کرسٹوفر کولمبس: وہ چاند گرہن جس نے کولمبس اور ان کے ساتھیوں کو فاقوں مرنے سے بچایا


کولمبس
بہت سے مؤرخین اس بات پر متفق ہیں کہ امریکہ پہنچنے والے پہلے یورپی جہاز راں کرسٹوفر کولمبس ایک زیرک اور ہوشیار شخص تھے۔

اگرچہ ہم ان کی زندگی کی بارے میں کم ہی باتیں یقین اور قطعیت سے کہہ سکتے ہیں لیکن اس بات پر اتفاق رائے ہے کہ اُن کی ذہانت اور چالاکی نے کئی مواقع پر اُن کی جان بچانے اور مشکلات پر قابو پانے میں اُن کی مدد کی۔

ایسا ہی ایک موقع سنہ 1504 میں اُس وقت پیش آیا جب کولمبس اپنے چوتھے اور آخری سفر کے دوران جمیکا میں مقامی افراد کے نرغے میں پھنس گئے تھے۔

اُس جزیرے کے مقامی باشندوں سے جو کچھ انھیں حاصل کرنا تھا اُس کے حصول کے لیے انھوں نے اپنے وسیع فلکیاتی علم کی طرف رجوع کیا۔

یہ بھی پڑھیے

الفارابی: جنھوں نے یونانی فلسفے سے اسلام سمجھانے کی کوشش کی

کرسٹوفر کولمبس کے ناجائز بیٹے کی غیر معمولی زندگی

‘کولمبس کا بحری جہاز سانتا مریا مل گیا’

چال چلنے میں غیرمعمولی حد تک ذہین

کولمبس نے سنہ 1502 میں اپنے مشہور چوتھے سمندری سفر کا سلسلہ شروع کیا۔

لیکن ایک سال سے زیادہ کا سفر کرنے کے بعد وہ دو کشتیاں کھو چکے تھے اور دیگر دو کی حالت بہت خراب ہو گئی تھی، جس کی وجہ سے وہ سفر کو جاری رکھنے سے قاصر ہو گئے تھے۔

چنانچہ وہ اور ان کے ساتھ موجود سو کے لگ بھگ افراد شمالی جمیکا میں پھنس گئے۔

یہ پہلا موقع نہیں تھا جب کولمبس اس جزیرے پر پہنچے تھے۔

کولمبس

کولمبس اپنے پہلے سفر کے دوران سنہ 1494 میں یہاں آ چکے تھے اور اس وقت انھوں نے اس جزیرے کا نام ’سینٹیاگو جزیرہ‘ رکھا تھا۔ تاہم چوتھے سفر کے اختتام پر لکھی گئی اپنی یاداشتوں میں انھوں نے اس جزیرے کو کبھی اس نام سے نہیں پکارا بلکہ اس کے لیے ’جمیکا‘ کا لفظ استعمال کیا۔

لفظ جمیکا یہاں بسنے والے افراد یا قبیلے کے نام ’زائماکا‘ سے اخذ کیا گیا ہو گا جس کا مطلب ہے ’لکڑی اور پانی کی سرزمین۔‘

وہاں پہنچ کر کولمبس نے اپنے ایک ساتھی کی کمان میں ایک گروپ کو نزدیکی بندرگاہ تک بھیجا تاکہ مدد حاصل کی جا سکے۔

جب وہ جمیکا جزیرے پر انتظار کر رہے تھے تو ابتدا میں انھوں نے اپنی تحویل میں موجود چند اشیا کے تبادلے میں مقامی قبائلیوں سے کھانے پینے کی ضروری اشیا حاصل کیں۔ تاہم دن مہینوں میں بدلے مگر جس مدد کا انتظار تھا وہ نہیں آئی۔

سنہ 1503 کے آخر میں مقامی لوگوں کے ساتھ کولمبس اور ان کے ساتھ موجود افراد کے تعلقات خراب ہونا شروع ہو گئے۔

سفر کے بعد اپنی یاداشتوں میں منڈیز ڈی سیگورا نے لکھا کہ ’انھوں (قبائلیوں) نے فساد کرنا شروع کر دیا اور کھانے کی فراہمی بھی روک دی۔‘

منڈیز ڈی سیگورا کی یادداشتیں اور اُس آخری سفر کی تفصیلات سنہ 1825 میں مارٹن فرنانڈیز نے کتاب کی صورت میں شائع کی تھیں۔

اس صورتحال میں اگر انھیں زندہ رہنا تھا تو کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی تھا۔

اور پھر کولمبس نے ایک منصوبہ ترتیب دیا جو شاندار ہونے کے ساتھ ساتھ ٹیڑھا بھی تھا جس کا مقصد قبائلیوں کو 29 فروری 1504 میں لگنے والے چاند گرہن سے خوفزدہ کر کے اپنا مقصد حاصل کرنا تھا۔ سنہ 1504 لیپ سال تھا جس میں 28 کے بجائے 29 دن تھے۔

کولمبس کو اپنے مطالعے کی بنیاد پر معلوم تھا کہ 29 فروری کو لگنے والا چاند گرہن کوئی عام چاند گرہن نہیں ہو گا بلکہ ایک ایسا چندر ہو گا جو سیارہ زمین کو خون کی طرح داغدار کر دے گا۔ وہ اس چاند گرہن کو ایک آسمانی سزا کے طور پر پیش کر سکتے تھے، ایسی سزا جس سے مقامی باشندے نہیں بچ سکتے تھے۔

چاند

خدا ناراض ہے

منڈیز ڈی سیگورا کی یادداشتوں کے مطابق ’اُس (کولمبس) نے قبائلیوں کے سرداروں کو بلایا اور اس تعجب کا اظہار کیا کہ اب وہ پہلے کی طرح اُن کے اور ان کے ساتھیوں کے لیے کھانا نہیں لاتے، اس بات کو جانتے ہوئے بھی کہ وہ (کولمبس اور ان کے ساتھی) خدا کے حکم سے یہاں تک آئے ہیں۔‘

کولمبس نے اس کے بعد قبائلیوں کو آگاہ کیا کہ خدا ان کی اس حرکت پر ناراض ہے اور اُسی رات انھیں خدا کی ناراضگی سے متعلق نشانی آسمان پر نظر آئے گی۔ اور چونکہ اس رات چاند گرہن تھا تو سب کچھ اندھیرے میں ڈوب گیا۔

مارٹن فرنانڈیز کی کتاب کے مطابق ’قبائلیوں نے اس کو سچ سمجھا اور وہ ڈر گئے اور وعدہ کیا کہ وہ آئندہ کھانا پہنچانے کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔‘

کولمبس کو معلوم تھا کہ چاند گرہن کا آغاز کب ہو گا اور کب چاند سرخ ہو جائے گا۔

سپین میں فلکیات کی آبزرویٹری سے منسلک انتھونیو برنل نے اس چاند گرہن کے متعلق بتایا کہ ’چاند گرہن کے دو اہم حصے تھے: ایک آغاز، جو جزوی حصہ ہے، جس میں چاند جزوی طور پر تاریکی میں ڈوبتا ہے۔ اور جب یہ تاریکی میں مکمل طور پر ڈوب جاتا ہے تو دوسرا حصہ شروع ہو جاتا ہے، جو مکمل طور پر ہوتا ہے۔‘

انھوں نے بتایا کہ اُس چاند گرہن کی بھی ایک خصوصیت تھی یعنی اسے گرہن اسی وقت لگ چکا تھا جب سے افق پر ظاہر بھی نہیں ہوا تھا یعنی طلوع ہونے سے پہلے ہی۔ چنانچہ جب یہ آسمان پر ظاہر ہوا تو پہلے ہی جزوی طور پر تاریک تھا۔

اور گرہن مکمل ہونے کے بعد چاند سرخی مائل ہو جاتا ہے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ سورج کی روشنی براہ راست چاند تک نہیں پہنچتی ، لیکن اس کا ایک حصہ زمین کی فضا سے فلٹر ہوتا ہے اور سرخی مائل اور نارنجی رنگ قدرتی طور پر پیش کرتا ہے۔

کولمبس

لیکن کولمبس کو اتنا یقین کیسے تھا کہ گرہن لگے گا؟

سپین میں ہائیر کونسل فار سائنٹفک ریسرچ سے وابستہ پروفیسر کونسیؤل وریلا کہتے ہیں کہ ’کرسٹوفر کولمبس بہت سے علوم جانتا تھا، وہ نیویگیشن کے ماہر تھا اور کئی زبانیں بولتا تھا۔‘

بی بی سی منڈو کو ہسپانوی مؤرخین نے بتایا کہ ’وہ بڑی صلاحیت کے حامل شخص اور جاننے اور سیکھنے کی خواہش رکھنے والے فرد تھے۔ اور یہ خصوصیات انھیں دوسرے سے الگ بناتی تھیں۔‘

انھوں نے کہا کہ سب سے بڑھ کر وہ ستاروں کی چالوں کو جانتے تھے اور ان سے رہنمائی حاصل کرتے تھے۔

وہ فلکیات کے مداح تھے اور یہ بات مشہور ہے کہ اپنے سفر کے دوران وہ اپنے ساتھ چاند گرہن کا حساب کرنے والی جنتری رکھتے تھے۔

اس جنتری کو جرمن ماہر فلکیات اور ریاضی دان جوہن مولر نے بنایا تھا، جس کا عرفی نام ریجیوموٹانو تھا، جو اس جرمن شہر کے نام کے لاطینی ترجمے سے آیا ہے جہاں وہ (مولر) پیدا ہوئے تھے۔

طباعت شدہ جنتریاں اور کلینڈر 15ویں اور 16ویں صدی میں انتہائی مقبول تھیں، جو لوگوں کو روز مرہ کے معمولات کی منصوبہ بندی کے لیے ضروری بنیادی معلومات مہیا کرتی ہیں۔

انتھونیو برنل وضاحت کرتے ہیں کہ اس دور میں ’آسمانی مظاہر بہت سی چیزوں کے لیے استعمال کیے جاتے تھے۔ پہلے اپنے آپ کو مربوط کرنے کے لیے اور دوسرا موسمیات کی پیش گوئی کے لیے۔ آج ہم جانتے ہیں کہ یہ ایک غلطی ہے، لیکن اس وقت یہ معلوم نہیں تھا۔‘

ریجیوموٹانو کا استعمال بڑے پیمانے پر کیا جاتا تھا کیونکہ اس میں بتائے گئے حساب کتاب بہت ٹھیک ہوتے تھے۔

اس کے تخلیق کار نے چاند کے کئی گرہن ریکارڈ کیے اور اس کی دلچسپی نے انھیں یہ مشاہدہ پیش کرنے پر مجبور کیا کہ قمری فاصلوں کا حساب لگا کر سمندر میں طول بلد کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

یہاں تک کہ سنہ 1472 میں وہ اُس دم دار تارے کا مشاہدہ کر چکے تھے جسے 210 سال قبل ماہر فلکیات ایڈمنڈ ہیلی نے ’پہلی بار‘ دریافت کیا تھا۔ اس حوالے سے سنہ میں 1482 میں شائع ہونے والی ایک جنتری کی کاپی گلاسکو یونیورسٹی کے آرکائیوز میں محفوظ ہے۔

نقشہ نگاروں، جہازرانوں اور نجومیوں کے لیے یہ (جنتری) ایک ناگزیر امداد تھی۔

درحقیقت یہ وہ ہتھیار تھا جس کی مدد سے کولمبس نے 29 فروری 1504 میں لگنے والے چاند گرہن کی ’پیش گوئی‘ کی اور اپنے آپ کو اور اپنے آدمیوں کو فاقہ کشی سے بچایا۔ بالآخر اس سال جون کے اختتام پر طویل انتظار کے بعد مدد آن پہنچی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32483 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp