ماڈل کار کلیکٹرز: کھلونوں سے کھیلنے والے ’بڑے بچے‘


ماڈل کار کلیکٹرز
اگر ہم آپ سے یہ کہیں کہ آج آپ ایک ایسے شخص سے ملنے والے ہیں جن کے پاس فراری، لیمبر گینی، بی ایم ڈبلیو اور مرسیڈیز جیسی تین ہزار لگژری گاڑیوں کی کلیکشن ہے تو آپ یقیناً اپنے کانوں پر اعتبار نہیں کریں گے۔

لیکن کیا ہو اگر ہم کہیں کہ یہ سچ ہے۔۔۔ درحقیقت سچ یہ بھی ہے کہ گاڑیوں کی تعداد تین ہزار سے بھی زائد ہے۔۔۔ اِن میں سے اکثر گاڑیاں لگژری کارز کی فہرست میں شمار کی جاتیں ہیں یہ بات بھی درست ہے۔۔۔ اور اِس میں تو کوئی مبالغہ نہیں کہ گاڑیاں دِکھنے میں بالکل اصلی لگتی ہیں!

اگرچہ یہ دکھنے میں بالکل اصلی لگتی ہیں مگر یہ گاڑیاں اصلی نہیں ہیں۔

اصل گاڑیوں کا 64واں سائز ہیں جنھیں عام زبان میں ’ڈائی کاسٹ‘ یا ’ماڈل کارز‘ کہا جاتا ہے۔ انِ تین ہزار ڈائی کاسٹ گاڑیوں کے مالک ہیں کراچی میں پلے بڑھے 48 سالہ نیٹ ورک انجینیئر کاشف صدیقی۔

ارے آپ پلیز دلبرداشتہ نا ہوں۔ گاڑیاں بڑی نہیں تو کیا ہوا، چھوٹے سائز کی گاڑیاں بھی کچھ کم دلچسپ نہیں ہوتیں۔ کیسے؟ آئیے جانتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

منی کوپر 60 سال بعد بھی دنیا میں مقبول

پاکستانی آخر کاریں کیوں نہیں خرید رہے؟

جدید گاڑیاں صرف 10 سیکنڈ میں چوری کرنا ممکن

ماڈل کار کلیکٹرز

بچوں کا کھیل نہیں

کوئی کاشف صدیقی سے پہلی بار ملے اور گفتگو کا رُخ اُن کے اِس انوکھے شوق کی طرف نا جائے، یہ ممکن نہیں۔ ہاں وہ اِس بات پہ نالاں ضرور نظر آئیں گے کہ اکثر لوگوں کے نزدیک اُن کی گاڑیوں کی کلیکشن محض بچوں کے کھلونے ہیں۔

’مجھے بہت لوگ کہتے ہیں کہ یہ عمر تو آپ کی بڑی گاڑیاں جمع کرنے کی ہے اور آپ ہیں کہ بچوں کے کھلونے جمع کرنے میں لگے ہیں۔‘

اور ہر بار کاشف کا جواب یہی ہوتا ہے کہ یہ محض کھلونے ہی نہیں بلکہ ایک باقاعدہ ہابی یا شوق ہے جس میں وہ اپنی عمر کے 40 سال اور ہزاروں، لاکھوں روپے لگا چکے ہیں۔

’یہ شوق بالکل ایسے ہی ہے جیسے سِکّے یا ڈاک ٹکٹ جمع کرنا۔ جیسے کچھ لوگ پُرانی اور نایاب کتابیں اِکھٹی کرنے کے شوقین ہوتے ہیں۔ یا کچھ لوگوں کو نوادرات کلیکٹ کرنا اچھا لگتا ہے۔‘

لاکھوں کروڑوں کا شوق

دنیا بھر میں ماڈل کاریں جمع کرنے کا شوق بڑے پیمانے پر کیا جاتا ہے۔ کاشف صدیقی بتاتے ہیں کہ بڑے کلیکٹرز کے پاس ہزاروں گاڑیاں ہوتی ہیں جن کی مجموعی مالیت لاکھوں ڈالرز میں ہوتی ہے۔

’بے شمار نایاب گاڑیاں ہزاروں بلکہ کئی بار تو لاکھوں ڈالرز میں بھی فروخت ہوتی ہیں جن کی باقاعدہ نیلامی ہوتی ہے اور بولی لگائی جاتی ہے۔ کچھ گاڑیاں انٹرنیٹ پر بھی فروخت کی جاتی ہیں جو انتہائی کم قیمت بھی ہو سکتی ہیں۔‘

کاشف کے بقول یہ ایک غریب پرور شوق بھی ہے جو گاڑیوں کے رسیا افراد کو، جو اصل گاڑیاں خریدنا افورڈ نہیں کر سکتے، اپنی پسندیدہ کار خریدنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔

’مثلاً اگر کوئی شخص اصل فراری یا اِسی طرح کی کوئی دوسری قیمتی گاڑی نہیں رکھ سکتا تو اِس شوق کے ذریعے اُسے اُسی ماڈل کی چھوٹی گاڑی کا مالک بننے کا موقع مل جاتا ہے۔‘

ماڈل کار کلیکٹرز

ڈائی کاسٹ گاڑیاں

ماڈل یا کھلونا گاڑیاں بھی اُتنی ہی پرانی ہیں جتنی اصل گاڑیاں۔ بیسویں صدی کے آغاز پر جب موٹر گاڑیاں مقبول ہونا شروع ہوئیں تو ساتھ ہی ساتھ چھوٹے سائز کی کھلونا گاڑیاں بھی منظرِعام پر آ گئیں۔

ڈائی کاسٹ دراصل اُس طریقہ کار کا نام ہے جس کے ذریعے المونیم اور زِنک پر مشتمل دھات کو پِگھلا کر سانچوں کی مدد سے مختلف اشیا تیار کی جاتی ہیں۔ ڈائی کاسٹ گاڑیوں کی باڈی اِس دھات کی بنائی جاتی ہے جبکہ نچلا حصہ اور ٹائر پلاسٹک کے ہوتے ہیں۔

ابتدا میں یہ گاڑیاں بچوں کے لیے تیار کی جاتی تھیں لیکن 1970 اور 1980 کی دہائی میں یہ بڑی عمر کے افراد میں بھی مقبول ہونا شروع ہو گئیں جو اُنھیں ایک ہابی کے طور پر جمع کرنے لگے۔

’میچ باکس‘، ’ہاٹ وہیلز‘ اور ’ڈِنکی‘ ڈائی کاسٹ گاڑیوں کی چند مشہور برانڈز ہیں۔

پہلا تحفہ

اب سوال یہ ہے کہ کھلونا گاڑیاں جمع کرنے کا شوق کیسے ہوتا ہے۔ بہت سوں کو یہ نسل در نسل منتقل ہوتا ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے باپ کی کوائن یا بُک کلیکشن بیٹے یا بیٹی کو منتقل ہوتی ہے۔

لیکن کاشف کا کیس کچھ مختلف تھا۔ اُن کے والد کو ڈائی کاسٹ گاڑیوں کا شوق تو نہیں تھا لیکن ایک بار وہ انگلینڈ گئے تو واپسی پر ماڈل کارز سے بھرا ایک تھیلا لائے اور کاشف کو تھما دیا۔

’تو اِس طرح میرا یہ شوق شروع ہوا۔ یہ 1982 کی بات ہے۔ اب اِس شوق کو قریب چالیس سال ہونے کو آئے ہیں۔ میرے والد کی دی ہوئی گاڑیوں میں سے کچھ اب بھی میرے پاس موجود ہیں جو میرے دل سے بہت قریب ہیں۔‘

پھر یوں ہوا کہ جب کبھی کاشف کے والد ملک سے باہر جاتے، وہ اُن سے ماڈل کارز لانے کی فرمائش کرتے۔ جیسے جیسے والد کے پاسپورٹ پر غیر ملکی ویزے لگتے گئے، ساتھ ساتھ کاشف کی ماڈل کار کلیکشن بھی بڑھتی گئی۔

ماڈل کار کلیکٹرز

رولز رائس، فراری، لیمبرگینی

چالیس سال میں کاشف صدیقی نے جو تین ہزار گاڑیوں کا بیڑا جمع کیا ہے اُس میں ہر قسم اور بھانت بھانت کی گاڑیاں ہیں۔

ایک طرف لیمبرگینیز، فراریز، مرسڈیز اور رولز رائس جیسی گاڑیاں ہیں جن کے خواب دیکھتے دیکھتے ہم جیسوں کی قسمت ہاری ہے۔ تو دوسری جانب ٹویوٹا اور سوزوکی جیسی نسبتاً افورڈیبل گاڑیاں بھی ہیں۔

دیوہیکل مِلڑی وہیکلز ہیں تو ساتھ ساتھ سائرن بجاتی ایمرجنسی وہیکلز بھی اُن کی کلیکشن کا حصہ ہیں۔

’نائٹ رائڈر‘، ’بیک ٹو دا فیوچر‘، ’جیمز بانڈ‘ اور ’فاسٹ اینڈ فیوریس‘ جیسی مشہور فلمیں تو ہم سب نے ہی دیکھ رکھی ہیں۔ کاشف کے پاس اِن میں سے اکثر میں استعمال ہونے والی گاڑیوں کے چھوٹے ماڈل موجود ہیں۔

اور یہ محض اتفاق نہیں کہ کاشف صدیقی کی کلیکشن میں 1964 کی والکس ویگن بیٹل گاڑی بھی ہے۔ چند سال پہلے جب انھوں نے گہرے سبز رنگ کی ‘فوکسی’ خریدی تو خیال آیا کہ ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ بڑی گاڑی تو ہو لیکن اُس کا چھوٹا ورژن نا ہو۔

لیکن پھر ڈیڑھ سال لگا کر اُنھوں نے اُسی سبز رنگ اور ماڈل میں چھوٹی والکس ویگن بھی ڈھونڈ ہی لی۔

نقل بمطابق اصل

ماڈل کارز صرف سائز میں ہی چھوٹی نہیں ہوتی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اِنھیں بناتے وقت اصل گاڑیوں کی پیمائش اور اُن کے خدوخال کی باریکیوں کا بھی خیال رکھا جاتا ہے جس کے یہ کلیکٹرز دیوانے ہوتے ہیں۔

تجربہ کار کلیکٹرز ایک مخصوص سائز یا سکیل کا انتخاب کرتے ہیں اور پھر اُسی کے ہو جاتے ہیں یعنی صرف اُسی سائز کی گاڑیاں ہی جمع کرتے ہیں۔

کاشف کا پسندیدہ سکیل 64:1 ہے یعنی اصل گاڑی کے مقابلے میں چونسٹھواں حصہ۔

ماڈل کار کلیکٹرز

دَر دَر کی خاک

انٹرنیٹ کے ذریعے دنیا جہان کی معلومات تک رسائی اور غیر ملکی پراڈکٹس کی دستیابی کی وجہ سے اب پاکستان میں بھی ماڈل کارز جمع کرنا ایک مقبول شوق بنتا جا رہا ہے۔ کاشف صدیقی کے مطابق اِس سب کے باوجود کچھ مشکلات بھی ہیں۔

’پرابلم یہ ہے کہ یہاں ہر برانڈ اور ماڈل کی گاڑیاں دستیاب نہیں ہیں۔ کچھ گِنے چُنے دکاندار ہی چند مخصوص برانڈز اور ماڈلز فروخت کرتے ہیں۔‘

اِس مسئلے کا حل کاشف اور اُن جیسے کلیکٹرز نے یہ نکالا کہ پرانے سامان کے بازاروں کا رُخ کیا۔

’اِن بازاروں کا یہ فائدہ ہے کہ طرح طرح کی گاڑیاں مل جاتی ہیں جبکہ اکثر پرانے ماڈلز بھی ہاتھ لگتے ہیں۔ لیکن اِس سب کے لیے بہت بھاگ دوڑ کرنی پڑتی ہے تب کہیں جا کے کام کی چیز ملتی ہے۔‘

کاشف کو شکوہ ہے کہ اب پُرانا سامان فروخت کرنے والوں کو بھی اِن گاڑیوں کی قدر و قیمت کا اندازہ ہو گیا ہے اور وہ من مانی قیمت طلب کرتے ہیں۔

ایکسٹرا شفٹ

کاشف صدیقی کی کلیکشن دوسرے کلیکٹرز کے لیے اتنی پُرکشش ہے کہ وہ اُن کی گاڑیوں پر نظریں جمائے بیٹھے ہیں۔ کئی تو اُن کو پوری کلیکشن خریدنے کی آفر بھی دیتے ہیں۔

’لیکن میرا ارادہ نہیں ہے۔ ہاں یہ ہے کہ اگر میرے پاس ایک ہی ماڈل کی کئی گاڑیاں ہیں تو میں اُنھیں کسی دوسری گاڑی سے ایکسچینج ضرور کر سکتا ہوں۔‘

اور کاشف اپنی کلیکشن بیچیں ہی کیوں؟ جو گاڑیاں اِتنی تگ و دو اور محنت سے جمع کی گئی ہوں۔

’میری کچھ گاڑیاں ایسی بھی ہیں جو میں نے پچاس پچاس پاؤنڈ کی خریدیں۔ اُس وقت ہم لندن میں سٹوڈنٹ تھے اور پارٹ ٹائم جاب کیا کرتے تھے۔ تو کبھی کبھی ایسا بھی ہوا کہ ایک گاڑی خریدنے کے لیے ایکسٹرا شفٹ کرنی پڑی۔‘

ماڈل کار کلیکٹرز

شوق توجّہ مانگتا ہے

’چھوٹی‘ گاڑیوں کو جمع کرنا ’بڑی‘ توجّہ اور محنت مانگتا ہے۔ کاشف نے اپنی تمام گاڑیاں پلاسٹک کی تھیلیوں میں بند کر کے لکڑی کے ڈبّوں میں محفوظ کر دی ہیں۔ اُن کی کلیکشن ہی اِتنی بڑی ہے کہ وہ تمام کی تمام ڈسپلے نہیں کی جا سکتی۔

’پہلے یہ ہوتا تھا کہ میں گاڑیاں لے کر آتا تھا تو اُن کو ڈبّے سے نکال کر کھیلا کرتا تھا۔ لیکن اب کوشش کرتا ہوں کہ گاڑیوں کو اُن کی اصل پیکنگ میں ہی رکھوں۔اِس طرح اِن پر رگڑ سے خراشیں نہیں پڑیں گی اور اگر کبھی میں اُنھیں فروخت کرنے کا ارادہ کروں گا تو مجھے اچھی قیمت مل جائے۔‘

بیگم کی ڈانٹ

وہ کلیکٹر ہی کیا جس سے اُس کے گھر والے خوش ہوں۔ کاشف صدیقی کی اہلیہ بھی ابتدا میں اُن کے اِس شوق سے نالاں تھیں لیکن اب صورتحال مختلف ہے۔

’وہ کہا کرتی تھیں کہ یہ کیا بچوں والا شوق ہے۔ آپ اِس پر اِتنا پیسہ بھی لگا رہے ہیں اور کوئی فائدہ بھی نہیں ہے۔ لیکن اب وہ سمجھ گئی ہیں بلکہ اگر کسی شاپنگ مال میں اُنھیں ڈائی کاسٹ گاڑیاں نظر آتی ہیں تو وہ مجھے آ کر بتاتی ہیں کہ آپ وہاں سے خرید سکتے ہیں۔‘

صرف بیوی ہی نہیں، ایک وقت تھا کہ کاشف کے بچے بھی اُن کے کھلونوں کو حسرت سے دیکھا کرتے تھے۔

’جب وہ چھوٹے تھے تو میں اُنھیں اپنی گاڑیوں کو ہاتھ بھی نہیں لگانے دیتا تھا۔ لیکن اب جب وہ بڑے ہو گئے ہیں تو اُنھیں اِس کلیکشن کی قدروقیمت کا اندازہ ہوا ہے۔ میری بیٹی کو گاڑیوں کا تھوڑا بہت شوق ہے۔ اُسے مختلف برانڈز اور ماڈلز کے بارے میں کافی معلومات ہے۔ اب ہم دونوں اِن گاڑیوں کی دیکھ بھال کرتے ہیں اور سنبھال کر رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔‘

گاڑیاں قبر پر سجا دیجیے گا

کاشف صدیقی کا چھوٹی گاڑیاں جمع کرنے کا جنون ابھی کم نہیں ہوا۔ وہ صرف یہ جانتے ہیں کہ جب تک سانس ہے اُنھیں گاڑیاں جمع کرتے رہنا ہے۔

’مجھے جب تک گاڑیاں ملتی رہیں گی میں جمع کرتا رہوں گا۔ ایک بار میں نے پورا گھر پھیلایا ہوا تھا اور اپنی گاڑیاں صاف کر رہا تھا۔ تو بیگم نے مذاقاً پوچھا کہ آخر اِن گاڑیوں کا آپ کریں گے کیا۔ میں نے جواب دیا کہ آپ فکر نا کریں۔ یہ گاڑیاں میرے ساتھ ہی چلی جائیں گی۔ آپ ایسا کیجیے گا کہ جب میرا انتقال ہو تو یہ تمام گاڑیاں میری قبر پر سجا دیجیے گا۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32300 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp