو بھی بے نقاب کرنے کی بات کہی جا رہی ہے۔ بتایا جا رہا ہے کہ تفتیشی ایجنسیوں کو بطور ثبوت بہت سے آڈیو ہاتھ لگے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ کچھ صحافیوں کی آواز بھی ٹیپ میں بتائی جا رہی ہے، جو متاثرہ افراد کے اہل خانہ کو حکومت کے خلاف اکسانے والی ہے۔ جس میں متاثرہ خاندان کو بیان تبدیل کرنے کے لئے 50 لاکھ سے لے کر ایک کروڑ روپے تک کا لالچ دیا گیا۔

رات کے دو بجے، متاثرہ افراد کے اہل خانہ کو ان کے گھر میں بند کر کے پولیس انتظامیہ کے ذریعہ متاثرہ لڑکی کے جسم کو جلانے کی لائیو کوریج کر کے یوپی سرکار کی پول کھولنے والے انڈیا ٹوڈے آج تک کے صحافی کو بھی ہراساں کرنے کا معاملہ سامنے آیا ہے جس میں تنو سری پانڈے کا فون کال حکومت کے ذریعہ ٹیپ ہوا اور آڈیو کال وائرل کردی گئی اور تنو پر متاثرہ خاندان کے افراد کو حکومت کے خلاف بھڑکانے کا الزام عائد کیا گیا۔ بی جے پی کے آئی ٹی سیل کی جانب سے مسلسل ٹویٹر پر تنوشری پانڈے کے خلاف مہم چلائی گئی اور ٹرول گینگ کے ذریعہ ان کے ساتھ بدسلوکی کی خبریں بھی ہیں۔

ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل پولیس نے یکم اکتوبر کو ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے اس معاملے کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے اس معاملے کی تحقیقات کے لئے ایک خصوصی تحقیقی ٹیم تشکیل دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جو لوگ اس واقعے میں ملوث ہیں ان کو کسی صورت بخشا نہیں جائے گا۔ ہاتھرس کیس کی حساسیت کو دیکھ کر وزیر اعلی نے ایس آئی ٹی تشکیل دی۔ ایس آئی ٹی میں ہوم سیکریٹری سطح کے افسر، ڈی آئی جی سطح کے افسر اور ایک خاتون ایس پی سطح کے افسر شامل ہیں۔ اے ڈی جی لاء اینڈ آرڈر کا کہنا ہے کہ ایس آئی ٹی کی تحقیقات یقیناً ایک بڑی سازش کو بے نقاب کرے گی۔

ان الزامات کے فوراً ًبعد اصل واقعہ سے توجہ ہٹاتے ہوئے کچھ میڈیا گھرانوں نے مسلمانوں کے خلاف مورچہ کھول دیا جبکہ بی جے پی اور اس سے وابستہ لیڈران نے بھی بیان بازی شروع کردی۔ ادھر یوپی کے وزیر اعلی نے بی جے پی کے بوتھ کارکنوں سے ایک آن لائن خطاب کے دوران کہا : ”جو لوگ ترقی کو پسند نہیں کرتے، وہ ملک کے ساتھ ساتھ ریاست میں بھی ایک فساد، نسلی منافرت بھڑکانا چاہتے ہیں۔ فرقہ وارانہ فسادات پھیلانا چاہتے ہیں۔ اس فساد کی آڑ میں ترقی رکے گی۔ اس فساد کی آڑ میں، انہیں روٹیاں سینکنے کا موقع ملے گا، اس لئے وہ نت نئی سازشیں کرتے رہتے ہیں۔ ان سازشوں سے پوری طرح ہوشیار رہتے ہوئے ترقی کے عمل کو تیزی سے آگے بڑھانا ہوگا۔“

وہیں وزیر برائے سماجی بہبود اور یوپی حکومت کے بی جے پی لیڈر رامپتی شاستری نے بھی اتوار کے روز ہاتھرس کیس پر کہا : ”اپوزیشن غیر ذمہ دارانہ رویہ اپنا رہی ہے۔ حزب اختلاف کے ٹویٹس، آڈیو ٹیپ اور پرانے واقعات فسادات کی سازش کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ حزب اختلاف نسلی فسادات کو منظم کرنا چاہتی ہے۔ وہ نہیں چاہتے کہ حقیقت سامنے آ جائے۔“

یعنی، ہاتھرس کیس میں دلت بچی کے وحشیانہ قتل کو ایک طرف رکھتے ہوئے، حکومت نے ہاتھرس کیس میں اپنے لئے ایک نئی پناہ گاہ تیار کی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومت نے ایس آئی ٹی کو اسی کام پر لگایا گیا تھا کہ حقائق کو توڑا موڑا جائے اور اسے فرقہ وارانہ رنگ دے کر سیاسی روٹیاں سینکی جائیں، ایس آئی ٹی کا قیام متاثرین کو انصاف دلانے کے لئے نہیں بلکہ سازش تھیوری کا آغاز کرنے کے لئے بنایا گیا تھا۔

اس پورے معاملے پر ہندوستان کی مسلم تنظیموں اور مسلم علماء کی طرف سے سخت رد عمل کا اظہار کیا گیا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ ہاتھرس معاملہ میں اپنی ناکامی کو چھپانے اور قصور واروں کو بچانے کے لیے یوگی کی پولیس مسلمانوں پر ذات پات کے نام پر دنگے بھڑکانے کا الزام منڈھ رہی ہے۔ پاپولر فرنٹ آف انڈیا کے جنرل سکریٹری انیس احمد نے اس تعلق سے کہا ہے کہ اتر پردیش حکومت ہاتھرس معاملے میں اپنی ناکامی چھپانے کے لیے پاپولر فرنٹ آف انڈیا کو نشانہ بنا رہی ہے لیکن سب جانتے ہیں کہ پاپولر فرنٹ آف انڈیا کو بار بار بدنام کرنے کی کوششیں کی گئیں مگر ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے انہیں منہ کی کھانی پڑی۔ انیس احمد نے بتایا کہ یوگی حکومت اپنی ناکامی چھپانے کے لیے اس معاملے میں پاپولر فرنٹ آف انڈیا کو ذمہ دار ٹھہرا رہی ہے جو سراسر غلط اور بے بنیاد ہے۔

ممتاز عالم دین مولانا خالد رشید فرنگی محلی نے مسلم نوجوانوں کی گرفتاری کو سمجھ سے بالا تر بتایا ہے۔ انہوں نے تمام معاملے کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کی مذمت کی ہے۔ صدر جمعیت علماء ہند مولانا سید ارشد مدنی، شاہی امام سید احمد بخاری، مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سیکرٹری مولانا ولی رحمانی، فتح پوری مسجد دہلی کے شاہی امام مفتی مکرم احمد، ایم آئی ایم کے رکن پارلیمنٹ اسد الدین اویسی وغیرہ نے بھی اس گرفتاری کی شدید مذمت کی ہے۔ انہوں نے اس کارروائی کو یوگی سرکار کی مسلم دشمنی قرار دیا ہے۔

اپنے ایک بیان میں ملی کونسل کے سر براہ ڈاکٹر محمد منظور عالم نے کہا کہ ہاتھرس میں جو کچھ ہوا ہے وہ بے حد شرمناک ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہاتھرس گینگ ریپ کے مجرموں کو بچانے اور اپنی ناکامی کو چھپانے کے لئے یوپی کی حکومت نے جو نئی تھیوری پیش کی ہے وہ شرمناک اور متاثرین کے ساتھ ایک اور سنگین ظلم ہے۔ سرکار کی ذمہ داری ہے کہ وہ مجرموں کو سزا دے اور متاثرین کو انصاف فراہم کرے لیکن حکومت اس پورے معاملہ پر اب فساد کی نئی تھیوری پیش کر رہی ہے جس کا صاف مطلب ہے کہ سرکار کی منشاء مجرموں کو بچانا اور مسلمانوں کو بلی کا بکرا بنانا ہے۔

سوشل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا (ایس ڈی پی آئی) کے قومی جنرل سکریٹری کے ایچ عبدالمجید نے اپنے جاری کردہ اخباری بیان میں کہا ہے کہ اتر پردیش میں صحافی اور سماجی کارکنان کا گرفتار کیا جانا غیر قانونی اور انتہائی قابل مذمت ہے۔ یوگی کی حکمرانی والا اتر پردیش اب آمریت کا حقیقی مظہر بن گیا ہے۔ اترپردیش میں پولیس کا استعمال کر کے اپوزیشن رہنماؤں کے ساتھ برا سلوک کیا جا رہا ہے۔ اختلاف رائے کی آوازوں کو دبایا جا رہا ہے۔ احتجاج کو روکا جا رہا ہے اور انصاف کے لئے لڑنے والوں کو فرضی مقدمات میں گرفتار کر کے انہیں جیل میں دھکیلا جا رہا ہے۔

دوسری جانب پریس کلب آف انڈیا اور کیرالہ جرنلسٹ ایسوسی ایشن نے بھی صدیق کپن کی گرفتاری کی مذمت کرتے ہوئے فوری طور پر انھیں رہا کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ پریس کلب آف انڈیا نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ یوپی پولیس صدیق کے خلاف دہشت گردی کی دفعات لگا سکتی ہے۔ کیرالہ جرنلسٹ ایسوسی ایشن نے صدیق کی گرفتاری کی سخت مذمت کی ہے اور فوراً رہا کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس تعلق سے ایسوسی ایشن نے وزیراعظم مودی اور یوپی کے وزیراعلیٰ یوگی کو مکتوب روانہ کیا ہے۔ صدیق جس ادارے کے لیے رپورٹنگ کرتے ہیں اس کا نام ازی لکھم ڈاٹ کام ہے، اس کے ایڈیٹر کے این اشوک نے کہا کہ انہیں صدیق کے ہاتھرس جانے کا علم تھا، اور یہ کہ پاپولر فرنٹ آف انڈیا سے صدیق کے تعلق کے بارے میں انہیں نہیں پتہ اور اگر تعلق ہے بھی تو کیا کہ اس پر ملک میں کوئی پابندی نہیں لگی ہے جو اسے گرفتار کیا جائے گا۔

اس پورے معاملے پر تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کے ساتھ بھید بھاؤ، حالات کا رخ موڑنے اور انھیں بدنام کرنے کے لئے حکومتی سر پرستی میں جھوٹ بولنے اور سازش رچانے کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ اس سے قبل بھی بڑی تعداد میں ملک میں فسادات اور بم دھماکوں کے بعد مسلم نوجوانوں کو غلط الزامات کے تحت گرفتار کیا گیا ہے جن میں سے بہتوں کو ایک لمبی لڑائی کے بعد عدالت نے معصوم قرار دے کر رہا کیا ہے۔

یہاں پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا عدالت ایسے معاملات پر کچھ فوری نوٹس لے گی یا پھر ان نوجوانوں کو بھی جیل کی سلاخوں میں ایسے ہی زندگی گزارنی پڑے گی جس طرح مختلف جھوٹے الزامات میں ہزاروں نوجوان زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ سی اے اے مخالف احتجاج میں بھی حکومت نے یہی رویہ اپنایا تھا اور مختلف ریاستوں سے سیکڑوں نوجوانوں کو گرفتار کیا گیا تھا۔ اسی انداز میں اب ہاتھرس کے واقعہ کا رخ موڑنے اور متاثرہ خاندان کے لئے انصاف کی فراہمی کو یقینی بنا نے کی بجائے ’سازش کی تھیوری‘ کو سامنے لانے کی کوشش کی گئی ہے، جو موجب تشویش ہے۔

محمد علم اللہ جامعہ ملیہ، دہلی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

محمد علم اللہ جامعہ ملیہ، دہلی

محمد علم اللہ نوجوان قلم کار اور صحافی ہیں۔ ان کا تعلق رانچی جھارکھنڈ بھارت سے ہے۔ انہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ سے تاریخ اور ثقافت میں گریجویشن اور ماس کمیونیکیشن میں پوسٹ گریجویشن کیا ہے۔ فی الحال وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ’ڈاکٹر کے آر نارائنن سینٹر فار دلت اینڈ مائنارٹیز اسٹڈیز‘ میں پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا دونوں کا تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے دلچسپ کالم لکھے اور عمدہ تراجم بھی کیے۔ الیکٹرانک میڈیا میں انھوں نے آل انڈیا ریڈیو کے علاوہ راموجی فلم سٹی (حیدرآباد ای ٹی وی اردو) میں سینئر کاپی ایڈیٹر کے طور پر کام کیا، وہ دستاویزی فلموں کا بھی تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے نظمیں، سفرنامے اور کہانیاں بھی لکھی ہیں۔ کئی سالوں تک جامعہ ملیہ اسلامیہ میں میڈیا کنسلٹنٹ کے طور پر بھی اپنی خدمات دے چکے ہیں۔ ان کی دو کتابیں ”مسلم مجلس مشاورت ایک مختصر تاریخ“ اور ”کچھ دن ایران میں“ منظر عام پر آ چکی ہیں۔

muhammad-alamullah has 167 posts and counting.See all posts by muhammad-alamullah